UrduPoint:
2025-06-09@18:38:25 GMT

صلیبی جنگوں کی داستان

اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT

صلیبی جنگوں کی داستان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 23 مارچ 2025ء) تاریخ میں قومیں اپنے معاشرے کو منظم رکھنے کے لیے نظریات اور قوانین کو تشکیل دیتی ہیں۔ قوموں کی زندگی میں بعض واقعات اور حادثات ایسے ہوتے ہیں جنہیں فراموش نہیں کیا سکتا ہے۔ ان کی یادیں تسلسل کے ساتھ نسل در نسل مُنتقل ہوتیں رہتی ہیں۔ ہر دور میں ان کے معنی اور مفہوم کو بھی تبدیل کیا جاتا رہتا ہے۔

خاص طور سے جنگوں کی یادداشتیں بہت گہری ہوتی ہیں۔ فتح پر یادگاریں تعمیر ہوتیں ہیں اور شکست کو عذابِ الہٰی سمجھ کر قبول کر لیا جاتا ہے۔

مسلمانوں اور مسیحیوں میں صلیبی جنگوں کی داستان ہر دور میں نئے حالات کے تحت دھرائی جاتی رہی ہے۔ اس کی ابتداء 1097 میں ہوئی اور اس کا خاتمہ تیرہویں صدی میں ہوا۔ اسی دوران دونوں جانب سے فتح اور شکست کے تلخ اور خوشگوار مراحل آئے۔

(جاری ہے)

صلیبی جنگوں کے دوران یروشلم پر قبضے کے بعد اس شہر کو مسیحی مذہب کا مرکز بنایا گیا۔ اس لیے یہودیوں کے لیے صلیبی جنگوں کی یادیں تلخ ہیں۔ مسلمانوں کے لیے صلیبی حملہ آور تھے، جنہوں نے مشرقی وسطیٰ کے امن و امان کو تباہ کیا۔ مسیحیوں کے لیے یہ جنگیں مقدس تھیں، جن کا مقصد مسلمانوں سے مقدس مقامات چھڑانا تھا۔

جنگوں کے دوران کئی اہم شخصیات سامنے آئیں۔

صلاح الدین ایوبی نے یروشلم کو صلیبیوں سے آزاد کرایا اور مشرقِ وسطیٰ کا دفاع کیا۔ صلیبیوں کا ہیرو رچڑڈ انگلستان کا حکمراں تھا۔ اُس کا مقابلہ صلاح الدین ایوبی سے ہوا مگر وہ ناکام ہو کر واپس چلا گیا۔ اس دوران یورپ اور مشرقِ وسطیٰ کے درمیان تجارتی روابط اس وقت تک بڑھے جب تک صلیبیوں کا مشرقِ وسطیٰ کے ایک حصے پر قبضہ رہا۔ کیونکہ اِس عہد میں یورپ پسماندہ تھا اور ایشیائی ممالک معاشی طور پر خوشحال تھے۔

اگرچہ صلیبی جنگوں کا خاتمہ 1300 عیسوی میں نہیں ہوا بلکہ یہ ایک نئے تسلسل سے جاری رہی تھیں۔ بعد ازاں مصر کے مملوک حکمراں سلطان بیبرس (Baybars)جن کی حکمرانی کا پیریڈ 1260 سے 1277 تھا، نے انہیں شکست دے کر مشرق وسطیٰ سے نکلنے پر مجبور کر دیا تھا۔

اگرچہ صلیبی جنگیں تو ختم ہو گئیں مگر صلیبی جنگ کا نظریہ باقی رہا۔ چرچ نے اس کا سیاسی استعمال کرتے ہوئے اُن فرقوں کے خلاف صلیبی جنگ کا اعلان کیا، جنہوں نے مسیحیت کی تعلیمات میں ترامیم کی تھیں۔

فرانس میں کتھار (Cathar) فرقے پر حملہ کر کے اُس کے ارکان کا قتلِ عام کیا، اور اسے بھی مقدس جنگ کہا۔

جب پہلی عالمی جنگ کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کا خاتمہ ہوا اور عرب ممالک عثمانی سلطنت کے تسلط سے آزاد ہوئے تو ان کی جگہ انگلستان اور فرانس کی حکومتوں نے لبنان، شام، عراق اور اردن پر اپنا سیاسی تسلط قائم کر لیا۔ انگریز جنرل ایڈمنڈ ایلنبی جب 1917میں دمشق میں داخل ہوا تو صلاح الدین ایوبی کے مزار پر گیا اور اس کی قبر کو ٹھوکر مارتے ہوئے کہا، ''صلاح الدین ہم پھر واپس آ گئے ہیں۔

