UrduPoint:
2025-07-25@00:57:49 GMT

بچوں کی کم ہوتی شرح اموات کو وسائل کی کمی سے خطرہ، یونیسف

اشاعت کی تاریخ: 25th, March 2025 GMT

بچوں کی کم ہوتی شرح اموات کو وسائل کی کمی سے خطرہ، یونیسف

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 25 مارچ 2025ء) دنیا بھر میں پانچ سال سے کم عمر کے بچوں میں شرح اموات اب تک کی کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہے لیکن امدادی وسائل کی شدید قلت کے باعث اس پیش رفت کو خطرات لاحق ہیں۔

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے اطفال (یونیسف) نے بتایا ہے کہ 2023 کے دوران دنیا بھر میں پانچ سال کی عمر سے پہلے انتقال کر جانے والے بچوں کی تعداد 48 لاکھ تھی جبکہ 19 لاکھ بچوں کی پیدائش مردہ حالت میں ہوئی اور یہ تعداد ماضی کے مقابلے میں بہت کم ہے۔

Tweet URL

یونیسف، عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) اور بچوں میں شرح اموات کی نگرانی کرنے والے اقوام متحدہ کے بین الاداری نیٹ ورک (آئی جی ایم ای) نے خبردار کیا ہے کہ امدادی مالی وسائل میں آنے والی کمی، طبی نظام کو لاحق مسائل اور علاقائی عدم مساوات کے باعث یہ کامیابی ضائع ہو سکتی ہے۔

(جاری ہے)

یونیسف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کیتھرین رسل نے کہا ہے کہ آج لاکھوں بچے ویکسین، غذائیت، صاف پانی اور صحت و صفائی کی سہولیات مہیا ہونے کی بدولت ہی زندہ ہیں۔ قابل انسداد اموات کی تعداد کو کم ترین سطح پر لانا بڑی کامیابی ہے لیکن پالیسی کے حوالے سے درست فیصلوں اور خاطرخواہ سرمایہ کاری کے بغیر اسے برقرار نہیں رکھا جا سکے گا۔

قابل انسداد اموات کے اسباب

یونیسف کے مطابق، پانچ سال سے کم عمر کے بچوں کی نصف اموات پیدائش کے پہلے مہینے میں ہوتی ہیں۔

قبل از وقت پیدائش اور زچگی کی پیچیدگیاں ان کا بنیادی سبب ہیں۔

جو بچے پیدائش کے فوری بعد موت کے منہ میں جانے سے بچ جاتے ہیں انہیں پانچ سال کی عمر سے پہلے لاحق ہونے والے جان لیوا خطرات میں نمونیہ، ملیریا اور اسہال جیسی متعدی بیماریاں نمایاں ہیں۔ علاوہ ازیں، مردہ پیدا ہونے والے نصف بچوں کی اموات دوران زچگی ہوتی ہیں۔ ماؤں کے جسم میں انفیکشن، طویل یا پیچیدہ زچگی اور بروقت علاج میسر نہ آنا اس کے بڑے اسباب ہیں۔

ماہرین نے کہا ہے کہ زچہ بچہ کو معیاری طبی نگہداشت کی فراہمی سے ان اموات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

غریب ممالک کا مسئلہ

کسی بچے کی بقا کا دارومدار اس بات پر ہوتا ہے کہ وہ کون سے علاقے میں پیدا ہوا ہے۔ کم آمدنی والے ممالک میں ضروری خدمات، حفاظتی ٹیکوں اور علاج معالجے تک رسائی محدود ہوتی ہے جس کے باعث وہاں پیدائش کے فوری بعد اور پانچ سال کی عمر سے پہلے اموات کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔

یونیسف کے مطابق، ایسے علاقوں میں بچوں کو پانچ سال کی عمر سے پہلے موت کا شکار ہونے کے خطرات باوسائل ممالک کی نسبت 80 گنا زیادہ ہوتے ہیں۔ علاوہ ازیں، ان ممالک میں دیہی آبادیوں اور ناخواندہ ماؤں کے بچوں کو مقابلتاً زیادہ خطرات درپیش رہتے ہیں۔

مردہ بچوں کی پیدائش کے حوالے سے بھی یہی صورتحال ہے۔ کم آمدنی والے ممالک میں حاملہ خواتین کے لیے ایسی اموات کا خدشہ بلند آمدنی والے ممالک سے تقریباً آٹھ گنا زیادہ ہوتا ہے۔

شرح اموات اور علاقائی تخمینے

ذیلی صحارا افریقہ کے بچوں میں پانچ سال کی عمر سے پہلے اموات کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ ہے جہاں پیدا ہونے والے ہر 1,000 میں سے 69 بچے اس عمر کو پہنچنے سے پہلے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ مجموعی طور پر براعظم افریقہ میں یہ شرح 63 ہے۔

یورپ میں ہر 1,000 بچوں میں چار، شمالی امریکہ میں 6، ایشیا میں 26، لاطینی امریکہ اور غرب الہند میں 16 اور اوشیانا خطے میں 19 پانچ سال کی عمر سے پہلے انتقال کر جاتے ہیں۔

مردہ بچوں کی پیدائش کے حوالے سے بھی ذیلی صحارا افریقہ کے حالات دیگر خطوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ خراب ہیں جہاں ہر 1,000 بچوں میں یہ شرح 22.

