Islam Times:
2025-09-18@17:15:10 GMT

یمن کا سرخ طوفان امریکہ کو لے ڈوبے گا

اشاعت کی تاریخ: 1st, April 2025 GMT

یمن کا سرخ طوفان امریکہ کو لے ڈوبے گا

اسلام ٹائمز: بحیرہ احمر میں امریکہ کی شکست کوئی معمولی شکست نہیں ہے بلکہ اس کے اثرات آئندہ طویل مدت تک امریکہ کو متاثر کرتے رہیں گے۔ امریکی کمپنی بے ای اے سسٹمز نے اعلان کیا ہے کہ امریکی بحریہ میں شامل جنگی کشتیوں کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کا پراجیکٹ 2028ء سے پہلے مکمل نہیں ہو پائے گا جبکہ کچھ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پراجیکٹ کے اخراجات بہت بھاری ہونے کے باعث اسے چند مراحل میں انجام دیا جائے گا۔ بحریہ کو مضبوط بنانے میں بھاری اخراجات اور طویل مدت کی ضرورت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکی بحریہ فوری طور پر بحیرہ احمر میں خود کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی جس کی وجہ سے امریکہ یمن کے خلاف اپنی فوجی حکمت عملی تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ یوں بحریہ کو مضبوط بنانے کا پراجیکٹ بھی بے معنی ہو جائے گا۔ تحریر: فاطمہ محمدی
 
یمن سے تاریخی اور تباہ کن شکست کے اثرات نے امریکہ کی بحریہ کو بری طرح متاثر کر رکھا ہے جس کے باعث اخراجات سمیت مختلف شعبوں میں امریکہ شدید دباو کا شکار ہو چکا ہے۔ امریکہ نے یمن کے فوجی ہتھیاروں اور مہارتوں کی جانب سے خود کو درپیش عظیم چیلنجز پر قابو پانے کی امید پر اپنی بحریہ پر بہت زیادہ اخراجات کیے ہیں۔ لیکن امریکہ کو درپیش چیلنجز اور دباو کا سلسلہ صرف یہیں ختم نہیں ہوتا بلکہ اس کی وسعت مستقبل تک پھیلی ہوئی ہے اور امریکہ مستقبل میں بھی دشمن کے مقابلے میں ممکنہ شکست سے شدید پریشان ہے۔ بحیرہ احمر میں امریکہ کی بحریہ کے ذریعے لشکرکشی نے بہت ہی کم مدت میں اس کی کمزوریوں کو عیاں کر دیا تھا جس کے بعد امریکہ نے اپنی بحریہ کو مضبوط بنانے کا ارادہ کیا۔ اس مقصد کے لیے امریکہ کی فوجی کمپنی بی اے ای سسٹمز نے امریکی بحریہ سے 70 ملین ڈالر کا معاہدہ کیا ہے۔
 
اس معاہدے کے تحت امریکہ کے جنگی بحری جہازوں کی توپوں کو بہتر بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہ توپیں جنگی جہاز کی آخری دفاعی لائن تصور کی جاتی ہیں جو میزائل ڈیفنس سسٹم ناکام ہو جانے کے بعد آخری ہتھیار کے طور پر بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ بی اے ای سسٹمز نامی کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر اعلان کیا ہے کہ اس معاہدے کے تحت امریکی بحریہ کی توپیں ایم کے 45 کی فورتھ جنریشن تک ترقی پا جائیں گی۔ بی اے سسٹمز کے ماہر برنٹ بوچر نے واضح کیا ہے کہ یہ فیصلہ گذشتہ برس بحیرہ احمر میں امریکی جنگی بیڑے کی حوثی مجاہدین کے حملوں کے مقابلے میں شکست کے بعد اختیار کیا گیا ہے۔ بوچر نے کہا: "گذشتہ برس بحیرہ احمر میں جو کچھ ہوا اس سے ہمیں یہ محسوس ہوا کہ امریکی جنگی کشتیوں پر زیادہ طاقتور توپوں کی ضرورت ہے۔" یمن کے حوثی مجاہدین کے مقابلے میں امریکی بحریہ کی کمزوری کا یہ واضح ثبوت ہے۔
 
