اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مارچ 2025ء) تاریخ میں قومیں اپنے معاشرے کو منظم رکھنے کے لیے نظریات اور قوانین کو تشکیل دیتی ہیں۔ قوموں کی زندگی میں بعض واقعات اور حادثات ایسے ہوتے ہیں جنہیں فراموش نہیں کیا سکتا ہے۔ ان کی یادیں تسلسل کے ساتھ نسل در نسل مُنتقل ہوتیں رہتی ہیں۔ ہر دور میں ان کے معنی اور مفہوم کو بھی تبدیل کیا جاتا رہتا ہے۔
خاص طور سے جنگوں کی یادداشتیں بہت گہری ہوتی ہیں۔ فتح پر یادگاریں تعمیر ہوتیں ہیں اور شکست کو عذابِ الہٰی سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔مسلمانوں اور مسیحیوں میں صلیبی جنگوں کی داستان ہر دور میں نئے حالات کے تحت دھرائی جاتی رہی ہے۔ اس کی ابتداء 1097 میں ہوئی اور اس کا خاتمہ تیرہویں صدی میں ہوا۔ اسی دوران دونوں جانب سے فتح اور شکست کے تلخ اور خوشگوار مراحل آئے۔
(جاری ہے)
صلیبی جنگوں کے دوران یروشلم پر قبضے کے بعد اس شہر کو مسیحی مذہب کا مرکز بنایا گیا۔ اس لیے یہودیوں کے لیے صلیبی جنگوں کی یادیں تلخ ہیں۔ مسلمانوں کے لیے صلیبی حملہ آور تھے، جنہوں نے مشرقی وسطیٰ کے امن و امان کو تباہ کیا۔ مسیحیوں کے لیے یہ جنگیں مقدس تھیں، جن کا مقصد مسلمانوں سے مقدس مقامات چھڑانا تھا۔جنگوں کے دوران کئی اہم شخصیات سامنے آئیں۔
صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کو صلیبیوں سے آزاد کرایا اور مشرقِ وسطیٰ کا دفاع کیا۔ صلیبیوں کا ہیرو رچڑڈ انگلستان کا حکمراں تھا۔ اُس کا مقابلہ صلاح الدین ایوبی سے ہوا مگر وہ ناکام ہو کر واپس چلا گیا۔ اس دوران یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان تجارتی روابط اس وقت تک بڑھے جب تک صلیبیوں کا مشرقِ وسطیٰ کے ایک حصے پر قبضہ رہا۔ کیونکہ اِس عہد میں یورپ پسماندہ تھا اور ایشیائی ممالک معاشی طور پر خوشحال تھے۔ اگرچہ صلیبی جنگوں کا خاتمہ 1300 عیسوی میں نہیں ہوا بلکہ یہ ایک نئے تسلسل سے جاری رہی تھیں۔ بعد ازاں مصر کے مملوک حکمراں سلطان بیبرس (Baybars)جن کی حکمرانی کا پیریڈ 1260 سے 1277 تھا، نے انہیں شکست دے کر مشرق وسطیٰ سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔اگرچہ صلیبی جنگیں تو ختم ہو گئیں مگر صلیبی جنگ کا نظریہ باقی رہا۔ چرچ نے اس کا سیاسی استعمال کرتے ہوئے اُن فرقوں کے خلاف صلیبی جنگ کا اعلان کیا، جنہوں نے مسیحیت کی تعلیمات میں ترامیم کی تھیں۔
فرانس میں کتھار (Cathar) فرقے پر حملہ کر کے اُس کے ارکان کا قتلِ عام کیا، اور اسے بھی مقدس جنگ کہا۔جب پہلی عالمی جنگ کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور عرب ممالک عثمانی سلطنت کے تسلط سے آزاد ہوئے تو ان کی جگہ انگلستان اور فرانس کی حکومتوں نے لبنان، شام، عراق اور اردن پر اپنا سیاسی تسلط قائم کر لیا۔ انگریز جنرل ایڈمنڈ ایلنبی جب 1917میں دمشق میں داخل ہوا تو صلاح الدین ایوبی کے مزار پر گیا اور اس کی قبر کو ٹھوکر مارتے ہوئے کہا، ''صلاح الدین ہم پھر واپس آ گئے ہیں۔