2 ہے۔ اس سے برعکس شمالی امریکہ میں یہ شرح 2.7 اور یورپ میں 2.9 ریکارڈ کی گئی ہے۔

یونیسف نے بتایا ہے کہ براعظم ایشیا میں ہر 1,000 نومولود بچوں میں 12.3 پانچ سال کی عمر کو نہیں پہنچ پاتے جبکہ لاطینی امریکہ اور غرب الہند میں یہ شرح 7.4، اوشیانا میں 9.5 اور افریقہ میں 21 ہے۔

بگڑتے طبی مسائل

بچوں کی بقا کے لیے چلائے جانے والے امدادی پروگراموں کے لیے وسائل کی کمی نے اس عدم مساوات کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ وسائل کی کمی کے باعث طبی کارکنوں کی بھی کمی ہو گئی ہے، مراکز صحت بند ہو رہے ہیں، حفاظتی ٹیکوں کی مہمات میں خلل آ رہا ہے اور ملیریا کے علاج کی ادویات سمیت ضروری طبی سازوسامان کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔

انسانی بحرانوں کا شکار، قرضوں کے بھاری بوجھ تلے دبے اور پہلے سے ہی بچوں میں بلند شرح اموات والے ممالک ان حالات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔

'ڈبلیو ایچ او' کے ڈائریکٹر جنرل ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے بچوں کی زندگیوں اور صحت کو تحفظ دینے کے لیے عالمی برادری سے تعاون بڑھانے پر زور دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ملیریا پر قابو پانے، بچوں کی مردہ حالت میں پیدائش کو روکنے اور ان کی بہتر نگہداشت کے اقدامات کی بدولت لاکھوں خاندانوں کی زندگی میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پانچ سال کی عمر سے پہلے والے ممالک میں یہ شرح شرح اموات پیدائش کے بچوں میں وسائل کی بچوں کی پیدا ہو کے باعث کے بچوں کے لیے گئی ہے

پڑھیں:

نبی کریم ﷺ کی روشن تعلیمات

خاتم النبیین، رحمت اللعالمین، جناب رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ میری امت پر ایسا دور بھی آئے گا کہ انھیں پانچ چیزوں سے بڑی محبت ہوگی، لیکن پانچ چیزیں بھول جائیں گے۔ انھیں دنیا سے محبّت ہوگی اور آخرت کو بھول جائیں گے۔

اپنی عارضی اقامت گاہوں اور گھروں سے محبت کریں گے اور قبروں کو بھول جائیں گے، حالاں کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔ مال و دولت پر فریفتہ ہوں گے مگر یہ بھول جائیں کہ انھیں اس کا حساب بھی دینا ہے، کہ مال کہا ں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا۔ اہل و عیال سے انھیں بڑا پیار ہوگا مگر جنت کے حور و غلمان کو بھول جائیں گے۔ اپنی ذات کی اُنھیں بہت چاہ ہوگی مگر اپنے اﷲ کو بھلا دیں گے۔ وہ مجھ سے بَری ہیں اور میں اُن سے بے زار۔

نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ( مفہوم) کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی بندے کو پانچ چیزیں عطا فرماتا ہے تو ان کے ضمن میں پانچ نعمتیں مزید مرحمت فرماتا ہے۔ جیسے شکر گزاری بخشتا ہے تو اسے نعمتوں میں اور ترقی بھی بخشتا ہے۔ جسے اپنی بارگاہ میں دعا و عرضی حاجت کی توفیق دیتا ہے تو اس کی قبولیت کا سامان بھی مہیا فرما دیتا ہے۔ جسے استغفار اور طلب مغفرت کا شوق عنایت فرماتا ہے اور اس کی بخشش کا بھی انتظام فرما دیتا ہے، جسے توبہ و انابت الہی کا شوق دیتا ہے اسے قبولیت سے بھی مشرف فرما دیتا ہے اور جسے راہ خدا میں (خلوص قلب، صدق نیّت سے) صدقہ و خیرات کا جذبہ مرحمت فرماتا ہے تو اسے قبولیت سے بھی بہر مند فرما تا ہے۔

