وفد نے کرم پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ پاراچنار کے چھ ماہ سے جاری محاصرے میں دہشتگردی کے واقعات میں اور ٹل پاراچنار روڈ کو محفوظ بنانے میں کرم پولیس کا کیا کردار رہا ہے؟ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاراچنار ضلع کرم کے ایک نمائندہ وفد نے قائمقام ڈی پی او کرم ایس پی مظہر جہان سے ڈی پی او آفس میں ملاقات کی۔ وفد کی نمائندگی ضلعی نائب صدر سید سرفراز علی شاہ، تحصیل صدر پیر سید مسرت کاظمی اور سیکرٹری سیاسیات ساجد کاظمی کر رہے تھے۔ ملاقات میں ضلع کرم کی مجموعی امن وامان کی مخدوش صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا۔ تحصیل چئیرمین مولانا مزمل حسین فصیح کی جعلی مقدمات میں گرفتاری پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سید سرفراز نے کہا کہ ہم امن کے داعی ہیں اور ایم ڈبلیو ایم پاکستان اتحاد بین المسلمین پر یقین رکھتی ہے، مولانا مزمل حسین کی امن و امان کے حوالے سے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، وہ عوامی نمائندے ہیں جن کے پاس عوامی مینڈیٹ ہے، انکو جعلی مقدمات میں گرفتار کرکے جیل میں رکھنا عوامی مینڈیٹ کی توہین ہے۔ جبکہ اسکے برعکس دہشتگرد آذاد گھوم پھر رہے ہیں، کرم پولیس کا ایم ڈبلیو ایم کرم کے رہنماؤں و کارکنان کے ساتھ یہ رویہ درست نہیں ہے جسکی ہم پرزور مذمت کرتے ہیں۔

انہوں نے کرم پولیس کی کارکردگی پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ پاراچنار کے چھ ماہ سے جاری محاصرے میں دہشتگردی کے واقعات میں اور ٹل پاراچنار روڈ کو محفوظ بنانے میں کرم پولیس کا کیا کردار رہا ہے؟ دہشتگردوں کیخلاف کتنی FIR درج ہوئی ہیں اور کتنی گرفتاریاں ہوئی ہیں؟ کرم پولیس عوام کے سامنے یہ حقائق بیان کرے۔ انہوں نے کہا کہ ٹل سے لیکر علی زئی تک کانوائے میں پولیس نے رشوت کا بازار گرم کیا ہوا ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاراچنار کے بعض علاقوں جیسے خرلاچی، بوڑکی، نستی کوٹ، شینگگ اور کنج علیزئی کے بیگناہ عوام پر پولیس کلیرئنس سرٹیفکیٹ بند کرنا بنیادی انسانی حقوق کی پامالی و خلاف ورزی ہے۔ اس پابندی کو فوری طور ختم کیا جائے اور عوام کو مشکلات کی بجائے سہولیات فراہم کیں جائیں۔ایس پی مظہر جہان نے بعض معاملات کا نوٹس لیتے ہوئے کہا کہ ڈی پی او کرم سے ڈسکس کرکے راست اقدامات اٹھائے جائیں گے۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: کرم پولیس ڈی پی او کہا کہ

پڑھیں:

26ویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے سود کے مکمل خاتمے، معاشرتی اقدار کی روشنی میں قانون سازی، اور ریاستی ناکامیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت اگر اپنے وعدوں پر قائم نہ رہی تو عدالت جانا پڑے گا، اور پھر حکومت کے لیے حالات آسان نہیں ہوں گے۔

نجی ٹی وی چینل آج نیوز کے مطابق اسلام آباد میں ایک اہم نشست سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے انکشاف کیا کہ انہوں نے 26ویں آئینی ترمیم کے 35 نکات سے حکومت کو دستبردار ہونے پر مجبور کیا، جس کے بعد ترمیم 22 نکات تک محدود ہوئی، اور اس پر بھی ان کی طرف سے مزید اصلاحات تجویز کی گئیں۔

نیوزی لینڈ نے ایف آئی ایچ پروہاکی لیگ سے دستبرداری کا باضابطہ اعلان کردیا

 مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ وفاقی شرعی عدالت نے 31 دسمبر 2027 تک سود کے خاتمے کا حتمی فیصلہ دے دیا ہے، اور اب آئینی ترمیم کے بعد یہ باقاعدہ دستور کا حصہ بن چکا ہے کہ یکم جنوری 2028 سے سود کا مکمل خاتمہ ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی تو وہ ایک سال کے اندر فیصلہ ہو کر نافذ العمل ہوگا، کیونکہ شرعی عدالت کا فیصلہ اپیل دائر ہوتے ہی معطل ہوجاتا ہے۔

