وزیر اعظم مودی نے بنگلہ دیشی ہم منصب کو خط میں کیا لکھا ہے؟
اشاعت کی تاریخ: 27th, March 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 مارچ 2025ء) دہلی اور ڈھاکہ کے درمیان سرد تعلقات کے درمیان، وزیر اعظم نریندر مودی نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس کو ایک خط لکھا ہے۔ جس میں ان کے ملک کی یوم آزادی پر مبارکباد دی ہے اور دونوں ممالک کے درمیان شراکت داری کو آگے بڑھانے کے لیے بھارت کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔
شیخ حسینہ کے اشتعال انگیز بیانات پر بھارتی ہائی کمشنر کو احتجاجی نوٹ جاری
بھارت کی دیرینہ حلیف سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کی حکومت کے خلاف گزشتہ سال ملک گیر مظاہروں کے نتیجے میں اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے ہی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔
بنگلہ دیش کے قومی دن پر محمد یونس اور ملک کے عوام کو مبارک باد دیتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے لکھا، "یہ دن ہماری مشترکہ تاریخ اور قربانیوں کا گواہ ہے، جس نے ہماری دو طرفہ شراکت داری کی بنیاد رکھی ہے۔
(جاری ہے)
بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کا جذبہ ہمارے تعلقات کے لیے ایک مشعل راہ ہے، جو متعدد شعبوں میں پروان چڑھا ہے، اور جس سے ہمارے لوگوں کو ٹھوس فوائد حاصل ہوئے ہیں۔"بنگلہ دیش، پاکستان کے مابین مفاہمت کے بھارت پر ممکنہ اثرات
وزیر اعظم مودی نے مزید کہا،"ہم اس شراکت داری کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں، جو امن، استحکام اور خوشحالی کے لیے ہماری مشترکہ امنگوں پر مبنی ہے، اور ایک دوسرے کے مفادات اور تحفظات کے لیے باہمی حساسیت پر مبنی ہے۔
محترم، غور و فکر کی میری اعلیٰ ترین یقین دہانیوں کو برائے مہربانی قبول کریں۔" دونوں پڑوسیوں کے درمیان کشیدہ تعلقاتبھارت کی دیرینہ حلیف شیخ حسینہ کی سربراہی والی عوامی لیگ کی حکومت کے خلاف ملک گیر تحریک کے نتیجے میں حکومت گر گئی تھی ۔ اور سابق وزیراعظم ملک سے فرار ہوکر بھارت آگئی تھیں، جہاں وہ تا حال مقیم ہیں۔
اس واقعے کے بعد سے ہی دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہو گئے ہیں۔ اس وقت عبوری حکومت کی قیادت نوبل انعام یافتہ اور ماہر اقتصادیات محمد یونس کر رہے ہیں۔ ان کی حکومت شیخ حسینہ کو بنگلہ دیش کے حوالے کرنے کے سلسلے میں دہلی سے مطالبہ کرچکی ہے۔
اس دوران بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر مبینہ حملوں پر بھارت نے بنگلہ دیش کے ساتھ اپنے خدشات کا اظہار کیا۔
لیکن ڈھاکہ کا کہنا ہے کہ یہ حملے سیاسی طور پر محرک ہیں، یہ فرقہ وارانہ نہیں ہیں۔بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر ایس جے شنکر نے کہا ہے کہ بھارت مختلف سطحوں پر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور اس طرح کے مسائل کو اٹھاتا رہے گا۔
دسمبر میں، بھارتی خارجہ سکریٹری وکرم مصری نے بنگلہ دیش کا دورہ کیا اور اقلیتوں پر حملوں پر نئی دہلی کی تشویش سے ڈھاکہ کو آگاہ کیا تھا۔