‘‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وقت گزرنے کے باوجود صلیبی جنگوں کی یادیں کس قدر گہری رہیں۔

صلیبی جنگوں کی یادوں کو زندہ رکھنے کے لیے ادب، آرٹ، تھیٹر اور فلموں کا سہارا بھی لیا گیا۔ انگریزی میں اس موضوع پر ناول، افسانے اور تاریخیں لکھی گئیں۔ ان میں خاص طور سے اسٹیون رنسیمین Steven Runciman کی (تحقیقی کتاب) A History of the Crusades قابل ذکر ہے۔

اردو میں عبدالحلیم شرر کے کئی ناول صلیبی جنگوں کے موضوع پر ہیں۔ عربی میں ناول اور افسانوں کے ساتھ ساتھ اس موضوع پر تحقیقی کتابیں بھی ہیں، جن میں صلیبی جنگوں کا مسلمانوں کے نقطہ نظر سے جائزہ لیا گیا ہے۔

صلیبی جنگوں کا نظریہ موجودہ دورمیں بھی جاری ہے۔ چند عشرے قبل امریکی صدر رونالڈ ریگن نے اس وقت کے افغان مجاہدین اور سوویت دستوں کے درمیان جنگ کو Crusade کہا تھا۔

ایک اور امریکی صدر جارج ڈبلیو بش نے بھی القاعدہ سے جنگ کو صلیبی جنگ قرار دیا تھا۔ لہٰذا صلیبی جنگیں نظریاتی طور پر آج بھی زندہ ہیں۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے صلیبی جنگوں کی صلاح الدین صلیبی جنگ کے لیے

پڑھیں:

تھامی سولیکلی: باکمال وکٹ کیپر کی المیہ داستان

جنوبی افریقہ کے وکٹ کیپر بیٹر ہینرک کلاسن کے بین الاقوامی کرکٹ سے ریٹائر ہونے کی خبر نظر سے گزری تو اس ملک سے تعلق رکھنے والے ایک بدقسمت سیاہ فام وکٹ کیپر تھامی سولیکلی کا نام ذہن میں آیا جو نسلی تعصب کی وجہ سے بین الاقوامی کرکٹ میں اپنے جوہر نہ دکھا سکے تھے۔

کرکٹ کے سفر میں ایک وقت میں وہ ڈگر سے ہٹ کر کلرکی کرنے لگے، لیکن لائنز فرنچائز سے وابستگی نے انہیں دوبارہ سے پٹڑی پر چڑھا دیا اور انہوں نے وکٹ کے پیچھے اور آگے رہ کر کامیابیاں سمیٹیں۔

انگریزی کا ایک لفظ ہے prodigy، یہ ان غیر معمولی افراد کے لیے برتا جاتا ہے جن کی کسی میدان میں صلاحیتوں کا بھرپور اظہار بچپن اور لڑکپن کے زمانے سے ہونے لگے۔ اس لفظ کی بہترین ترجمانی اردو کی اس ضرب المثل سے ہو سکتی ہے:

ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات

تھامی سولیکلی اسی کینڈے کے کرکٹر تھے۔ کیپ ٹاؤن میں اسکول کی سطح پر کرکٹ میں انہوں نے بیٹر کی حیثیت سے سارے ریکارڈ توڑ ڈالے، جن میں سے کئی ریکارڈ کچھ ہی سال پہلے جیک کیلس نے اپنے نام کیے تھے۔

یہ بھی پڑھیں:چائے کے اشتہار میں علامہ اقبال اور کے ایل سہگل

تھامی سولیکلی ایسے فطری اتھلیٹ تھے جو کسی بھی  کھیل میں کامیاب ہوسکتے تھے۔ بچپن میں فٹبال اچھی کھیلتے تھے۔ ہاکی میں ان کی ہنرمندی کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جنوبی افریقہ کی نمائندگی کی لیکن پھر انہوں نے کرکٹ کو اپنی تگ و تاز کا میدان بنا لیا۔

