اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اپریل 2025ء) اسرائیل کی جانب سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی کو آج دو اپریل بروز بدھ ایک ماہ مکمل ہونے پر جنگ سے تباہ حال اس ساحلی پٹی میں عالمی ادارہ خوراک (ڈبلیو ایف پی) کے تحت چلنے والی تمام بیکریاں بند ہو گئی ہیں۔

اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے ڈبلیو ایف پی کی جانب سے منگل کے روز جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''غزہ میں ڈبلیو ایف پی کے تعاون سے چلنے والی تمام 25 بیکریاں ایندھن اور آٹے کی کمی کی وجہ سے بند ہو گئی ہیں۔

‘‘

اس بیان میں مزید کہا گیا ہے، ''اگلے دو دنوں میں کھانے کے آخری پارسل تقسیم کر دیے جائیں گے۔‘‘ غزہ میں بیکری اونرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین اور ڈبلیو ایف پی کے تعاون سے چلنے والی فیملیز بیکری کے مالک عابد الجرامی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ڈبلیو ایف پی غزہ کی بیکریوں کا واحد کفیل ہے اور انہیں ''ان کی تمام ضروریات‘‘ فراہم کرتا ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''بیکریوں کی بندش کے اثرات شہریوں کے لیے بہت سخت ہوں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی متبادل سہارا نہیں ہے۔‘‘ ایک بند پڑے بڑے صنعتی تندور کے سامنےکھڑے ہو کر بات کرتے ہوئے الجرامی کا کہنا تھا کہ غزہ میں بیکریاں اقوام متحدہ کی ایجنسی کے خوراک کی تقسیم کے پروگرام میں مرکزی حیثیت رکھتی ہیں، جن کے ذریعے غزہ کے پناہ گزین کیمپوں میں روٹی پہنچائی جاتی ہے۔

اسرائیل اور حماس کے مابین چھ ہفتے کی جنگ بندی کے باوجود لڑائی کے دیرپا خاتمے کے لیے مذاکرات تعطل کا شکار ہیں۔ اسرائیل نے دو مارچ سے غزہ کی مکمل ناکہ بندی بھی کر رکھی ہے جبکہ اس علاقے میں پانی صاف کرنے والے مرکزی پلانٹ کی بجلی بھی منقطع کر دی گئی ہے۔

اسی دوران اسرائیل نے اٹھارہ مارچ سے غزہ پر دوبارہ حملے بھی شروع کر رکھے ہیں۔

اس کے چند روز بعد حماس نے دوبارہ اسرائیل پر راکٹ برسانا شروع کر دیے تھے۔ اس فلسطینی عسکریت پسند گروپ نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ بھوک کو ''اس وحشیانہ جنگ میں براہ راست ہتھیار‘‘ کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور اس کی مثال کے طور پر اس گروپ نے غزہ میں بیکریوں کی بندش کی طرف اشارہ کیا ہے۔

حماس نے عرب اور مسلم ممالک سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ''غزہ کو قحط اور تباہی سے بچانے کے لیے فوری اقدامات کریں۔

غزہ شہر کے مکین مستقبل کے بارے میں شدید پریشان ہیں۔ غزہ کے ایک رہائشی محمود خلیل نے اے ایف پی کو بتایا، ''میں اپنے بچوں کے لیے روٹی خریدنے کے لیے صبح اٹھا لیکن تمام بیکریاں بند تھیں۔‘‘ ایک اور مقامی رہائشی امینہ السید نے بھی اسی نوعیت کا تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ''میں ساری صبح ایک بیکری سے دوسری بیکری بھاگتی رہی لیکن ان میں سے کوئی بھی کام نہیں کر رہی، وہ سب بند ہیں۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ انہیں خدشہ ہے کہ جلد ہی قحط کا خطرہ غزہ کو ایک بار پھر اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔

السید کا کہنا تھا، ''آٹے کی قیمت بڑھ گئی ہے اور ہم اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم اُس قحط سے خوفزدہ ہیں جس کا سامنا ہم نے جنوب میں کیا۔‘‘

غزہ میں کام کرنے والے بین الاقوامی خیراتی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ اکتوبر 2023 میں حماس کے دہشت گردانہ حملے کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی تباہ کن فوجی مہم کے دوران ان میں سے بہت سے لوگوں کے متعدد بار بے گھر ہونے کے بعد غزہ کے 2.