بنگلہ دیش کے مشیر خارجہ محمد توحید حسین کے ساتھ ملاقات میں مصری نے کہا تھا کہ مذہبی اداروں اور عبادت گاہوں پر حملے "افسوسناک" ہیں۔بنگلہ دیش کے ساتھ بھارت کے تعلقات کی جڑیں 1971 میں پاکستان سے آزادی کی جنگ میں پڑوسی ملک کی دہلی کی حمایت سے جڑی ہوئی ہیں۔ ڈھاکہ جغرافیائی سیاسی سطح پر بھی دہلی کے لیے اسٹریٹجک لحاظ سے اہم ہے اور دونوں ممالک کے درمیان گہرے تجارتی تعلقات بھی ہیں۔
وزیر اعظم مودی اور یونس دونوں 3-4 اپریل کو بنکاک میں بمسٹیک چوٹی کانفرنس میں حصہ لینے والے ہیں۔ دریں اثنا بھارتی صدر دروپدی مرمو نے اپنے بنگلہ دیشی ہم منصب محمد شہاب الدین کو بھی مبارکباد کا پیغام ارسال کیا ہے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے دونوں ممالک کے درمیان نے بنگلہ دیش بنگلہ دیش کے حکومت کے کے ساتھ کے لیے
پڑھیں:
نیدرلینڈ پارلیمانی انتخابات، اسلام مخالف جماعت کو شکست، روب جیٹن ممکنہ وزیر اعظم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ایمسٹرڈم:۔ نیدرلینڈز (ہالینڈ) کے انتخابات میں قومی سیاسی دھارے کے حامی سیاستدان 38 سالہ روب ییٹن کی قیادت میں سینٹرل پارٹی D66 نے ایک انتہائی سخت اور اعصاب شکن مقابلے کے بعد انتہائی دائیں بازو کے سیاستدان گیرٹ وائلڈرز کی قوم پرست جماعت پارٹی فار فریڈم PVVکو شکست دے دی۔
جرمن ٹی وی کے مطابق مقامی خبر رساں ادارے ANP کے مطابق D66نے محض پندرہ ہزار ووٹوں کی معمولی برتری کے باوجود واضح پوزیشن حاصل کی اور وائلڈرز کی PVV اب یہ فرق ختم نہیں کرسکتی۔ اس فتح کے بعد روب جیٹن ممکنہ طور پر نیدرلینڈز کے سب سے کم عمر وزیر اعظم بنیں گے۔
یہ نتائج D66 کے لیے ایک شاندار عروج کا نشان ہیں، جو یورپی اور سماجی لحاظ سے ایک لبرل پارٹی ہے اور اس نے انتخابی مہم میں ماحولیاتی پالیسی، سستی رہائش، اور اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے پر زور دیا۔ تقریباً 18 فیصد ووٹ حاصل کرنے کے بعد یہ پارٹی ملکی پارلیمنٹ کے ایوان زیریں میں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری مگر حکومت بنانے کے لیے اسے کم از کم تین دیگر شراکت داروں کی ضرورت ہوگی۔
ییٹن اب ممکنہ اتحادی جماعتوں کے ساتھ مخلوط حکومتی مذاکرات کی قیادت کریں گے، جو نیدرلینڈز کے متنوع سیاسی منظرنامے میں کئی ماہ تک جاری رہ سکتے ہیں۔ انتخابات میں D66نے ایک متحرک انتخابی اور تشہیری مہم کی بدولت اپنی نشستوں کی تعداد تقریباً تین گنا بڑھا لی۔
مرکزی سیاسی دھارے کی تمام بڑی جماعتیں اور بائیں بازو کے سیاسی دھڑے وِلڈرز کے امیگریشن مخالف سخت موقف اور قرآن پر پابندی کے سابقہ مطالبات کی وجہ سے ان کے ساتھ مخلوط حکومت سازی سے انکار کر چکے ہیں۔ وِلڈرز نے کہا کہ اگر ان کی پارٹی کو سب سے زیادہ ووٹ ملتے تو وہ پھر بھی حکومت بنانے کا پہلا حق طلب کرتے۔ انتخابی نتائج کی حتمی تصدیق پیر کو متوقع ہے، جب بیرون ملک مقیم ڈچ شہریوں کے ڈاک کے ذریعے ڈالے گئے ووٹوں کی گنتی مکمل ہو گی۔