مصر، اہرام گیزا کے نیچے پراسرار وسیع و اریض شہر دریافت
اشاعت کی تاریخ: 24th, March 2025 GMT
اطالوی اور اسکاٹش محققین نے مصر کے اہرامِ گیزا، جسے اہرام خوفو کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کے نیچے (زیر زمین) وسیع شہر دریافت کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
محققین کے مطابق یاہرام گیزا کے نیچے یہ شہر 6 ہزار ,500 فٹ سے زیادہ رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور اوپر موجود اہرام سے 10 گنا بڑا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھاری مشینری کے بغیر اہرام مصر کیسے تعمیر ہوئے، معمہ حل ہوگیا
محققین کی جانب سے ریڈار پلسز کی مدد سے اہرام کے نیچے کی گہرائی میں اعلیٰ معیار کی کھینچی گئی تصاویر کے مطابق اہرام کی بنیاد سے 2 ہزار 100 فٹ نیچے 8 بڑے بیلن نما ڈھانچے موجود ہیں،اس کے علاوہ، 4 ہزار فٹ کی گہرائی پر مزید نامعلوم ڈھانچوں کے ہونے کا بھی اشارہ دیا گیا ہے۔
دوسری جانب آزاد ماہرین نے اس تحقیق پر سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ ریڈار ٹیکنالوجی اتنی گہرائی تک زمین کے اندر جھانکنے کے قابل نہیں ہے۔
یونیورسٹی آف ڈینور کے ریڈار ماہر پروفیسر لارنس کونیرز نے کہا کہ زیرِ زمین شہر کا تصور ’بہت بڑا مبالغہ‘ ہے۔ ’ اہرام کے نیچے چھوٹے ڈھانچے، جیسے کہ سرنگیں اور کمرے، موجود ہوسکتے ہیں کیونکہ یہ جگہ قدیم لوگوں کے لیے خاص تھی۔ ‘
یہ بھی پڑھیں: اہرام مصر کا ایک اور پوشیدہ راز دریافت
اہرامِ گیزا میں 3 قدیم اہرام شامل ہیں: خوفو، خفرع اور منکورے۔ یہ اہرام 4,500 سال پہلے تعمیر کیے گئے تھے اور ہر ایک ایک فرعون کی یادگار ہے۔ سب سے بڑا اہرام، خوفو کا عظیم اہرام، 480 فٹ اونچا اور 750 فٹ چوڑا ہے۔
اہرامِ گیزا کی بنیاد میں 5 یکساں کثیر المنزلہ انفرااسٹرکچرز دریافت ہوئے ہیں جو ایک دوسرے سے جُڑے ہوئے ہیں، یہ 8 انتہائی لمبے کنویں ہیں جن کے ارد گرد سیڑھیاں لپٹی ہوئی ہیں، یہ سیڑھیاں سطح سے 648 میٹر نیچے جاتی ہیں۔
یہ کنویں آخر میں 2 بڑے مکعب نما کمروں میں مل جاتے ہیں، ہر کمرے کا سائز 80 بائی 80 میٹر ہے، یہ دریافت اُس روایتی تصور کو چیلنج کرتی ہے کہ اہرامِ مصر صرف شاہی مقبرے ہیں۔
ماضی میں محققین کا خیال رہا ہے کہ ہوسکتا ہے یہ اہرام توانائی پیدا کرنے کے لیے بنائے گئے ہوں، یہ نظریہ مشہور سائنسدان نکولا ٹیسلا اور انجینئر کرسٹوفر Dunn کے خیالات سے ملتا جلتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جرمنی ہمارا قدیم مجسمہ واپس کرے، مصریوں کا اصرار
نکولا ٹیسلا کا ماننا تھا کہ اہرامِ مصر زمین کی قدرتی توانائی کو جمع اور استعمال کر سکتے ہیں۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ دنیا کے عظیم عجوبے کو اس طرح ڈیزائن اور بنایا گیا تھا کہ یہ توانائی کو ذخیرہ کرسکے۔
ریٹائرڈ ایرو اسپیس انجینئر کرسٹوفر ڈن نے جوروگن نے کہ گیزا پاور پلانٹ میں 2 کیمیکلز ہیں جو چیمبر میں آپس میں ملائے جاتے تھے اور وہ ہائیڈروجن (توانائی پیدا کرتے تھے) مجھے نہیں لگتا کہ اس اہرام کا کوئی حصہ ایسا ہے جس نے عملی کام نہ کیا ہو۔
اس خیال کی وضاحت کے لیے، توانائی پیدا یا تباہ نہیں کی جا سکتی، اس لیے جب ہم کوئلہ جلاتے ہیں یا اپنی چھتوں پر سولر پینل لگاتے ہیں، یا دیوہیکل ونڈ ٹربائنز بناتے ہیں تو اس سے ہمیں توانائی ملتی ہے، یہ وہی ہے جو کرسٹوفر کا خیال ہے کہ مصری اہرام کے ساتھ کر رہے تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news اہرام خوفو اہرام گیزا توانائی مصر.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اہرام خوفو اہرام گیزا توانائی کے نیچے کے لیے
پڑھیں:
ماحول دوست توانائی کے انقلاب کو روکنا اب ناممکن، یو این چیف