امریکی بحریہ یمنیوں کو شکست دینے کی صلاحیت کیوں نہیں رکھتی؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ صرف امریکہ ہی اس مشکل سے روبرو نہیں ہے بلکہ اب تک دنیا کے جتنے ممالک نے بھی یمنیوں سے مقابلہ کر کے انہیں ختم کرنے کا دعوی کیا ہے وہ اس مشکل کا شکار رہے ہیں۔ جرمنی کے ادارے مرکز برائے سمندری اسٹریٹجی و سلامتی کے ماہر سیبسٹین برونز اس بارے میں کہتے ہیں: "یمنیوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ امریکہ اور مغرب کے لیے بہت بڑا چیلنج بن سکتے ہیں اور یہ ہمارے لیے بڑی سطح کا خطرہ ہے، خاص طور پر یہ کہ ہماری بحریہ مستقل مشکلات کا شکار ہے اور یہ چیز حقیقی طور پر پریشان کن ہے۔" برونز مزید کہتا ہے: "غزہ میں اسرائیل کی جنگ شروع ہونے کے بعد یمنیوں نے جنگ ختم ہونے تک اسرائیل اور اسرائیلی کشتیوں کو نشانہ بنانے کا اعلان کر دیا اور وہ اس میدان میں کامیاب بھی رہے۔"
 
پینٹاگون کی رپورٹ کے مطابق جون 2024ء تک 65 سے زیادہ ممالک اور 29 بین الاقوامی کمپنیوں کی کشتیاں بحیرہ احمر میں یمنیوں کے حملوں سے متاثر ہوئی ہیں۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بحیرہ احمر میں یمنیوں کے حملوں نے کینال سویز کو بھی متاثر کیا ہے جو بحیرہ احمر کو بحیرہ روم سے ملاتی ہے۔ جرمن نیوی کے ماہر سیبسٹین برونز اس بارے میں کہتے ہیں: "اگر کوئی یہ خیال کرے کہ یمنیوں سے درپیش خطرہ کم ہو گیا ہے تو وہ سخت غلطی کا شکار ہے اور اسے جان لینا چاہیے کہ یہ خطرہ نہ صرف کم نہیں ہوا بلکہ ماضی کے مقابلے میں ہزار فیصد بڑھ گیا ہے۔" انہوں نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہ متبادل راستے کشتیوں کی آمدورفت کے لیے بہت زیادہ اخراجات کے حامل ہیں، کہا: "بحیرہ احمر کے حالات کے باعث ایک انشورنس کمپنی نے اسپشل ملٹری انشورنس متعارف کروائی ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سلامتی کی صورتحال بہتر نہیں ہوئی۔"
 
بحیرہ احمر میں امریکہ کی شکست کوئی معمولی شکست نہیں ہے بلکہ اس کے اثرات آئندہ طویل مدت تک امریکہ کو متاثر کرتے رہیں گے۔ امریکی کمپنی بے ای اے سسٹمز نے اعلان کیا ہے کہ امریکی بحریہ میں شامل جنگی کشتیوں کو جدید ہتھیاروں سے لیس کرنے کا پراجیکٹ 2028ء سے پہلے مکمل نہیں ہو پائے گا جبکہ کچھ رپورٹس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس پراجیکٹ کے اخراجات بہت بھاری ہونے کے باعث اسے چند مراحل میں انجام دیا جائے گا۔ بحریہ کو مضبوط بنانے میں بھاری اخراجات اور طویل مدت کی ضرورت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ امریکی بحریہ فوری طور پر بحیرہ احمر میں خود کو درپیش چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں رکھتی جس کی وجہ سے امریکہ یمن کے خلاف اپنی فوجی حکمت عملی تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ یوں بحریہ کو مضبوط بنانے کا پراجیکٹ بھی بے معنی ہو جائے گا۔
 
