ایران کے خلاف ٹرمپ کی گیدڑ بھبکیاں
اشاعت کی تاریخ: 31st, March 2025 GMT
اسلام ٹائمز: پہلی بات تو یہ ہے کہ بار بار دہرائے جانے کی وجہ سے یہ دھمکیاں اپنی افادیت کھو چکی ہیں۔ دوسرا ہم ٹرمپ کو یہ یاددہانی کروانا چاہتے ہیں کہ اس نے 6 کھرب ڈالر کا خرچہ کر کے اور بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کی جانیں ضائع کر کے کئی سال تک افغانستان اور عراق پر فوجی قبضہ جاری رکھا لیکن آخرکار انتہائی ذلت آمیز طریقے سے ان دونوں ممالک سے دم دبا کر بھاگ جانے پر مجبور ہو گیا۔ امریکہ اس وقت شدید بحرانی حالات کا شکار ہے اور اس کے قرضے 41 کھرب ڈالر سے بھی اوپر چلے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے ٹرمپ روس سے امن مذاکرات کے لیے منت سماجت کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ یوکرین شکست کھا چکا ہے جبکہ ٹرمپ کے آمرانہ رویے کے باعث امریکہ کے قریبی اتحادی بھی اس سے دور ہو رہے ہیں۔ لہذا ایران کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیاں محض گیدڑ بھبکیاں ہیں اور ایران ہر گز انہیں اہمیت نہیں دے گا۔ تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر ایران کے خلاف دھمکی آمیز لہجے میں بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر ایران اس سے جوہری معاہدہ انجام نہیں دیتا تو اسے "بہت برے نتائج" کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ دھمکیاں انتہائی درجہ گستاخی اور بے شرمی کا مظہر ہیں اور آج کے تہذیب یافتہ دور میں کسی بھی ملک کے صدر کا اس لہجے میں بات کرنا بہت ہی قابل مذمت اور شرمناک اقدام ہے۔ وہ بھی ایسا ملک جو سپر پاور ہونے اور آزاد دنیا کی قیادت کا دعویدار ہو۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی صدارتی الیکشن کی مہم کے دوران بھی اور الیکشن میں کامیابی کے بعد وائٹ ہاوس آ جانے کے بعد بھی بارہا اعلان کیا تھا کہ وہ جنگ نہیں چاہتا اور دنیا میں امن قائم کرنے کی بھرپور کوشش کرے گا۔ لیکن گذشتہ کچھ ہفتوں اس کا پینترا بدل گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ سے لے کر ایران تک اور کینیڈا سے لے کر گرین لینڈ تک تمام ممالک کو جنگ اور فوجی اقدامات کی دھمکیاں دینا شروع کر دی ہیں۔ ہم ٹرمپ سے پوچھنا چاہیں گے کہ وہ "برے نتائج" کیا ہیں جس کی ایرانی قوم اور حکومت کو دھمکی دے رہا ہے؟ گذشتہ چار عشروں سے امریکہ نے اقتصادی پابندیوں، دہشت گردانہ اقدامات اور انارکی اور ہنگامے پیدا کرنے کی کوششوں کے ذریعے ایران کو اپنے ناجائز مطالبات اور خواہشات کے سامنے جھک جانے پر مجبور کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جب یہ تمام حربے ناکام ہو گئے تو اب اس نے آخری کارڈ استعمال کرتے ہوئے ایران کو جنگ اور فضائی بمباری کی دھمکیاں دینے کے ساتھ ساتھ خطے میں جدید ترین بمبار طیارے بھیج کر ایران کے خلاف نفسیاتی اور میڈیا جنگ کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔
ان دھمکیوں کے ذریعے ٹرمپ نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ احمق ہونے کے ساتھ ساتھ تاریخ اور جغرافیہ سے بھی لاعلم ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے سمجھ رکھا ہے کہ شاید ایران بھی ڈنمارک کے دور دراز چھوٹے سے برفیلے جزیرے گرین لینڈ کی مانند ہے۔ ٹرمپ یہ بھول گیا ہے کہ امریکہ کو ایسی بدترین فوجی اور سیاسی شکست جس کی تکلیف ویت نام شکست سے کم نہیں ہے، افغانستان میں ہوئی ہے جو ایران کا ہمسایہ ملک ہے۔ افغانستان سے امریکہ کے ذلت آمیز فوجی انخلاء کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وسیع تعداد میں موجود ہیں جن سے اس شکست کی شدت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے بھی ٹرمپ کی دھمکیوں کو بے جواب نہیں چھوڑا اور ان کے خلاف دو ٹوک ردعمل ظاہر کیا ہے۔ ایران کی جانب سے ان دھمکیوں کا جواب دو پہلووں پر مشتمل ہے:
1)۔ ایک یہ کہ ایران نے امریکہ کے برعکس انتہائی مہذب انداز میں ان دھمکیوں کا جواب دیا ہے اور عمان کے ذریعے ٹرمپ کے غیر مہذب خط کا جواب سفارتی آداب کو پوری طرح ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے دے دیا ہے،
2)۔ ایران کے جواب کا دوسرا پہلو فوجی نوعیت کا ہے۔ حال ہی میں ایران کے سرکاری ٹی وی نے ایک انڈر گراونڈ میزائل سٹی کی ویڈیو جاری کی ہے جس میں جدید ترین میزائل پوری طرح تیار حالت میں دکھائے گئے ہیں۔ یہ میزائل سٹی اتنی گہرائی میں بنایا گیا ہے کہ امریکہ کے جدید ترین بمبار طیارے اور بم وہاں اس کا بال بیکا نہیں کر سکتے۔
ہمیں نہیں معلوم کہ اس میزائل سٹی میں ایسے الٹراسونک میزائل بھی موجود ہیں جو امریکہ کو بھی نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں؟
لیکن اس حد تک یقین ضرور ہے کہ اس میں ایسے میزائل وافر تعداد موجود ہے جو 10 منٹ سے کم وقت میں مقبوضہ فلسطین پہنچ سکتے ہیں۔ شاید اس نکتے کی یاددہانی بھی مفید ہو کہ پینٹاگون نے ایران کے خلاف کسی بھی فوجی کاروائی کی صورت میں مشرق وسطی میں موجود اپنے 50 فوجی اڈوں کو نشانہ بنائے جانے کے بارے میں شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ یاد رہے ان فوجی اڈوں میں امریکہ کے ہزاروں جرنیل اور فوجی موجود ہیں۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے بھی پینٹاگون کی اس تشویش کو بڑی سطح پر کوریج دی ہے۔ لہذا اگر امریکی حکومت ایران کے خلاف کوئی احمقانہ اقدام انجام دیتی ہے تو خطے میں موجود یہ تمام فوجی اڈے سینکڑوں بیلسٹک میزائلوں کی زد میں ہوں گے۔ ٹرمپ کے لیے ہمارا مفت مشورہ یہ ہے کہ وہ غزہ کے بھوکے اور محاصرے کا شکار فلسطینیوں پر جہنم کے دروازے کھولنے یا ایران کو برے نتائج کی دھمکیاں دینا بند کر دے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ بار بار دہرائے جانے کی وجہ سے یہ دھمکیاں اپنی افادیت کھو چکی ہیں۔ دوسرا ہم ٹرمپ کو یہ یاددہانی کروانا چاہتے ہیں کہ اس نے 6 کھرب ڈالر کا خرچہ کر کے اور بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کی جانیں ضائع کر کے کئی سال تک افغانستان اور عراق پر فوجی قبضہ جاری رکھا لیکن آخرکار انتہائی ذلت آمیز طریقے سے ان دونوں ممالک سے دم دبا کر بھاگ جانے پر مجبور ہو گیا۔ امریکہ اس وقت شدید بحرانی حالات کا شکار ہے اور اس کے قرضے 41 کھرب ڈالر سے بھی اوپر چلے گئے ہیں۔ اسی وجہ سے ٹرمپ روس سے امن مذاکرات کے لیے منت سماجت کرنے پر مجبور ہو چکا ہے۔ یوکرین شکست کھا چکا ہے جبکہ ٹرمپ کے آمرانہ رویے کے باعث امریکہ کے قریبی اتحادی بھی اس سے دور ہو رہے ہیں۔ لہذا ایران کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیاں محض گیدڑ بھبکیاں ہیں اور ایران ہر گز انہیں اہمیت نہیں دے گا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف پر مجبور ہو کی دھمکیاں ان کے خلاف کھرب ڈالر امریکہ کے ٹرمپ کے ٹرمپ کی چکا ہے
پڑھیں:
امریکی جرائم کے بارے میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں کو یمن کا خط
