Daily Ausaf:
2025-04-25@08:27:52 GMT

خودمختاری اور آزادی کا خواب

اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT

(گزشتہ سے پیوستہ)
محمد ایوب خان مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’دنیا آج مساوات کے لیے لڑ رہی ہے۔ افراد کے درمیان مساوات اور اقوام کے درمیان مساوات، خواہ وہ بڑی ہوں یا چھوٹی، اس لیے ضروری ہے کہ تمام دنیا صاف صاف اس بات کو تسلیم کرے کہ ہر قوم مساویانہ حقوق اور مواقع کی مستحق ہے۔ دنیا کے ملکوں کی آزادی اور خودمختاری کی، ان کے رقبے (اور) وسائل کی بنیاد پر درجہ بندی نہیں کی جا سکتی۔ یہ بڑی صاف بات ہے اور کوئی بھی اس سے انکار کی جرأت نہیں کرے گا۔ یہ دنیا بڑوں ہی بڑوں کی دنیا ہے، خواہ وہ دو بڑے ہوں یا تین بڑے، یا چار بڑے، یا اور بھی زیادہ۔ یہی دنیا کی تقدیر کا فیصلہ کرتے ہیں اور اس کی راہیں متعین کرتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے ملک، خصوصاً وہ جو ابھی صنعتی ترقی کی ابتدائی منزلیں طے کر رہے ہیں، انہوں نے غلامی کا طوق تو اتار پھینکا ہے لیکن ابھی ان میں سے اکثر اپنی فضا کو سامراجی اثرات سے پاک صاف کر کے اپنے انفرادی وجود اور تصورات کو ابھار نہیں سکے۔ ہمیں بھی اپنی انفرادیت کو تسلیم کرانا اور ایک مساوی اور باوقار حیثیت حاصل کرنے کے لیے لڑنا ہے۔ بھارت نے شروع ہی سے ہماری راہ میں مشکلات پیدا کرنے کی ٹھان رکھی ہے، اس نے ہمارے لیے پناہ گیروں کی بحالی کا زبردست مسئلہ اس لیے پیدا کیا تھا کہ ہماری معیشت مفلوج ہو کر رہ جائے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے ہمیں وہ ساز و سامان دینے سے بھی انکار کر دیا جس میں ملک کی تقسیم سے پہلے ہمارا حصہ تھا۔ اس نے ہمیں ان دریاؤں کے بہاؤ کا رخ بدل دینے اور ان کا پانی روک لینے کی دھمکی دی جو ہمارے ملک میں بہتے ہیں۔ پھر اس نے تمام معاہدوں اور اصولوں کے خلاف جموں و کشمیر کی ریاست کے ایک بڑے حصے پر بزور قبضہ کر لیا اور اپنی فوجیں وہاں جمع کر کے ہمارے ملک کی سلامتی کے لیے ایک مستقل خطرہ پیدا کر دیا۔ ان سب باتوں کی تہہ میں بھارت کی یہ ہوس کار فرما تھی کہ وہ یا تو پاکستان کو اپنے میں جذب کر لے یا اسے اپنا حاشیہ نشین بنا لے۔ بھارتی لیڈروں نے اپنے ارادوں کو ڈھکا چھپا نہیں رکھا تھا۔ اچاریہ کرپلانی نے، جو ۱۹۴۷ء میں انڈین نیشننل کانگرس کے صدر تھے، علی الاعلان کہا ’’نہ تو کانگریس اور نہ قوم اکھنڈ بھارت سے دستبردار ہوئی۔‘‘
’’اس زمانے میں سردار ولبھ بھائی پٹیل نے، جو پہلے انڈین ہوم منسٹر تھے اور کانگرس پارٹی کے مرد آہن کہلاتے تھے، یہ کہا تھا ’’بہت دیر نہ گزرے گی کہ ہم دوبارہ ایک ہو کر اپنے ملک کی اطاعت گزاری میں باہم شریک ہو جائیں گے۔‘‘
’’میں یہ بیان کر چکا ہوں کہ ۱۹۶۰ء سے ۱۹۶۴ء کا جو زمانہ گزرا، اس میں ہمیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کے بارے میں کیسی تشویش پیدا ہو گئی تھی۔ مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے امریکہ نے اپنی حکمتِ عملی کو حالات کے تابع کر دیا ہے۔ نیز یہ کہ جو تبدیلیاں وہ کر رہا ہے ان سے امریکی پالیسیوں اور پروگراموں کے اخلاقی پہلوؤں کی بابت لوگوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ پاکستان کے لوگوں کو سخت مایوسی ہو رہی تھی۔ ۱۹۵۰ء اور ۱۹۶۰ء کے درمیانی عرصے میں امریکہ اور پاکستان میں بڑی محنتوں سے جو رشتہ قائم ہوا تھا اب لوگوں کے دلوں سے اس کا احترام اٹھتا جا رہا تھا۔ ہم ہندوستان کی بڑھتی ہوئی فوجی طاقت سے چشم پوشی نہیں کر سکتے تھے، نہ ہندوستان کے حملے کی صورت میں امریکہ کی امداد پر بھروسہ کر سکتے تھے۔ امریکہ جس پالیسی پر عمل کر رہا تھا، ہم جانتے تھے کہ اس سے آگے چل کر ایشیا میں اس کی پوزیشن کمزور ہو جائے گی۔ لیکن ہمارے پاس امریکہ کو اس پالیسی سے باز رکھنے کے ذرائع نہیں تھے۔ امریکی حکومت کے دل و دماغ میں چین کا خطرہ چھایا ہوا تھا اور وہ ہندوستان سے بے اختیارانہ آس لگا رہی تھی کہ ہندوستان چینی خطرے کا توڑ ثابت ہوگا۔‘‘
’’ادھر پچھلے دس برس میں امریکہ کی پالیسیوں میں بھی تبدیلیاں پیدا ہوئیں، جو ہندوستان کے بالمقابل امریکہ کے اتحادی پاکستان کے لیے متواتر نقصان کا باعث ہوتی رہیں۔ جب ہم نے پہلے پہل امریکہ کے ساتھ اتحاد کیا تھا تو اس غیر جانبداری کو، جسے ہندوستان ’’ناطرفداری‘‘ کے نام سے موسوم کرنا زیادہ پسند کرتا تھا، امریکہ میں شک و شبہ کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ بلکہ درحقیقت ’’غیر اخلاقی‘‘ سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس کا مطلب تھا کہ دونوں فریقوں کو بے وقوف بنا کر اپنا الو سیدھا کرو۔‘‘
محمد ایوب خان مرحوم کی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں یہ اقتباسات ہم نے اس لیے پیش کیے ہیں تاکہ مسٹر ہالبروک پر یہ بات واضح ہو کہ انہیں آقا کے بجائے دوست بننے کا جو مشورہ دیا گیا ہے وہ آج کا نہیں ہے بلکہ نصف صدی پہلے ان کے ملک سے یہ گزارش کی گئی تھی اور اس کے اسباب بھی واضح کر دیے گئے تھے۔ پاکستان کے حالات، امریکی پالیسیاں، اور پاکستانیوں کے جذبات آج بھی اسی طرح ہیں جیسے نصف صدی پہلے تھے۔ ان کی شدت میں تو کئی گنا اضافہ ہوا ہے لیکن ان میں کوئی فرق اور تغیر نہیں آیا۔ امریکہ کے لیے ہمارے جذبات وہی ہیں، اور پیغام بھی وہی ہے جو ہمارے سابق صدر جناب محمد ایوب خان مرحوم نے ۱۲ جولائی ۱۹۶۱ء کو امریکی کانگرس سے خطاب کرتے ہوئے دو ٹوک انداز میں دیا تھا۔ ایوب خان مرحوم لکھتے ہیں کہ ’’میں نے کانگرس کو اس کی ذمہ داریاں اور اس کے عالمی فرائض یاد دلائے۔ جب میں نے کہا کہ ’’جو لوگ آپ کا ساتھ دیں گے وہ پاکستان ہی کے لوگ ہوں گے‘‘ تو اس پر بڑی تالیاں بجائی گئیں، لیکن ابھی ان تالیوں کا شور تھمنے نہ پایا تھا کہ میں نے اتنا اور بڑھا دیا کہ ’’بشرطیکہ ۔ ۔ ۔ بشرطیکہ آپ بھی پاکستان کا ساتھ دینے کے لیے تیار ہوں۔ چنانچہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی مصلحت کے تقاضے کچھ بھی ہوں، آپ کوئی ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے جو ہمارے مسائل کو مشکل بنا دے یا ہماری سلامتی کو کسی قسم کے خطرے میں ڈال دے۔ جب تک آپ اس بات کو یاد رکھیں گے ہماری دوستی مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی‘‘۔
جناب ہالبروک سے گزارش ہے کہ وہ امریکی کانگرس کے سامنے پاکستان کے صدر کے ۱۲ جولائی ۱۹۶۱ء کے اس خطاب کو ایک بار پھر پڑھ دیں اور عزت مآب باراک حسین اوباما کو بھی پڑھا دیں۔ کیونکہ پاکستان کے حکمران کچھ بھی کرتے رہیں مگر پاکستانی قوم کے ذہن نصف صدی بعد بھی ’’بشرطیکہ ۔ ۔ ۔ بشرطیکہ‘‘ کے اسی نکتے پر اٹکے ہوئے ہیں۔ اور ’’بشرطیکہ‘‘ تقاضوں کی طرف توجہ دیے بغیر امریکی حکمرانوں کو پاکستانی قوم سے اس کے غصے اور نفرت کے جذبات میں کمی کی کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ایوب خان مرحوم پاکستان کے امریکہ کے کے لیے

