قرآن کریم اور اطاعت علی علیہ السلام
اشاعت کی تاریخ: 23rd, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: نبی اکرم ﷺ کا فرمان بھی سب کے سامنے ہے کہ قرآن علیؑ کے ساتھ ہے اور علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور یہ دونوں کبھی آپس میں جدا نہیں ہوں گے۔ حضرت علیؑ کی پیروی اور اطاعت پوری امت پر اس لئے بھی واجب ہے کہ اس کا حکم قرآن کریم میں اللہ تعالےٰ نے براہ راست فرمایا ہے جبکہ سینکڑوں احادیث نبوی اور متعدد بار سیرت نبوی کے ذریعے بھی رسول اللہ ﷺ کا حکم ہم تک پہنچا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی اطاعت بھی ہم پر اسی طرح واجب ہے جس طرح اللہ تعالےٰ کا حکم ماننا واجب ہے۔ لہذا اللہ اور رسول ؐ کے احکامات کے تحت حضرت علیؑ کی اطاعت ہم پر واجب ہے۔ تحریر: علامہ محمد رمضان توقیر
مرکزی نائب صدر شیعہ علماء کونسل پاکستان
خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کا فرمان ذیشان ہے کہ ”یاعلی ما عرفک حق معرفتک غیر اللہ وغیری “ یعنی اے علیؑ تمہیں میرے اور اللہ کے سوا کسی نے پہچانا ہی نہیں۔ اگرچہ اس مستند اور مسلّمہ حدیث کے بعد امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام پر بات کرنا یا بات لکھنا بنتا ہی نہیں اور نہ ہی کسی کی بات بن سکتی ہے لیکن ”ذکر علی عبادۃ“ کے نبوی حکم کو سامنے رکھتے ہوئے ہم امیرالمومنینؑ کے ذکر میں صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے پیارے نبی ﷺ کی ارشاد فرمائی ہوئی باتوں کا مختصر تذکرہ کریں تو ہماری بات کسی حد تک لوگوں تک پہنچ سکتی ہے۔ اللہ تعالی نے علی ابن ابی طالبؑ کے بارے میں اپنے پاک کلام یعنی قرآن کریم میں باتیں کی ہیں جبکہ پیغمبر اکرم ﷺ نے احادیث مبارکہ کے ذریعے علیؑ کی باتیں کی ہیں۔ احادیث مبارکہ کے بارے میں تو مستند اور صحیح کی بحث ہوسکتی ہے لیکن کلام الٰہی کے بارے میں اس قسم کی کوئی بات نہیں کی جاسکتی، حتیٰ کہ سوچی بھی نہیں جا سکتی۔ اس لئے ہم آج علیؑ کے بارے میں صرف اللہ تعالیٰ کی باتیں بیان کریں گے یعنی آیات قرآنی کا تذکرہ کریں گے۔
سورہ رعد آیت ۷ میں اللہ تعالی کا ارشاد گرامی ہے ”انما انت منذر و لکل قوم ھاد“ بیشک میں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے لیے ایک ھادی (رہبر) ہے۔ مستدرک الصحیحین جلد ۳ صفحہ ۹۲۱ کے مطابق حضرت عباد بن عبداللہ اسدی، حضرت علی علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپؑ نے مذکورہ آیہ مجیدہ کی تفسیر میں فرمایا ”رسول خدا ﷺ منذر یعنی ڈرانے والے ہیں اور میں ہادی ہوں“۔ اسی طرح تفسیر ِ طبری جلد ۳۱ صفحہ ۲۷ پر حضرت ابن ِ عباس ؓ کا بیان ہے کہ جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو رسول اکرم ﷺ نے اپنا ہاتھ اپنے سینے پر رکھا اور فرمایا ”میں منذر ہوں اور ہر قوم کے لیے ایک رہنماء کی ضرورت ہے۔ پھر اپنا ہاتھ حضرت علی علیہ السلام کے سینے پر رکھ کر فرمایا اے علیؑ تم ہادی ہو اور میرے لوگ تمہارے ذریعے سے ہدایت پائیں گے“۔ مذکورہ روایت کو سیوطی نے بھی درِ منثور میں اسی آیت مجیدہ کے ذیل میں نقل کیا ہے اور کہا ہے کہ اس روایت کو ابن مردویہ، ابو نعیم، ابن عساکر اور ابن نجار نے بھی نقل کیا ہے۔