ملٹری ویب سائٹ The War Zone نے امریکی بحریہ کے چند افسران کے بقول لکھا: "بحیرہ احمر کا معرکہ امریکی جنگی بیڑے کے لیے بہت بڑا امتحان تھا تاکہ اس طرح چین سے جنگ کے لیے تیار ہو سکے اور اس امتحان میں ہماری جنگی کشتیوں کی کمزوریاں اور نقائص عیاں ہو گئے ہیں۔" امریکہ کے ایک جنگی بحری جہاز کا ریٹائرڈ کمانڈر یان ون ٹول اس بارے میں کہتا ہے کہ امریکہ نے انتہائی گراں قیمت زمین سے ہوا میں مار کرنے والے میزائلوں کو یمنیوں کے سستے ڈرون تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔ اس نے مزید کہا: "چین سے ممکنہ ٹکراو کی صورت میں امریکہ کو کہیں زیادہ قیمت چکانی پڑے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چین کے حملوں کی شدت یمنیوں کے حملوں سے کئی گنا زیادہ ہو گی جس کے باعث امریکی بحریہ کے میزائلوں کے ذخیرے بہت جلدی ختم ہو جائیں گے۔"

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: بحریہ کو مضبوط بنانے کے مقابلے میں میں امریکہ کا پراجیکٹ یمنیوں کے امریکہ کی امریکہ کو کیا ہے کہ کی بحریہ بنانے کا کے حملوں طویل مدت کو درپیش کا شکار نہیں ہو کے باعث جائے گا کے لیے کے بعد یمن کے گیا ہے

پڑھیں:

دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف

امریکی میڈیا نے سنسنی خیز انکشاف کیا ہے کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے قطر کے دارالحکومت دوحہ پر حملے سے محض 50 منٹ قبل ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو آگاہ کر دیا تھا مگر امریکی صدر نے کوئی عملی اقدام نہ کیا۔

تین اعلیٰ اسرائیلی حکام کے حوالے سے امریکی میڈیا کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے دوحہ میں موجود حماس کی قیادت پر میزائل حملے کی پیشگی اطلاع امریکہ کو دے دی تھی۔

پہلے یہ معلومات سیاسی سطح پر صدر ٹرمپ تک پہنچائی گئیں، بعد ازاں فوجی چینلز کے ذریعے تفصیلات شیئر کی گئیں۔

اسرائیلی حکام کے مطابق اگر ٹرمپ اس حملے کی مخالفت کرتے تو اسرائیل دوحہ پر حملے کا فیصلہ واپس لے سکتا تھا۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے صرف دنیا کے سامنے ناراضی کا دکھاوا کیا درحقیقت حملے کو روکنے کی نیت موجود ہی نہیں تھی۔

یاد رہے کہ 9 ستمبر کو اسرائیل نے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حماس قیادت کو نشانہ بنانے کے لیے میزائل حملہ کیا تھا جس پر بین الاقوامی سطح پر شدید ردِعمل سامنے آیا تھا۔

وائٹ ہاؤس نے واقعے کے بعد وضاحت کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ جب اسرائیلی میزائل فضا میں تھے، تب امریکہ کو مطلع کیا گیا، اور اس وقت صدر ٹرمپ کے پاس حملہ رکوانے کا کوئی موقع باقی نہیں تھا۔

متعلقہ مضامین

  • اسرائیلی طیاروں نے دوحہ پر بیلسٹک میزائل بحیرہ احمر سے فائر کیے، امریکی اہلکار
  • اسامہ بن لادن امریکی پروڈکٹ تھا، خواجہ آصف
  • امریکہ اور برطانیہ کی بحیرہ احمر میں موجودگی کا کوئی جواز نہیں، یمن
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کوئی حق حاصل نہیں، ایران
  • امریکہ کو "انسانی حقوق" پر تبصرہ کرنیکا کو حق نہیں، ایران
  • امریکہ کی ایماء پر غزہ شہر پر اسرائیل کے زمینی حملے کا آغاز
  • امریکی انخلا ایک دھوکہ
  • دوحہ پر حملے سے 50 منٹ پہلے صدر ٹرمپ کو خبر تھی، امریکی میڈیا کا دھماکہ خیز انکشاف
  •  امریکی ریاست یوٹا میں بگولوں سے کئی مکانات تباہ
  • امریکی ریاست میں بگولوں کے باعث کئی مکانات تباہ