پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو زیادہ محصولات اور تجارتی پابندیوں کا سامنا ہے، وزیر خزانہ WhatsAppFacebookTwitter 0 26 March, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(سب نیوز)وزیر خزانہ سینیٹر محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کو زیادہ محصولات اور تجارتی پابندیوں کا سامنا ہے جو انہیں عالمی معیشت میں شامل ہونے سے روکتی ہیں۔
بوا فورم برائے ایشیا سالانہ کانفرنس 2025 میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے سب کے لیے جامع عالمی معیشت کے لیے راہیں اور اقدامات کے موضوع پر کلیدی خطاب کیا۔وزیر خزانہ نے کہا کہ اپنی تقریر میں منصفانہ مارکیٹ تک رسائی، علاقائی روابط میں اضافے اور جامع عالمی معیشت کے فروغ کے لیے مضبوط کثیر الجہتی تعاون کی ضرورت اور رکاوٹوں کو دور کرنے پر زور دیا۔
انہوں نے کہا کہ ایک جامع عالمی معیشت ایک ضرورت ہے، انتخاب نہیں۔ عالمی معیشت نے بلاشبہ معاشی ترقی کو آگے بڑھایا ہے تاہم یہ اب بھی انتہائی غیر مساوی اور ٹکڑوں میں بٹی ہوئی ہے، ایسی معیشت کا زیادہ تر فائدہ ترقی یافتہ معیشتوں کو ہوتا ہے جب کہ جنوبی ممالک کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔اپنے خطاب میں وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے شمولیتی تجارت کے لیے عالمی اتحاد کی تشکیل کی تجویز دی۔وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ترقی پذیر ممالک کو اجتماعی طور پر منصفانہ تجارتی اصولوں اور عالمی مالیاتی اداروں میں بہتر نمائندگی کے مطالبہ کے لیے اتحاد بنانا چاہیے، ٹیکنالوجی کو مساوات کا ذریعہ بنانا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ حکومتوں اور بین الاقوامی اداروں کو ترقی پذیر معیشتوں میں ڈیجیٹل شمولیت کی حمایت کے لیے عالمی سطح پر اے آئی اور فِن ٹیک فنڈز قائم کرنے چاہئیں۔محمد اورنگزیب نے کہا کہ قرضوں کی معافی اور مالیاتی انصاف کے حصول کے لیے جی20 اور آئی ایم ایف کو خودمختار قرض کے نظام کو دوبارہ ترتیب دینا چاہیے جبکہ معاشی ترقی میں رکاوٹ بننے والے قرض کے بحرانوں کو روکنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے کہا کہ استحکام کو ایک بنیادی اصول کے طور پر اپنانا چاہیے اور ماحولیاتی انصاف کو عالمگیریت کی پالیسیوں میں شامل کیا جانا چاہیے، ترقی پذیر معیشتوں کو مناسب ماحولیاتی مالی امداد اور ٹیکنالوجی کی منتقلی آسان بنائی جائے۔ مشترکہ مستقبل کے لیے متوازن عالمگیریت کی ضرورت ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ تقاریر کا وقت ختم ہو چکا ہے اور اب عملی قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان، جیسے بہت سے ترقی پذیر ممالک، ایسی عالمگیریت کا ماڈل چاہتے ہیں جو منصفانہ تجارت، پائیدار ترقی اور منصفانہ مالیاتی نظام کو فروغ دے۔
سینیٹر محمد اورنگزیب نے کہا کہ دنیا کو مل کر ایک کثیر الجہتی، پائیدار اور جدت پر مبنی عالمی معیشت کی تعمیر کرنی چاہیے، ایسی معیشت جو تمام ممالک کو ترقی اور خوشحالی کے مواقع فراہم کرے۔ ایک ترقی پذیر معیشت کے طور پر، پاکستان کو مستقل تجارتی عدم توازن، بیرونی قرضوں کا دبا اور مالیاتی رسائی کی کمی کا سامنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان نے ڈیجیٹل پاکستان اقدام کا آغاز کیا ہے تاہم مصنوعی ذہانت، فِن ٹیک، اور ڈیجیٹل تجارت میں مضبوط بین الاقوامی تعاون کی ضرورت ہے۔ عالمی ای کامرس کی توسیع پاکستان کے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں (SMEs) کو بااختیار بنا سکتی ہے اور جامع اقتصادی شرکت کو آگے بڑھا سکتی ہے۔وزیر خزانہ نے کہا کہ ماحولیاتی تبدیلی اور ماحولیاتی عدم مساوات کو دور کرنے کی ضرورت ہے، پاکستان عالمی کاربن اخراج میں ایک فیصد سے بھی کم حصہ ڈالتا ہے، موسمیاتی تبدیلی کے لحاظ سے 10 سب سے زیادہ خطرے سے دو چار ممالک میں شامل ہے۔

.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: ترقی پذیر ممالک کو سے ترقی پذیر ممالک محمد اورنگزیب نے انہوں نے کہا کہ عالمی معیشت کا سامنا ہے کی ضرورت ہے کے لیے

