غلاموں کی تجارت ختم لیکن افریقی النسل افراد تعصب کا اب بھی شکار، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتیرش نے کہا ہے کہ اوقیانوس کے پار غلاموں کی تجارت کو ختم ہوئے صدیاں بیت گئی ہیں لیکن افریقی النسل لوگوں کے خلاف منظم نسل پرستی، معاشی اخراج اور نسلی بنیاد پر تشدد کی صورت میں اس کی بھیانک میراث آج بھی موجود ہے۔
سیکریٹری جنرل نے کہا ہے کہ یہ مسائل ان لوگوں کے لیے ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں اور رکن ممالک کی حکومتوں کو سچائی کا اعتراف کرتے ہوئے ان پر قابو پانے کے لیے موثر قدم اٹھانا ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: تنازع کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عملدرآمد کرایا جائے، نگراں وزیراعظم کا انتونیو گوتریس سے مطالبہ
انہوں نے تاریخ کو مٹانے، سچائی کو چھپانے کے لیے غلط بیانیے پیش کرنے اور غلامی کے متاثرین کو پہنچنے والے شدید نقصان سے انکار کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اوقیانوس کے پار غلاموں کی تجارت اور اس کے اثرات کا طویل عرصہ تک نہ تو اعتراف ہوا، نہ ان کے بارے میں بات کئی گئی اور نہ ہی ان کا خاتمہ کرنے کے لیے اقدامات اٹھائے گئے۔ آج بھی انسانی خریدوفروخت سے منافع حاصل کیا جا رہا ہے اور اس تجارت کی بنیاد سمجھے جانے والے تصورات اب بھی دنیا میں موجود ہیں۔
سیکریٹری جنرل نے یہ بات ‘غلامی اور اوقیانوس کے پار غلاموں کی تجارت کے متاثرین کی یاد میں عالمی دن’ کے موقع پر اپنے پیغام میں کہی ہے۔
یہ دن 25 مارچ 1807 کو برطانیہ میں غلاموں کی تجارت کا قانون ختم کیے جانے کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔ یہ فیصلہ انقلاب ہیٹی سے تین سال کے بعد لیا گیا جس کے نتیجے میں جمہوریہ ہیٹی کا قیام عمل میں آیا تھا۔ ہیٹی پہلا ملک ہے جسے غلام بنائے گئے مردوخواتین کی بغاوت کے نتیجے میں آزادی ملی تھی۔
چار صدیوں کی بدسلوکیانتونیو گوتیرش کا کہنا ہے کہ چار صدیوں سے زیادہ عرصہ تک تقریباً 25 تا 30 ملین افریقی لوگوں کو ان کے علاقوں سے جبراً اٹھا کرغلام بنایا گیا۔ یہ اس وقت براعظم افریقہ کی تقریباً ایک تہائی آبادی تھی۔ ان میں بہت سے لوگ بحر اوقیانوس کے پار سخت مشکل سفر میں ہلاک ہو گئے۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل نے سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی خلاف ورزی کی، لبنان کی جغرافیائی سالمیت کا احترام کیا جائے، انتونیو گوتریس
غلاموں کی اس تجارت کے نتیجے میں خاندان بکھر گئے، پوری کی پوری آبادیاں مٹ گئیں اور ان لوگوں کی کئی نسلیں جبری غلامی کا شکار ہوئیں جس کا محرک لالچ اور نسل پرستانہ تصورات تھے جو آج بھی باقی ہیں۔
آزادی کی قیمتانتونیو گوتیرش نے کہا کہ غلامی کا خاتمہ ہونے کے بعد بھی اس کے متاثرین کے نقصان کا ازالہ نہیں کیا گیا اور بہت سے واقعات میں غلاموں کو اپنی آزادی کے لیے قیمت ادا کرنا ہوتی تھی۔
مثال کے طور پر ہیٹی میں آزادی حاصل کرنے والوں کو بڑی رقومات کی صورت میں ان لوگوں کو اس کی ادائیگی کرنا پڑی جنہوں نے اس کی تکالیف سے منافع کمایا تھا۔ اس مالی بوجھ کے باعث ملک طویل معاشی مشکلات کا شکار ہو گیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ دن محض ان غلاموں کو یاد کرنے کے لیے ہی نہیں منایا جاتا بلکہ یہ غلامی اور نوآبادیات کی دیرپا میراث پر غور کرنے اور آج کی دنیا میں ان برائیوں کا خاتمہ کرنے کے عزم میں مضبوطی لانے کا دن بھی ہے۔
ازالہ اور اندمالسیکریٹری جنرل نے حکومتوں، کاروباروں اور سول سوسائٹی پر زور دیا کہ وہ نسل پرستی اور تفریق کے خلاف فیصلہ کن قدم اٹھائیں اور رکن مالک کو چاہیے کہ وہ ہر طرح کی نسلی تفریق کے خلاف بین الاقوامی کنونشن پر مکمل عملدرآمد کرتے ہوئے انسانی حقوق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل جنگ زدہ علاقوں میں انسانی امداد کی ترسیل میں رکاوٹیں پیدا کررہا ہے، انتونیوگوتریس
