Express News:
2025-09-18@20:43:42 GMT

وہ عیدیں اب کہاں تلاش کریں؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT

عید خوشی کا نام ہے اور اگر عیدالفطر کی بات کی جائے تو اسے میٹھی عید بھی کہا جاتا ہے۔ اس عید پر خوشی کا ایک الگ ہی سماں ہوتا ہے۔ سحر و افطار کے خوبصورت لمحات کے بعد اُنتیس یا تیس روزے پورے ہونے سے لے کر عید کے چاند کے نظارے تک کا سفر یقینی طور پر اہمیت کا حامل ہے۔

اس پُرلطف سفر میں بچوں کی خوشیاں قابل دید ہوا کرتی ہیں۔ بچے سحر و افطار میں جتنے پرجوش نظر آتے ہیں اتنے ہی زیادہ وہ عید کی تیاری کےلیے بھی بے چین دکھائi دیتے ہیں۔ بچیاں چوڑیاں، مہندی، جوڑا سب کچھ بہت شوق سے خریدتی ہیں۔ اور ان کی ہر خواہش پوری کرنے کےلیے والدین اپنے شوق تک قربان کردیتے ہیں۔ اور کیوں نہ کریں یہ بیٹیاں تو گھر کی رحمت ہوتی ہیں۔ نجانے اگلے گھر ان کے یہ شوق کوئی پورے کرے نہ کرے، بس خدا سے یہی دعا ہوتی ہے کہ ان کے نصیب نیک ہوں۔

ہمارے بچپن کی عیدوں کی بات کی جائے تو چاند رات پر ننھیال ددھیال پر پُرخلوص رشتوں کے میلے لگا کرتے تھے۔ نانا نانی، دادا دای سے ملی محبت سے بھرپور عیدی، بچوں کی شرارتوں اور قہقہوں سے آنگن گونجا کرتا تھا۔

عید کارڈ جب ڈاک کے ذریعے ڈاکیا لایا کرتا تھا تو پُرخلوص رشتوں کی محبت کی مہک اس کاغذ کے ٹکڑے میں محسوس ہوا کرتی تھی۔ خالہ، ماموں، تایا، چچا کے گھر دعوتوں کے سلسلے چلتے تھے۔

دوستوں اور پردیس میں رہنے والے عزیزوں کا پی ٹی سی ایل کے پرانے ڈیزائن والے فون پر کال آنے پر گھر والے خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔

عید کے دن اخبار میں پی ٹی وی کے عید کے خصوصی پروگراموں کے اوقات دیکھنا۔ میگزین میں عید سے متعلق خصوصی تحاریر پڑھنا اور خواتین کے کپڑوں کے ڈیزائن دیکھنا۔ دعوتوں پر غذا سادہ سہی لیکن لہجوں کی مٹھاس سے دل باغ باغ ہو جانا۔ 

پھر وقت نے کچھ رنگ بدلا وہ بزرگ جن کی دعاؤں سے آنگن آباد تھے وہ منوں مٹی تلے سو گئے۔ اب ہزاروں روپے بھی عیدی میں مل جائیں لیکن نانی دادی کی اُس محبت بھری عیدی کے آگے صفر لگتے ہیں۔ عید پر ملی دعائیں نانا دادا کی دعا سے کم لگتی ہیں۔

دوستوں کے قہقہے اب پھیکے دکھائی دیتے ہیں۔ خالہ، ماموں، تایا، چچا اب اپنے اپنے گھر میں ہی رہ کر خوش دکھائی دیتے ہیں۔ عید کی مبارکباد اب ایک میسیج کے ذریعے بھیج دی جاتی ہے۔ کبھی کبھار تو سب کو ایک جیسا یا پھر کسی کا میسیج اگلے کو اپنی طرف سے بھیج دیا جاتا ہے۔ اب لفظوں سے خوشبو نہیں آتی۔

اب موبائل کال پر ہزاروں میل دور بیٹھے کسی اپنے کا چہرہ تو دکھائی دے جاتا ہے لیکن پاس بیٹھے کوئی اپنا بہت دور محسوس ہوتا ہے۔ چوڑیوں اور مہندی کے رنگ بھی پھیکے لگتے ہیں۔ دعوت کے کھانوں میں محبت نہیں دکھاوا دکھائی دیتا ہے۔

