ٹیلی کام کمپنیوں نے فون سم بلاک کرنے کے منفی اثرات سے خبردار کردیا
اشاعت کی تاریخ: 28th, March 2025 GMT
ٹیلی کام آپریٹرز وزارت آئی ٹی کی جانب سے قسطوں پر اسمارٹ فونز کی فراہمی کے اقدام پر تشویش کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اس پالیسی سے پاکستان کے ڈیجیٹل منظرنامے پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جعلی خبریں پھیلانے پر 80 ہزار موبائل فون سمز بلاک
میڈیا رپورٹس کے مطابق 4 میں سے 2 موبائل آپریٹرز نے پالیسی کی ایک اہم شق پر تحفظات کا اظہار کیا ہے جس کے تحت نادہندگان کو رجسٹرڈ تمام سمز کو بلاک کرنا لازمی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات سے نہ صرف شہریوں کو ان کے ڈیجیٹل حقوق سے محروم کیا جائے گا بلکہ ملک میں ڈیجیٹل شمولیت پر بھی منفی اثر پڑے گا۔
ٹیلی کام کمپنیوں کا اصرار ہے کہ دوسرے ممالک میں ٹیلی کام آپریٹرز نہیں بلکہ حکومتیں ڈیفالٹ کا مالی بوجھ برداشت کرتی ہیں اور وہ ممکنہ نقصانات کو پورا کرنے کے لیے کسی قابل عمل میکانزم کے بغیر خطرہ برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
فی الحال یہ پالیسی زیر بحث ہے کیونکہ وزارت آئی ٹی نے ٹیلی کام آپریٹرز کو اتفاق رائے تک پہنچنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
وزارت نے فریم ورک کو حتمی شکل دے دی ہے اور اسے ٹیلی کام کمپنیوں کے ساتھ شیئر کیا ہے لیکن بنیادی نکات نادہندگان کے لیے مجوزہ سم بلاکنگ انفورسمنٹ میکانزم ہیں اور ٹیلی کام آپریٹرز کو مالی بوجھ برداشت کرنا پڑ سکتا ہے۔
مزید پڑھیے: سگنل میسجنگ ایپ کیا ہے، یہ کتنی محفوظ ہے؟
کچھ آپریٹرز اس تجویز کی حمایت کرتے ہیں جبکہ دیگر ایک مرکزی نظام کی سختی سے مخالفت کرتے ہیں جو نادہندگان کے شناختی کارڈ سے منسلک تمام سموں کو معطل کرنے کا سبب بنے گا۔
مزید برآں ٹیلی کام آپریٹرز نے خدشات کا اظہار کیا ہے کہ انہیں ڈیفالٹ رسک یا سبسڈی کے اخراجات کو برداشت کرنے کے لیے ذمے دار نہیں ہونا چاہیے۔
اس اقدام کا مسودہ پہلی بار نومبر 2023 میں تیار کیا گیا تھا اور 2024 کے اوائل میں کابینہ کی منظوری کے لیے بھیجا گیا تھا۔ تاہم کابینہ نے اسے وزارت آئی ٹی کو واپس بھیج دیا اور ہدایت کی کہ اس پالیسی کا قانون ڈویژن سے جائزہ لیا جائے۔
عام انتخابات کے بعد نظر ثانی شدہ ورژن نئے آئی ٹی وزیر شزا فاطمہ کو پیش کیا گیا جنہوں نے بینکوں، فن ٹیک فرموں اور ٹیلی کام آپریٹرز کی رائے کے ساتھ ایک تازہ ترین مسودہ تیار کیا۔
پالیسی کو بہتر بنانے کی کوششوں کے باوجود سی ایم اوز کے درمیان اتفاق رائے کا فقدان پیش رفت کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ آپریٹرز کے درمیان اتفاق رائے کے بغیر پالیسی حتمی منظوری کے لیے وفاقی کابینہ میں پیش نہیں کی جا سکتی۔
مزید پڑھیں: حکومت کا قسطوں پر موبائل فون فراہم کرنے کا منصوبہ تعطل کا شکار
