عید پر بینکوں سے نئے کرنسی نوٹ کیسے حاصل کیے جاسکتے ہیں؟
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
اسلام آباد(نیوز ڈیسک)عید سے قبل جہاں مارکیٹس میں عید کی تیاریاں جوش و خروش سے ہوتی ہیں، وہیں اس موقع پر بینکس سے نئے کرنسی نوٹ حاصل کرنا بھی عوام کی عید کی خریداری میں سر فہرست ہوتا ہے، کہا جاتا ہے عید بچوں کی ہوتی ہے اور بچوں کی عید نئے کرنسی نوٹوں کی صورت میں ملی عیدی کے بغیر ادھوری رہتی ہے۔
لیکن عید پر نئے کرنسی نوٹ حاصل کرنے کا آخر طریقہ کار کی ہے؟ بینک اسلامی کے کسٹمر سروس مینیجر عبدلحفیظ انجم نے نجی خبررساں ادارےکو بتایا کہ بینک سے عید پر نئے کرنسی نوٹ حاصل کرنے کا بہت ہی سادہ سا طریقہ کار ہے۔
’اپنے شناختی کارڈ کی کاپی کے ہمراہ اپنے بینک جا کر براہ راست نئے کرنسی نوٹ حاصل کیے جاسکتے ہیں، اگر بینک کے پاس کرنسی نوٹ کا اسٹاک موجود ہو تو فوری طور پر کرنسی نوٹ دے دیے جاتے ہیں۔‘
ایک نجی بینک کے ہاؤسنگ لون اسکیمز کے کسٹمر سروس مینیجر کے مطابق طریقہ کار تو بہت ہی سادہ سا ہے، کوئی بھی شخص بینک جا کر کاؤنٹر پر بولے کہ اسے نئے کرنسی نوٹ چاہییں تو وہ حاصل کر سکتا ہے، اس میں کسی قسم کی پیچیدگی نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے کمرشل بینکوں کو نوٹ جاری کیے جاتے ہیں لیکن تعداد کا تعین خود اسٹیٹ بینک کرتا ہے، بہت سے افراد سمجھتے ہیں کہ بینک اپنی ضرورت کے مطابق اسٹیٹ بینک سے لیتا ہے تو ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
’اسٹیٹ بینک جتنے چاہیے دے سکتا ہے، اس پر کوئی بینک اسٹیٹ بینک سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ کم کیوں دیے یا مزید چاہیے، بس اسٹیٹ بینک نے جتنے دے دیے، اتنے ہی بینک قبول کرتے ہیں، بعض اوقات اسٹیٹ بینک نئے نوٹ بالکل بھی نہیں دیتا، اس صورت میں بھی بینک اعتراض نہیں کرتے۔‘
عید پر نئے کرنسی نوٹوں کے حوالے سے ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کہ اسٹیٹ بینک جتنے بھی بینکوں کو نوٹس دیتا ہے، وہ چند دنوں میں ہی ختم ہو جاتے ہیں۔ ’اس بار بھی ہمارے بینک میں پندرہویں روزے کو نئے کرنسی نوٹس آئے تھے جو چند دنوں میں ختم ہوگئے تھے۔‘
بینکرز کے مطابق نئے کرنسی نوٹ جلد ختم ہونے کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ کرنسی نوٹ زیادہ تر بینک کا عملہ اپنے ہی جاننے والوں میں تقسیم کردیتا ہے، اس لیے دیگر افراد کے لیے جو خاص طور پر عید کے لیے نئے کرنسی نوٹ لینے بینک کا رخ کرتے ہیں ان کے حصے میں کچھ نہیں آتا۔
اسلام آباد میں حبیب بینک آئی8 برانچ کے مینیجر رانا عمیر کہتے ہیں کہ 2 سے 3 برس قبل تک اسٹیٹ بینک خود نئے کرنسی نوٹ دیتا تھا، ایک کوڈ کے ذریعے عوام اسٹیٹ بینک سے رابطہ کرکے نئے کرنسی نوٹ حاصل کر لیتے تھے لیکن اب اس حوالے سے بے بنیاد خبریں چل رہی ہیں۔