ایک ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص پانچ لوگوں (میں کسی ایک) کی اہانت و تحقیر کرے گا وہ پانچ چیزوں میں نقصان اُٹھائے گا۔ جو شخص علمائے حق کو ذلیل و حقیر جانے گا وہ اپنے دین کا نقصان کرے گا۔ جو شخص امراء و حکام کی اہانت کرے گا وہ اپنی دنیا میں نقصان اُٹھائے گا۔ جو شخص اپنے ہمسایوں اور پڑوسیوں کو ذلت کی نگاہ سے دیکھے گا وہ (اُن) فائدوں سے نقصان میں رہے گا (جو پڑوسیوں سے حاصل ہوتے ہیں) اور جو شخص اپنے رشتہ داروں کی تحقیر کرے گا وہ اُلفت و محبت سے فائدہ نہ اُٹھا سکے گا اور جو شخص اپنے اہل و عیال کو ذلیل و رسوا کرے گا وہ اپنی خاندانی زندگی سے فیض نہیں پاسکے گا۔

سیدنا صدیق اکبرؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ظلمتیں پانچ قسم کی ہیں اور ان ظلمتوں کو مٹا دینے والے چراغ بھی پانچ طرح کے ہیں۔ دنیا کی محبت میں ڈوب جانا ایک تاریکی ہے اور اس کا چراغ خدا ترسی اور پرہیز گاری ہے۔ نافرمانی و گناہ ایک تاریکی ہے اور اس کا چراغ خدا سے لو لگانا اور توبہ کرنا ہے۔ قبر بھی ایک ظلمت کدہ ہے، جہاں اندھیرا ہے اور اس میں روشنی کا سامان کلمہ طیبہ کا ورد ہے۔ آخرت کا گھر بھی تاریکیوں سے گھرا ہُوا ہے اور اس کا چراغ نیک اعمال ہیں۔ اور پل صراط بھی ایک مقام تاریک ہے جس کا چراغ حقانیت اسلام پر یقین کامل ہے۔

حضرت عبداﷲ بن العاصؓ کا قول ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جو ان کا عادی ہو جائے تو دنیا و آخرت دونوں میں نیک بخت بن جائے۔ وقتاً فوقتاً کلمہ طیبہ کا ورد کرتا رہے۔ کسی ناگہانی آفت میں مبتلا ہو جائے تو یہ کلمہ پڑھتا رہے: اِنا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ ’’ہم اور ہما را سب کچھ اﷲ کی ملک ہے اور ہمیں اسی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ اور، ولاحول ولاقوہ الا باﷲ العلی العظیم ۔ مفہوم: ’’اور نہیں ہے گناہ سے بچنے کی طاقت اور نہ نیکی کرنے کی قوت مگر اﷲ کی طرف سے ہے۔‘‘ جب کسی نعمت سے بہر ور ہوتو شکر بجا لائے اور الحمدﷲ پڑھے۔ جب کسی کام کا آغاز کرے تو بسم اﷲ پڑھا کر ے، اور جب برائی سرزد ہوجائے تو توبہ کرے اور زبان سے یہ کلمے ادا کرے: میں اﷲ سے بخشش چاہتا ہوں اور اس کی بار گاہ میں رجوع کرتا ہو ں۔

مسکینوں سے محبت کرنے والا جنّت میں نبی اکرم ﷺ کا ساتھی ہوگا۔اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات میں باہمی تعارف و پہچان کے لیے انسانوں کو جس طرح مختلف قبیلوں، قوموں اور خاندانوں میں پیدا کیا۔ اسی طرح بعض انتظامی و تکوینی حکمتوں اور آزمائشوں کے تحت ان میں مال و دولت اور پیشہ و منصب کے اعتبار سے فرق رکھا۔ کسی کو مال دار بنایا تو کسی کو نادار، کسی کو حاکم تو کسی کو محکوم۔ لیکن ربانی تعلیمات اور الوہی ہدایت سے بے خبر انسانوں نے اس تفاوت کو عزت و بڑائی کا معیار بنا لیا، مادی وسائل کی فراوانی اور جاہ منصب کے نشے میں مست لوگوں نے غریب و مفلس اور محکوم لوگوں کو ناصرف ذلیل و حقیر جانا بل کہ ان بے چاروں کو ہر طرح کے مظالم اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اس عالم میں جہاں اور بہت سی خرابیاں تھی وہاں ایک بہت بڑا فساد یہ تھا کہ دنیا میں ہر طرف غریب و مفلس، مسکین و بے کس لوگ ناصرف معاشی و معاشرتی عزت سے محروم تھے بل کہ وہ ظلم کی چکی میں پس رہے تھے اور ان کا پرسان حال نہ تھا۔ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کی چابیاں رکھنے کے باوجود فقراء کی دل جوئی کے لیے ساری زندگی فقر و فاقہ میں گزاری، خندقیں کھودیں، بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھے، دو ماہ تک کاشانہ مقدس میں آگ نہ جلی، قرض لیا اور ہر وہ کام کیا جس کا عام طور پر غرباء کو سامنا ہوتا ہے۔

