معراج النبیﷺ اور سائنسی کمالات
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
(گزشتہ سےپیوستہ)
پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کوراتوں رات لے گئی مسجدحرام سے مسجد اقصی تک جس کے ماحول کواس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی نشانیوں کا مشاہدہ کرائے۔وہی ہے سب کچھ سننے اوردیکھنے والا ۔(بنی اسرائیل، آیت1)
جہاں تک معراج کی فضائی سفرکی تمام ترمشکلات کی بات ہے آج انسان علم کی قوت سے ان پرقابوحاصل کرچکاہے اور سوائے زمانے کی مشکل کے باقی تمام مشکلات حل ہوچکی ہیں اور زمانے والی مشکل بھی بہت دورکے سفرسے مربوط ہے۔ مسئلہ معراج جوکہ خوداسلام کے مطابق ایک معجزہ ہے جوکہ اللہ کی لامتناہی قدرت وطاقت کے ذریعے ممکن ہوتاہے اورانبیا کے تمام معجزات اسی قسم کے تھے۔جب انسان یہ طاقت رکھتاہے کہ سائنسی ترقی کی بنیادپرایسی چیزیں بنالے کہ جوزمینی مرکزثقل سے باہرنکل سکتی ہیں،ایسی چیزیں تیارکر لے کہ فضائے زمین سے باہرکی ہولناک شعاعیں ان پراثرنہ کرسکیں اور مشق کے ذریعے بے وزنی کی کیفیت میں رہنے کی عادت پیدا کرلے۔ جب انسان اپنی محدودقوت کے ذریعے یہ کام کرسکتا ہے توپھرکیااللہ اپنی لامحدود طاقت کے ذریعے یہ کام نہیں کرسکتا؟چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے۔
اورہماراحکم ایساہے جیسے ایک پلک جھپک جانا۔ِ( القمر: 50)
سائنسدان جانتے ہیں کہ ایٹم کے بھی 100چھوٹے چھوٹے ذرات ہیں،ان میں سے ایک نیوٹرینوہے جوتما م کائنات کے مادے میں سے بغیر ٹکرائے گزر جاتا ہے،مادہ اس کیلئے مزاحمت پیدا نہیں کرتااورنہ ہی وہ کسی مادی شے سے رگڑ کھاتا ہے، وہ بہت چھوٹا ذرہ ہے اورنہ ہی وہ رگڑسے جلتاہے کیونکہ رگڑ تو مادے کی اس صورت میں پیداہوگی جبکہ وہ کم ازکم ایٹم کی کمیت کاہوگا۔ (سرن لیبارٹری میں تحقیق کرنے والے سائنس دانوں نے بھی23 ستمبر2011ء کو اپنے تجربات کے بعدیہ اعتراف کیاتھاکہ نیوٹرینوکی رفتارروشنی کی رفتار سے بھی زیادہ ہے)۔
روایت کے مطابق جبرائیل علیہ السلام نے آپﷺکوبراق پرسوارکیا۔براق،برق سے نکلاہے،جس کے معنی بجلی ہیں،جس کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈہے۔اگرکوئی آدمی وقت کے گھوڑے پرسوارہوجائے تووقت اس کیلئے ٹھہر جاتا ہے یعنی اگرآپ186000میل فی سیکنڈکی رفتار سے چلیں تووقت رک جاتاہے کیونکہ وقت کی رفتاربھی یہی ہے۔وقت گرجائے گاکیونکہ وقت اورفاصلہ مادے کی چوتھی جہت ہے اس لیے جوشخص اس چوتھی جہت پر قابو پا لیتاہے کائنات اس کیلئے ایک نقطہ بن جاتی ہے۔وقت رک جاتاہے کیونکہ جس رفتارسے وقت چل رہاہے وہ آدمی بھی اسی رفتارسے چل رہاہے حالانکہ وہ آدمی اپنے آپ کوچلتاہوامحسوس کرے گالیکن کائنات اس کیلئے وہیں تھم جاتی ہے جب اس نے وقت اورفاصلے کواپنے قابومیں کرلیاہواس کیلئے چاہے سینکڑوں برس اس حالت میں گزرجائیں لیکن وقت رکا رہے گااورجوں ہی وہ وقت کے گھوڑے سے اترے گاوقت کی گھڑی پھرسے ٹک ٹک شروع کردے گی،وہ آدمی چاہے پوری کائنات کی سیر کرکے آجائے،بسترگرم ہوگا ،کنڈی ہل رہی ہوگی اورپانی چل رہاہوگا۔ اللہ جل جلالہ کی قدرتیں لاانتہا ہیں،وہ ہربات پرقادرہے کہ رات کو جب تک چاہے روکے رکھے،اگروہ روکے توکوئی اس کی ذات پاک کے سوانہیں جو دن نکال سکے: آئیے دیکھیں اللہ سورہ القصص کی ٓآیات 71-72 میں فرماتے ہیں:آپ کہیے کہ بھلایہ تو بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ اگرقیامت تک تم پررات کومسلط کردے تواس کے سواکون روشنی لاسکتاہے؟آپ کہیے کہ بھلایہ تو بتلاؤکہ اگراللہ چاہے توقیامت تک تم پردن ہی دن رہنے دے تواس کے سواکون رات لاسکتاہے،جس میں تم آرام پاؤتوکیاتم دیکھتے نہیں ؟گویا حق تعالیٰ کو پوری قدرت ہے وہ اگر چاہے تو وقت کوروک سکتا ہے۔
