اسلامی نظریہ کونسل: پہلی بیوی کی اجازت کے بغیر دوسری شادی، انسانی دودھ بنک سے متعلق فیصلہ نہ ہو سکا
اشاعت کی تاریخ: 26th, March 2025 GMT
اسلام آباد (خبرنگار+ نوائے وقت رپورٹ) اسلامی نظریہ کونسل کا اجلاس جاری ہے۔ اجلاس کا دوسرا دور آج ہوگا۔ چیئرمین اسلامی نظریہ کونسل ڈاکٹر راغب حسین نعیمی کی صدارت میں منعقد اجلاس میں ہیومن ملک بینک کے حوالے سے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف چائلڈ ہیلتھ اینڈ ٹیکنالوجی کے ماہرین نے کونسل کو بریفنگ دی۔ گولڈن جوبلی کے حوالے سے کونسل کی یادگاری ٹکٹ کی رونمائی بھی کی گئی۔ اجلاس میں اراکین کونسل ڈاکٹر عبدالغفور راشد، ظفر اقبال چوہدری، جسٹس الطاف ابراہیم قریشی، ڈاکٹر انتخاب نوری، علامہ یوسف اعوان، سید سعید الحسن، عتیق الرحمان بخاری، شمس الرحمان مشہدی، عزیر عزیز، حافظ محمد امجد، علامہ افتخار حسین نقوی، رانا محمد شفیق خان، جلال الدین، مفتی محمد زبیر شریک ہوئے۔ اجلاس میں بحث کے لیے پیش کیے جانے والے نکات میں انسانی دودھ کے بینک (Human Milk Bank) کا قیام، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے میں قادیانیوں سے متعلق متنازعہ اقتباسات اور نظرثانی کی درخواست میں عدالت کا فیصلے کے معترضہ حصہ کو غیر موثر قرار دینا، بغیر اجازت دوسری شادی پر پہلی بیوی شادی معاہدہ ختم کر سکتی ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ زکوۃ فنڈ کو سرمایہ کاری کی غرض سے اسلامی بینکوں میں رکھنا، خواتین کو وراثت سے محروم کرنے والی رسموں کے خلاف وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ، بجلی چوری کے خلاف مہم میں علماء کرام سے خطبات میں احکامات اور فتویٰ جاری کرنے کی استدعا کی جائے گی۔ نوائے وقت رپورٹ کے مطابق اجلاس کے دوران انسانی دودھ بینک کے قیام پر فیصلہ نہ ہو سکا۔ ذرائع نے کہا کہ انسانی دودھ بنک کے قیام کے معاملے پر بحث آئندہ اجلاس میں بھی متوقع ہے۔ اجلاس میں دوسری شادی کیلئے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا معاملہ بھی زیربحث آیا۔ ذرائع نے کہا کہ اس معاملے پر بھی کوئی فیصلہ نہ ہوسکا۔ اجلاس میں اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے بھیجے گئے 28 سوالات کے جوابات دیئے گئے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: اجلاس میں
پڑھیں:
مودی راج میں مسلمان بنگالی مہاجرین کی مذہبی بنیاد پر بے دخلی کا سلسلہ جاری
بھارت میں بی جے پی کی کٹھ پتلی مودی حکومت میں مسلمان بنگالی مہاجرین کی مذہبی بنیاد پر بے دخلی کا سلسلہ جاری ہے۔
نریندر مودی کے اقتدار میں بھارت اقلیتوں کے لیے مذہبی تعصب اور نسلی امتیاز کا گڑھ بن چکا ہے، جہاں مودی سرکار بنگالی بولنے والے مسلمان مہاجرین کو مذہبی تعصب کی بنیاد پر بے دخل کرنے میں مصروف ہے۔ بھارت میں شناختی دستاویزات اور بھارتی پاسپورٹ ہونے کے باوجود بنگالی مسلمانوں کو غیر ملکی قرار دے کر حراست میں لینے کا حکم دیا گیا ہے۔
بھارتی اخبار دی وائر کے مطابق ہریانہ میں 74 بنگالی بولنے والے مسلمان مہاجر مزدور وں کو غیر قانونی تارکین کے الزام میں حراست میں لے لیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کے حکم پر درجنوں مسلمانوں کو پولیس نے بغیر واضح قانونی بنیاد کے حراست میں لیا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گرفتار افراد میں میں 11 کا تعلق مغربی بنگال سے اور 63 آسام سے تعلق رکھتے تھے۔ ہریانہ کے ایک مرکز میں 200 سے زائد افراد غیر انسانی حالات میں قید ہیں جب کہ وزارت داخلہ کی جانب سے ریاستوں کو اضلاع کی سطح پر حراستی مراکز قائم کرنے کی ہدایت بھی کی گئی ہے۔
دی وائر کے مطابق انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ہولڈنگ سینٹرز دراصل ’’حراستی مراکز‘‘ ہیں۔ ایک متاثرہ خاتون کا کہنا تھا کہ ہمیں صرف اس لیے نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ ہم بنگالی بولتے ہیں۔
رپورٹ میں ایک وکیل کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وزارت داخلہ کے تحت پولیس کسی کو بھی مشتبہ قرار دے کر 30 دن تک حراست میں رکھ سکتی ہے۔ دی وائر کے مطابق قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی طور پر کسی کو بغیر قانونی وجہ کے یا بغیر وکیل تک رسائی دیے قید رکھنا غیر قانونی ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق تمام گرفتار شدگان مغربی بنگال یا آسام کے بنگالی بولنے والے مسلمان ہیں۔
بی جے پی غیر قانونی تارکین وطن کے لیبل کومسلمانوں کے خلاف ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ مودی سرکار مسلمانوں کی ملک گیر گرفتاریاں کر کے این آر سی جیسے اقدامات کے نفاذ کی تیاری میں ہے ۔ انسانی حقوق کے کارکنان نے بغیر قانونی حکم کے گرفتاریوں کو سنگین انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