 سن 2000 میں فرسٹ کلاس کرکٹ کا آغاز کیا اور اگلے ہی برس وہ جنوبی افریقہ کی انڈر 19 ٹیم کے کپتان بن گئے۔ اس سے اگلا پڑاؤ  اے ٹیم میں شمولیت تھی۔ یہ وہ زمانہ ہے جب جنوبی افریقہ کی ٹیم میں وکٹ کیپر کے طور پر مارک باؤچر اپنی مستقل جگہ بنا چکے تھے۔ 1997 میں شیخوپورہ میں پاکستان کے خلاف اپنے پہلے ٹیسٹ سے لے کر 75 ویں ٹیسٹ تک وہ مسلسل ٹیم کا حصہ رہے۔

 سن 2004 میں تھامی سولیکلی کے لیے ٹیسٹ کرکٹ کا دروازہ کھلا جو 3 ٹیسٹ میچوں کے بعد بند ہوگیا۔ اس وقت کسے خیال تھا کہ یہ دروازہ ان کے لیے دوبارہ نہیں کھلے گا۔ اس کے بعد مارک باؤچر نے مزید 72 ٹیسٹ میچوں میں اپنے ملک کی نمائندگی کی اور 147 ٹیسٹ کھیل کر ریٹائر ہوئے۔ یہ کسی بھی وکٹ کیپر کا سب سے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں شرکت کا ریکارڈ ہے۔

 جنوبی افریقہ کی طرف سے دوبارہ کھیلنے کی تمنا سولیکلی کے دل میں تروتازہ رہی اور وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں اور اے ٹیم کی طرف سے وکٹ کیپنگ اور بلے بازی میں عمدہ کارکردگی دکھاتے رہے جس کے بعد یہ طے ہو گیا تھا کہ مارک باؤچر کے جانشین وہی ہوں گے ۔اس بات کی تصدیق سلیکٹروں کے نیشنل کنوینر اینڈریو ہڈسن نے بھی کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:علاؤالدین مظہر: سہگل سے عشق کا ایک فراموش باب

 2012 میں مارک باؤچر کے ریٹائر ہونے کا مرحلہ آن پہنچا تو اس وقت  سولیکلی فرسٹ کلاس کرکٹ کی بھٹی میں کندن ہو گئے تھے۔  عمدہ وکٹ کیپر تو تھے ہی اب ان کا بلا بھی مسلسل رنز اگلنے لگا تھا۔ 2009-2010 کے سیزن میں انہوں نے 58.10 کی اوسط سے رنز بنائے تھے اور 2011/2012 میں ان کی اوسط 53 رہی تھی۔ اس سے پہلے 2010 میں  انہوں نے بنگلہ دیش اے کے خلاف مسلسل 2 سنچریاں بھی بنائی تھیں۔ 2011 میں سولیکلی نے جنوبی افریقہ اے کی طرف سے کھیلتے ہوئے آسٹریلیا کی مضبوط باؤلنگ  کے خلاف خراب پچ کے باوجود عمدہ بیٹنگ کا مظاہرہ کیا تھا۔

2012  میں دورہ انگلینڈ کے لیے ریزرو وکٹ کیپر کے طور پر ان کا انتخاب ہوا۔ باؤچر کی یہ آخری ٹیسٹ سیریز تھی جس کے بعد سولیکلی ہی ان کی جگہ فطری انتخاب تھے۔ انہیں اس سے پہلے سینٹرل کنٹریکٹ بھی مل چکا تھا ۔

 انگلینڈ میں سمرسٹ کے خلاف وارم اپ میچ میں عمران طاہر کی گیند پر بیلز ہوا میں اڑیں تو ایک مارک باؤچر کی بائیں آنکھ میں جا لگی جس کی وجہ سے انہیں فوراً کرکٹ چھوڑنی پڑی۔ اب سولیکلی کی 8 سال بعد ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی یقینی نظر آ رہی تھی۔ دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے وہ آن پہنچا تھا۔ لیکن انہیں یہ موقع نہیں دیا گیا۔ کپتان گریم اسمتھ اور کوچ گیری کرسٹن اور ٹور سلیکٹر نے وکٹ کیپنگ کی ذمہ داری اے بی ڈیویلیئرز کو سونپ دی اور اس کے اعلان سے پہلے کرسٹن نے باقی سلیکٹروں سے مشورہ کرنا بھی گوارا  نہ کیا۔ انگلینڈ کے بعد دورہ آسٹریلیا میں سولیکلی ٹیم کے ساتھ رہے لیکن انہیں میدان میں اترنے کا موقع نہیں ملا۔ اس زیادتی پر وہ چپ رہے اور اچھے سمے کا انتظار کرتے رہے۔