‘‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے باوجود صلیبی جنگوں کی یادیں کس قدر گہری رہیں۔صلیبی جنگوں کی یادوں کو زندہ رکھنے کے لیے ادب، آرٹ، تھیٹر اور فلموں کا سہارا بھی لیا گیا۔ انگریزی میں اس موضوع پر ناول، افسانے اور تاریخیں لکھی گئیں۔ ان میں خاص طور سے اسٹیون رنسیمین Steven Runciman کی (تحقیقی کتاب) A History of the Crusades قابل ذکر ہے۔
اردو میں عبدالحلیم شرر کے کئی ناول صلیبی جنگوں کے موضوع پر ہیں۔ عربی میں ناول اور افسانوں کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر تحقیقی کتابیں بھی ہیں، جن میں صلیبی جنگوں کا مسلمانوں کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے۔صلیبی جنگوں کا نظریہ موجودہ دورمیں بھی جاری ہے۔ چند عشرے قبل امریکی صدر رونالڈ ریگن نے اس وقت کے افغان مجاہدین اور سوویت دستوں کے درمیان جنگ کو Crusade کہا تھا۔
ایک اور امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی القاعدہ سے جنگ کو صلیبی جنگ قرار دیا تھا۔ لہٰذا صلیبی جنگیں نظریاتی طور پر آج بھی زندہ ہیں۔نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے صلیبی جنگوں کی صلاح الدین صلیبی جنگ کے لیے
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا اعلان بے معنی؛ یہ معاہدہ کبھی جنگوں کے دوران بھی معطل نہیں ہوا
سٹی42: بھارت اعلان کر کے پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدے کو ختم نہیں کر سکتا۔ بھارت کا آج شب کیا جانے والا اعلان عملاً بے معنی ہے کیونکہ بھارت نہ تو پاکستان کے دریاؤں کا پانی روک سکتا ہے نہ کسی اور طرح کا نقصان پہنچا سکتا ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ آج سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے بعد پاکستان بھارتی حکومت کے اقدامات کا منہ توڑ جواب دے گا۔
بھارت نے مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں کے قتل کے فالس فلیگ آپریشن کے بعد پاکستان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ معطل کرنے کا جو اعلان کیا ہے اس کی کوئی عملی اہمیت نہیں۔
پی ایس ایل10؛ ملتان سلطانز کا ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ
بھارت نے سارک کے تحت پاکستانیوں کو دیے گئے ویزے منسوخ کرنے کا بھی اعلان کیا ہے اور بھارت میں موجود پاکستانیوں کو 48 گھنٹوں میں ملک چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔
سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان دو طرفہ عالمی معاہدہ ہے جسے بھارت یک طرفہ طور پر ختم نہیں کر سکتا۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں سندھ طاس معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی میں طے ہوا تھا، اس معاہدے میں کوئی تبدیلی دونوں ممالک کی رضامندی سے ہی ہو سکتی ہے۔پاکستان کے صدر جنرل ایوب خان ، بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو اور عالمی بینک کے صدر کے درمیان سندھ طاس معاہدے پر 19 ستمبر 1960ء کو دستخط ہوئے تھے.