سورہ سجدہ آیت ۸۱ میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’افمن کان مومناکمن کان فاسقا لا یستون“ بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو نا فرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتے“۔ تفسیر طبری جلد ۱۲ صفحہ ۸۶ کے مطابق عطاء بن یسار کہتے ہیں مذکورہ آیت مدینہ میں حضرت علیؑ اور ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی۔ ان کے درمیان کچھ سختی اور گرمی پیدا ہوئی۔ ولید بولا میری زبان رواں تر اور میرا نیزہ تیز تر ہے اور میں دشمن کی صفوں کو الٹنے میں تجھ سے کہیں زیادہ مہارت رکھتا ہوں۔ حیدر کرارؑ نے فرمایا خاموش ہوجا۔ تُو فاسق ہے۔ پس اس بارے میں یہ آیات نازل ہوئیں۔ ”بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہو سکتا ہے جو نافرمان ہو؟ دونوں برابر نہیں ہو سکتا، پس جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال انجام دئیے ان کے لیے (بہشت کے) باغات ہیں۔ یہ سامان ِ ضیافت ان کار گذاریوں کا بدلہ ہے جو وہ دنیا میں کر چکے تھے اور جن لوگوں نے بدکاری کی ان کا ٹھکانا تو بس جہنم ہے کہ وہ جب اس میں سے نکل جانے کا ارادہ کریں گے تو پھر اسی میں دھکیل دئیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اس آگ کا مزہ چکھو جسے تم جھٹلایا کرتے تھے۔ واضح رہے کہ مذکورہ اس مضمون کو زمخشری، سیوطی، واحدی، خطیب بغدادی اور محب طبری نے بھی نقل کیا ہے۔
سورہ ہود آیت ۷۱ میں خالق کائنات کا ارشاد گرامی ہے ”افمن کان علی بینۃ من ربہ و یتلوہ شاھد منہ“ کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اور اس کے پیچھے ہی پیچھے انہی میں سے ایک گواہ ہو۔ سیوطی مذکورہ آیہ مجیدہ کی تفسیر کے ذیل میں لکھتے ہیں، ابن حاتم، ابن مردویہ اور ابو نعیم نے کتاب المعرفہ میں حضرت علی ابن ابی طالبؑ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا ”قریش میں سے کوئی ایسا آدمی نہیں کہ جس کے بارے میں کچھ آیات نازل نہ ہوئی ہوں۔ ایک آدمی نے عرض کی کہ آپ کی شان میں کون سی آیت نازل ہوئی ہے؟ آپؑ نے فرمایا کیا تم نے سورہ ہود کی یہ آیت نہیں پڑھی جس میں ارشاد ہے ”کیا جو شخص اپنے پروردگار کی طرف سے روشن دلیل پر ہو اور اس کے پیچھے ہی پیچھے انہی میں سے ایک گواہ ہو۔ (اس کی تفسیر یہ ہے کہ) ”رسول خدا ﷺ اپنے رب کی روشن دلیل اور میں ان کا گواہ ہوں“۔ واضح رہے یہ روایت ابن مردویہ اور ابن عساکر کے حوالے سے کنزالعمال میں بھی نقل ہوئی ہے۔ سیوطی پھر لکھتے ہیں ”ابن مردویہ اور ابن عساکر نے اس آیہ مجیدہ کت تفسیر کے سلسلے میں حضرت علیؑ نے روایت کی ہے کہ آپؑ نے فرمایا ”رب کی روشن دلیل سے مراد رسول اللہ ﷺ اور ان کے گواہ سے مراد میں ہوں“۔