’پہلے تو اسٹیٹ بینک کا عملہ ہر بینک کی کچھ مخصوص برانچوں میں بیٹھ جاتا تھا اور کرنسی نوٹ اس کوڈ پر میسج کے مطابق فراہم کردیتے تھے لیکن اب ایسا نہیں ہے۔‘
عمیر رانا کے مطابق اب اسٹیٹ بینک کی جانب سے بینکوں کو عید کے موقع پر نئے کرنسی نوٹ جاری کیے جاتے ہیں اور پھر عوام اب اسٹیٹ بینک کے بجائے دیگر بینکوں سے جا کر کرنسی نوٹ حاصل کرتے ہیں، جس کے لیے شناختی کارڈ کی کاپی درکار ہوتی ہے۔
اسی حوالے سے ان کا مزید کہنا تھا کہ یہ اسٹیٹ بینک کی مرضی ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی بینک کو کتنا کوٹہ دیں اور یہ بینک کی برانچز پر منحصر ہوتا ہے۔
ان کے خیال سے اسٹیٹ بینک کی جانب سے فی برانچ 8 سے 10 بنڈل 10 روپے والے، 3 سے 4 بنڈل 100 والے، 20 والے 1 سے 2 بنڈل اسی طرح 50 والے بھی ہوتے ہیں، 1 بنڈل میں 10 پیکٹ ہوتے ہیں، یعنی مجموعی طور پر 80 سے 100 بنڈل ایک برانچ کو دیے جاتے ہیں۔
’بینک کے کسٹمر ہزاروں میں ہوتے ہیں تو ایسے میں ان کی نئے کرنسی نوٹوں کی خواہش پوری کرنا بہت مشکل ہوجاتا ہے کہ کسے دیں اور کسے نہ دیں۔‘
رانا عمیر نے بتایا کہ فی صارف 1 سے 2 پیکٹ دیے جاسکتے ہیں، یعنی مجموعی طور پر10، 20، 50 اور 100 روپے والے نوٹس ملا کر ایک بینک صارف کو زیادہ سے زیادہ 16 سے 18 ہزار روپے کے نئے کرنسی نوٹس دیے جا سکتے ہیں۔
مزید پڑھیں: این ایچ اے کی جانب سے ایک بار پھر ٹول ٹیکس میں اضافہ، نئی شرح کیا ہے؟
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: نئے کرنسی نوٹ حاصل کر پر نئے کرنسی نوٹ اسٹیٹ بینک کی کی جانب سے جاتے ہیں کے مطابق ہوتی ہے بینک کے دیے جا
پڑھیں:
سینیٹ کے انتخابی نتائج ، کیا یہی افہام وتفہیم ہے؟
خیبر پختونخوا میں سینیٹ کے انتخابات میں سینیٹ کی 11نشستوں میں تحریک انصاف نے 6، جمعیت علمائے اسلام2،پیپلز پارٹی2 اور پاکستان مسلم لیگ ن 1نشست پر کامیاب ہوئی، جنرل نشست پر تحریک انصاف کے مراد سعید، فیصل جاوید مرزا خان آفریدی اور مولانا نورالحق قادری، مسلم لیگ ن کے نیاز محمد، جے یو آئی کے مولانا عطا الحق درویش اور پیپلز پارٹی کے طلحہ محمود فتحیاب ہوئے، تحریک انصاف ناراض گروپ کے امیدوار خرم ذیشان شکست کھا گئے، ٹیکنو کریٹ کی نشست پر تحریک انصاف کے اعظم خان سواتی اور جے یو آئی کے دلاور خان جبکہ خواتین کی نشست پر تحریک انصاف کی روبینہ ناز اور پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد نے کامیابی حاصل کی، ان انتخابات کی خاص بات یہ تھی کہ پیپلزپارٹی نے صرف 10 ووٹوں پر اپنے2 سینیٹرز منتخب کرالئے جس کے بعد ایوان بالا میں پیپلزپارٹی کے سینیٹرز کی تعداد 26 ہوگئی اور نشستوں کے اعتبار سے وہ سینیٹ کی سب سے بڑی پارٹی بن گئی، ان انتخابات کے نتیجے میں ایوان بالا میں حکمراں اتحاد کے سینیٹرز کی تعداد 61 جبکہ اپوزیشن کے سینیٹر کی تعداد 34 ہوگئی اس طرح حکمراں اتحاد سینیٹ میں دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کے قریب پہنچ گیا ہے، سینیٹ کے انتخابی نتائج کے مطابق کے پی حکومت کے 6 اور اپوزیشن کے 5 سینیٹر منتخب ہوگئے، پی ٹی آئی کے ناراض امیدوار کوئی ووٹ حاصل نہیں کرسکے، خیبر پختونخوا اسمبلی کے145ارکان میں 144 نے ووٹ پول کیے، خیبر پختونخوا اسمبلی سے سینیٹ کی11نشستوں کیلئے مجموعی طورپر26 امیدوار مدمقابل تھے تاہم پولنگ سے قبل بیشتر امیدوار دستبردار ہوگئے، جس کے بعد7جنرل نشستوں کیلئے 8امیدواروں میں رن پڑا جن میں تحریک انصاف کے مراد سعید نے26، فیصل جاوید نے22، مرزا خان آفریدی نے21 اور نور الحق قادری نے 21 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی، مسلم لیگ ن کے نیاز محمد 18، جے یو آئی کے مولانا عطا الحق درویش18 اور پیپلز پارٹی کے طلحہ محمود17 ووٹ لے کرجنرل نشست پر ایوان بالا کے رکن منتخب ہوئے، ٹیکنو کریٹ کی نشست پر تحریک انصاف کے اعظم سواتی89 اور جے یو آئی کے دلاور خان54 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئے، اسی طرح خواتین کی نشست پر تحریک انصاف کی روبینہ ناز89 اور پیپلز پارٹی کی روبینہ خالد نے 52 ووٹ حاصل کیے، تحریک انصاف کے امیدوار مراد سعید نے مطلوبہ ووٹوں سے 8 ووٹ زیادہ لیے، انتخابی نتائج کے مطابق صوبائی اسمبلی میں93ارکان کی حامل صوبہ کی حکمران جماعت تحریک انصاف نے6جبکہ صوبائی اسمبلی میں52ایم پی ایز کے باوجود اپوزیشن نے 5 نشستیں اپنے نام کیں، جبکہ پیپلز پارٹی صرف 10ووٹوں پر اپنے2 سینیٹرز منتخب کرانے میں کامیاب ہوئی۔ سینیٹ کے 96 رکنی ایوان میں حکمران اتحاد دعوے کے باوجود دوتہائی اکثریت حاصل نہ کرسکا کیونکہ اے این پی کے 3 ارکان اپوزیشن میں ہیں ،اگرچہ ان کا ووٹ ہمیشہ حکمراں اتحاد کے حق میں ہوتا ہے لیکن اپوزیشن کی کسی جماعت کی حمایت کی وجہ سے اس کے ووٹوں کو اپنا ووٹ نہیں کہا جا سکتا اور حقیقت یہ ہے کہ اے این پی کی حمایت کے بغیر حکومتی اتحاد دو تہائی اکثریت یعنی 64 ارکان کی حمایت حاصل نہیں کرسکے گا۔ کیونکہ اس وقت 96رکنی ایوان میں حکمراں اتحاد کو 61 ارکان کی حمایت حاصل ہے جبکہ دو تہائی اکثریت کیلئے 64 ارکان کی حمایت ضروری ہے، پنجاب اور خیبر پختونخوا میں سینیٹ الیکشن کے نتائج سے پتہ چلتا ہے کہ ایوان بالا میں بھی حکمران اتحاد کو 64 ارکان کی حمایت حاصل نہیں ہوسکی۔ پاکستان پیپلز پارٹی 26 سینیٹرز کے ساتھ سینیٹ میں سب سے بڑی جماعت، 22 سینیٹرز کے ساتھ پی ٹی آئی دوسری بڑی پارلیمانی جماعت اور مسلم لیگ(ن) 20 نشستوں کے ساتھ سینیٹ میں تیسری بڑی جماعت بن گئی ہے، حکمران اتحاد کو 6 آزاد اراکین 4 بلوچستان عوامی پارٹی، ایم کیو ایم کے3 سینیٹرز کے علاوہ پاکستان مسلم لیگ ق اور نیشنل پارٹی کے ایک ایک سینیٹرز کی بھی حمایت حاصل ہے۔ سینیٹ میں اپوزیشن کی تعداد 34 بتائی جاتی ہے جن میں پی ٹی آئی کے 16 ارکان میں 6 اضافے سے تعداد 22 ہو گئی ہے۔ جے یو آئی (ف) کے سینیٹرز کی کل تعداد 7، اے این پی کے 3 ہوگئی ہے جبکہ ایم ڈبلیو ایم اورسنی اتحاد کونسل کے ایک ایک رکن بھی اپوزیشن کی طاقت ہیں، ڈاکٹر ثانیہ نشتر کے استعفے سے خالی نشست پر ابھی انتخابات باقی ہیں۔
خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں سینیٹ کے لیے اپنے نمائندے منتخب کیے جانے کے ساتھ ہی کئی پہلوؤں پر غور کرنے کی ضرورت پیدا ہوئی۔ ایک پہلو یہ ہے کہ سیاسی منظر نامے پر چھائی غیر یقینی صورتحال اور مخاصمت اور حکومتی ڈھولکیوں کی جانب سے پی ٹی آئی کی پریشانیوں کی خبروں کے باوجود اس انتخاب کے نتائج کا اندازہ پہلے ہی سے لگایا جا سکتا تھا۔ بعض مبصرین اس نادیدہ مفاہمت کوجس کے تحت صوبے کی حکمران جماعت اور اپوزیشن نے 11نشستوں کو آپس میں برابر تقسیم کرنے پر اتفاق کیا، جبکہ ایک اضافی نشست پی ٹی آئی کے حصے میں آئی کوا یک نایاب مفاہمت قرار دے رہے ہیں ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ایوان میں حکومتی اور اپوزیشن بینچوں کے درمیان واضح فرق ہوتے ہوئے ایسا معاہدہ ضروری نہیں تھا۔ جبکہ سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کی جانب سے خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حریف جماعتوں کو عوامی ووٹوں سے حاصل کردہ سے کہیں زیادہ مخصوص نشستیں دینے کے غیر روایتی فیصلے نے عددی توازن بھی بگاڑ دیا تھا، لیکن ایک نادیدہ خوف کی وجہ سے حکومت کو کسی نئی حیرانی یا شرمندگی سے بچنے کے لیے جلدی میں فیصلے کرنے پڑے۔ خیبر پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور نے اتوار کو دعویٰ کیا تھا کہ یہ ‘سیٹ ایڈجسٹمنٹ’ دراصل سینیٹ کے انتخابات میں خرید و فروخت کو روکنے کی ایک کوشش تھی۔ تاہم، ان کی اپنی جماعت کے کئی ارکان ان کی اس توضیح پر شروع میں قائل نظر نہیں آئے۔ نامزدگی کے عمل کے گرد موجود الجھن اور تنازع کے باعث پی ٹی آئی کے ناراض ارکان نے پارٹی کے سرکاری امیدواروں سے الگ ہو کر پارٹی کی نمائندگی کرتے ہوئے انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا تھا ان کے اس فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں یہ باور کرانے میں کافی محنت صرف ہوئی کہ نامزد امیدوار واقعی عمران خان کی منظوری سے چنے گئے ہیں۔ جس کے بعد زیادہ تر ناراض اراکین نے پارٹی لائن اختیار کر لی، لیکن ایک امیدوار نے الیکشن کی شام تک اختلاف برقرار رکھا اور ووٹنگ سے پہلے ان سے مفاہمت ممکن نہیں ہو سکی۔ اس الجھن کا پی ٹی آئی کو نقصان ہوا جس کا اظہار بلکہ اعتراف خود گنڈاپور نے یہ کہہ کر کیا کہ اگر تمام اراکین وقت پر پارٹی لائن اختیار کر لیتے، تو پی ٹی آئی 6 کے بجائے ۸ نشستیں حاصل کر سکتی تھی اگر گنڈا پور کے اس دعوے کو درست تسلیم کر لیاجائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ پارٹی میں اختلافات اور بعض ارکان کی نافرمانی نے پارٹی کی پوزیشن کو کمزور کیا پارٹی 2 قیمتی نشستوں محروم ہوگئی۔ اس نادیدہ سمجھوتے کی ابتدا ہی میں یہ واضح نظر آرہا تھا کہ خیبر پختونخوا کی حکومت کا دیگر جماعتوں سے کیا گیا یہ سمجھوتہ پی ٹی آئی کے وفادار کارکنوں کو پسند نہیں آئے گا۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ گنڈاپور نے ایسی مخالفت کے باوجود کیسے یہ سب کچھ ممکن
