پاکستانی ایئرلائنز سے متعلق برطانوی حکام نے تحریری کچھ نہیں بتایا، ڈائریکٹر جنرل سی اے اے
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
فوٹو: فائل
ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) نادر شفیع نے کہا ہے کہ پاکستانی ایئرلائنز کے متعلق برطانوی حکام نے تحریری طور پر کچھ نہیں بتایا۔
انکا کہنا تھا کہ سی اے اے کو برطانوی حکام کے جواب کا انتظار ہے۔
ادھر ترجمان قومی ایئرلائن کا کہنا ہے کہ قومی ایئرلائن تاحال برطانوی حکام کے فیصلے کی منتظر ہے، یورپ میں پابندی ہٹنے کے بعد برطانیہ سے بھی مثبت جواب کا انتظار ہے۔
واضح رہے کہ برطانوی وزارت ٹرانسپورٹ نے کہا تھا کہ پاکستانی ایئرلائنز ایئر سیفٹی لسٹ میں رہیں گی۔ پاکستان اور برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹیز کے ساتھ اِس معاملے میں رابطے میں ہیں۔
ترجمان برطانوی وزارت ٹرانسپورٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان اور برطانیہ کی سول ایوی ایشن اتھارٹیز کے ساتھ اِس معاملے میں رابطے میں ہیں۔
ترجمان وزارت ٹرانسپورٹ کے مطابق ایئرلائنز کو پابندی ہٹانے کےلیے ٹھوس عمل سے گزرنا ہوتا ہے۔
دوسری جانب پاکستانی حکومتی ذرائع کا کہنا تھا کہ برطانوی ایئر سیفٹی اتھارٹی نے ایک بار پھر فیصلہ مؤخر کردیا۔ معاملہ قومی ایئرلائن کے جہاز کا ٹائر گر جانے کے بعد تاخیر کا شکار ہوا۔
ذرائع کے مطابق ورلڈ ایئرسیفٹی اور ایئربس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔ تحقیقات کے مکمل ہونے تک انتظار کیا جائے گا۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: پاکستانی ایئرلائنز وزارت ٹرانسپورٹ برطانوی حکام کا کہنا
پڑھیں:
بھارتی فوج بھی انتہاپسند ہندوتوا ایجنڈے کے رنگ میں رنگ گئی
حالیہ دنوں میں بھارتی آرمی چیف جنرل اوپندر دویدی کی مذہبی سرگرمیوں نے سوشل میڈیا سے لے کر سیاسی حلقوں تک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے کہ کیا اب انڈین فوج محض دفاعی ادارہ نہیں رہی بلکہ ہندوتوا کے ایجنڈے کی محافظ بن چکی ہے؟
جنرل دویدی نے حال ہی میں وردی میں نہ صرف کیدارناتھ کے مندر میں حاضری دی بلکہ رام بھدرآچاریہ کے آشرم میں بھی ماتھا ٹیکتے دکھائی دیے۔ سادہ الفاظ میں کہا جائے تو انہوں نے فوجی وردی کو ہندو عقیدت کا لباس بنا ڈالا۔
سوال یہ نہیں کہ کسی کا ذاتی عقیدہ کیا ہے، سوال یہ ہے کہ جب ایک سیکولر ملک کی مسلح افواج کا سربراہ وردی میں مذہبی رسومات ادا کرے تو اس کے کیا اثرات مرتب ہوتے ہیں؟ کیا فوجی وردی صرف ہندو دیوی دیوتاؤں کی خدمت کےلیے مخصوص ہوچکی ہے؟
بھارتی آئین کی شقیں شاید کتابوں میں اب بھی سیکولرزم کا دعویٰ کرتی ہوں، مگر زمین پر حقیقت کچھ اور ہی ہے۔ بھارتی فوج جسے تمام قومیتوں، مذاہب اور ثقافتوں کا محافظ ہونا چاہیے تھا، اب زعفرانی رنگ میں رنگتی جا رہی ہے۔ جنرل دویدی کے مذہبی مندر دوروں سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے وہ صرف ایک مخصوص اکثریتی مذہب کے وفادار ہوں، اور اقلیتوں کے لیے ان کی فوجی قیادت سوالیہ نشان بن چکی ہو۔
اگر آرمی چیف ہندو مندر میں ماتھا ٹیک سکتے ہیں، تو کیا وہ کسی مسجد میں دو گھڑی سکون کی دعا کے لیے رکیں گے؟ کیا وہ کسی چرچ جا کر دعائیہ کلمات سنیں گے؟ سکھوں کے گوردوارے میں عقیدت سے جھکیں گے؟ یا یہ سب صرف آر ایس ایس کی ’’ہندو راشٹر‘‘ کی مہم کا حصہ ہے، جہاں وردی کو ایک مذہبی پرچم میں بدل دیا گیا ہے؟
یہ سارا معاملہ صرف ایک فرد کا مذہبی رجحان نہیں بلکہ اس پورے ادارے کے غیر جانب دار تشخص پر ایک سنجیدہ سوال ہے۔ جب جنرل دویدی میڈیا کے سامنے وردی میں پوجا پاٹ کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین کے سیکولر اصولوں کی نفی کرتے ہیں بلکہ اقلیتوں کو بھی ایک واضح پیغام دیتے ہیں کہ ان کی نمائندگی اس فوج میں شاید صرف کاغذوں کی حد تک رہ گئی ہے۔
بھارت میں ہندوتوا کی سیاسی اور سماجی بالادستی اب اتنی گہری ہو چکی ہے کہ ملک کا ہر ادارہ اس کی جھلک دکھانے لگا ہے، حتیٰ کہ فوج جیسا حساس اور غیر جانبدار ادارہ بھی۔ اس تناظر میں جنرل دویدی کی مندر یاترا صرف ایک ذاتی عقیدے کا اظہار نہیں بلکہ ایک طاقتور پیغام ہے، اور وہ پیغام یہ ہے کہ نئی دہلی کی راہ صرف ہندوتوا کے قدموں کی چاپ سننے کو تیار ہے۔
کیا ہندوستانی سپہ سالار اب صرف ایک عقیدے کا نمائندہ ہے؟ اگر ایسا ہے تو اقلیتوں کو سوچ لینا چاہیے کہ ان کی حفاظت کے دعوے صرف کاغذی تحریر رہ گئے ہیں، کیونکہ وردی پہنے وہ ہاتھ جو ملک کی سرحدوں کے محافظ کہلاتے ہیں، اب شاید صرف ایک مخصوص مذہب کے سامنے جھکنے کے لیے اٹھتے ہیں۔