صرف مقاومت ہی اسرائیل کو لبنان سے باہر نکال سکتی ہے، امیل لحود
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں سابق لبنانی صدر کا کہنا تھا کہ اگر مقاومت نہ ہوتی تو سال 2000ء میں ملک کے جنوبی علاقے کبھی بھی آزاد نہ ہوتے۔ اسلام ٹائمز۔ سابق لبنانی صدر "امیل لحود" نے ملک پر صیہونی جارحیت کی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ صیہونی رژیم روزانہ کی بنیاد پر جنوب اور بقاع کے علاقوں پر حملہ آور ہے۔ ان حملوں میں نہتے شہری اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں۔ اس جارحیت کے مقابلے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا جنگ بندی کا معاہدہ یکطرفہ ہے؟۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیل نئی صورت حال کو جاری رکھنے کے چکر میں ہے۔ شاید وہ سمجھتا ہے کہ اس طرح تعلقات کی بحالی کے مرحلے تک پہنچ جائے گا۔ جس کا خواب لبنان میں موجود بعض افراد بھی دیکھ رہے ہیں۔ حالانکہ ہم بہتر طور پر جانتے ہیں کہ ایسا ہونا ناممکن ہے۔ کیونکہ مقاومت اب طاقت کا نیا توازن ایجاد کر چکی ہے۔ بہرحال مہم یہ ہے کہ مقاومت کو اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر مقاومت نہ ہوتی تو سال 2000ء میں ملک کے جنوبی علاقے کبھی بھی آزاد نہ ہوتے۔
سابق لبنانی صدر نے اس بات کی وضاحت کی کہ اس وقت بھی اسرائیل، لبنان کے قابض علاقوں سے مقاومت کے سبب ہی باہر نکلے گا۔ امیل لحود نے کہا کہ وہ لوگ جو اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں اُن کی یہ حسرت کبھی پوری نہیں ہو گی۔ انہوں نے واضح الفاظ میں کہا کہ اسرائیل کل، آج اور آئندہ لبنان کا دشمن ہی رہے گا۔ یاد رہے کہ اسرائیل اور لبنان کے درمیان جنگ بندی کے معاہدے میں طے پا چکا ہے کہ صیہونی فورسز گزشتہ 26 جنوری سے جنوبی لبنان کے علاقوں سے نکل جائے گی۔ یہ مہلت عالمی طاقتوں، ثالثین اور دیگر عناصر کی کشمکش سے 20 فروری تک جا پہنچی۔ تاہم تل ابیب نے ایک بار پھر طے شدہ معاہدے کی خلاف ورزی کی اور اس وقت تک جنوبی لبنان کے 5 اہم مقامات پر قبضہ کئے ہوئے ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: لبنان کے انہوں نے کہا کہ
پڑھیں:
کمبوڈیا سے جھڑپیں جنگ میں بدل سکتی ہیں، تھائی وزیراعظم کا انتباہ
بنکاک: تھائی لینڈ کے قائم مقام وزیراعظم پھمتھم وچھایا چھائی نے خبردار کیا ہے کہ کمبوڈیا کے ساتھ سرحدی جھڑپیں کسی بھی وقت مکمل جنگ کا رخ اختیار کر سکتی ہیں۔
بین الاقوامی میڈیا رپورٹس کے مطابق تھائی لینڈ اور کمبوڈیا کے درمیان سرحدی کشیدگی میں اب تک کم از کم 16 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہو چکے ہیں۔
صورتحال کے پیش نظر تھائی لینڈ کے سرحدی علاقوں سے ایک لاکھ افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا گیا ہے، جبکہ کمبوڈیا نے بھی دس ہزار شہریوں کو نقل مکانی پر مجبور کیا ہے۔
دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے پر سنگین الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ تھائی حکام کا کہنا ہے کہ کمبوڈین فوج نے اسپتالوں اور اسکولوں پر میزائل فائر کیے، جس کے جواب میں تھائی فوج نے کارروائی کی۔
کمبوڈیا کی لینڈ مائن اتھارٹی نے تھائی لینڈ پر کلسٹر بمباری کا الزام لگاتے ہوئے اسے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔
بنکاک میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تھائی وزیراعظم کا کہنا تھا، ’’اگر حالات نہ سنبھلے تو یہ صرف جھڑپیں نہیں رہیں گی بلکہ باقاعدہ جنگ کی شکل اختیار کر لیں گی۔‘‘ تاہم ان کا کہنا تھا کہ فی الحال دونوں ملکوں کے درمیان صورتحال محدود پیمانے پر ہی ہے۔