یمنی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ اور اس کے اداروں کے علاوہ دنیا بھر کے ممالک کو ایک خط بھیج کر امریکی جرائم پر بین الاقوامی کمیٹی کی تشکیل کا مطالبہ کرتے ہوئے تاکید کی کہ اس ملک نے یمن پر ایک ہزار کے قریب وحشیانہ حملے کیے ہیں اور اس کا ہدف صیہونیوں اور ان کے جرائم کی حمایت کرنا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ایسے وقت جب امریکہ غزہ کی پٹی میں فلسطینی شہریوں کے خلاف صیہونی رژیم کے جرائم کی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے اور اس مقصد کے لیے یمن میں عام شہریوں اور شہری مراکز پر وحشیانہ جارحیت انجام دینے میں مصروف ہے اور حالیہ ہفتوں میں اس ملک کے سیکڑوں شہریوں کا قتل عام کر چکا ہے، یمنی وزیر خارجہ جمال عامر نے گذشتہ رات بین الاقوامی تنظیموں اور مختلف ممالک کے سربراہان مملکت کو ایک مراسلہ ارسال کیا ہے جس میں یمن کے خلاف وحشیانہ امریکی جارحیت کی مذمت کی گئی ہے اور ان سے اس جارحیت کو ختم کرنے کے لیے واشنگٹن پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ یہ خط انسانی حقوق کونسل کے صدر، اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق اور اس کونسل کے اراکین، اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے صدر، سلامتی کونسل کے صدر اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک اور بین الاقوامی اور علاقائی تنظیموں کو بھیجا گیا ہے۔ ان خطوط میں یمنی وزیر خارجہ نے یمن کے عوام اور خودمختاری کے خلاف تمام امریکی جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک آزاد بین الاقوامی کمیٹی کے قیام پر زور دیا اور تاکید کی: "امریکہ نے اب تک یمن کے خلاف تقریباً ایک ہزار فضائی حملے کیے ہیں جن میں خواتین اور بچوں سمیت سینکڑوں بے گناہ افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے۔"
یمن کے وزیر خارجہ جمال عامر نے اپنے خط میں مزید لکھا: "امریکہ نے یمن میں درجنوں شہری بنیادی ڈھانچوں بشمول بندرگاہیں، ہوائی اڈے، فارمز، صحت کی سہولیات، پانی کے ذخائر اور تاریخی مقامات کو بھی فضائی جارحیت نشانہ بنایا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال راس عیسی کی بندرگاہ کو نشانہ بنانا تھا جس کے نتیجے میں 80 شہری شہید اور 150 زخمی ہوئے۔" اس یمنی عہدیدار نے مزید لکھا: "اس کے علاوہ، امریکہ جان بوجھ کر امدادی کارکنوں اور رہائشی علاقوں کو نشانہ بنا رہا ہے جن میں دارالحکومت صنعا کے شعوب محلے میں واقع فروہ فروٹ مارکیٹ بھی شامل ہے جو اتوار کی رات مجرمانہ امریکی جارحیت کا نشانہ بنا اور اس کے نتیجے میں 12 شہری شہید اور 30 دیگر زخمی ہو گئے۔" انہوں نے تاکید کرتے ہوئے کہا: "یمن کے خلاف امریکی وحشیانہ جارحیت پر عالمی برادری کی خاموشی امریکیوں کو خونریزی جاری رکھنے اور یمنی قوم کے وسائل اور سہولیات کو تباہ کرنے میں مزید گستاخ بنا رہی ہے۔ یمن کے خلاف امریکی جارحیت کا مقصد بحیرہ احمر میں کشتی رانی کی حفاظت نہیں ہے بلکہ اس کا مقصد غاصب صیہونی رژیم اور معصوم شہریوں کے خلاف اس کے مجرمانہ اقدامات کی حمایت کرنا ہے۔" یمنی وزیر خارجہ جمال عامر نے اپنے خط کے آخری حصے میں لکھا: "یمن کے خلاف امریکہ کی وحشیانہ جارحیت صیہونی رژیم کے خلاف یمن کے محاصرے کو توڑنے اور فلسطینی عوام کے خلاف نسل کشی کے مجرمانہ اہداف کے حصول اور ان کے منصفانہ مقصد کو تباہ کرنے میں اس رژیم کی حمایت کی کوششوں کا حصہ ہے اور یمنی عوام کو غزہ میں فلسطین قوم کی حمایت پر مبنی دینی اور اخلاقی موقف سے ہٹانے کی مذبوحانہ کوشش ہے۔"