پڑھیں:

ترکی کا اسرائیلی سے تجارتی بندھن

اسلام ٹائمز: یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے اور اس سے دونوں فریقوں کو معاشی نقطہ نظر سے فائدہ ہوتا ہے۔ دریں اثنا، ترک حکام اور حکومت کے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کے بارے میں عوامی بیانات زیادہ تر مقامی اور عالمی رائے عامہ میں پانی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے ہیں، اور جب تک کشیدگی "بیان بازی کی سطح پر" رہے گی، اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے مابین منافع بخش تجارت کے راستے میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ خصوصی رپورٹ:

عرب مسلم ممالک کی طرح موجودہ ترک حکومت بدقسمتی سے صہیونی حکومت کے اہم معاشی اور تجارتی سپلائرز میں سے ایک ہے۔ گزشتہ دو سالوں کے دوران غزہ کی پٹی میں صہیونی حکومت کی فوجی جارحیت کے آغاز اور عوامی مظاہروں میں اضافے کے بعد ترک حکومت نے رائے عامہ کے دباؤ کو دھوکہ دینے کے لئے اپنے نام نہاد اسرائیل مخالف موقف کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے۔ لیکن حقائق یہ ظاہر کرتے ہیں کہ ترک حکومت کی یہ پوزیشنی حقیقت پر مبنی نہیں۔ اسرائیلی حکومت کی جانب سے اقتصادی اور تجارتی تعلقات منقطع کرنے کے بارے میں پرجوش بیانات کے باوجود عملی طور پر دونوں ممالک کے درمیان یہ تعاون خفیہ اور اعلانیہ طور پر جاری ہے۔ ترکی کا صہیونی حکومت کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعاون اور تعلق سمندری، زمینی اور فضائی تینوں حوالوں سے جاری ہے۔

جہاز رانی اور سمندری رسد کا استعمال:
تیل، تعمیراتی مواد، سٹیل وغیرہ کو غیرجانبدار ممالک جیسے لائبیریا، پاناما وغیرہ کے جھنڈے کے تحت بحری جہازوں کے ذریعے ترکی کی بندرگاہوں سے اسرائیلی بندرگاہوں تک پہنچایا جاتا ہے۔ دستیاب معلومات کے مطابق اسرائیلی حکومت کے لئے مذکورہ اشیا کا تقریبا 18 فیصد ترکی کے کارگو جہازوں کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی حکومت کو تیل کی فراہمی کے لیے سمندری راستہ اہم اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ اسرائیلی حکومت کو درکار تیل کا زیادہ تر حصہ وسطی ایشیائی ممالک جیسے آذربائیجان اور قازقستان سے بحری جہازوں کے ذریعے فراہم کیا جاتا ہے اور یہ سب ترکی کے راستے سے گزرتے ہیں۔ لہذا، اسرائیلی حکومت کو درکار تیل باکو حکومت کی طرف سے اور ترکی کے تعاون سے باکو تبلیسی سیہان پائپ لائن کے ذریعے بحیرہ کیسپین سے ترکی میں داخل ہوتا ہے۔ ترک آئل ٹینکرز سییہان کی بندرگاہ سے تیل لوڈ کرتے ہیں اور اسرائیلی حکومت کے پانیوں میں داخل ہوتے وقت اپنے اے آئی ایس شناختی نظام کو بند کر دیتے ہیں، اور یہ تیل صیہونی بندرگاہوں حیفہ، اشدود اور اشکیلون کی تک پہنچاتے ہیں۔ گزشتہ سال جنوری میں صہیونی حکومت 297 ملین ڈالر مالیت کی 5 لاکھ 23 ہزار 500 ٹن تیل کی ترسیل کے ساتھ جمہوریہ آذربائیجان سرفہرست تھا۔


باکو-تبلیسی-سییہان پائپ لائن ، جو بحیرہ کیسپین سے بحیرہ روم تک تیل پہنچاتی ہے

زمینی اور ہوائی راستوں کا استعمال:
اس طریقہ کار میں تجارت تیسرے ممالک کے ذریعے کی جاتی ہے۔ اس طریقہ کار میں، سامان ترکی سے آذربائیجان اور جارجیا تک زمینی راستے سے منتقل کیا جاتا ہے، اور وہاں سے انہیں ہوائی جہاز کے ذریعے اسرائیلی حکومت تک پہنچایا جاتا ہے۔ باکو کی سرکاری لاجسٹک کمپنیاں اس سلسلے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں۔ باکو حکومت کی اسرائیلی حکومت کے لئے کارگو پروازیں بہت فعال ہیں۔

ترکی اور دیگر اسرائیل دوست ممالک کے فضائی راستوں کا استعمال:
ترک اور اسرائیلی ایئر لائنز اردن، متحدہ عرب امارات اور یونان جیسے راستے استعمال کرتی ہیں۔ کارگو کو "عمان کے لئے" کے لیبل کے ساتھ بھیجا جاتا ہے، لیکن اصل منزل تل ابیب ہی ہوتا ہے۔ مالیاتی لین دین بھی درمیانی ممالک کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ متحدہ عرب امارات اور سوئٹزرلینڈ کے بینک اس سلسلے میں ترکی اور اسرائیل کی مدد کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ کرپٹو کو بھی لین دین چھپانے کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

صہیونی حکومت کو تیل اور سامان کی منتقلی کے لئے ممکنہ سمندری اور فضائی راستے
یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ نہ ترکی اور نہ ہی اسرائیلی حکومت ایک دوسرے کے ساتھ اقتصادی اور تجارتی تعلقات مکمل طور پر منقطع کرنے پر راضی ہیں۔ ترکی کو صہیونی حکومت کے ساتھ مختلف شعبوں میں تجارت سے فائدہ ہوتا ہے اور صہیونی حکومت ترکی کی سرزمین یورپ کو اسرائیلی گیس برآمد کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے، جبکہ اسے مطلوبہ تیل حاصل کرنے اور اس کی ضروری اشیاء جیسے ٹیکسٹائل اور کھانے پینے کی اشیاء کی ترسیل بھی ہوتی ہے۔ اسرائیلی حکومت ترکی کے راستے وسطی ایشیا اور قفقاز کی منڈیوں تک بھی رسائی حاصل کرتی ہے۔

یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے اور اس سے دونوں فریقوں کو معاشی نقطہ نظر سے فائدہ ہوتا ہے۔ دریں اثنا، ترک حکام اور حکومت کے اسرائیل سے تعلقات منقطع کرنے کے بارے میں عوامی بیانات زیادہ تر مقامی اور عالمی رائے عامہ میں پانی ساکھ برقرار رکھنے کے لئے ہیں، اور جب تک کشیدگی "بیان بازی کی سطح پر" رہے گی، اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ ترکی اور اسرائیل کے مابین منافع بخش تجارت کے راستے میں کوئی تبدیلی آئے گی۔ اسرائیلی حکومت کے ساتھ دنیا کا اور بالخصوص اسلامی ممالک کا تعاون اور تجارتی روابط، اسلامی جمہوریہ ایران اور مقاومتی محاذ کی پالیسی اور فلسطینیوں کی حمایت کو نمایاں کرتے ہیں۔ لیکن یہاں اتحاد کی ضرورت ہے، قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد لازم ہو گیا ہے، یہ مسلم امہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ احساس کریں کیونکہ اسرائیلی حکومت پر جرائم کو روکنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا ایک اہم طریقہ تعاون اور بات چیت منقطع کرنا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اسلامی ممالک اور اسرائیلی حکومت کے درمیان اقتصادی اور سیاسی تعاون منقطع کرنے کی ضرورت پر بار بار تاکید کی ہے۔ حکومتوں کا فرض یہ ہے کہ وہ سیاسی حمایت اور اسلحے کی امداد بند کریں اور صہیونی حکومت کو اشیائے ضروریہ نہ بھیجیں۔ یہ اہم مسئلہ ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب بدقسمتی سے اسلامی ممالک کی متعدد حکومتیں اسرائیلی حکومت کے ساتھ اپنے سیاسی، تجارتی اور عسکری تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ترکی کو ایک اہم اور بااثر علاقائی وزن کے حامل ملک کی حیثیت سے اسرائیلی حکومت کے ساتھ اپنے اقتصادی، تجارتی اور سیاسی تعلقات منقطع کرنے ہوں گے، اگر وہ واقعی فلسطینیوں کے خلاف قتل و غارت گری اور جنگ کو ختم کرنا چاہتا ہے اور اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہتا ہے، بصورت دیگر اسے اسرائیلی حکومت کے جرائم کا براہ راست اور بالواسطہ ساتھی اور شراکت دار سمجھا جائے گا۔

متعلقہ مضامین

  • یورپی یونین کی اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات محدود کرنے اور وزرا پر پابندیوں کی تجویز
  • ترکی کا اسرائیلی سے تجارتی بندھن
  • اسرائیل کی عالمی تنہائی بڑھ رہی، محاصرے کی سی کیفیت ہے، نیتن یاہو کا اعتراف
  • عالمی سطح پر اسرائیل کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا
  • پاکستان اور ایران کا باہمی تجارتی حجم 10 ارب ڈالر تک بڑھانے کے عزم کا اعادہ
  • کشمیر کی باغبانی صنعت پابندیوں کی زد میں کیوں ہے، ممبر پارلیمنٹ آغا سید روح اللہ
  • معیشت کی مضبوطی کےلیے ڈیجیٹائزیشن ناگزیر ہے،وزیراعظم شہباز شریف
  •  نوجوانوں میں مالیاتی امید بلند مگر مجموعی عوامی اعتماد میں کمی ہوئی، اپسوس کا تازہ سروے
  • چین نے جرمنی کو پیچھے چھوڑ دیا، پہلی بار دنیا کے 10 بڑے جدت پسند ممالک میں شامل
  • اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے .نیتن یاہو کا اعتراف