4 ملین افراد خوراک کی مزید قلت برداشت نہیں کر سکتے۔

ناروے کی پناہ گزینوں کی کونسل کے نمائندہ گیون کیلیہر نے کہا کہ جو لوگ چھ ہفتے کی جنگ بندی کا فائدہ اُٹھا کر بمباری سے تباہ شدہ گھروں میں واپس گئے تھے، وہ اب ''مکمل طور پر بدحالی کا شکار ہو رہے ہیں۔‘‘

انہوں نے اسرائیلی ناکہ بندی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے افسوس کا اظہارکیا، '' انسانی ہمدردی کے تحت ہمارے ردعمل کو ناکام کیا جا رہا ہے۔

ہمیں سامان لانے کی اجازت نہیں ہے، ہم ضروریات کو پورا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔‘‘ برطانوی چیریٹی سیو دی چلڈرن کی الیگزینڈرا سائیہ نے کیلیہر کے اس تبصرے کی بازگشت کرتے ہوئے کہا، ''جب سیو دی چلڈرن غزہ میں کھانا تقسیم کرتی ہے، تو ہمیں بہت زیادہ ہجوم نظر آتا ہے کیونکہ غزہ میں ہر ایک فرد امداد پر انحصار کر رہا ہے۔‘‘ ان کے بقول اب ''وہ لائف لائن کٹ گئی ہے۔‘‘

ش ر⁄ ک م، م م (اے ایف پی)

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ناکہ بندی کرتے ہوئے اے ایف پی کی جانب کے لیے

پڑھیں:

اسرائیل نے بربریت کی انتہا کردی؛ غزہ امدادی کشتی ضبط کرکے رضاکاروں کو یرغمال بنالیا

اسرائیلی فوج نے عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی رضا کار گریٹا تھنبرگ کی قیادت میں امدادی سامان سے لدی کشتی کو غزہ جانے سے روک کر جبری طور پر تحویل میں لے لیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق یہ کشتی اسرائیلی بحری ناکہ بندی کے خطرے کے باوجود غزہ کے بھوک سے موت کے منہ میں جاتے فلسطینیوں کے لیے امدادی اشیا لے کر جا رہی تھی۔ جس میں چاول اور بچوں کا فارمولا دودھ بھی شامل تھا۔

کشتی پر عالمی شہرت یافتہ ماحولیاتی رضاکار خاتون گریٹا تھنبرگ سمیت برازیل، فرانس، جرمنی، نیدرلینڈز، اسپین، سویڈن اور ترکیہ کے شہری سوار تھے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کہا کہ گریٹا اور دیگر افراد نے ایک ٹرک سے بھی کم امدادی سامان لے کر سستی شہرت کے لیے میڈیا پر ڈراما رچانے کی کوشش کی۔

انھوں نے مزید کہا کہ حالانکہ اسرائیل نے صرف 2 ہفتوں میں 1,200 سے زائد امدادی ٹرک غزہ میں داخل کیے اور غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن نے تقریباً 1 کروڑ 10 لاکھ کھانے کے پیکیجز شہریوں تک پہنچائے ہیں۔

اسرائیلی وزرت خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ غزہ کو امداد پہنچانے کے کئی طریقے موجود ہیں لیکن ان میں انسٹاگرام سیلفیاں شامل نہیں ہیں۔

قبل ازیں اسرائیلی فوج نے میڈلین نامی امدادی کشتی کو کھلے سمندر میں روک کر نہ صرف ضبط کرلیا بلکہ 12 رضاکاروں کو بھی غیر قانونی طور پر تحویل میں لے لیا۔