بنایا، جبکہ انہیں بارہا سمجھوتہ بازقرار دیا گیا۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ معاہدہ کیوں ناگزیر ہو گیا تھا، یہ حوصلہ افزا اشارہ ضرور تھا کہ نہ صرف پی ٹی آئی، بلکہ اس کی مخالف جماعتیں بھی تاحال معقولیت سے کام لینے اور لین دین کی سیاست میں حصہ لینے کی صلاحیت رکھتی ہیں،اور لین دین یعنی مفاہمت ہی تو سیاست کا اصل جوہر ہے۔ سینیٹ کے انتخابات اس ملک کے تمام بالخصوص سخت گیر رویہ رکھنے والے رہنماؤں کیلئے ایک سبق ہے ،اس الیکشن کے نتائج سے یہبات واضح ہوگئی ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں باقاعدگی سے ایسے معاہدے کرتی رہیں، تو وہ اور کیا کچھ حاصل کر سکتی ہیں۔ مثال کے طور پر خیبر پختونخوا میں ایک کثیرالجماعتی اتفاق رائے کی فوری ضرورت ہے تاکہ اس بگڑتی ہوئی سیکورٹی صورتحال کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے۔ اگر سیاسی جماعتیں قومی مفاد کے معاملات پر بھی اسی طرح لین دین کا مظاہرہ کریں، تو وہ مل کر بہت کچھ حاصل کر سکتی ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں اس طرح لین دین اور مفاہمت پر عمل کرنے کو تیار ہوں گی اور کیا حکمراں مسلم لیگ ن اپنی اتحادی جماعتوں کو مفاہمت کی راہ اختیار کرنے اور اس کے نتیجے میں منفعت بخش عہدے اور وزارتیں چھوڑنے پر رضامند کرسکے گی اور کیا اس کے بعد شہباز شریف اپنی حکومت قائم رکھنے میں کامیاب ہوسکیں گے۔ پی ٹی آئی ، مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتیں سینیٹ کے انتخابات میں مفاہمت کے نتائج سے کوئی سبق لینے کو تیار ہوتی ہیں یا نہیں اس کا انحصار ان جماعتوں کے قائدین اور خاص طورپر پارٹی کے وہ سخت گیر عناصر پر ہے جو ہر معاملے کو طاقت کے زور پر طے کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور بلوچستان جیسے گمبھیر مسئلے کو بھی ایک ایس ایچ او کی مار سمجھتے ہیں،لیکن حکمرانوں خاص طورپر شہباز شریف کو یہ بات سمجھ لینا چاہئے کہ وہ تمام ترریاستی طاقت کے زور پر اپنے مضبوط مخالفین کو پابند سلاسل رکھنے کے باوجود زیادہ عرصہ وزارت عظمیٰ کے منفعت بخش عہدے پر قائم نہیں رہ سکتے اس لئے خود ان کے اور ان کی پارٹی کا مفاد اسی میں ہے کہ وہ مفاہمت اور کچھ لو اور دو کی راہ اختیار کریں ،اور اس ملک کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کی راہ ہموار کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