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 23 اپریل 2025ء) اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ قابل تجدید توانائی کی جانب منتقلی موسمیاتی تباہی سے بچنے کی راہ اور ہر ملک کے لیے بہت بڑے معاشی موقع کی حیثیت رکھتی ہے۔ دنیا اس راستے پر تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور ماحول دوست توانائی کے انقلاب کو روکا نہیں جا سکے گا۔
بڑی معیشتوں اور موسمیاتی تبدیلی سے متاثرہ 17 ممالک کے رہنماؤں کی ورچوئل کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ماحول دوست توانائی کا شعبہ ترقی پا رہا ہے جس کے ذریعے نوکریاں تخلیق ہو رہی ہیں، مسابقت کو فروغ مل رہا ہے اور دنیا بھر میں ترقی ہو رہی ہے۔
قابل تجدید توانائی کی قیمتوں میں غیرمعمولی کمی آئی ہے اور یہ توانائی کے شعبے میں خودمختاری اور تحفظ کے حصول کا یقینی ترین راستہ ہے جس پر چل کر معدنی ایندھن کی مہنگی درآمدات پر انحصار ختم کیا جا سکتا ہے۔(جاری ہے)
Tweet URL
ان کا کہنا تھا کہ اگر معدنی ایندھن پر انحصار ختم کرنے سمیت گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں کمی لانے کے موجودہ منصوبوں پر عمل کیا جائے تو رواں صدی میں عالمی حدت میں اضافے پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔
اس کانفرنس کا مقصد برازیل میں رواں سال ہونے والی اقوام متحدہ کی عالمی موسمیاتی کانفرنس (کاپ 30) سے قبل عالمگیر موسمیاتی اقدامات سے متعلق عزائم کو مضبوط بنانا ہے۔ اس کا انعقاد سیکرٹری جنرل اور برازیل کے صدر لولا ڈا سلوا کی مشترکہ حکمت عملی کا حصہ ہے جس کے تحت پیرس معاہدے کے تحت عالمگیر موسمیاتی اقدامات میں بہتری لائی جانا اور تمام ممالک کی اپنے موسمیاتی منصوبوں کے اعلان کے لیے حوصلہ افزائی کرنا ہے۔
بند کمرے میں دو گھنٹے پر مشتمل اس کانفرنس میں چین، یورپی یونین، افریقن یونین، جنوبی ایشیائی ممالک کی انجمن اور چھوٹے جزائر پر مشتمل ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی بھی موجود تھی۔
نئے موسمیاتی عزائماس موقع پر سیکرٹری جنرل نے عالمی رہنماؤں پر زور دیا کہ وہ ہر شعبے سے ہر طرح کی گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو روکنے اور اس ضمن میں 2050 تک نیٹ زیرو کے ہدف کو حاصل کرنے سے متعلق اپنے قومی منصوبے بروقت جمع کرائیں۔
انہوں نے کہا کہ بہت سے ممالک نے جلد از جلد اپنے آئندہ موسمیاتی منصوبے جمع کرانے کے وعدے کیے ہیں جسے امید کا مضبوط پیغام سمجھا جا سکتا ہے۔ چین کے صدر شی جن پنگ نے بھی کانفرنس کے دوران تصدیق کی ہے کہ ان کے ملک نے اپنے ہاں آئندہ موسمیاتی اقدامات سے متعلق جو منصوبے بنائے ہیں وہ اس کی معیشت کے تمام شعبوں اور ہر طرح کی گرین ہاؤس گیس کا احاطہ کرتے ہیں۔
ایسے وعدوں کی بدولت آئندہ دہائی میں موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے موثر لائحہ عمل کی تیاری اور معدنی ایندھن سے قابل تجدید توانائی کی جانب منصفانہ منتقلی کی رفتار بڑھانے میں مدد ملے گی۔
انصاف اور مالی وسائل کی فراہمیسیکرٹری جنرل نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی مسائل سے نمٹنے کے لیے مزید مدد فراہم کرنےکی ضرورت ہے کیونکہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں ان کا کردار بہت کم ہے جبکہ یہ ملک موسمیاتی تبدیلی کے اثرات کی بھاری قیمت چکا رہے ہیں۔
افریقہ اور ترقی پذیر دنیا کے دیگر حصے تیزی سے گرم ہو رہے ہیں اور الکاہل کے جزائر کو سمندری سطح میں غیرمعمولی رفتار سے اضافے کا سامنا ہے۔انہوں نے امیر ممالک سے کہا کہ وہ 2035 تک ترقی پذیر ممالک کو سالانہ 1.3 ٹریلین ڈالر کی فراہمی کے لیے قابل بھروسہ لائحہ عمل پیش کریں، رواں سال موسمیاتی تبدیلی سے مطابقت پیدا کرنے کے لیے انہیں 40 ارب ڈالر فراہم کریں اور موسمیاتی نقصان و تباہی کے فنڈ میں مزید حصہ ڈالیں۔
سیکرٹری جنرل نے کاپ 30 سے چند ہفتے پہلے ستمبر میں اقوام متحدہ کا ایک اعلیٰ سطحی اجلاس بلانے کا اعلان بھی کیا جس میں موسمیاتی مںصوبوں اور اس مقصد کے لیے مالیاتی وسائل کی فراہمی پر پیش رفت کا جائزہ لیا جائے گا۔