پڑھیں:

امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے، حافظ نعیم الرحمان

امیر جماعت اسلامی کا کہنا ہے کہ امریکی زبان بولنے والا فلسطینیوں کا نمائندہ نہیں ہو سکتا، قبلہ اول پر صہیونی حملہ آور ہیں، حماس نے 7 اکتوبر کو جائز حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے جبکہ اسرائیلی یہاں منتقل ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا کام اپنے حکمرانوں کو جگانا ہے، مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے، جو اسرائیل کو مسلمانوں کو مارنے کا کہتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے پشت پر کھڑا ہے، جبکہ مسلمان خاموش ہیں، اس لئے بچے شہید ہو رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امریکی زبان بولنے والا فلسطینیوں کا نمائندہ نہیں ہو سکتا، قبلہ اول پر صہیونی حملہ آور ہیں، حماس نے 7 اکتوبر کو جائز حملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطین فلسطینیوں کا ہے جبکہ اسرائیلی یہاں منتقل ہوئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارا کام اپنے حکمرانوں کو جگانا ہے، مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا ہے۔

انہوں نے تاجروں پر زور دیا کہ اپنی مصنوعات بنائیں اور کارخانے لگائیں تاکہ ہم غیر مسلموں کی مصنوعات کا مقابلہ کر سکیں۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ تاجر اپنی مصنوعات کے قیمتیں بھی مناسب رکھیں تاکہ لوگ خرید سکیں، اس سے پاکستان کو بھی فائدہ ہوگا۔ حافظ نعیم الرحمٰن نے کہا کہ علمائے کرام کے جہاد کے اعلان کا مذاق نہ اُڑایا جائے، ایک ایک بندہ اگر بندوق اٹھا نہیں سکتا تو اپنے حکمرانوں کو تو مجبور کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ 26 اپریل کی ہڑتال کسی کی نہیں بلکہ امت مسلمہ کی اسرائیل کیخلاف ہے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکہ سب سے بڑا دہشت گرد ہے، حافظ نعیم الرحمان
  • بیوائیں بھی بلا امتیاز ملازمت، وقار، مساوات اور خودمختاری کی حقدار ہیں: سپریم کورٹ
  • چین اور امریکہ کے درمیان فی الحال کوئی تجارتی مذاکرات نہیں ہو رہے ،چینی وزارت تجارت
  • خوابوں کی تعبیر
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • ملتان میں آزادی صحافت پر حملہ، سینیئر صحافی ارشد ملک اغواء ، صحافتی تنظیمیں سراپا احتجاج ،بازیابی کا مطالبہ
  • بیوائیں تمام شہریوں کی طرح روزگار، وقار، برابری اور خودمختاری کا حق رکھتی ہیں، سپریم کورٹ
  • پنجاب کے عوام کی زندگیوں میں آسانیاں لانا میرا خواب ہے: مریم نواز
  • جاپانی شہری کے ساتھ دلخراش واقعہ، 10 سال بچت کے بعد خریدی گئی فیراری چند منٹ میں جل کر راکھ
  • حج کی سعادت کا خواب! خواہشمند پاکستانیوں کی زندگی بھر کی جمع پونجی داؤ پر لگ گئی