ہماراروزمرہ کامشاہدہ ہے کہ ایک گھر میں بیک وقت بلب جل رہے ہیں،پنکھے(سیلنگ فین) سے ہواصاف ہورہی ہے، ریڈیو سنااورٹیلی وژن دیکھاجارہا ہے، ٹیلی فون پرگفتگو ہو رہی ہے،فریج میں کھانے کی چیزیں محفوظ کی جارہی ہیں، ائیرکنڈیشنڈسے کمرہ ٹھنڈاہورہاہے،ٹیپ ریکارڈر پرمختلف پروگرامزٹیپ ہورہے ہیں، گرائنڈر میں مصالے پس رہے ہیں ، استری سے کپڑوں کی شکنیں دور ہورہی ہیں،سی ڈی پلیئرز پرفلمیں دیکھی جارہی ہیں،وغیرہ وغیرہ۔کسی نے بڑھ کر مین سوئچ آف کردیا،پھرکیاتھا،لمحوں میں ہرچیز نے کام کرنا بند کردیا۔معلوم ہوایہ تمام کرنٹ کی کارفرمائی تھی۔یہی حال کارخانوں کا ہے۔ کپڑابنااور دیگراشیا تیارہورہی ہیں،جیسے ہی بجلی غائب ہوئی،سب کچھ رک گیا،جونہی کرنٹ آیاہرچیز پھر سے کام کرنے لگی۔آج کاانسان ان روزمرہ کے مشاہدات کے پیشِ نظر واقعہ معراج کی روایات کی صداقت کاادراک کر سکتا ہے۔ روایتیں ملتی ہیں کہ سرورِکائناتﷺجب سفر ِمعراج سے واپس تشریف لائے توبسترکی گرمی اسی طرح باقی تھی،وضوکاپانی ہنوزبہہ رہاتھا،کنڈی ابھی ہل رہی تھی۔چودہ سوسال پہلے اس پریقین لانا ناممکنات میں سے تھا لیکن آج یہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے۔کرنٹ کی مثال سے یہ سمجھا جاسکتا ہے، اس پرقابوپالینے سے کیسے ہرکام معطل ہوسکتا ہے۔اسی طرح وقت پرقابوپالیاجائے توہرچیز ٹھہر جاتی ہے۔ ممکن ہے معراج کی شب نظامِ زمان ومکان معطل کردیاگیاہو،وقت رک گیاہو۔کیا یہ خالقِ کائنات،نظامِ زمان ومکان کے مالک کیلئے کچھ مشکل تھا؟پھرجب انسانی صنعت سے خلائی جہاز چاند، زہرہ اورمریخ تک پہنچ سکتے ہیں توربانی طاقت اورلاانتہا قدرت رکھنے والے کے حکم سے کیااس کے رسولﷺشب معراج میں آسمانوں کوطے کرکے سدر المنتہیٰ تک نہیں پہنچ سکتے؟ہے کوئی سوچنے والا؟
یہ جدید ذہن کے عقلی اشکالات کے جواب میں معراج کی ممکنہ عقلی توجیہات تھیں کہ آج کے دورمیں ایسے معاملات کوسمجھنا مشکل نہیں اورایسے اعمال کا ہونامحال یاناممکن نہیں کہا جاسکتا ورنہ مذہبی عقائدمشاہدات کانہیں ایمان باالغیب کا تقاضہ کرتے ہیں ۔یہ مسئلہ خالص یقین واعتقاد کا ہے، جب توحیدو رسالت مستند ذرائع سے ثابت ہو جائے توپھران پر ایمان لانااوراس کی حقیقت و کیفیت کوعلمِ الہٰی کے سپر دکردیناہی عین عبادت ہے،یہ لازمی نہیں ہوتا کہ ایک مافوق الفطرت کی ہربات فطرت کے مطابق بھی ہو،اس لیے ایمان کا حکم پہلے ہے۔نبوت،وحی اورمعجزوں کے تمام معاملات احاطہ عقل وقیاس سے باہرکی چیزیں ہیں جوشخص ان چیزوں کوقیاس کے تابع اوراپنی عقل وفہم پرموقوف رکھے اورکہے کہ یہ چیزجب تک عقل میں نہ آئے،میں اس کونہیں مانوں گا،توسمجھنا چاہیے کہ وہ شخص ایمان کے اپنے حصہ سے محروم رہا۔اللہ رب العزت ہمارے دلوں پردین پرجمائے رکھے۔