اس موقعے پر ٹیسٹ کرکٹ میں 390 وکٹیں لینے والے جنوبی افریقہ کے سیاہ فام  فاسٹ بولر میکھایا نتینی نے ان کے حق میں آواز بلند کی اور سولیکلی  کی ٹیم میں عدم شمولیت کو نسلی امتیاز کا شاخسانہ قرار دیا۔

یہ بھی پڑھیں:ہندوستان میں بنیاد پرستوں کے عزائم بروقت بھانپنے والے لکھاری

نتینی کا کہنا تھا کہ سولیکلی اگر گورے ہوتے تو ٹیم میں کھیل رہے ہوتے۔ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ جنوبی افریقہ کی کرکٹ میں واپسی کے 20 سال بعد بھی آخر ایک ہی سیاہ فام کھلاڑی ٹیم کا حصہ کیوں ہے؟ اس وقت سولیکلی ٹیم میں واپسی سے ناامید نہیں ہوئے تھے، اس لیے انہوں نے اپنے بہی خواہ کی ہاں میں ہاں ملانے سے گریز کیا اور اس تنازع میں پڑنے سے  بچنے کی راہ اپنائی۔

 ہڈسن نے انہیں نیوزی لینڈ کے خلاف ہوم سیریز میں موقع  دینے کا وعدہ کیا جو وفا نہ ہو سکا اور سولیکلی  ٹیم سے ڈراپ ہو گئے اور جس آس کی ڈوری سے وہ کئی سال سے بندھے تھے وہ بالآخر ٹوٹ گئی۔

کرکٹ میں نسلی تعصب کے اس قصے کا تذکرہ میں نے پہلی دفعہ اسٹیفن زیمنسکی اور ٹم وگمور کی کتاب ‘کرکونومکس، دی اناٹومی آف ماڈرن کرکٹ’ میں پڑھا تھا اور اس مضمون کی بنیاد اس کتاب سے اٹھائی ہے۔ اس کے مصنفین نے یہ سوال  اٹھایا تھا کہ مارک باؤچر کی ریٹائرمنٹ سے 2 سال پہلے ہی جنوبی افریقہ کی ٹیم میں سولیکلی کی شمولیت کا کیس مضبوط تھا کیوں کہ باؤچر نے آخری 15 ٹیسٹ میچوں میں 22.23 کی اوسط سے رنز بنائے تھے جس میں ان کی صرف 2 نصف سنچریاں شامل تھیں، اس لیے وہ ان کے ٹیم میں ٹکے رہنے کے دوسرے عوامل کی طرف توجہ دلاتے ہیں:

’اور اس تمام عرصے میں، ان  کی سینیارٹی اور نسلی تفوق کی بدولت، اور شاید کپتان اسمتھ سے ان کے قریبی تعلقات کی وجہ سے، ٹیسٹ کرکٹ میں ساتویں نمبر پر بیٹنگ کے لیے ان کی موزونیت پر کبھی کوئی سوال نہیں اٹھا‘۔

کرکٹ میں کپتان کو آمرانہ اختیارات حاصل ہوتے ہیں ، اس لیے وہ انصاف پسند نہ ہو تو کھلاڑیوں کا کیریئر تباہ کر سکتا ہے۔ ایسی مثالوں سے کرکٹ کی تاریخ بھری پڑی ہے۔ اسمتھ مضبوط کپتان تھے اور ان کے دور میں ٹیم کی کارکردگی نے ان کی قوت میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔ انگلینڈ  میں سیریز میں کامیابی کے بعد جنوبی افریقہ ٹیسٹ کی نمبر ون ٹیم بن گئی تھی جس کے بعد اس نے آسٹریلیا میں بھی ٹیسٹ سیریز جیت لی۔ فتح مندی کے اس نشے میں غریب سولیکلی کے بارے میں سوچنے کی فرصت کسے ہوتی۔

اسمتھ کو ٹیم کے سینئیر کھلاڑیوں کا اعتماد بھی حاصل تھا۔ ہرشل گبز نے اپنی آپ بیتی ’ٹو دی پوائنٹ‘ میں لکھا ہے کہ اسمتھ طاقتور کپتان تھے اور چار کا ٹولہ جس میں اسمتھ، باؤچر، کیلس اور  ڈیویلیئرز شامل تھے، جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیم کو کنٹرول کرتا تھا۔

