اسرائیل جارحیت کی تمام حدیں پار کر چکا ہے، حزب اللہی رکن پارلیمنٹ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, March 2025 GMT
اپنے ایک بیان میں علی فیاض کا کہنا تھا کہ لبنانی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ مختلف سطحوں پر صیہونی اقدامات کے تعاقب کے عمل کو تیز کرے۔ اسلام ٹائمز۔ "علی فیاض" نے لبنان پر مسلسل صیہونی جارحیت کی مذمت کی۔ علی فیاض کا تعلق اسلامی مقاومتی تحریک "حزب الله" کے سیاسی دھڑے "الوفاء للمقاومۃ" سے ہے۔ وہ لبنان کی قومی اسمبلی کے رکن ہیں۔ علی فیاض کا کہنا ہے کہ صیہونی دشمن نہتے شہریوں کے خلاف اپنے معاندانہ اقدامات جاری رکھے ہوئے ہے کہ جس کی تازہ ترین مثال صوبہ مرجعیون کے علاقے تولین پر اسرائیل کا فضائی حملہ ہے۔ جس کے نتیجے میں 2 افراد شہید اور درجن کے قریب زخمی ہو گئے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی اقدامات اقوام متحدہ کی قرارداد 1701 کی مسلسل خلاف ورزی ہیں۔ صیہونی رژیم متواتر ان جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ صیہونی در اندازی ہر حد پار کر چکی ہے۔
مذکورہ لبنانی رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ صیہونی دشمن اپنے مکروہ جرائم کا جواز ثابت کرنے کے لئے بے ہودہ کہانیاں اور جھوٹ ایجاد کرتا ہے۔ یہ جرائم امریکہ کی مکمل اجازت سے انجام پا رہے ہیں۔ آخر میں علی فیاض نے کہا کہ حزب الله ایک بار پھر اسرائیل کے خطرناک اقدامات کے خاتمے کو یقینی بنانے کے لیے لبنانی حکومت پر زور دیتی ہے کہ وہ اس جارحیت کی روک تھام کے لئے فریم ورک تیار کرے اور تمام سفارتی وسائل بروئے کار لائے۔ انہوں نے کہا کہ لبنانی حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ مختلف سطحوں پر صیہونی اقدامات کے تعاقب کے عمل کو تیز کرے۔ یاد رہے کہ آج اسرائیل نے راکٹ حملوں کا بہانہ بنا کر جنوبی لبنان پر فضائی حملہ کر دیا۔ آخری اطلاعات کے مطابق اس حملے میں شہداء کی تعداد دو سے بڑھ کر 4 افراد تک پہنچ چکی ہے۔ جب کہ ایک درجن افراد اس حملے میں زخمی ہوئے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کہا کہ
پڑھیں:
لبنانی عسکریت پسند چالیس سال بعد فرانسیسی جیل سے رہا
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 جولائی 2025ء) فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے صحافیوں کے مطابق، چھ گاڑیوں پر مشتمل ایک قافلہ لینمزان جیل سے صبح تقریباً 3 بج کر 40 منٹ پر روانہ ہوا۔ گاڑیوں کی روشنی جل رہی تھی لیکن 74 سالہ سفید داڑھی والے قیدی کی جھلک دیکھنا ممکن نہ ہو سکا۔
عبداللہ کو 1984 میں گرفتار کیا گیا تھا اور 1987 میں امریکی ملٹری اتاشی چارلس رابرٹ رے اور اسرائیلی سفارت کار یعقوب برسیمنٹوف کے پیرس میں قتل کے الزام میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
پیرس کی اپیل کورٹ نے ’’25 جولائی سے مؤثر‘‘ رہائی کا حکم جاری کیا، اور شرط یہ رکھی گئی ہے کہ وہ فرانس چھوڑ دیں گے اور دوبارہ کبھی واپس نہیں آئیں گے۔
عبداللہ 1999 سے رہائی کے اہل تھے، لیکن ہر بار ان کی درخواست مسترد کی جاتی رہی کیونکہ امریکہ، جو اس کیس میں فریق ہے، مسلسل ان کی رہائی کی مخالفت کرتا رہا۔
(جاری ہے)
فرانس میں عمر قید پانے والے اکثر قیدی 30 سال سے کم مدت میں رہا ہو جاتے ہیں۔
ذرائع کے مطابق رہائی کے بعد، عبداللہ کو تاربیس ایئرپورٹ منتقل کیا جائے گا جہاں سے ایک پولیس طیارہ انہیں روسی ایئرپورٹ (پیرس) لے جائے گا۔ وہاں سے وہ بیروت روانہ ہوں گے۔
عبداللہ کے وکیل ژاں لوئی شالانسے نے جمعرات کو جیل میں ملاقات کی۔ انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''وہ اپنی رہائی پر بہت خوش دکھائی دے رہے تھے، اگرچہ وہ جانتے ہیں کہ وہ ایک ایسے خطے میں لوٹ رہے ہیں، جہاں لبنانی اور فلسطینی عوام انتہائی مشکل حالات سے دوچار ہیں۔
‘‘اے ایف پی کے ایک نامہ نگار نے گزشتہ ہفتے عدالت کے فیصلے کے بعد ایک رکن پارلیمان کے ہمراہ عبداللہ سے جیل میں ملاقات بھی کی۔
جارج ابراہیم عبداللہ کون ہیں؟عبداللہ، جو اب تحلیل شدہ اسرائیل مخالف مارکسی گروپ 'لبنانی انقلابی مسلح دھڑے‘ (ایف اے آر ایل) کے بانی ہیں۔
سن 1984 میں گرفتاری کے وقت فرانسیسی پولیس کو ان کے پیرس کے ایک اپارٹمنٹ سے سب مشین گنیں اور وائرلیس اسٹیشنز بھی ملے تھے۔
فروری میں اپیل عدالت نے یہ نوٹ کیا تھا کہ ایف اے آر ایل نے 1984 کے بعد کوئی پُرتشدد کارروائی نہیں کی اور عبداللہ اب ’’فلسطینی جدوجہد کی ایک ماضی کی علامت‘‘ کی نمائندگی کرتے ہیں۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ ان کی عمر اور جرم کے تناظر میں ان کی قید کی مدت غیر متناسب رہی ہے۔
عبداللہ کے خاندان نے کہا ہے کہ وہ انہیں بیروت ایئرپورٹ کے ’’آنر لاؤنج‘‘ میں خوش آمدید کہیں گے اور بعد ازاں شمالی لبنان کے شہر کوبیات میں واقع اپنے آبائی گھر لے جائیں گے، جہاں استقبالیہ تقریب کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ادارت: صلاح الدین زین