سرفراز بگٹی کی مولانا فضل الرحمٰن سے ملاقات، امن و امان کی صورتحال پر گفتگو
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
جے یو آئی سربراہ مولانا فضل الرحمٰن اور وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی ملاقات میں بلوچستان کی مجموعی صورتحال، امن و امان اور ترقی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اسلام ٹائمز۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سرفراز بگٹی نے جمعیت علمائے اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان سے کوئٹہ میں ملاقات کی۔ ملاقات میں جے یو آئی بلوچستان کی صوبائی قیادت بھی شریک تھی۔ اس موقع پر بلوچستان کی مجموعی صورتحال، امن و امان اور ترقی کے امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی نے اس موقع پر کہا کہ صوبے میں دیرپا امن اور ترقی کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنایا جائے گا اور بلوچستان کو پرامن و خوشحال صوبہ بنانے کے لئے ہر ممکن اقدامات کئے جائیں گے۔ ملاقات کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس (سابق ٹوئٹر) پر اپنے پیغام میں کہا کہ حکومت بلوچستان ترقی اور استحکام کے لئے پرعزم ہے اور تمام مکاتب فکر کے ساتھ مشاورت جاری رکھی جائے گی۔
.ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: سرفراز بگٹی
پڑھیں:
مولانا فضل الرحمٰن کے غیر فعال مجلس عمل کے رہنماؤں سے رابطے
مولانا فضل الرحمٰن—فائل فوٹوجمعیت علمائے اسلام ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے غیر فعال متحدہ مجلس عمل کے رہنماؤں سے رابطے کیے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ مولانا فضل الرحمٰن نے متحدہ مجلسِ عمل کے رہنماؤں کو اپنی رہائش گاہ پر مدعو کر لیا۔
علامہ سید ساجد علی نقوی وفد کے ہمراہ مولانا فضل الرحمٰن کی رہائش گاہ پہنچ گئے، علامہ عارف واحدی سمیت دیگر رہنما وفد میں شامل تھے۔
سر براہ جے یو آئی نے کہا کہ لوگوں کو تنگ کرنے کے لیے قانون سازی کی جاتی ہے۔
مولانا فضل الرحمٰن نے علامہ ساجد نقوی سمیت ایم ایم اے کی سابقہ قیادت کو مدعو کیا تھا، یہ رابطے غیر فعال ایم ایم اے کو پھر سیاسی میدان میں اتارنے کی کاوشوں کا حصہ ہیں۔
مولانا فضل الرحمٰن نے سربراہ جمعیتِ اہلحدیث حافظ عبد الکریم اور مولانا اویس نورانی سے بھی ٹیلیفونک رابطے کیے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ جے یو آئی کی طرف سے تاحال جماعتِ اسلامی کو مدعو نہیں کیا گیا، متحدہ مجلسِ عمل کی فعالیت، غیر فعالیت کے اسباب سمیت دیگر امور زیرِ غور آئیں گے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملاقاتوں میں مجموعی سیاسی صورتِ حال سمیت غزہ اور خطےکی صورتِ حال بھی زیرِ غور آئے گی۔