مولانا فضل الرحمان نے معاشرتی اقدار کو نظرانداز کر کے بنائے گئے قوانین پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ 18 سال سے کم عمر کی شادی پر سزا کا قانون تو بنا دیا گیا، مگر غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کے نام پر روایات کو بھی نظر انداز کیا جا رہا ہے۔

صدر ٹرمپ نے ری پبلکن اراکین سے خطاب میں ایسے جملے دہرا دیئے جن سے بھارت کی پھر ’’سبکی ‘‘ ہو گئی

انہوں نے سوال اٹھایا: ’کیسا اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جہاں نکاح میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں اور زنا کو سہولت دی جا رہی ہے؟‘ ان کا کہنا تھا کہ قانون سازی کرتے وقت ملک کے رواج کو بھی دیکھنا چاہیے تاکہ معاشرتی اقدار پامال نہ ہوں۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ پہلے اسلامی نظریاتی کونسل کی صرف سفارشات پیش کی جاتی تھیں، اب ان پر بحث ہوگی۔ انہوں نے واضح کیا کہ ’کون ہے جو جائز نکاح کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرے اور بے راہ روی کو راستہ دے؟‘

انہوں نے غیرت کے نام پر قتل کو بھی شدید مذمت کا نشانہ بناتے ہوئے اسے غیرشرعی اور غیرانسانی عمل قرار دیا۔

عمران خان کے بیٹے گرفتار ہوں تو ہی صحیح وارث بنیں گے : رانا ثناء اللہ 

افغانستان پر امریکی حملے کے وقت متحدہ مجلس عمل کے کردار کو یاد کرتے ہوئے مولانا نے کہا کہ ’ہم نے اس وقت بھی اتحاد امت کے لیے قربانیاں دیں، جیلیں کاٹیں، مگر پاکستان میں دینی مقاصد کے لیے اسلحہ اٹھانے کو ہم نے حرام قرار دیا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’سوات سے وزیرستان تک آپریشن ہوئے، مگر بے گھر ہونے والے آج بھی دربدر ہیں، ریاست کہاں ہے؟‘

مولانا فضل الرحمان نے بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں حکومتی رٹ نہ ہونے پر بھی سخت تنقید کی اور کہا کہ ’دہشتگرد دن دیہاڑے دندناتے پھرتے ہیں، مگر کوئی پوچھنے والا نہیں۔‘

بابوسر ٹاپ: سیلابی ریلہ 13 سال بعد اکٹھے ہونے والے خاندان کی خوشیاں بہا لے گیا

انہوں نے سوال اٹھایا کہ ’جو لوگ افغانستان گئے تھے، وہ کیسے گئے اور واپس کیوں آئے؟ ریاست اپنی ناکامیوں کا بوجھ ہم پر مت ڈالے۔‘

”ہم آئین کے ساتھ کھڑے ہیں، مسلح جدوجہد حرام ہے“
مولانا فضل الرحمان نے ایک بار پھر واضح کیا کہ وہ آئین پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور پاکستان میں مسلح جدوجہد کو غیرشرعی اور حرام قرار دے چکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں ایک جرأت مندانہ موقف لینے کی ضرورت ہے، تاکہ ملک کو موجودہ افراتفری سے نکالا جا سکے۔‘

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کا خاتمہ ابھی بہت دور ہے، اور حکومت کو سنجیدگی سے اپنے وعدوں اور آئینی ذمہ داریوں پر عمل کرنا ہوگا، ورنہ قوم مزید تباہی کی طرف جائے گی۔

اگر عورتیں بھی غیرت کے نام پر قتل شروع کردیں تو ایک بھی مرد نہ بچے؛ ہانیہ عامر

مزید :

متعلقہ مضامین

  • سینیٹ اجلاس، بلوچستان میں غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کیخلاف قرارداد منظور
  • وزیراعظم سے مولانا فضل الرحمان کی ملاقات، تحفظات سے آگاہ کیا
  • وزیراعظم سے مولانا فضل الرحمان کی ملاقات، سیاسی صورتحال پر گفتگو
  •   وزیراعظم سے مولانا فضل الرحمان کی اہم ملاقات
  • احتجاج کیس:پی ٹی آئی کے کون کونسے کارکنان کو سزائیں ہوئیں ؟ تصاویر و تفصیلات سب نیوز پر
  • پی ٹی آئی کیخلاف اجتماع اور امن و عامہ ایکٹ 2024 کے تحت درج پہلے کیس کا فیصلہ سنادیا گیا
  • چھبیس نومبر بغیر اجازت احتجاج کیس کا پہلا فیصلہ: عدالت نے 12 پی ٹی آئی کارکنان کو سزائیں سنا دیں
  • اپوزیشن لیڈرعمرایوب کے وارنٹ گرفتاری جاری
  • چھبیسویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان
  • 26ویں ترمیم معاہدہ: حکومت وعدے پر قائم نہیں رہتی تو ہمیں عدالت جانا ہوگا، مولانا فضل الرحمان