 2020 میں میکھایا نتینی اور ایشول پرنس نے اپنے ساتھ امتیازی سلوک پر دل کے پھپھولے پھوڑے تو سولیکلی نے بھی اپنے دکھڑے بیان کیے اور اپنے ساتھ زیادتی پر گریم اسمتھ  کو کٹہرے میں کھڑا کرکے سوالات اٹھائے اور  کھلاڑیوں کی شکایات پر ان کی حیرانی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس لیے ہے کہ وہ نسل پرستی کو اس ملک میں معمول کی بات سمجھتے ہیں۔ انہوں نے ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی میں اپنی ناکامی کی وجہ نسلی تعصب کو قرار دیا۔

 سولیکلی کی یہ کہانی ایک سیاہ فام کرکٹر سے ناانصافی کے بارے میں بتاتی ہے جس پر بہت سے لوگوں نے آواز اٹھائی لیکن کسی نے  اپنی غلطی تسلیم نہیں کی اور بس اپنے دفاع میں دلائل تراشے۔

کرکٹ سے ریٹائر ہونے کے بعد اسمتھ ڈائریکٹر آف کرکٹ کی اہم پوزیشن پر متمکن رہے۔ اسی زمانے میں مارک باؤچر کو لیول فور کی کوچنگ کا تجربہ نہ ہونے کے باوجود  قومی ٹیم کا کوچ مقرر کیا۔ اس پوسٹ کے لیے اشتہار دینے سے بھی گریز کیا گیا۔ اس دوست نوازی پر اسمتھ پر تنقید بھی ہوتی رہی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس عمل سے بھی سیاہ فام کوالیفائیڈ کوچ اینوخ  اینکوے کی حق تلفی ہوئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:میلہ چراغاں پر صفدر میر کیوں یاد آتے ہیں؟

نیرنگی زمانہ ہے کہ اسمتھ اور مارک باؤچر نے کرکٹ چھوڑنے کے بعد بھی بڑے منصب حاصل کیے اور دوسری طرف قسمت کے ہیٹے سولیکلی پر 2015  میں ریم سلام چیلنج میں میچ فکسنگ میں ملوث ہونے کی وجہ سے کرکٹ کھیلنے پر پابندی لگ گئی۔  یہ وہ گڑھا تھا جو انہوں نے اپنے لیے خود کھودا جس سے نکلنا کسی طور ممکن نہیں ہوتا۔  پہلے وہ مظلوم کرکٹر کے طور پر جانے  جاتے تھے  لیکن اب انہوں نے خود سے یہ رسوائی وابستہ کرلی جو ان کے لیے ہمیشہ باعثِ ننگ  رہے گی۔

اس مشکل وقت اور برے حالوں میں جس کھلاڑی نے ان سے مسلسل رابطہ رکھ کر انہیں زندگی کی طرف واپس لانے کی کوشش کی وہ ٹیمبا باووما ہیں جو کیپ ٹاؤن میں انہی کے علاقے لانگا سے تعلق رکھتے ہیں اور کھلاڑی کی حیثیت سے ان کی بلندی اور میچ فکسنگ کے بعد ان کی پستی کے عینی شاہد ہیں۔

3 سال پہلے سولیکلی سے ملاقات کے بعد انہوں نے ’نیوز 24‘  کو بتایا کہ سولیکلی جانتے ہیں انہوں نے جو کیا وہ کرکٹ کی روح کے منافی تھا اور انہیں اس پر پچھتاوا ہے۔ باووما نے کہا کہ اب وہ جس حالت میں ہیں اس میں انہیں دیکھنا اندوہناک ہے  اور وہ جب بھی لانگا جائیں ان سے ملنے کی کوشش  کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ لانگا  میں سولیکلی  کی حیثیت ایک متاثر کن شخصیت کی رہی ہے، اس لیے ان کے نام سے وابستہ تمام تر منفیت کے باوجود علاقے کے لوگ ان سے محبت کرتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

محمود الحسن

گزشتہ دو دہائیوں سے مختلف قومی اور بین الاقوامی میڈیا اداروں سے وابستہ ہیں۔ کتابوں میں 'شرفِ ہم کلامی 2017'، 'لاہور شہر پُرکمال 2020'، 'گزری ہوئی دنیا سے 2022' اور 'شمس الرحمٰن فاروقی ,جس کی تھی بات بات میں اک بات' شائع ہو چکی ہیں۔

اسمتھ تھامی سولیکلی ٹیمبا باووما جنوبی افریقہ سولیکلی کرکٹ مارک باؤچر میکھایا نتینی ہرشل گبز

متعلقہ مضامین

  • تھامی سولیکلی: باکمال وکٹ کیپر کی المیہ داستان