معراج کمالِ معجزاتِ مصطفی ﷺہے۔ یہ وہ عظیم خارقِ عادت واقعہ ہے جس نے تسخیرِ کائنات کے مقفل دروازوں کو کھولنے کی اِبتدا کی۔ اِنسان نے آگے چل کر تحقیق و جستجو کے بند کواڑوں پر دستک دی اور خلا میں پیچیدہ راستوں کی تلاش کا فریضہ سراِنجام دیا۔ رات کے مختصر سے وقفے میں جب اللہ رب العزت حضور رحمتِ عالم ﷺکو مسجدِ حرام سے نہ صرف مسجدِ اقصی تک بلکہ جملہ سماوِی کائنات (Cosmos) کی بے انت وسعتوں کے اس پارقاب قوسینِ اورودنکے مقاماتِ بلند تک لے گیااورآپ مدتوں وہاں قیام کے بعداسی قلیل مدتی زمینی ساعت میں اِس زمین پر دوبارہ جلوہ افروز بھی ہوگئے۔
آج سے چودہ سو سال قبل علومِ اِنسانی میں اِتنی وسعت تھی اور نہ اِتنی گیرائی اور گہرائی کہ معجزاتِ رسول ﷺکا کوئی ادنی جزو ہی ان کے فہم و اِدراک میں آ جاتا حتی کہ اس وقت بہت سے علومِ جدیدہ کی مبادیات تک کا بھی دوردورتک کہیں نام و نشان نہ تھا۔ آج عقلِ اِنسانی اپنے اِرتقا، اپنی تحقیق اورجستجو کے بل بوتے پر جن کائناتی صداقتوں اورسچائیوں کوتسلیم کر رہی ہے، ہزاروں سال قبل اِن کی تصدیق و توثیق وحئی اِلٰہی کے بغیر ممکن نہ تھی۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: اس کیلئے کے ذریعے معراج کی
پڑھیں:
18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں انہیں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے: رانا ثنا
وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے 18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں انہیں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے۔
جیو نیوز کے مارننگ شو جیو پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا آئین کسی بھی ملک کی مقدس دستاویز ہوتی ہے لیکن حرف آخر نہیں ہوتی، آئین میں بہتری کے لئے ترامیم کی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئین پاکستان میں 26 ترامیم ہو چکی ہیں، پارلیمنٹ کی دو تہائی اکثریت اگر متفق ہو تو آئین میں ترمیم ہوتی ہے، 26 ویں ترمیم کے بعد جن چیزوں پر بات ہو رہی ہے ہوتی رہے گی۔
27 ویں ترمیم کو ایسی خوفناک چیز بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جیسے طوفان ہو، اتفاق رائےکے بغیر کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوگی، رانا ثنا اللہ
سینیٹر رانا ثنا اللہ نے کہا ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم صبح 27 ویں ترمیم لا رہے ہیں، مثبت بات چیت اور بحث جمہوریت کا خاصا ہے اور وہ ہوتا رہنا چاہیے، مختلف چیزیں ہیں جن پر پارلیمینٹرین اور مختلف جماعتوں کے درمیان بات چیت ہو رہی ہے، بنیادی مسائل پر بات بنتے بنتے بنتی ہے، فوری طور پر یہ چیزیں نہیں ہوتیں۔
رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا 18 ویں ترمیم سے مسلم لیگ ن کو کوئی مسئلہ نہیں ہے، 18 ویں ترمیم صوبے اور فیڈریشن کے درمیان وسائل کی تقسیم سے متعلق ہے، 18 ویں ترمیم میں صوبوں اور مرکز کے پاس جو وسائل ہیں ان میں بیلنس کرنے کی ضرورت ہے۔
ستاروں کی روشنی میں آپ کا آج (منگل) کا دن کیسا رہے گا ؟
وزیر اعظم کے مشیر کا کہنا تھا 18 ویں ترمیم وسائل کی تقسیم پر طویل عرصے بات چیت ہوتی رہی ہے، اُس وقت کے حساب سے 18 ویں ترمیم میں وسائل کی تقسیم کو بیلنس طے کیا گیا، اب اگر عملی طور پر فرق آیا ہے تو اس پر بات چیت اور غور و فکر کرنے میں تو کوئی عار نہیں ہے، اتفاق رائے ہو جائے گا تو دو تہائی اکثریت سے ترمیم ہو جائے گی۔
مزید :