ویزا دینے سے پہلے امریکا درخواست دہندگان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی چیک کرے گا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, April 2025 GMT
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ وزیر خارجہ مارکو روبیو نے دوسرے ممالک میں موجود اپنے سفیروں سے ان افراد کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کرنے کا حکم دیا ہے جنہوں نے اسٹوڈنٹ یا کسی اور ویزا کے لیے درخواست دی ہوئی ہے۔
نیویارک ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق اس کا مقصد ان لوگوں کو روکنا ہے جو امریکا یا اسرائیل پر تنقید کرتے رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا روزانہ ہزاروں گولڈ ویزے جاری کررہا ہے
واضح رہے کہ امریکی سیکریٹری خارجہ کی جانب سے یہ حکم نامہ ایک ایسے وقت میں جاری کیا گیا ہے جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ملک بدری کی کوششوں میں توسیع کر رہے ہیں جن میں غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے دوران فلسطینیوں کی حمایت میں بولنے والے طلبہ بھی شامل ہیں۔
یہ اقدام ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے کچھ غیر ملکی شہریوں کو ملک بدر کرنے کی مہم شروع کرنے کے انتظامی احکامات پر دستخط کرنے کے نو ہفتے بعد سامنے آیا ہے جن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو امریکی شہریوں، ثقافت، حکومت، اداروں یا بنیادی اصولوں کے حوالے سے ’دشمنی پر مبنی رویہ‘ رکھتے ہیں۔
امریکی صدر ایک ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے کریک ڈاؤن بھی شروع کر چکے ہیں جو ان کے مطابق ’یہود مخالف‘ سرگرمیوں میں ملوث افراد کے خلاف ہے جس میں غزہ میں اسرائیل کی جنگ کے خلاف جامعات میں ہونے والے مظاہروں میں حصہ لینے والے غیر ملکی طلبہ کو ملک بدر کرنا بھی شامل ہے۔
مزید پڑھیے: وزیر خارجہ کو گرین کارڈ یا ویزا منسوخی کا اختیار حاصل ہے، ترجمان وائٹ ہاؤس
مارکو روبیو کی ہدایات میں کہا ہے کہ فوری طور پر قونصلر آفیسر کو بعض طلبہ اور وزیٹر ویزا میں تبدیلی کی درخواست دینے والوں کو لازمی سوشل میڈیا جانچ‘ کے لیے ’فراڈ پریوینشن یونٹ‘ بھیجنا ہوگا۔
سفارت خانے یا قونصل خانے کے قونصلر امور کے سیکشن کا فراڈ پریوینشن یونٹ، جو ویزا جاری کرتا ہے، درخواست دہندگان کی اسکریننگ میں مدد کرتا ہے۔
مارکو روبیو کے کیبل میں ان وسیع قواعد کی وضاحت کی گئی ہے جو سفارت کاروں کو یہ فیصلہ کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہیے کہ آیا ویزا سے انکار کرنا ہے یا نہیں۔
امریکی وزیر کا کہنا ہے کہ ہم اپنے ملک میں ایسے لوگ نہیں چاہتے جو جرائم کا ارتکاب کریں اور ہماری قومی سلامتی یا عوامی سلامتی کو نقصان پہنچائیں۔
مزید پڑھیں: ممکنہ امریکی سفری پابندی افواہ یا حقیقت؟ ترجمان محکمہ خارجہ نے بتادیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فلسطین حامی غیر ملکی مظاہرین کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں اور ان پر حماس کی حمایت، یہود مخالف ہونے اور امریکی خارجہ پالیسی کے لیے خطرہ بننے کے الزامات لگائے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے متعدد طلبہ اور مظاہرین کے ویزے منسوخ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ 300 سے زیادہ ویزے منسوخ کر چکی ہے۔
اس لہر کا آغاز کولمبیا یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ محمود خلیل کی ملک بدری کے حکم نامے سے ہوا تھا۔
وہ کولمبیا یونیورسٹی میں غزہ پر اسرائیلی حملے کے خلاف احتجاجی تحریک میں نمایاں رہے تھے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل امریکا امریکی ویزا امریکی ویزا خواہشمند فلسطین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل امریکا امریکی ویزا امریکی ویزا خواہشمند فلسطین کے لیے
پڑھیں:
دوحا میں اسرائیلی حملے سے 50 منٹ قبل ٹرمپ باخبر تھے، امریکی میڈیا کا انکشاف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکی میڈیا کی تازہ رپورٹ نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی میزائل حملے کی منصوبہ بندی اور اطلاع محض 50 منٹ پہلے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچ چکی تھی، لیکن صدر نے اس موقع پر کوئی عملی قدم اٹھانے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔
اس انکشاف نے نہ صرف امریکا کے کردار پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ اس بات کو مزید اجاگر کیا ہے کہ واشنگٹن کے ناراضی بھرے بیانات محض دنیا کو دکھانے کے لیے تھے، حقیقت میں حملے کو روکنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے 3 اعلیٰ اسرائیلی حکام کے حوالے سے بتایا کہ تل ابیب کی قیادت نے حماس رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جانے والے حملے کی خبر براہِ راست صدر ٹرمپ تک پہنچائی تھی۔ پہلے یہ اطلاع سیاسی سطح پر صدر کو دی گئی اور پھر فوجی چینلز کے ذریعے تفصیلات شیئر کی گئیں۔
اسرائیلی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکا سخت مخالفت کرتا تو اسرائیل دوحا پر حملے کا فیصلہ واپس بھی لے سکتا تھا، لیکن چونکہ واشنگٹن نے کوئی مزاحمت نہ کی، اس لیے اسرائیلی قیادت نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیا۔
یہ بھی بتایا گیا کہ امریکا نے دنیا کے سامنے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ حملے پر خوش نہیں تھا۔ وائٹ ہاؤس نے بعد ازاں یہ موقف اختیار کیا کہ جب اسرائیلی میزائل فضا میں داغے جا چکے تھے تب اطلاع موصول ہوئی، اس لیے صدر ٹرمپ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا، لیکن میڈیا کے انکشافات نے اس وضاحت کو مشکوک بنا دیا ہے، کیونکہ اگر صدر واقعی 50 منٹ پہلے ہی آگاہ ہو چکے تھے تو ان کے پاس اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے کافی وقت موجود تھا۔
یاد رہے کہ 9 ستمبر کو دوحا میں ہونے والے میزائل حملے میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس پر عالمی سطح پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔
عرب ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس حملے کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور اسرائیل کو قابض قوت قرار دیتے ہوئے امریکی کردار کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ فلسطینی عوام پہلے ہی اسرائیلی جارحیت کا شکار ہیں، ایسے میں قطر جیسے ملک پر حملے نے خطے کو مزید غیر مستحکم کرنے کا تاثر پیدا کیا ہے۔