سورہ تحریم آیت ۴ میں اللہ تعالی کا فرمان ذیشان ہے ”فان اللہ ھو مولٰہ و جبریل و صالح المومنین“ پس خدا اور جبرائیل اور تمام اہل ایمان میں سے نیک شخص ان کے مددگار ہیں۔ مردویہ، اسماء بنت عمیس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا ”میں نے خود رسول اکرم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ”صالح المومنین“ سے مراد علی ابن ابی طالب ہیں “۔ واضح رہے کہ مذکورہ مضمون کو متقی ہندی، ابن حجر ہیتمی اور ابن حجر عسقلانی نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ (کنز العمال جلد ۱ صفحہ ۳۲۔ الصواعق المحرقہ صفحہ ۴۴۱۔ فتح الباری جلد ۳۱ صفحہ ۷۲)۔ ہیثمی مجمع الزوائد جلد ۹ صفحہ ۴۹۱ میں رقمطراز ہیں ”حبیب بن یسار سے مروی ہے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد صحابی رسول ﷺ جناب زید بن ارقم ؓ نے مسجد کوفہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا ”جانتے ہو تم نے کس قدر بھیانک کام انجام دیا؟ میں نے خود آنحضرت ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ”بار الٰہا ان دونوں بچوں (حسنین شریفین) اور صالح المومنین (حضرت علیؑ) کو تیرے سپرد کرتا ہوں“، ایک آدمی نے عبیداللہ ابن زیاد کو یہ خبر دی کہ زید بن ارقم ایسے کہہ رہے تھے تو اس نے کہا ”اس بوڑھے فرتوت کی عقل زائل ہوگئی ہے“۔
سورہ بقرہ آیت ۴۷۲ میں خداوند عالم کا ارشاد ہوتا ہے ” الذین ینفقون اموالھم بالیل والنھار سرا و علانیۃ فلھم اجرھم عند ربھم ولا خوف علیھم ولا ھم یحزنون “جو لوگ رات اور دن میں، چھپا کے یا دکھا کے، خدا کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔ ان کے لیے ان کے پروردگار کے پاس اجر (ثواب) ہے اور (قیامت میں) نہ ان پر کسی قسم کا خوف ہوگا اور نہ وہ آزردہ خاطر ہوں گے۔ ابن اثیر جزری نے اسدالغابہ جلد ۲ صفحہ ۵۲ میں دو طریق سے روایت کی ہے کہ جناب ابن عباس ؓ نے مذکورہ آیہ مجیدہ کے بارے میں کہا کہ یہ آیت حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ ایک دفعہ ان کے پاس چار درہم تھے جن میں سے آپؑ نے ایک درہم کو رات میں، ایک درہم کو دن میں، ایک درہم کو خفیہ طور پر اور ایک درہم کو اعلانیہ طور پر راہِ خدا میں خرچ کیا (تو یہ آیہ مجیدہ نازل ہوئی)۔ اس روایت کو زمخشری نے کشاف، سیوطی نے تفسیر در منثور اور ہیثمی نے مجمع الزوائد میں بھی نقل کیا ہے۔ مذکورہ بالا آیات کا ذکر ”مشتے نمونے از خروارے“ کی مثل ہے۔ تمام مکاتب فکر کے محققین اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن کریم میں حضرت علی علیہ السلام کی شان میں تین سو آیات نازل ہوئی ہیں جن کا تفصیلی ذکر کئی کتب کا احاطہ کرے گا۔
نبی اکرم ﷺ کا فرمان بھی سب کے سامنے ہے کہ قرآن علیؑ کے ساتھ ہے اور علیؑ قرآن کے ساتھ ہے اور یہ دونوں کبھی آپس میں جدا نہیں ہوں گے۔ حضرت علیؑ کی پیروی اور اطاعت پوری امت پر اس لئے بھی واجب ہے کہ اس کا حکم قرآن کریم میں اللہ تعالےٰ نے براہ راست فرمایا ہے جبکہ سینکڑوں احادیث نبوی اور متعدد بار سیرت نبوی کے ذریعے بھی رسول اللہ ﷺ کا حکم ہم تک پہنچا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کے حکم کی اطاعت بھی ہم پر اسی طرح واجب ہے جس طرح اللہ تعالےٰ کا حکم ماننا واجب ہے۔ لہذا اللہ اور رسول ؐ کے احکامات کے تحت حضرت علیؑ کی اطاعت ہم پر واجب ہے۔ امیر المومنین حضرت علیؑ کے یوم شہادت کے موقع پر آئیے اپنے افکار و اعمال کی روشنی میں جائزہ لیں کہ ہم اپنی زندگی میں حضرت علیؑ کی کتنی اطاعت کر رہے ہیں۔ ہمیں احتسابی نظر ڈالنی چاہیے کہ ہم حضرت علیؑ سے دوستی کا تعلق نبھاتے ہوئے آپؑ کے دوستوں سے دوستی اور آپؑ کے دشمنوں سے دشمنی رکھتے ہیں؟ آئیے جائزہ لیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: حضرت علی علیہ السلام علی ابن ابی طالب کے ساتھ ہے اور میں حضرت علی رسول اللہ ﷺ ایک درہم کو کے بارے میں اللہ تعالی ابن مردویہ نقل کیا ہے نے فرمایا نازل ہوئی آیہ مجیدہ روشن دلیل کی اطاعت میں اللہ کا فرمان سے روایت اور ابن نہیں ہو بھی نقل واجب ہے کا حکم کے لیے ہیں کہ
پڑھیں:
نبی کریم ﷺ کی روشن تعلیمات
خاتم النبیین، رحمت اللعالمین، جناب رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ میری امت پر ایسا دور بھی آئے گا کہ انھیں پانچ چیزوں سے بڑی محبت ہوگی، لیکن پانچ چیزیں بھول جائیں گے۔ انھیں دنیا سے محبّت ہوگی اور آخرت کو بھول جائیں گے۔
اپنی عارضی اقامت گاہوں اور گھروں سے محبت کریں گے اور قبروں کو بھول جائیں گے، حالاں کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔ مال و دولت پر فریفتہ ہوں گے مگر یہ بھول جائیں کہ انھیں اس کا حساب بھی دینا ہے، کہ مال کہا ں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا۔ اہل و عیال سے انھیں بڑا پیار ہوگا مگر جنت کے حور و غلمان کو بھول جائیں گے۔ اپنی ذات کی اُنھیں بہت چاہ ہوگی مگر اپنے اﷲ کو بھلا دیں گے۔ وہ مجھ سے بَری ہیں اور میں اُن سے بے زار۔
نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ( مفہوم) کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی بندے کو پانچ چیزیں عطا فرماتا ہے تو ان کے ضمن میں پانچ نعمتیں مزید مرحمت فرماتا ہے۔ جیسے شکر گزاری بخشتا ہے تو اسے نعمتوں میں اور ترقی بھی بخشتا ہے۔ جسے اپنی بارگاہ میں دعا و عرضی حاجت کی توفیق دیتا ہے تو اس کی قبولیت کا سامان بھی مہیا فرما دیتا ہے۔ جسے استغفار اور طلب مغفرت کا شوق عنایت فرماتا ہے اور اس کی بخشش کا بھی انتظام فرما دیتا ہے، جسے توبہ و انابت الہی کا شوق دیتا ہے اسے قبولیت سے بھی مشرف فرما دیتا ہے اور جسے راہ خدا میں (خلوص قلب، صدق نیّت سے) صدقہ و خیرات کا جذبہ مرحمت فرماتا ہے تو اسے قبولیت سے بھی بہر مند فرما تا ہے۔
ایک ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص پانچ لوگوں (میں کسی ایک) کی اہانت و تحقیر کرے گا وہ پانچ چیزوں میں نقصان اُٹھائے گا۔ جو شخص علمائے حق کو ذلیل و حقیر جانے گا وہ اپنے دین کا نقصان کرے گا۔ جو شخص امراء و حکام کی اہانت کرے گا وہ اپنی دنیا میں نقصان اُٹھائے گا۔ جو شخص اپنے ہمسایوں اور پڑوسیوں کو ذلت کی نگاہ سے دیکھے گا وہ (اُن) فائدوں سے نقصان میں رہے گا (جو پڑوسیوں سے حاصل ہوتے ہیں) اور جو شخص اپنے رشتہ داروں کی تحقیر کرے گا وہ اُلفت و محبت سے فائدہ نہ اُٹھا سکے گا اور جو شخص اپنے اہل و عیال کو ذلیل و رسوا کرے گا وہ اپنی خاندانی زندگی سے فیض نہیں پاسکے گا۔