اب یہی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ عید تو بس بچوں کی ہوتی ہے اور ہم اب بڑے ہو گئے ہیں جن کے دم سے ہماری عیدیں پُررونق تھیں وہ اب سو گئے ہیں۔ اسی لیے ہماری عیدیں اب قبرستان میں انہیں تلاش کرنے میں گزر جاتی ہیں۔ اور یقین جانیں قبرستان سے واپس آتے ہوئے قدم بھاری محسوس ہوتے ہیں۔ جیسے اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ رہے ہیں۔ نہ رُک سکتے ہیں نہ آگے بڑھ سکتے ہیں۔ مگر ان سب کے باوجود عید تو منانا پڑے گی۔

عید کی خوشیاں خصوصی طور پر ان بچوں کی ہیں جو ہمارا مستقبل ہیں۔ لہٰذا ہم باہمی محبت، خلوص اور اخلاص سے ان کی عیدوں کو خوبصورت بنا سکتے ہیں۔ رنجشوں کو مٹا کر اپنے بچوں کی خاطر اس عید کو خوبصورت بنائیں۔ کوشش کریں انہیں ہر رشتے کا ویسا ہی خالص پیار ملے جیسے ہمیں ملا۔

جو وقت گزر گیا وہ ہمارے ہاتھ میں نہیں۔ لیکن جو وقت ہے اسے خوبصورت یا بدصورت بنانا ہمارے اختیار میں ہے۔

روزے نے ہمیں صبر سکھایا اور عید ہمیں در گزر سکھاتی ہے۔ عید پر کسی روٹھے کو منانا، کسی یتیم کے سر پر دست شفقت رکھنا یا کسی تنہا انسان کو اپنایت کا احساس دلانا ناصرف اس شخص کےلیے بلکہ خود آپ کے لیے باعث خوشی ہوتا ہے۔ عید نئے جوڑے اور نئے جوتوں تک محدود نہیں بلکہ عید تو خود میں ایک نئی اور مثبت تبدیلی لانے کا نام بھی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: بچوں کی

پڑھیں:

وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست

سیلابی ریلے وسطی و جنوبی پنجاب میں تباہی مچا کر سندھ میں داخل ہونے پر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کو بھی خیال آگیا کہ انھیں اور کچھ نہیں تو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا خالی ہاتھ دورہ ہی کر لینا چاہیے۔

 اس لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے ملتان، شجاع آباد اور جلال پور پیروالا کا دورہ کیا اور حکومتی امدادی سرگرمیوں پر عدم اطمینان کا اظہارکیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ سیاست کا وقت تو نہیں، اس لیے عوام کو اپنے سیلاب سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔

انھوں نے ایک ریلیف کیمپ کے دورے پر کہا کہ پی ٹی آئی اس مشکل گھڑی میں متاثرین کے ساتھ ہے مگر انھوں نے متاثرین میں سلمان اکرم راجہ کی طرح کوئی امدادی سامان تقسیم نہیں کیا اور زبانی ہمدردی جتا کر چلتے بنے۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دورے میں کہا کہ اس وقت جنوبی پنجاب سیلاب کی زد میں ہے اور سرکاری امداد محدود ہے، اس لیے میری عوام سے اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور سیلاب متاثرین کی مدد کریں۔

سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے باز نہیں آئے ، موصوف نے کہا کہ ٹک ٹاکر حکومتیں سیلاب زدگان کی مدد کرنے والے والنٹیئرز پر امدای سامان پر فوٹو نہ لگانے کی پاداش میں ایف آئی آر کاٹ رہی ہیں۔

پی ٹی آئی کے حامی اینکرز اور وی لاگرز نے بھی اس موقع پر سیاست ضروری سمجھی اور انھوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اپنے وی لاگ اور انٹرویوز میں بٹھا کر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ (ن) لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے سیلاب متاثرین کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے اور صرف دکھاوے کی امداد شروع کر رکھی ہے اور سیلاب متاثرین کو بچانے پر توجہ ہی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور متاثرین کو بروقت محفوظ مقامات پر پہنچانے کی کوشش نہیں کی اور جب سیلابی پانی ان کے گھروں اور کھیتوں میں داخل ہوا تو ریلیف کا کام شروع کیا گیا۔

