زرعی سیکٹر کی گروتھ میں 1.1 فیصد تک نمایاں کمی
اشاعت کی تاریخ: 30th, March 2025 GMT
کراچی:
ملک میں رواں مالی سال کی دوسری سہہ ماہی کے دوران زرعی سیکٹر کی گروتھ میں 1.1 فیصد کی نمایاں کمی دیکھی گئی ہے، جو کہ گزشتہ مالی سال کے اسی عرصے کے دوران 6.1 فیصد تھی.
اس کمی کی بڑی وجہ کپاس کی پیداوار میں 31 اور مکئی کی پیداوار میں 15.4 فیصد کی بڑی کمی ہے.
سندھ ایگریکلچر چیمبر کے صدر میران محمد شاہ نے کہا کہ یہ کمی میرے لیے حیران کن نہیں ہے، ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے نمی کی سطح میں کمی آئی ہے، جس سے کپاس کی پیداوار دو ضلعوں سانگھڑ اور نوابشاہ تک محدود ہوگئی ہے.
مزید پڑھیں: زراعت، ٹیکنالوجی اورانرجی سیکٹرکو ترجیح دی جائے، ماہرین
امکان ہے کہ گندم کی فصل کا بھی یہی حال ہوگا، حکومت کی جانب سے امدادی قیمت مقرر نہ کرنا اور مہنگے بیج اور کھاد نے کسان کو مشکل میں ڈال دیا ہے، اوپر سے خشک سالی بھی اپنا رنگ دکھا رہی ہے.
اگر مناسب بارشیں نہ ہوئیں تو پاکستان کو تمام بڑی شرعی اجناس درآمد کرنا پڑ سکتی ہیں، جس سے ملک میں غذائی تحفظ کا شدید بحران پیدا ہوسکتا ہے.
پنجاب کے ایک کسان حامد ملک نے بتایا کہ چاول کی پیداوار کم ہو کر 9.5 مین ٹن رہ گئی ہے، جو گزشتہ سال 9.8 ملین ٹن تھی، اس کے برعکس مکئی اور گنے کی پیداوار میں 3 فیصد اضافہ ہوا ہے، باغبانی اور لائیو اسٹاک سیکٹر میں بھی اضافہ دیکھا گیا.
مزید پڑھیں: پاکستان اٹلی کے مابین مشاورت کا چھٹا دور، تجارت، زراعت، دفاع اور تعلیم میں تعاون بڑھانے پر بات
لیکن کپاس اور مکئی جیسی بڑی اجناس کی پیداوار میں بڑی کمی کی وجہ سے مجموعی طور پر زرعی معیشت گراوٹ کا شکار ہوگئی ہے.
سندھ آباد گار بورڈ کے نائب صدر محمود نواز شاہ نے کہا کہ جون اور جولائی میں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ کپاس کی پیداوار کم رہے گی، اور اب اس کی تصدیق ہورہی ہے، چاول کی پیداوار بھی کم رہنے کی پیشگوئی کی گئی ہے، جبکہ چینی کی پیداوار بھی کم رہے گی، گندم کی ابتدائی پیداوار بھی گزشتہ سال کے مقابلے میں کم بتائی جارہی ہے.
کنکیو ایگری سروسز کے صدر محمد علی اقبال نے کہا کہ بڑھتی ہوئی ان پٹ لاگت کے باجود فصلوں میں کمی ایک بڑا مسئلہ ہے، ماحولیاتی تبدیلی اور لیکویڈیٹی کے مسائل بھی کسان کی مشکلات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کی پیداوار میں
پڑھیں:
امارات،سنگاپوراور ناروے اے آئی کے استعمال میں نمایاں، پاکستان بہت پیچھے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: سنگاپور،ناروے، متحدہ عرب امارات، نے آرٹیفیشل انٹیلیجنس (AI) کے عالمی استعمال میں نمایاں برتری حاصل کر لی ہے۔ جبکہ پاکستان اس دوڑ میں کافی پیچھے ہے جہاں آبادی کا صرف ایک محدود حصہ روزمرہ زندگی میں اے آئی ٹولز استعمال کر رہا ہے۔
رپورٹ میں 170 ممالک میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے فروغ، اس کے استعمال اور سرکاری و نجی شعبوں میں اس کے انضمام کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ جس کے مطابقمتحدہ عرب امارات اور سنگاپور میں کام کرنے والے 50 فیصد سے زائد افراد باقاعدگی سے آرٹیفیشل انٹیلیجنس استعمال کر رہے ہیں، جس سے یہ دونوں ممالک عالمی درجہ بندی میں سرِفہرست قرار پائے ہیں۔جبکہ پاکستان میں اے آئی کا استعمال 15 فیصد سے بھی کم ہے، جہاں بیشتر افراد اب تک آرٹیفیشل انٹیلیجنس کام یا تعلیم کے لیے استعمال نہیں کر رہے۔یہ انکشاف مائیکروسافٹ کے اے آئی اکنامی انسٹیٹیوٹ کی نئی رپورٹ ’اے آئی ڈیفیوشن رپورٹ 2025ء‘ میں کیا گیا ہے۔
ماہرین کے مطابق پاکستان میں آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے فروغ میں سست رفتاری کی بنیادی وجوہات انٹرنیٹ کی محدود رسائی، ڈیجیٹل مہارتوں کی کمی اور پاکستان کی علاقائی زبانوں میں اے آئی ٹولز کی عدم دستیابی ہیں۔ جن ممالک میں لوگ اپنی زبان، جیسے انگریزی یا عربی میں اے آئی استعمال کر سکتے ہیں، وہاں اس کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
مسلم ممالک میں متحدہ عرب امارات سب سے آگے ہے، اس کے بعد سعودی عرب، ملائشیا، قطر اور انڈونیشیا نمایاں ہیں، جو آرٹیفیشل انٹیلجنس کی تعلیم، ڈیٹا سینٹرز اور حکومتی پروگرامز میں بھاری سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیل بھی اُن 7 ممالک میں شامل ہے جو جدید آرٹیفیشل انٹیلجنس ماڈلز تیار کر رہے ہیں، اسرائیل ساتویں نمبر پر ہے جبکہ امریکا، چین، جنوبی کوریا، فرانس، برطانیہ اور کینیڈا اس فہرست میں اس سے آگے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگرچہ پاکستان ابھی آرٹیفیشل انٹیلجنس تیار کرنے والے ممالک میں شامل نہیں، تاہم بہتر ڈیجیٹل تعلیم، انٹرنیٹ سہولتوں اور مہارتوں کے فروغ کے ذریعے وہ اس میدان میں اپنی پوزیشن بہتر بنا سکتا ہے۔ تجویز کیاگیاہے کہ امیر اور غریب ممالک کے درمیان بڑھتے ہوئے اے آئی کے فرق کو کم کیا جائے تاکہ تمام اقوام اس جدید ٹیکنالوجی کے فوائد سے یکساں طور پر مستفید ہو سکیں۔