اسرائیلی میڈیا کے مطابق "میڈلین" نامی امدادی کشتی کو رضاکاروں سمیت اب اشدود بندرگاہ لے جایا جا رہا ہے، جو غزہ سے تقریباً 27 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔

اسرائیلی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ امدادی کشتی محفوظ طریقے سے اسرائیل کے ساحل کی جانب گامزن ہے اور اس کے تمام مسافروں کو جلد ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دیا جائے گا۔

اس واقعے کی فوٹیج بھی جاری کی گئی ہے جس میں اسرائیلی فوجیوں کو کشتی پر موجود کارکنوں کو سینڈوچ اور پانی فراہم کرتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔

ادھر فریڈم فلوٹیلا کولیشن (FFC) نے ٹیلیگرام پر ایک پیغام میں کہا ہے کہ "میڈلین" سے رابطہ منقطع ہو چکا ہے۔ انہوں نے ایک تصویر بھی پوسٹ کی ہے جس میں کارکنوں کو لائف جیکٹس پہنے اور ہاتھ بلند کیے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

فریڈم فلوٹیلا کولیشن کے مطابق یہ پُرامن سول جہاز بین الاقوامی پانیوں میں سفر کر رہا تھا جس میں کسی کے پاس کوئی اسلحہ بھی نہیں تھا۔

انھوں نے اسرائیل کے اقدام کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ انسانی حقوق کے محافظوں پر تشدد اور ان کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے۔

دوسری جانب اسرائیل کا مؤقف ہے کہ غزہ پر بحری ناکہ بندی کا مقصد حماس کے جنگجوؤں کو اسلحہ کی فراہمی روکنا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر ترک نے کہا تھا کہ فلسطینیوں کو "انتہائی افسوسناک انتخاب" کا سامنا ہے یا تو بھوک سے مر جائیں یا خوراک حاصل کرنے کی کوشش میں گولیوں کا نشانہ بنیں۔

اسرائیل نے حال ہی میں تین ماہ کی زمینی ناکہ بندی کے بعد غزہ میں محدود امداد کی اجازت دینا شروع کی ہے، تاہم یہ امداد اسرائیل اور امریکہ کی حمایت یافتہ "غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن" کے ذریعے تقسیم کی جا رہی ہے، جس پر کئی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اعتراض کیا ہے۔

یاد رہے کہ 2010 میں اسرائیلی کمانڈوز نے ترک جہاز "ماوی مرمارا" پر دھاوا بولتے ہوئے 10 ترک کارکنوں کو ہلاک کر دیا تھا، جو غزہ کی جانب امدادی سامان لے جا رہے تھے۔

 

متعلقہ مضامین

  • اسرائیل کا حماس کے نئے سربراہ محمد سنوار کی شہادت کا دعویٰ
  • اسرائیل نے بربریت کی انتہا کردی؛ غزہ امدادی کشتی ضبط کرکے رضاکاروں کو یرغمال بنالیا
  • ایران نے اسرائیل کی مکمل جوہری دستاویزات حاصل کرلیں، جلد منظر عام پر لانے کا اعلان
  • غزہ جنگ میں اسرائیلی فوج کی ہلاکتیں، اسرائیل کو 10 ہزار سے زائد اہلکاروں کی کمی کا سامنا
  • جنوبی لبنان میں امریکہ و اسرائیل، یونیفل مشن کے خاتمے کے خواہاں
  • آج کا پاکستان کل جیسا نہیں رہا! نئی صف بندی؟
  • انٹیلی جنس کے شعبے میں اسرائیل پر ایران کی کاری ضرب، اسرائیلی میڈیا میں ہلچل
  • غزہ کے جنوبی شہر رفح سے تھائی یرغمالی کی لاش برآمد؛ اسرائیلی فوج کا دعویٰ
  • فرانس کا اسرائیل سے فوری طور پر لبنان سے انخلا کا مطالبہ
  • لاہور، ایس پی ڈولفن کا صبح سویرے گجومتہ اور شہر بھر کے ناکہ جات کا دورہ