سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے بیٹے حسن نواز سے 1998ء اور 1999 ء کے دوران لندن میں دو بار ملاقات ہوئی۔ چند روز پہلے جب یہ خبر پڑھی کہ حسن نواز شریف انگلینڈ میں ٹیکس نادہندہ قرار پائے ہیں تو ان سے ہوئی یہ ملاقاتیں یاد آگئیں۔ اس مد میں حسن نواز شریف کو لندن کی عدالت نے بھاری جرمانہ عائد کیا۔ میں انگلینڈ میں 1998 ء میں گیا۔ پہلی بار حسن نواز سے تب ملا جب میں اپنے ایک مہربان چوہدری سعید کے ہمراہ لندن پارک لین میں واقع ان کے گھر گیا۔ یہ اپارٹمنٹ نما گھر تھا جسے بہت سادگی سے سجایا کیا گیا تھا۔ ہمیں جس ڈرائنگ روم میں بٹھایا گیا اس کے صوفے اور میز عام لکڑی کے تھے جو زیادہ قیمتی نظر نہیں آ رہے تھے۔ میزوں پر رکھی چیزیں اور پردے وغیرہ بھی بہت سادہ تھے۔ لیکن ایک چیز نے مجھے بہت متاثر کیا اور سیاست دانوں کے بارے میں میری تنقیدی سوچ کو ابھارا۔ شائد اسے آپ بناوٹ کہیں یا تفاخر اور تصنع کا نام دیں۔ لیکن اتنے بڑے سیاست دان کے اندر یہ ذرا سی نمائش اور شوخی زیادہ قابل اعتراض بات نہیں ہے۔ ڈرائنگ روم کے چاروں طرف میاں نواز شریف کی تصاویر آویزاں تھیں۔ ان تمام تصاویر میں میاں صاحب امریکی صدور، امریکی سفرا یا چند ایک مغربی وزرائے اعظم اور کچھ عرب سربراہان مملکت کے ساتھ کھڑے نظر آ رہے تھے۔ اس سے مجھے یہ لگا کہ ہمارے حکمران کس طرح امریکہ اور مغربی دنیا سے مرعوب ہیں اور ان کے ساتھ تصویر کھینچوانے کو بھی کتنا یادگار سمجھتے ہیں۔ اس ملاقات کے دوران ہماری تواضع چائے، بسکٹس اور پیسٹریوں وغیرہ سے کی گئی۔ یہ شریف فیملی کا خاصا ہے کہ وہ گھر آئے مہمانوں سے لسی پانی پوچھتے ہیں اور خاطر تواضع میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑتے۔ اس کے برعکس عمران خان کا مہمان نوازی کے معاملے میں ہاتھ کافی ڈھیلا ہے اور ان کے ساتھی ان سے اکثر شاکی رہتے ہیں۔ اس کا اظہار کچھ بار خود عمران خان نے بھی کیا ہے۔ ایک دفعہ امریکی سفیر عمران خان سے کینسر ہسپتال میں ملنے گئے تو انہوں نے ان کی تواضع چائے کے ساتھ عام دکان سے خریدے گئے پانچ روپے والے بسکٹوں کے پیکٹ سے کی تھی۔ جبکہ شریف فیملی کا مہمانوں کے لئے لنگر ذرا پرتکلف ہوتا ہے۔ چوہدری سعید میاں نواز شریف کے اس گھر میں اکثر آتے جاتے تھے اور حسن نواز کے ساتھ ان گفتگو خاصی بے تکلفی پر مبنی تھی۔
حسن نواز سے دوسری دفعہ ملاقات چوہدری سعید (جو سابق پارلیمینٹیرین چوہدری خورشید زمان کے بڑے بھائی ہیں) کے گھر پر ہوئی۔ چوہدری سعید چوہدری محمد ریاض کے چھوٹے بھائی ہیں۔ چوہدری محمد ریاض تین دفعہ نون لیگ کے ٹکٹ پر راولپنڈی گوجر خان کے حلقے سے ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ گوجر خان کے چوہدری برادران کی سیاست زیادہ تر لندن میں ان کے میاں نواز شریف اور ان کی والدہ سے پرانے مراسم کا نتیجہ تھی۔ چوہدری سعید عموماً پاکستان سے آنے والے سیاست دانوں اور ممبران اسمبلی کا ایئرپورٹ پر استقبال کرتے تھے اور بعد میں ان کی مہمان نوازی میں بھی فراخ دلی سے کام لیتے تھے۔ اس دفعہ حسن نواز کو تینوں بھائیوں نے لندن کے الفورڈ بارکنگ سائیڈ ایریا میں واقع اپنے گھر پر مدعو کیا تھا۔ حسن نواز کے ساتھ میاں شہباز شریف کے بیٹے حمزہ شہباز بھی تشریف لائے۔ چوہدری سعید اور میں کھانے کے دوران مہمانوں کو چیزیں اٹھا اٹھا کر دیتے رہے۔ حسن نواز کی طبیعت انتہائی سادہ تھی۔ میں نے انہیں خاموش طبع پایا اور کھانے کے دوران وہ مجھے کسی گہری سوچ میں گم سم نظر آئے۔ ان کے بارے ان دنوں یہ بھی کہا جاتا تھا کہ وہ ’’اللہ لوگ‘‘ ہیں۔ اسی کھانے کی میز پر چوہدری سعید، چوہدری محمد ریاض اور چوہدری خورشید زمان نے زبیر گل کا تعارف حسن نواز اور حمزہ شہباز سے کروایا جس کے نتیجے میں انہیں چند ماہ بعد انگلینڈ میں نون لیگ کا کنوینر مقرر کر دیا گیا۔ حمزہ شہباز شریف اپریل 2022 ء سے جولائی 2022 ء تک تین ماہ کے لئے پنجاب کے چیف منسٹر رہے۔ زبیر گل کا لندن میں اچھا کاروبار تھا۔ پاکستان کی سیاست پیسے کا کھیل ہے اور امیر شرفا اسے اپنی ’’ہابی‘‘ سمجھتے ہیں۔ اسی دوران زبیر گل کو پنجاب میں بھی حکومت میں شامل کیا گیا تھا۔ جب پارٹی ختم ہوئی تو جانے سے پہلے حمزہ شہباز نے حسن نواز کے کانوں میں کچھ کہا اور پھر حسن نواز نے اپنی جیب سے پچاس پونڈ کی ٹپ نکال کر میری مٹھی میں رکھ دی۔
