پاکستانی آن لائن شاپنگ کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں یا خود مارکیٹ جانے کو؟ (Eid Story)
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
عید کی تیاریوں کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بہت سے افراد مختلف طریقوں سے خریداری کرتے ہیں۔ کچھ افراد آن لائن خریداری کو ترجیح دیتے ہیں، تو وہیں دیگر لوگ مارکیٹ جا کر خریداری کرنے کو بہتر سمجھتے ہیں۔
آئیے اس موضوع پر اعدادوشمار کا جائزہ لیتے ہیں کہ پاکستانی عید پر کس طرح سے خریداری کرنے کو ترجیح دیتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں خواتین عید کے لیے آن لائن سستے کپڑے کہاں سے خرید سکتی ہیں؟
پاکستان میں عید کی خریداری کے رجحانات میں ایک دلچسپ تبدیلی رونما ہورہی ہے، اگرچہ روایتی طور پر لوگ بازاروں اور مارکیٹوں میں جا کر خریداری کو ترجیح دیتے ہیں، لیکن حالیہ برسوں میں آن لائن شاپنگ کا رجحان بھی تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں انٹرنیٹ کا استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد میں بھی تیزی سے اضافہ ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ اس کا اثر ای کامرس کے صارفین کی تعداد پر بھی پڑا ہے۔
شہری علاقوں کے ساتھ بعض چھوٹے بڑے قصبوں میں بھی کھانے پینے کی اشیا، گھریلو ضرورت کی اشیا اور کپڑوں کی کئی قسم کی ورائٹی آن لائن منگوانے کا رحجان بڑھا ہے۔
واضح رہے کہ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں اس وقت 17 کروڑ 60 لاکھ لوگوں کے پاس موبائل فون موجود ہے جن میں سے 9 کروڑ 30 لاکھ لوگ تھری جی یا فور جی انٹرنیٹ یا براڈ بینڈ سروسز استعمال کررہے ہیں جو آبادی کا 43 فی صد سے کچھ زیادہ ہے۔
موبائل صارفین کی تعداد میں اضافہ بھی ای کامرس کے رجحان میں اضافے کی وجہ ہے۔
ایک سروے کے مطابق 2023 میں تقریباً 45 فیصد پاکستانی صارفین نے عید کی خریداری کے لیے آن لائن خریداری کی۔
عید الفطر جیسے بڑے مواقع پر آن لائن خریداری کی شرح میں اضافہعید الفطر جیسے بڑے مواقع پر آن لائن خریداری کی شرح میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔ مختلف ویب سائٹس اور ایپس جیسےDaraz اور دیگر لوکل پیجز خاص طور پر عید کے دوران بڑی تعداد میں صارفین کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں۔
2023 کی ایک رپورٹ کے مطابق 45 فیصد افراد آن لائن شاپنگ کو ترجیح دیتے ہیں۔ یقیناً 2025 میں ان صارفین کی تعداد میں اضافہ ہو چکا ہوگا۔ کیونکہ ای کامرس انڈسٹری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی تیزی سے پھیل رہی ہے۔
دوسری جانب 55 فیصد افراد ابھی بھی مارکیٹ جا کر خریداری کرنا پسند کرتے ہیں۔
نوجوان طبقہ (18 سے 35 سال) میں آن لائن خریداری کا رجحان زیادہ پایا جاتا ہے، جبکہ 40 سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد عید کی خریداری کے لیے بازار جانا پسند کرتے ہیں۔
واضح رہے کہ کپڑوں کی خریداری دونوں طریقوں سے کی جاتی ہے، لیکن آن لائن خریداری میں لباس کے فیبرک اور ڈیزائن کی تصاویر کی وجہ سے کمی محسوس ہو سکتی ہے۔
گھر کی سجاوٹ اور گفٹ آئٹمز کے لیے آن لائن خریداری ترجیحگھر کی سجاوٹ اور گفٹ آئٹمز کے لیے زیادہ تر لوگ آن لائن خریداری کرتے ہیں کیونکہ انہیں بڑی تعداد میں ورائٹی دستیاب ہوتی ہے۔
کھانے پینے کی اشیا جیسے مٹھائیاں، پھل اور گوشت خریدنے کے لیے مارکیٹ جانا زیادہ عام ہے۔
پاکستان میں ای کامرس مارکیٹ تیزی سے ترقی کررہی ہے، ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں ای کامرس مارکیٹ کا حجم 2023 میں 9 بلین ڈالر رہا۔
یہ بھی پڑھیں عیدالفطر کی تیاریاں جاری، بازار خریداروں سے بھر گئے
عید کی خریداری کے لیے آن لائن اور مارکیٹ کی خریداری دونوں کے فوائد ہیں، اور یہ افراد کی عمر، عادات اور سہولت پر منحصر ہے۔ آن لائن خریداری وقت کی بچت اور زیادہ انتخاب فراہم کرتی ہے، جبکہ مارکیٹ جا کر خریداری میں ذاتی طور پر اشیا کا معائنہ کرنے کا فائدہ ہوتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آن لائن شاپنگ عید وی نیوز.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: ا ن لائن شاپنگ وی نیوز کو ترجیح دیتے ہیں عید کی خریداری کے آن لائن خریداری صارفین کی تعداد کے لیے آن لائن پاکستان میں لائن شاپنگ مارکیٹ جا کے مطابق کرتے ہیں تیزی سے
پڑھیں:
امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے لیے تارکینِ وطن کے داخلے کی نئی حد مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال صرف 7,500 افراد کو امریکا میں امیگریشن کی اجازت دی جائے گی، یہ 1980 کے ”ریفوجی ایکٹ“ کے بعد سب سے کم حد ہے۔
صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حکومت امریکی تاریخ میں امیگریشن کی سطح کم کرنے جا رہی ہے، کیونکہ ”امیگریشن کو کبھی بھی امریکا کے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔“
انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام افریقیوں کو نسل کشی کے خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ فی الحال امریکا کا سالانہ ریفیوجی کوٹہ 125,000 ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت یہ تعداد 7,500 تک محدود کر دی گئی ہے۔
ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پناہ گزینوں کی سیکیورٹی جانچ مزید سخت کر دی جائے گی، اور کسی بھی درخواست دہندہ کو داخلے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ دونوں کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوگی۔
جون 2025 میں صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے ضوابط میں بھی تبدیلی کی گئی۔ ان ضوابط کے تحت ”غیر مطمئن سیکیورٹی پروفائل“ رکھنے والے افراد کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہو گیا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سابق مشیر کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی اور مہاجرین کے تحفظ کی پالیسیوں سے کھلا انحراف ہے۔
نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ فیصلہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مترادف ہے، اور امریکا کی امیگریشن تاریخ کو نصف صدی پیچھے لے جا سکتا ہے۔“
سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک طرف انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے، جبکہ دوسری جانب یہ ان کے ووٹ بینک کو متحرک رکھنے کی کوشش بھی ہے، خاص طور پر اُن حلقوں میں جو غیر ملکی تارکینِ وطن کی مخالفت کرتے ہیں۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، کیونکہ کئی سینئر حکام کا ماننا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا کی عالمی ساکھ اور انسانی حقوق کے میدان میں قیادت کو نقصان پہنچے گا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ پالیسی نافذالعمل رہی تو لاکھوں پناہ گزین، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں داخلے کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ دنیا بھر میں شدید تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