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے حکام کے مطابق اصل چیلنج قسط پر مبنی اسمارٹ فون کی فراہمی نہیں بلکہ نادہندگان کے خلاف نفاذ کا طریقہ کار ہے۔
وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) وفاقی حکومت کی جانب سے واضح پالیسی ہدایات جاری ہونے کے بعد ہی اس پر عمل درآمد کر سکتے ہیں۔
اس منصوبے کی مخالفت کرنے والے ٹیلی کام آپریٹرز نے متبادل حل تجویز کیے ہیں جن میں خطرات کو کم کرنے کے لیے زیادہ شرح سود یا پیشگی ادائیگی کی اجازت دینا بھی شامل ہے۔
تاہم حکومت اس بات سے مطمئن نہیں ہے اور یہ دلیل دیتی ہے کہ اعلیٰ شرح سود کے ساتھ قسط پر مبنی اسمارٹ فون کی خریداری پہلے ہی مارکیٹ میں دستیاب ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسمارٹ فون ٹیلی کام آپریٹرز فون سم فون سم بلاک قسطوں پر فون.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسمارٹ فون ٹیلی کام ا پریٹرز فون سم فون سم بلاک قسطوں پر فون ٹیلی کام آپریٹرز کرنے کے لیے اسمارٹ فون آئی ٹی کیا ہے فون سم
پڑھیں:
کالعدم علیحدگی پسند جماعت کیلیے کام کرنے کا الزام، اے ٹی سی نے ملزمان کومقدمے سے ڈسچارج کردیا
اسپیشل ڈیوٹی مجسٹریٹ غربی کی عدالت نے کالعدم علیحدگی پسند تنظیم کے 2 ملزمان سے بارودی مواد برآمدگی کے مقدمے سے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 63 کے تحت مقدمے سے ڈسچارج کرتے ہوئے رہا کرنے کا حکم دیدیا۔
اتوار کو اسپیشل ڈیوٹی مجسٹریٹ غربی کی عدالت کے روبرو سی ٹی ڈی حکام نے سخت سیکیورٹی میں ملزمان غنی امان چانڈیو اور سرمد علی کو پیش کیا۔
سی ٹی ڈی کی جانب سے ملزمان کو بکتر بند گاڑی میں چہرہ ڈھانپ کر پیش کیا گیا۔
کراچی بار کے صدر عامر نواز وڑائچ سمیت دیگر وکلا رہنما بھی وکلا صفائی کے ہمراہ عدالت میں پیش ہوئے۔
دوران سماعت تفتیشی افسر نے ملزمان کو ایک دن کے راہداری ریمانڈ پر دینے کی استدعا کی گئی۔ سی ٹی ڈی حکام نے کہا کہ ملزمان کو حساس ادارے کی معاونت سے مچھر کالونی سے گرفتار کیا ہے۔
تفتیشی افسر نے بتایا کہ ملزمان سے 2 دستی بم اور بارودی مواد برآمد ہوا ہے۔ ملزمان کالعدم ایس آر اے میں نوجوانوں کو بھرتی کرکے دہشتگردی کی ترغیب دیتے تھے۔
وکلا صفائی نے ملزمان کو مقدمے سے ڈسچارج کرنے کی درخواست دائر کی اور موقف اختیار کیا گیا کہ غنی امان چانڈیو کو اسپتال سے گرفتار کیا گیا، سی ٹی ڈی کی جانب سے بدنیتی کی بنیاد پر مقدمہ درج کیا گیا ہے، تمام شواہد موجود ہیں کہ غنی امان چانڈیو کو اسپتال سے غیر قانونی طور پر گرفتار کیا گیا۔
عدالت نے وکلا صفائی کی درخواست منظور کی اور ایک روزہ راہداری ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 63 کے تحت ملزمان کو مقدمے سے ڈسچارج کردیا۔
عدالت نے ملزمان سرمد علی اور غنی امان چانڈیو کو رہا کرنے کا حکم دیدیا۔