کچھ دن پہلے جب ایک معاصر صحافی نے حسن نواز کے بارے یہ خبر بریک کی تو یقین ہو گیا کہ حسن نواز واقعی کتنے اللہ لوگ انسان ہیں۔ میں اس بات کا ’’چشم دید‘‘ اور ’’ٹپ ہولڈر وٹنس‘‘ ہوں کہ انسان جتنا بھی سادہ اور معصوم ہو جہاں پیسے کا معاملہ ہو اس سے زیادہ تیز اور شاطر کوئی بھی ثابت نہیں ہوتا۔ خبر کے مطابق حسن نواز برطانیہ میں ٹیکس ڈیفالٹر قرار دیئے گئے ہیں جن پر 5اشاریہ 2ملین پائونڈ کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے۔ اچھا ہوا کہ حسن نواز کو پاکستان کی سیاست میں نہیں آزمایا گیا۔ ان کی جگہ میاں محمد نواز شریف نے اپنی بیٹی مریم نواز کو سیاست میں اتارا جن پر تاحال کرپشن کا کوئی الزام نہیں ہے اور وہ بطور پنجاب چیف منسٹر اچھی کارکردگی بھی دے رہی ہیں۔
اس حوالے سے حسن نواز کے قریبی قانونی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ریونیو کسٹم ڈیپارٹمنٹ کے کچھ دن پہلے شائع شدہ ’’اعداد و شمار‘‘ پرانی کہانی ہے۔ حسن نواز نے کورٹ میں خود کو دیوالیہ ڈیکلیئر کیا تھا۔ ہو سکتا ہے یہ پرانی کہانی ہو مگر حسن نواز کا کردار وہی ہے جسے دہرایا گیا ہے۔ہماری ملکی سیاست کا زیادہ تر دارومدار اخلاص، اہلیت اور کارکردگی کی بجائے اس نوع کی’’پارٹی سیاست‘‘ پر ہے جس میں تعلقات، خوشامد اور رکھ رکھاو وغیرہ کو نمایاں جگہ دی جاتی ہے۔ ہماری تاریخ ان تلخ سیاسی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جسے سیڑھیاں بنا کر ہمارے معصوم سیاست دان آگے بڑھتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: چوہدری سعید حسن نواز کے نواز شریف کی سیاست کے دوران کے ساتھ
پڑھیں:
حالیہ سیلابی ریلوں میں لوگوں کا ڈوبنا پریشان کن ہے: مریم نواز شریف
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے کہا ہے کہ حالیہ سیلابی ریلوں میں متعدد افراد کا ڈوبنا انتہائی تکلیف دہ اور پریشان کن ہے۔ڈوبنے سے بچاؤ کے عالمی دن کے موقع پر اپنے خصوصی پیغام میں وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف کا کہنا تھا کہ یہ دن ہمیں احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کا شعور دیتا ہے تاکہ قیمتی انسانی جانوں کو بچایا جا سکے۔انہوں نے عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے تحت اس سال کے تھیم ’’کوئی بھی ڈوب سکتا ہے، مگر کسی کو ڈوبنا نہیں چاہئے‘‘ کو اجاگر کرتے ہوئے کہا کہ پانی بلاشبہ زندگی کی علامت ہے مگر بے احتیاطی کی صورت میں یہی پانی موت کا سبب بن سکتا ہے۔مریم نواز شریف نے اس بات پر زور دیا کہ دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں افراد صرف اس لئے جان کی بازی ہار جاتے ہیں کیونکہ ڈوبنے کے خطرے کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا، نہر، ندی، دریا، سیلابی نالے یا سمندر میں ڈوبنے سے بچاؤ ممکن ہے، لیکن اس کیلئے احتیاطی تدابیر اپنانا ناگزیر ہے۔انہوں نے حالیہ سیلابی ریلوں میں متعدد افراد کے ڈوبنے کے واقعات کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ پنجاب بھر میں نہروں، جھیلوں، ندی نالوں اور دریاؤں میں نہانے پر مکمل پابندی عائد ہے، اس ضمن میں وارننگ سائنز، مانیٹرنگ سسٹم اور چیکنگ کو یقینی بنایا جا رہا ہے، ریسکیو 1122 کی ٹیمیں ہر وقت متحرک ہیں اور عوام کو ڈوبنے سے بچانے کیلئے بھرپور اقدامات کر رہی ہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب نے والدین سے اپیل کی کہ وہ بچوں کو نہروں، دریاؤں اور سیلابی نالوں میں نہانے سے روکیں اور محکمہ موسمیات و ضلعی انتظامیہ کے جاری کردہ الرٹس کو سنجیدگی سے لیتے ہوئے خطرناک علاقوں میں جانے سے گریز کریں۔