بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں تواتر کے ساتھ اضافہ ہوتا جا رہاہے۔ جعفر ایکسپریس پر حملے کے بعد پاک فوج نے برق رفتاری کے ساتھ فتنہ الخوارج کے خلاف کارروائیاں کرکے درجنوں دہشت گردوں کو واصل جہنم کیا۔ 17 روز کے وقفے کے بعد جعفر ایکسپریس کی سروس دوبارہ بحال کر دی گئی تاہم دہشت گردی کے واقعات میں تادم تحریر کوئی کمی نہیں آئی۔
چار روز پیشتر کوئٹہ میں نامعلوم افراد نے موٹرسائیکل بم نصب کرکے دھماکا کیا جس سے تین افراد جاں بحق اور تین پولیس اہلکاروں سمیت 22 افراد زخمی ہوگئے۔ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب کلمت کے مقام پر نامعلوم مسلح افراد نے ناکہ بندی کرکے گاڑیوں کی تلاشی لینا شروع کر دی۔
گوادر سے کراچی جانے والی مسافر کوچ میں سوار 6 مسافروں کو جو ایران سے واپس کراچی جا رہے تھے، شناختی کارڈ چیک کرکے اپنے ساتھ لے گئے۔ بعدازاں فائرنگ کرکے انھیں قتل کر دیا۔ کچ کے علاقے میں دہشت گردوں نے سیکیورٹی فورسز کے کیمپ پر گرینیڈ لانچروں سے حملہ کر دیا جو ایک رہائشی کوارٹر پر گرے جس سے میاں بیوی اور ان کے تین بچے زخمی ہوگئے۔ مستونگ کے علاقے میں فائرنگ سے سی ٹی ڈی کا ایک اے ایس آئی جاں بحق اور اہلکار زخمی ہوگئے جب کہ نامعلوم مسلح افراد پنجاب سے تعلق رکھنے والے 2 ڈرائیوروں کو اپنے ہمراہ لے گئے۔
صدر، وزیراعظم، وزیر داخلہ اور وزیر اعلیٰ بلوچستان نے ان واقعات کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے قیمتی جانوں کے نقصان پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا اور اپنے اس عزم کا اظہار کیا کہ شرپسند عناصر کے وطن دشمن عزائم کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ملک کا اہم ترین صوبہ جوکہ معدنی ذخائر سے مالا مال ہے، بلوچستان میں ضلع چاغی کے مقام پر ریکوڈک منصوبے کے تحت دنیا کے سب سے بڑے سونے اور تانبے کے ذخائر ہیں۔ اس منصوبے کی کامیاب تکمیل نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے روشن معاشی مستقبل کی ضامن ہے۔
وطن دشمن قوتیں دہشت گردی کے ذریعے بلوچستان اور پاکستان کی ترقی و استحکام کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کر رہی ہیں۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ بلوچستان ملک کا سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ یہاں کے عوام کی غربت، محرومیوں، استحصال اور بالخصوص نوجوانوں میں پھیلتی ہوئی مایوسی، بددلی اور بے چینی کی ایک طویل داستان ہے۔ بلوچستان کی آواز کو سننے، ان کے مسائل کو حل کرنے اور ان کی محرومیوں کا ازالہ کرنے کے بجائے ان کی پکار کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی گئی جس سے نفرتوں اور بغاوتوں نے جنم لیا۔
بلوچ سرداروں اور وہاں کی سیاسی قیادت نے اپنے مخصوص مفادات کے تحفظ کی خاطر غریب بلوچوں کی محرومیوں میں اضافے کا سامان کیا جس کے نتیجے میں نوجوان نسل میں باغیانہ قیادت نے جگہ بنا کر پرورش پائی اور وطن دشمن عناصر بالخصوص بھارت نے جو اول دن سے پاکستان کو نقصان پہنچانے کی سازشیں کرتا چلا آ رہا ہے اور اپنی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ کے ذریعے بلوچستان میں دہشت گردی کو ہوا دے رہا ہے، بلوچ نوجوانوں کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ پھر طالبان کے جنم نے بلوچستان میں ایک نئی صورت حال کو پروان چڑھایا جس نے بلوچستان کے حالات کو دوآتشہ کر دیا۔ نتیجتاً آج کا بلوچستان بارود کی بو سے آلودہ ہو چکا ہے۔ امن تباہ اور حکومتی رٹ ختم ہو چکی ہے۔
حکومت اور پاک فوج باہمی اشتراک عمل سے بلوچستان میں امن قائم کرنے، دہشت گردی کے خاتمے اور فتنہ الخوارج کو کیفرکردار تک پہنچانے کے لیے سر توڑ کوششیں کر رہے ہیں۔ چند روز پیشتر اس حوالے سے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں پی ٹی آئی نے شرکت نہیں کی۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ جب تک ملک کی جملہ سیاسی قیادت مل کر اتفاق رائے سے دہشت گردوں کے خلاف ’’ایکشن پلان ‘‘ مرتب نہیں کرے گی اور اس پر اخلاص نیت سے عمل درآمد نہیں ہوگا تو نہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ ہوگا، نہ امن ہوگا، نہ معاشی سیاسی استحکام ہوگا اور نہ ہی کسی صوبے میں حکومتی رٹ قائم ہوگی۔
قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کی عدم شرکت پر ملک بھر کے سیاسی، صحافتی اور عوامی حلقوں میں محسوس کیا گیا۔ دانش ور طبقے اور صائب الرائے حلقوں کی جانب سے پی ٹی آئی کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’’آن بورڈ‘‘ لینے کے لیے حکومت پر ایک اخلاقی دباؤ بھی ڈالا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعت ہے اس کی شرکت کے بغیر کے پی کے اور بلوچستان میں دہشت گردی کے خلاف ممکنہ حکمت عملی کامیاب نہیں ہو سکتی۔
اس پس منظر میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے خود آگے بڑھ کر حکومت پی ٹی آئی میں ثالثی کی پیشکش کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس دوبارہ بلانے پر آمادہ ہو تو وہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ بلاشبہ بلاول بھٹو اس وقت ایک متحرک اور فعال سیاسی کردار ادا کر رہے ہیں۔ انھوں نے 26 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے مولانا فضل الرحمن کو ’’آن بورڈ‘‘ لینے میں اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے ایک سرگرم اور فعال کردار ادا کیا تھا اور انھی کاوشوں سے مولانا 26 ویں آئینی ترمیم کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ ہوئے تھے۔
بلاول بھٹو کا اگلا ہدف پی ٹی آئی کو حکومتی خواہش کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں شرکت پر آمادہ کرنا اور حکومت اپوزیشن تلخیوں و فاصلوں کو کم کرنے میں اپنا ثالثی کردار ادا کرنا ہے۔ مبصرین اور تجزیہ نگاروں کے مطابق بلاول بھٹو کے لیے یہ ’’ثالثی‘‘ ایک مشکل ترین چیلنج ہے کیوں کہ حکومت پی ٹی آئی کے درمیان فاصلوں کی خلیج بہت گہری ہے، دونوں فریق معاملات کے حل کے حوالے سے اپنے اپنے غیر لچکدار اور سخت گیر موقف کے باعث ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر رانا ثنااللہ کا کہنا ہے کہ اگر بلاول بھٹو تحریک انصاف کے ساتھ اتفاق رائے پیدا کرنے اور یقین دہانیاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو یہ ایک بڑی کامیابی ہوگی اور پھر قومی سلامتی کمیٹی کا دوبارہ اجلاس بلانے میں کوئی حرج نہیں تاہم ابھی تک حکومت کی جانب سے بلاول بھٹو کو پی ٹی آئی سے ’’ثالثی کردار‘‘ ادا کرنے کا کوئی باضابطہ اشارہ نہیں ملا۔ مبصرین و تجزیہ نگاروں کے مطابق پی ٹی آئی کے اور حکومت کے غیر لچکدار موقف کے باعث بلاول بھٹو کی ثالثی کے رنگ لانے کے امکانات معدوم ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: قومی سلامتی کمیٹی بلوچستان میں دہشت گردی کے بلاول بھٹو پی ٹی آئی کے خلاف کے لیے کر دیا
پڑھیں:
وزیراعظم کی زیرصدارت لیگی وفد نے 27 ویں آئینی ترمیم کیلیے تعاون مانگا، بلاول بھٹو کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ وزیراعظم کی زیرصدارت مسلم لیگ ن کے وفد نے 27 ویں آئینی ترمیم کے لیے تعاون مانگا ہے۔
سماجی رابطوں کے پلیٹ فارم ایکس پر جاری اپنے بیان میں انہوں نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ (ن) کے وفد نے صدر مملکت آصف زرداری اور مجھ (بلاول بھٹو زرداری) سے ملاقات کی، جس میں 27ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر اہم گفتگو ہوئی۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں آنے والے ن لیگ کے وفد نے 27 ویں آئینی ترمیم کی منظوری کے لیے ان کی جماعت کی حمایت مانگی ہے۔
بلاول بھٹو نے بتایا کہ مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم میں کئی اہم نکات شامل ہیں جن میں آئینی عدالت کا قیام، ایگزیکٹو مجسٹریٹس کی بحالی اور ججوں کے تبادلے کا اختیار نمایاں ہیں۔
اس کے علاوہ اس ترمیم کے تحت این ایف سی ایوارڈ میں صوبائی حصے کے تحفظ کو ختم کرنے، آرٹیکل 243 میں تبدیلی اور تعلیم و آبادی کی منصوبہ بندی جیسے اختیارات کو دوبارہ وفاق کے ماتحت لانے کی تجویز بھی شامل ہے۔
بلاول بھٹو نے مزید بتایا کہ اس اہم آئینی معاملے پر حتمی فیصلہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ صدر آصف علی زرداری کی دوحا سے واپسی پر 6 نومبر کو اجلاس طلب کر لیا گیا ہے، جس میں پارٹی رہنما تفصیلی مشاورت کے بعد پالیسی طے کریں گے۔