زیلنسکی کا کریمیا پر روسی قبضہ ماننے سے انکار، امریکہ کے نائب صدر کا یوکرین کو الٹی میٹم
ہمسایہ ملک کے ساتھ مستقبل میں دریاؤں کے پانی کے متعلق کسی بھی مسئلہ کو لے کر کشیدگی پیدا ہونے کا امکان ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کی ضرض سے پاکستان نے اپنے تین دیراؤں کے پانی کے استعمال کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حقوق بھارت کو دے کر ان کے بدلے میں دوسرے تین دیراؤں کا پانی مکمل طور پر خود استمعال کرنے کے حقوق حاصل کئے تھے۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت ہمالیہ کے پہاروں سے آنے والے تین دریا ؤں سندھ، چناب اور جہلم کا پانی مکمل طور پر پاکستان کو دیا گیا اور راوی، ستلج اور بیاس کا پانی مکمل طور پر بھارت کو دے دیا گیا تھا۔
مکہ میں پرمٹ کے بغیر داخلے پر پابندی
اس معاہدہ کے بعد پاکستان نے تین دریاؤں ستلج، بیاس اور راوی کے نہری نظام کو برقرار رکھنے اور ان دریاؤں کے علاقوں کو آبپاشی کے لئے پانی کی فراہمی برقرار رکھنے کے لئے سندھ، چناب اور جہلم دریاؤں سے پانی نکال کر ستلج، بیاس اور راوی دریاؤں کے نہری سسٹم میں ڈالنے کے لئے دنیا کا سب سے بڑا لنک کینالز کا سسٹم تعمیر کیا جس پر اس زمانہ میں اربوں روپے خرچ ہوئے ۔
بھارت کی طرف سے ماضی میں سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزیاں کر کے دریائے چناب اور دریائے جہلم کے پانی کو جزوی طور پر استعمال کرنے کی کوششیں کی گئیں اور پاکستانی دریاؤں پر پن بجلی منصوبے تعمیر کرکے پاکستان آنے والے پانی کو متاثر کیا گیا ۔
نواز شریف کا لندن سے فوری پاکستان واپس آنے کا فیصلہ
تین سال سے بھارت کی موجودہ حکومت کی ہٹ دھرمی کے باعث پاکستان اور بھارت کے انڈس واٹر کمشنرز کا اجلاس نہیں ہو سکا، دونوں ملکوں کے درمیان انڈس واٹر کمشنرز کا آخری اجلاس 30 اور 31 مئی 2022کو نئی دہلی میں ہوا تھا۔
سندھ طاس معاہدے کے تحت سال میں دونوں ملکوں کے کمشنرز کا اجلاس ایک بار ہو نا ضروری ہے۔پاکستان کے انڈس واٹر کمشنرکی طرف سے بھارتی ہم منصب کو اجلاس بلانے کے لیے متعدد بار خط لکھا گیا لیکن کوئی مناسب جواب نہیں ملا۔
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے طریقہ کار کیخلاف درخواست گزار کے وکیل کومہلت
اب بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں سیاحوں کے قتل کے واقعہ کی تحقیقات کر کے اپنے مجرموں کو پکڑنے کی بجائے نئی دہلی میں وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے پاکستان کے آبپاشی نظام پر حملہ کرنے کا نعرہ لگا دیا جس کا کوئی جواز نہیں۔
پاکستان کے سرکاری ذرائع نے کہا کہ سندھ طاس معاہدہ کی کسی ایک شق کو بھی چھیڑنے کی گنجائش نہیں ۔ سندھ طاس معاہدہ کو ختم کرنا بھارت میں بعض لوگوں کا خواب تو ہو سکتا ہے لیکن اس پر عملددرآمد کرنا ممکن نہیں۔ پاکستان بھارت کی ایسی کسی بھی کوشش کو لے کر بین الاقوامی ثالثی کی طرف جائے گا تو بھارت کو اپنے ہکطرفہ اقدام کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
پاکستان کا ابتدائی ردعمل
ذمہ دار سرکاری ذرائع نے بتایا کہ بھارت کی یکا یک کشیدگی پیدا کرنے کی سازش کا پاکستان تحمل اور برداشت کے ساتھ مناسب جواب دے گا۔ آج اسلام آباد میں بھارتی اشتعال انگیزی کا فوری جائزہ لیا گیا لیکن کوئی فوری ردعمل نہیں دیا گیا۔
کل جمعرات کی صبح پہلے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان کی سینئیر ترین قیادت بھارت کو مناسب جواب دینے کا فیصلہ کرے گی۔ اس کے بعد امکان ہے کہ وزارت خارجہ کی جانب سے جلد بھارتی ناظم الامور کو بھی دفتر خارجہ طلب کیا جائے گا اور پاکستان کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ کو یکطرفہ طور پر عمطل کرنے کے اعلان پر سخت جواب دیا جاے گا۔
سفارتی ذرائع نے بتایا کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کیا ہی نہیں جا سکتا۔
سندھ طاس معاہدہ تو جنگوں کے دوران بھی کبھی معطل نہیں ہوا۔ اسمعاہدے کی ایک اہم شق یہ ہے کہ بھارت اس معاہدے کو یک طرفہ معطل نہیں کر سکتا۔
Waseem Azmet