متاثرہ علاقوں میں ضرورت کے مطابق کشتیاں موجود تھیں نہ ریلیف کا سامان اور نہ ضرورت کے مطابق حفاظتی کیمپ قائم کیے گئے۔ یہ رہنما اس موقعے پر بھی سیاست کرتے رہے اور کسی نے بھی حکومتی کارکردگی کو نہیں سراہا بلکہ حکومت پر ہی تنقید کی۔ جب کہ وہ خود کوئی ریلیف ورک نہیں کرتے۔

پنجاب کے ریلیف کمشنر نے قائم مقام امریکی ناظم الامور کو پنجاب ہیڈ آفس کے دورے میں بتایا کہ پنجاب کو تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا ہے جس سے ساڑھے چار ہزار موضع جات متاثر 97 شہری جاں بحق اور تقریباً 45 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن کے لیے متاثرہ اضلاع میں 396 ریلیف کیمپس، 490 میڈیکل کیمپس اور 405 وزیٹری کیمپس قائم کیے گئے جہاں سیلاب متاثرین کو ٹھہرا کر ہر ممکن امداد فراہم کی جا رہی ہے اور شمالی پنجاب کے متاثرہ اضلاع کے بعد جنوبی پنجاب کی سیلابی صورتحال پر حکومتی توجہ مرکوز ہے اور سیلاب متاثرین کے لیے تمام سرکاری وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے قدرتی آفت پر صوبائی حکومتوں کی امدادی کارروائیوں کو قابل ستائش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے کسانوں، مزدوروں، خواتین اور بچوں نے غیر معمولی ہمت دکھائی ہے اس قدرتی آفت سے بے پناہ مسائل و چیلنجز نے جنم لیا ہے مگر حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

 خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکوتوں سے کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خیبر پختونخوا کے برعکس پنجاب و سندھ کی حکومتوں نے سیلابی صورت حال دیکھتے ہوئے تیاریاں شروع کردی تھیں اور حفاظتی انتظامات کے تحت متاثرہ علاقوں میں سیلاب آنے سے قبل خالی کرنے کی اپیلیں کی تھیں مگر اپنے گھر فوری طور خالی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

غریب اپنے غیر محفوظ گھر خالی کرنے سے قبل بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں، انھیں حکومت اور انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہوتا کہ وہ واپس اپنے گھروں کو آ بھی سکیں گے یا نہیں اور انھیں سرکاری کیمپوں میں نہ جانے کب تک رہنا پڑے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر قدرتی آفت پر حکومتی اور اپوزیشن دونوں طرف سے سیاست ضرور کی جاتی ہے اور غیر حقیقی دعوے کیے جاتے ہیں اور عوام کو حقائق نہیں بتائے جاتے۔ حکومت نے بلند و بانگ دعوے اور اپوزیشن نے غیر ضروری تنقید کرکے اپنی سیاست بھی چمکانا ہوتی ہے اور دونوں یہ نہیں دیکھتے کہ یہ وقت سیاست کا ہے یا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • اسلامی ممالک قطر پر اسرائیل کے حملے سے عبرت حاصل کریں، سید عبدالمالک الحوثی
  • پاکستان، سعودی ڈیفینس معاہدہ سے کہاں کہاں کیا کچھ بدلے گا
  • گھوٹکی میں سیلاب، 60 سالہ خاتون ہنر کی بدولت اپنے بچوں کا سہارا بن گئیں
  • ایشیا ء کپ: سپر فور مرحلے میں پاکستان کا بھارت سے مقابلہ کب اور کہاں ہوگا؟
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرت مندانہ فیصلے کریں. عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے جرأت مندانہ فیصلے کریں، عمران خان کا چیف جسٹس کو خط
  • یوٹیوب پر نماز روزے کی بات کرتی ہوں تو لوگ حمائمہ کا نام لیتے ہیں، دعا ملک
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • کیا ہم اگلی دہائی میں خلائی مخلوق کا سراغ پا لیں گے؟