ان کا کہنا ہے کہ اس سچائی کا اعتراف کرنا ضروری ہی نہیں بلکہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کرنے، موجودہ زخموں کو مندمل کرنے اور تمام لوگوں کے لیے وقار اور انصاف پر مبنی مستقبل کی تعمیر کے لیے بھی بہت اہم ہے۔
آگاہی کی ضرورتاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر فائلیمن یانگ نے سیکریٹری جنرل کے خدشات کو دہراتے ہوئے کہا کہ اگرچہ انسانوں کی غلامی کا رسمی طور پر خاتمہ ہو گیا ہے لیکن اس کی میراث کئی نسلوں پر محیط نسلی عدم مساوات کی صورت میں اب بھی باقی ہے۔ ناانصافی کے داغ باآسانی ختم نہیں ہوتے اور یہ مسئلہ رہائش، روزگار، طبی نگہداشت، تعلیم اور انصاف کی فراہمی میں عدم مساوات کی صورت میں تاحال موجود ہے۔
ان ناانصافیوں کو ختم کرنے کے لیے ناصرف ان کا اعتراف ہونا ضروری ہے بلکہ پالیسی میں بھی ایسی ٹھوس تبدیلیاں درکار ہیں جن سے مساوات اور شمولیت کی ضمانت ملے۔
انہوں نے غلامی کی تکلیف دہ میراث کا خاتمہ کرنے کے لیے تعلیم کی اہمیت کو واضح کرتے ہوئے کہا کہ غلامی کی جامع تاریخ اور اس کے اثرات کو کو سکولوں کے نصاب کا حصہ ہونا چاہیے۔ آگاہ معاشرہ ہی تعصب کو روکنے اور ہمدردی کو فروغ دینے کا اہل ہوتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news افریقہ اقوام متحدہ انتونیو گوتریس تعصب سیکریٹری جنرل غلام ہیٹی.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: افریقہ اقوام متحدہ انتونیو گوتریس سیکریٹری جنرل غلام ہیٹی اوقیانوس کے پار غلاموں کی تجارت سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ کی صورت میں کرنے کے لیے کرتے ہوئے کا خاتمہ نے کہا کہا کہ اور ان
پڑھیں:
آئرلینڈ کا غزہ میں نسل کشی پر اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنیوالے ممالک کو اقوام متحدہ سے نکالنے کا مطالبہ
اقوام متحدہ کے مقرر کردہ آزاد ماہرین نے شواہد پیش کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ آئرلینڈ کے صدر نے اسی رپورٹ کے تناظر میں کہا کہ ہمیں اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنے والوں کی رکنیت ختم کرنے پر کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیئے۔ اسلام ٹائمز۔ آئرلینڈ کے صدر مائیکل ڈی ہیگنز نے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل اور وہ ممالک جو اسے اسلحہ فراہم کر رہے ہیں، انھیں غزہ میں نسل کشی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے اقوام متحدہ سے خارج کر دینا چاہیئے۔ عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق آئرلینڈ کے صدر نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے آزاد ماہرین کی حالیہ رپورٹ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خیال رہے کہ اس رپورٹ میں اقوام متحدہ کے مقرر کردہ آزاد ماہرین نے شواہد پیش کرتے ہوئے تصدیق کی تھی کہ اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ آئرلینڈ کے صدر نے اسی رپورٹ کے تناظر میں کہا کہ ہمیں اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنے والوں کی رکنیت ختم کرنے پر کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہونی چاہیئے۔
انھوں نے مزید کہا کہ ہمیں اسرائیل اور اسے اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک کے ساتھ تجارتی تعلقات بھی ختم کر دینے چاہیئے۔ یہ غزہ میں ہم جیسے انسانوں پر ظلم ڈھا رہے ہیں۔ خیال رہے کہ یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب اسرائیلی حکومت نے غزہ شہر میں ٹینک اور زمینی فوج تعینات کر دی۔ ادھر یورپی کمیشن نے بھی رکن ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعاون ختم کر دیں اور اس کے انتہاء پسند وزراء پر پابندیاں عائد کریں۔ واضح رہے کہ 7 اکتوبر 2023ء سے غزہ پر جاری اسرائیلی بمباری میں شہید ہونے والوں کی تعداد 65 ہزار کے قریب پہنچ گئی، جبکہ دو لاکھ سے زائد زخمی ہیں۔