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ نیکی کرے۔

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بیواؤں اور محتاجوں کی خدمت و اعانت کرنے والا اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے برابر ہے یا اس نیکوکار کے برابر ہے جو عمر بھر دن کے روزے اور ساری رات عبادت کرے۔ (بخاری)

حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو نصیحت فرمائی کہ اے عائشہ! کسی بھی محتاج و ضرورت مند کو مایوس نہ لوٹانا خواہ کھجور کی گٹھلی ہی کیوں نہ دے سکو۔ مزید یہ کے غریب اور محتاج لوگوں سے محبت کیا کرو اور ان سے قربت حاصل کیا کرو۔ بے شک! (اس کے صلے میں) اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت تمھیں اپنے قُرب سے نوازیں گے۔

مذکورہ بالا روایت ہمیں متوجہ کررہی ہیں کہ رب کریم کی رضا کے طالبو! اس کے بندوں سے محبت کرو۔ اس کی مخلوق کی مدد کرو۔ اس کے دکھ اور پریشان حال لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرو۔ یہی مقصود عبادت ہے اور یہی منشاء دین ہے ۔ ایک ماں کو اپنی اولاد سے جتنی محبت ہوتی ہے باری تعالیٰ کو اس سے کئی گناہ زیادہ اپنی مخلوق سے محبت و شفقت ہوتی ہے۔ وہ ذات اسی سے زیادہ پیار کرے گی جو اس کے بندوں کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ سمجھتے ہوئے ان کی دل جوئی اور غم خواری کرے گا۔ اس لیے تاج دار کائنات ﷺ نے انسانوں میں اُس شخص کو افضل و بہتر قرار دیا جو خالق کائنات کے بندوں کا زیادہ خیر خواہ اور نفع بخش ہوتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔

غریبوں کے والی، فقیروں کے غم گسار آقا کریم ﷺ کی عادت کریمہ یہ تھی کہ مساکین کی عیادت فرماتے، فقراء کے پاس مجلس کرتے اور کوئی غلام بھی دعوت دیتا تو اسے قبول فرماتے۔ تاج دار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھا لے اور اُس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا پڑا ہو۔

توجہ طلب امر یہ ہے کہ معلم انسانیت ﷺ ہمسایوں کا اس قدر خیال رکھنے کی تعلیم دی کہ کوئی بھوکا نہ سوئے لیکن آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اتنے بے نیا ز اور لاپروا ہیں کہ ہمسائے کی بھو ک دور کرنا تو دور کی بات ہے ہمیں سال ہا سال تک اتنا بھی پتا نہیں ہوتا کہ ہمارے دائیں بائیں یا فلیٹس کی صورت میں اوپر نیچے کون رہتا ہے ؟ آج کے دور فتن اور مشینی دور نے دنیا کو تو ’’گلوبل ولیج‘‘ بنا دیا ہے لیکن پاس رہنے والوں سے غافل کردیا ہے۔ یہی تباہی و بربادی کا راستہ ہے جسے ہم نے ہر حال میں ترک کرنا ہوگا۔

اﷲ تعالی ہمیں اچھا مومن بنائے اور رسالت مآب ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اصول زندگی بنانے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں حاملہ خواتین کی شرح اموات دیگر اسلامی ممالک سے زیادہ ہے، پاپولیشن کونسل
  • نبی کریم ﷺ کی روشن تعلیمات
  • روس: متعدد بچوں سمیت تقریباً 50 افراد کو لے جانے والے مسافر طیارے کا ملبہ مل گیا، تمام مسافر ہلاک
  • ’ہر شو میں ایک نئی کہانی ہوتی ہے‘، ندا یاسر کو پھر تنقید کا سامنا
  • امدادی کٹوتیاں: یو این ادارہ نائیجریا میں کارروائیاں بند کرنے پر مجبور
  • کراچی میں بیک وقت پیدا ہونے والے 5 بچوں میں سے 2 انتقال کرگئے
  • کراچی: خاتون کے ہاں 5 بچوں کی پیدائش، 2 انتقال کرگئے
  • کراچی: بیک وقت 5 بچوں کی پیدائش، 2 بچے انتقال کرگئے
  • کراچی میں خوش نصیب جوڑے کے ہاں بیک وقت پانچ بچوں کی پیدائش
  • نومولود بچوں کی بینائی کو لاحق خاموش خطرہ، ROP سے بچاؤ کیلئے ماہرین کی تربیتی ورکشاپ