سندھ حکومت کا فوری مشترکہ مفادات کونسل اجلاس بلانے کیلئے وفاق کو خط
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
سندھ حکومت کا فوری مشترکہ مفادات کونسل اجلاس بلانے کیلئے وفاق کو خط WhatsAppFacebookTwitter 0 28 March, 2025 سب نیوز
اسلام آباد (سب نیوز)حکومت سندھ نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کی باقاعدہ درخواست کردی۔تفصیلات کے مطابق حکومت سندھ نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بلانے کی باقاعدہ درخواست کردی، صوبائی محکمہ بین الصوبائی رابطہ نے وفاقی وزارت بین الصوبائی رابطہ کو خط لکھ کر سی سی آئی کا اجلاس جلد بلانے کی گزارش کی ہے۔
خط کے مطابق سندھ میں پانی کی شدید قلت ہے، حریف سیزن میں فصلوں کی کاشت ممکن نہیں، ارسا کی جانب سے چولستان کینال کیلئے پانی کی دستیابی کا سرٹیفکیٹ بھی خلاف قانون ہے، چولستان پروجیکٹ کیلئے ارسا کی جانب سے جاری سرٹیفکیٹ درست نہیں ہے۔خط میں کہا گیا ہے کہ سندھ حکومت نے اجلاس میں سخت احتجاج، سرٹیفکیٹ پر عدم اتفاق کا اظہار کیا تھا، واٹر کارڈ 1991 کے مطابق فیصلہ قابل قبول نہیں، سندھ کے حصے کے پانی پر اثرات پڑتے ہیں۔سندھ حکومت نے خط میں لکھا کہ سندھ کو پانی کی قلت کا سامنا ہے، پنجاب کو نئے کینال کی منظوری دینا خلاف قانون ہے، سندھ حکومت نے سی سی آئی سے چولستان پروجیکٹ کیلئے ارسا سرٹیفکیٹ منسوخ کرنیکا مطالبہ کیا ہے اور کہا کہ جب تک پانی کی تقسیم پر اتفاق رائے پیدا نہ ہو سی سی آئی پروجیکٹ روکے اور منظوری ختم کرے۔
خط کے مطابق آئین کے آرٹیکل 154 (3) کے تحت ہر تین ماہ بعد مشترکہ مفادات کی کونسل کا اجلاس بلانا لازم ہے، سی سی آئی کا 51واں اجلاس 29 جنوری 2024 کو منعقد ہوا تھا، 52واں اجلاس 20 جولائی 2024 کو ہونا تھا جو ملتوی ہوگیا۔خط میں کہا گیا ہے کہ اجلاس ملتوی کیا گیا مگر نئی تاریخ نہیں رکھی گئی جس سے بین الصوبائی مسائل پر پیچیدہ صورتحال پیدا ہوگئی، ان مسائل میں توانائی کی تقسیم میں خدشات، پانی کی منصفانہ تقسیم اور معاشی تعاون شامل ہیں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
کلیدی لفظ: مشترکہ مفادات کونسل اجلاس بلانے سندھ حکومت
پڑھیں:
سندھ طاس معاہدے کی معطلی سے پاکستان میں پانی کی شدید قلت کا خطرہ، بین الاقوامی رپورٹ میں انکشاف
ایک تازہ بین الاقوامی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ (Indus Waters Treaty) معطل کیے جانے کے بعد پاکستان کو پانی کی سنگین قلت کا سامنا ہو سکتا ہے۔
سڈنی میں قائم انسٹیٹیوٹ فار اکنامکس اینڈ پیس کی ’اکولوجیکل تھریٹ رپورٹ 2025‘ کے مطابق اس فیصلے کے نتیجے میں بھارت کو دریائے سندھ اور اس کی مغربی معاون ندیوں کے بہاؤ پر کنٹرول حاصل ہو گیا ہے، جو براہِ راست پاکستان کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق نئی دہلی نے یہ معاہدہ رواں سال اپریل میں پاہلگام حملے کے بعد جوابی اقدام کے طور پر معطل کیا تھا۔ یہ پیشرفت ایسے وقت میں سامنے آئی جب پاکستان کی زراعت کا تقریباً 80 فیصد انحصار دریائے سندھ کے نظام پر ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا کہ معمولی رکاوٹیں بھی پاکستان کے زرعی نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہیں کیونکہ ملک کے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی محدود صلاحیت ہے، موجودہ ڈیم صرف 30 دن کے بہاؤ تک پانی روک سکتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق دریائے سندھ کے بہاؤ میں تعطل پاکستان کی خوراکی سلامتی اور بالآخر اس کی قومی بقا کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔ اگر بھارت واقعی دریاؤں کے بہاؤ کو کم یا بند کرتا ہے، تو پاکستان کے ہرے بھرے میدانی علاقے خصوصاً خشک موسموں میں، شدید قلت کا سامنا کریں گے۔
مزید بتایا گیا کہ مئی 2025 میں بھارت نے چناب دریا پر سلال اور بگلیہار ڈیموں میں ’ریزروائر فلشنگ‘ آپریشن کیا جس کے دوران پاکستان کو پیشگی اطلاع نہیں دی گئی۔ اس عمل سے چند دن تک پنجاب کے کچھ علاقوں میں دریا کا بہاؤ خشک ہوگیا تھا۔
یاد رہے کہ سندھ طاس معاہدہ 1960 میں عالمی بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا، جس کے تحت مشرقی دریاؤں (راوی، بیاس، ستلج) کا کنٹرول بھارت کو اور مغربی دریاؤں (سندھ، جہلم، چناب) کا اختیار پاکستان کو دیا گیا۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے درمیان تین جنگوں کے باوجود برقرار رہا۔
تاہم رپورٹ کے مطابق، 2000 کی دہائی سے سیاسی کشیدگی کے باعث اس معاہدے پر عدم اعتماد بڑھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کے دوران مشرقی دریاؤں کے مکمل استعمال کی کوششوں کے ساتھ، پاہلگام حملے کے بعد بھارت نے معاہدے کی معطلی کا اعلان کیا۔
پاکستان کی جانب سے اس اقدام پر شدید ردِعمل دیا گیا اور کہا گیا کہ پاکستان کے پانیوں کا رخ موڑنے کی کوئی بھی کوشش جنگی اقدام تصور کی جائے گی۔
جون 2025 میں بھارتی وزیرِ داخلہ امیت شاہ نے بیان دیا کہ سندھ طاس معاہدہ اب مستقل طور پر معطل رہے گا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں