ماہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو دنیا بھر میں فلسطینیوں کی تحریک آزادی سے اظہار یکجہتی کے لیے اور بالخصوص قبلہ اول بیت المقدس کی بازیابی کے لیے یوم القدس کے عنوان سے منایا جاتا ہے۔
اس دن کا آغاز 1970کی دہائی میں اس وقت ہوا جب ایران سے تعلق رکھنے والے امام خمینی نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو فلسطین کی آزادی کی حمایت کے دن کے طور پر منایا جائے اور اس دن کو انھوںنے یوم القدس کا نام دیا۔
امام خمینی نے اعلان کر دیا اور ایرانی عوام کے ساتھ ساتھ خطے کی دیگر اقوام نے اس اعلان کو بے حدپذیرائی دی۔اس دن کو منانے کا ایک مقصد جو امام خمینی نے بیان کیا وہ یہ تھا کہ کم سے کم مسلمان اقوام ایک دن متحد ہو کر اپنے مشترکہ مسئلہ یعنی فلسطین اور قبلہ اول کی بازیابی کے لیے ہم آواز ہو جائیں۔
یعنی آپس کے اتحاد کا مظہر دنیا پر روشن ہو جائے کہ مسلمان اقوام متحد ہیں۔ اسی لیے امام خمینی نے اس دن کو اتحاد اور وحدت کا دن قرار دیا اور کہا کہ یہ دن مظلوموں کا دن ہے اور ظالم نظاموں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے کا دن ہے۔
یوم القدس کو ایک خاص حیثیت حاصل ہو چکی ہے۔ پوری دنیا میں چاہے فلسطین کے اندر ہو یا فلسطین کے باہر ، ہر مقام پر رمضان المبارک کے آخری جمعہ کو یوم القدس منایا جاتا ہے۔ دنیا بھر کی مسلمان اقوام اور غیر مسلم اقوام سب کی سب اس دن کو یک زبان ہو کر فلسطین کی آزادی کے لیے صدائے حق بلند کرتے ہیں۔
یہ دن ایک عالمی دن کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ساتھ اس دن کی اہمیت میں بھی اضافہ دیکھنے کو آ رہاہے کیونکہ جس طرح مسئلہ فلسطین موجودہ زمانہ میں آگہی کی منازل طے کررہا ہے آج سے پہلے کبھی ایسا نہیں تھا۔
آج معاشرے کے تمام طبقات فلسطین کی آزادی اور قبلہ اول کی بازیابی کے لیے غاصب صیہونی طاقتوں کے خلاف متحد ہو چکے ہیں۔آج گلوبل مزاحمت کا تصور جنم لے چکا ہے۔ یوم القدس بھی عالمی مزاحمت کا ایک استعارہ قرار پایا ہے۔
ایک طرف غزہ اور لبنان لہو لہو ہیں۔ جنگ بندی کے معاہدوں کو غاصب اسرائیل کی جانب سے توڑ دیا گیا ہے اور معصوم انسانوں کا قتل عام جاری ہے۔دنیا خاموش ہے اور تماشائی بنی ہوئی ہے۔
مسلمان حکومتیں غاصب صیہونی حکومت اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک کر اپنے معاشی فوائد کو حاصل کرنے کے لیے مظلوم فلسطینیوں کی قربانیوں اور ان کے خون کا سود ا کر چکی ہیں۔یوم القدس ایسے حالات میںمنایا گیا ہے کہ جب پاکستان میں بھی صحافیوں کے غاصب اسرائیل میں جا کر فلسطین مخالف مہم میں شامل ہونے کے شواہد مل رہے ہیں۔
آئے روزسوشل میڈیا پر پاکستانی صحافیوں کی تصویریں سامنے آ رہی ہیں جو اسرائیل ہو کر آئے ہیں۔ اس سے پہلے بھی اس طرح کے وفود جاتے رہے ہیں لیکن اب سات اکتوبر کے بعد ان وفود کو خاص طور پر لے جا جایا رہاہے اور پھر فلسطین کے خلاف بیانات ریکارڈ کیے جا رہے ہیں تا کہ فلسطین کاز کو نقصان پہنچایا جا سکے۔
یوم القدس ایسے حالات میں آیا ہے کہ طوفان الاقصیٰ آپریشن جاری ہے۔ سیدحسن نصر اللہ اور یحییٰ سنوار ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ لیکن ان شہداء کی یاد اور فکر آج بھی ہمارے درمیان باقی ہے۔حماس اور حزب اللہ کی فکر نے آج بھی دنیا بھر کے حریت پسندوں کو متحد کر رکھا ہے۔
یوم القدس قربانیوں کے زمانہ میں آ رہاہے۔یوم القدس ایسے حالات میں آ رہاہے کہ فلسطین کے لیے دعائیں کرنا بھی کم کر دیا گیا ہے۔عوام نے جنگ کے آغاز پر بائیکاٹ کیا تھا لیکن ابھی اس بائیکاٹ میں بھی کافی حد تک کمی نظر آ رہی ہے۔
البتہ یوم القدس کی آمد سے یہ استفادہ کیا جا سکتا ہے کہ عوام کو اسرائیلی مصنوعات کے بائیکاٹ کی ترویج کی جائے اور عوام کو یہ بتایا جائے کہ جس طر ح انھوںنے جنگ کے آغاز پر بائیکاٹ جاری رکھا تھا اسی طرح آج بھی جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔
یوم القدس کی آمد پر ہم دنیا ئے اسلام کے عرب و غیر عرب حکمرانوںسے یہ مطالبہ تو کر سکتے ہیں کہ وہ کم ازکم غاصب صیہونی ریاست اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات منقطع کر دیں۔ یہ دن ہمیں ایک نیا جذبہ عطا کر رہاہے۔ضرورت ا س امر کی ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ ہم سب فلسطین و القدس کے لیے متحد ہیں۔
یوم القدس امت مسلمہ کی سرفرازی کا دن ہے۔عالم اسلام کی نصرت و کامرانی کا دن ہے۔یہ دن حقیقت میں ظالم اور جابر نظاموں کو نابود کرنے کا دن ہے۔ مظلوموں کی حاکمیت قائم کرنے کادن ہے۔ یہ دن القدس کا دن ہے ۔ یہ دن حق پرستوں کا دن ہے۔
یہ دن باطل قوتوں کی سرنگونی کا دن ہے۔آئیں! ہم اس بات اور عزم کا عہد کریں کہ ہم میں سے ہر کوئی معاشرے میں اپنی اپنی استطاعت کے مطابق مظلوم فلسطینیوں کی حمایت جاری رکھے گا۔فلسطینیوں کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ مسئلہ فلسطین کے خلاف ہونے والی صیہونی سازشوں کو ناکام بنائیں گے۔ یہ وہ کام ہیں جو ہم میں سے ہر فردانجام دے سکتا ہے۔آئیں، اسی جذبے کے ساتھ اپنا دینی، اخلاقی ، سیاسی اور انسانی فریضہ ادا کریں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یوم القدس فلسطین کے اس دن کو کا دن ہے کے ساتھ کے خلاف ہے اور کے لیے
پڑھیں:
امریکا کا فلسطین نواز طالبِ علم محمود خلیل کو جلاوطن کرنے کا حکم
واشنگٹن(انٹرنیشنل ڈیسک) امریکی ریاست لوئزیانا کی ایک امیگریشن عدالت نے فلسطین نواز احتجاجی رہنما اور کولمبیا یونیورسٹی کے سابق طالب علم محمود خلیل کو ملک بدر کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ فیصلے کے مطابق خلیل کو الجزائر یا متبادل طور پر شام بھیجا جائے گا۔
عرب نیوز کے مطابق امیگریشن جج جیمی کومانز نے 12 ستمبر کو جاری کیے گئے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ خلیل نے گرین کارڈ کی درخواست پر دانستہ طور پر بعض اہم حقائق چھپائے اور ’یہ عمل محض لاعلمی یا غفلت نہیں بلکہ جان بوجھ کر کی گئی غلط بیانی تھی، جس کا مقصد امیگریشن عمل کو دھوکہ دینا اور درخواست کے مسترد ہونے کے امکانات کو کم کرنا تھا۔‘ جج نے مزید کہا کہ اگر ایسی غلط بیانی کے باوجود رعایت دی جائے تو مستقبل کے درخواست گزار بھی یہ خطرہ مول لینے پر آمادہ ہوں گے۔
کومانز نے خلیل کی وہ درخواست بھی مسترد کر دی جس میں انہوں نے ملک بدری سے استثنیٰ دینے کی اپیل کی تھی۔ عدالت کے مطابق ’یہ اقدام مستقبل کے درخواست گزاروں کے لیے غلط پیغام ہوگا۔‘
دوسری جانب خلیل کی قانونی ٹیم نے نیو جرسی کی ایک فیڈرل کورٹ کو خط جمع کرا دیا ہے، جس میں جج کومانز کے فیصلے کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ ان کے وکلاء نے کہا ہے کہ اپیل دائر کی جائے گی اور قانونی جدوجہد جاری رہے گی۔
امریکی سول لبرٹیز یونین (ACLU)، جو اس مقدمے میں خلیل کی نمائندگی کر رہی ہے، نے عدالت کے الزامات کو ”بے بنیاد اور انتقامی“ قرار دیا ہے۔ تنظیم کے مطابق ”misrepresentation“ یعنی غلط بیانی کے یہ الزامات دراصل خلیل کی حراست کے بعد انتقامی بنیادوں پر شامل کیے گئے۔
محمود خلیل نے اپنے ردعمل میں کہا: ”یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ میری آزادیِ اظہار کی سزا دینے کی کوششیں کر رہی ہے۔ ان کی تازہ ترین کارروائی، کانگرو کورٹ کے ذریعے، ان کے اصل عزائم کو ایک بار پھر ظاہر کرتی ہے۔“
انہوں نے مزید کہا: ”جب ان کی پہلی کوشش ناکام ہونے لگی تو انہوں نے مجھے خاموش کرانے کے لیے جھوٹے اور مضحکہ خیز الزامات گھڑ لیے۔ لیکن ایسے ہتھکنڈے مجھے اپنی قوم کی آزادی کے لیے آواز بلند کرنے اور فلسطین کے ساتھ کھڑا ہونے سے روک نہیں سکتے۔“
یاد رہے کہ محمود خلیل امریکا کے قانونی مستقل رہائشی ہیں، ان کی شادی ایک امریکی شہری سے ہوئی ہے اور ان کا ایک بیٹا بھی امریکا میں پیدا ہوا ہے۔ رواں سال مارچ میں انہیں امیگریشن حکام نے تین ماہ تک حراست میں رکھا تھا، بعد ازاں جون میں رہا کیا گیا، مگر وہ مسلسل ملک بدری کے خطرے سے دوچار ہیں۔
خلیل کا تعلق کولمبیا یونیورسٹی سے رہا ہے، خلیل ملک گیر فلسطین نواز احتجاجی تحریک کے نمایاں رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے۔ وہ ملک بھر میں فلسطین نواز کیمپس احتجاجات کے سب سے نمایاں رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں۔
Post Views: 4