سیدنا صدیق اکبرؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ظلمتیں پانچ قسم کی ہیں اور ان ظلمتوں کو مٹا دینے والے چراغ بھی پانچ طرح کے ہیں۔ دنیا کی محبت میں ڈوب جانا ایک تاریکی ہے اور اس کا چراغ خدا ترسی اور پرہیز گاری ہے۔ نافرمانی و گناہ ایک تاریکی ہے اور اس کا چراغ خدا سے لو لگانا اور توبہ کرنا ہے۔ قبر بھی ایک ظلمت کدہ ہے، جہاں اندھیرا ہے اور اس میں روشنی کا سامان کلمہ طیبہ کا ورد ہے۔ آخرت کا گھر بھی تاریکیوں سے گھرا ہُوا ہے اور اس کا چراغ نیک اعمال ہیں۔ اور پل صراط بھی ایک مقام تاریک ہے جس کا چراغ حقانیت اسلام پر یقین کامل ہے۔
حضرت عبداﷲ بن العاصؓ کا قول ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جو ان کا عادی ہو جائے تو دنیا و آخرت دونوں میں نیک بخت بن جائے۔ وقتاً فوقتاً کلمہ طیبہ کا ورد کرتا رہے۔ کسی ناگہانی آفت میں مبتلا ہو جائے تو یہ کلمہ پڑھتا رہے: اِنا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ ’’ہم اور ہما را سب کچھ اﷲ کی ملک ہے اور ہمیں اسی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ اور، ولاحول ولاقوہ الا باﷲ العلی العظیم ۔ مفہوم: ’’اور نہیں ہے گناہ سے بچنے کی طاقت اور نہ نیکی کرنے کی قوت مگر اﷲ کی طرف سے ہے۔‘‘ جب کسی نعمت سے بہر ور ہوتو شکر بجا لائے اور الحمدﷲ پڑھے۔ جب کسی کام کا آغاز کرے تو بسم اﷲ پڑھا کر ے، اور جب برائی سرزد ہوجائے تو توبہ کرے اور زبان سے یہ کلمے ادا کرے: میں اﷲ سے بخشش چاہتا ہوں اور اس کی بار گاہ میں رجوع کرتا ہو ں۔
مسکینوں سے محبت کرنے والا جنّت میں نبی اکرم ﷺ کا ساتھی ہوگا۔اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات میں باہمی تعارف و پہچان کے لیے انسانوں کو جس طرح مختلف قبیلوں، قوموں اور خاندانوں میں پیدا کیا۔ اسی طرح بعض انتظامی و تکوینی حکمتوں اور آزمائشوں کے تحت ان میں مال و دولت اور پیشہ و منصب کے اعتبار سے فرق رکھا۔ کسی کو مال دار بنایا تو کسی کو نادار، کسی کو حاکم تو کسی کو محکوم۔ لیکن ربانی تعلیمات اور الوہی ہدایت سے بے خبر انسانوں نے اس تفاوت کو عزت و بڑائی کا معیار بنا لیا، مادی وسائل کی فراوانی اور جاہ منصب کے نشے میں مست لوگوں نے غریب و مفلس اور محکوم لوگوں کو ناصرف ذلیل و حقیر جانا بل کہ ان بے چاروں کو ہر طرح کے مظالم اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اس عالم میں جہاں اور بہت سی خرابیاں تھی وہاں ایک بہت بڑا فساد یہ تھا کہ دنیا میں ہر طرف غریب و مفلس، مسکین و بے کس لوگ ناصرف معاشی و معاشرتی عزت سے محروم تھے بل کہ وہ ظلم کی چکی میں پس رہے تھے اور ان کا پرسان حال نہ تھا۔ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کی چابیاں رکھنے کے باوجود فقراء کی دل جوئی کے لیے ساری زندگی فقر و فاقہ میں گزاری، خندقیں کھودیں، بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھے، دو ماہ تک کاشانہ مقدس میں آگ نہ جلی، قرض لیا اور ہر وہ کام کیا جس کا عام طور پر غرباء کو سامنا ہوتا ہے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ نیکی کرے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بیواؤں اور محتاجوں کی خدمت و اعانت کرنے والا اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے برابر ہے یا اس نیکوکار کے برابر ہے جو عمر بھر دن کے روزے اور ساری رات عبادت کرے۔ (بخاری)
حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو نصیحت فرمائی کہ اے عائشہ! کسی بھی محتاج و ضرورت مند کو مایوس نہ لوٹانا خواہ کھجور کی گٹھلی ہی کیوں نہ دے سکو۔ مزید یہ کے غریب اور محتاج لوگوں سے محبت کیا کرو اور ان سے قربت حاصل کیا کرو۔ بے شک! (اس کے صلے میں) اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت تمھیں اپنے قُرب سے نوازیں گے۔
مذکورہ بالا روایت ہمیں متوجہ کررہی ہیں کہ رب کریم کی رضا کے طالبو! اس کے بندوں سے محبت کرو۔ اس کی مخلوق کی مدد کرو۔ اس کے دکھ اور پریشان حال لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرو۔ یہی مقصود عبادت ہے اور یہی منشاء دین ہے ۔ ایک ماں کو اپنی اولاد سے جتنی محبت ہوتی ہے باری تعالیٰ کو اس سے کئی گناہ زیادہ اپنی مخلوق سے محبت و شفقت ہوتی ہے۔ وہ ذات اسی سے زیادہ پیار کرے گی جو اس کے بندوں کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ سمجھتے ہوئے ان کی دل جوئی اور غم خواری کرے گا۔ اس لیے تاج دار کائنات ﷺ نے انسانوں میں اُس شخص کو افضل و بہتر قرار دیا جو خالق کائنات کے بندوں کا زیادہ خیر خواہ اور نفع بخش ہوتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔
غریبوں کے والی، فقیروں کے غم گسار آقا کریم ﷺ کی عادت کریمہ یہ تھی کہ مساکین کی عیادت فرماتے، فقراء کے پاس مجلس کرتے اور کوئی غلام بھی دعوت دیتا تو اسے قبول فرماتے۔ تاج دار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھا لے اور اُس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا پڑا ہو۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ معلم انسانیت ﷺ ہمسایوں کا اس قدر خیال رکھنے کی تعلیم دی کہ کوئی بھوکا نہ سوئے لیکن آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اتنے بے نیا ز اور لاپروا ہیں کہ ہمسائے کی بھو ک دور کرنا تو دور کی بات ہے ہمیں سال ہا سال تک اتنا بھی پتا نہیں ہوتا کہ ہمارے دائیں بائیں یا فلیٹس کی صورت میں اوپر نیچے کون رہتا ہے ؟ آج کے دور فتن اور مشینی دور نے دنیا کو تو ’’گلوبل ولیج‘‘ بنا دیا ہے لیکن پاس رہنے والوں سے غافل کردیا ہے۔ یہی تباہی و بربادی کا راستہ ہے جسے ہم نے ہر حال میں ترک کرنا ہوگا۔
اﷲ تعالی ہمیں اچھا مومن بنائے اور رسالت مآب ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اصول زندگی بنانے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین