بشریٰ اقبال نے عامر لیاقت کی سابقہ اہلیہ طوبیٰ کو جھوٹا اور احسان فراموش قرار دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 3rd, April 2025 GMT
نامور پاکستانی میزبان مرحوم ڈاکٹر عامر لیاقت حسین کی سابقہ اہلیہ ڈاکٹر بشریٰ اقبال نے حال ہی میں طوبیٰ انور پر کڑی تنقید کی جو سوشل میڈیا پر وائرل ہے۔حال ہی میں ایک انٹرویو میں طوبیٰ انور نے میڈیا انڈسٹری میں غیر متوقع طور پر قدم رکھنے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ 'مجھے شوبز میں آنے کا بالکل شوق نہیں تھا، میں اتفاقیہ اس انڈسٹری کا حصہ بنی'۔جب کہ عامر لیاقت حسین اپنی زندگی میں طوبیٰ سے طلاق کے بعد کہہ چکے تھے کہ انہیں (طوبیٰ انور کو) میں نے میڈیا انڈسٹری میں متعارف کروایا تھا۔طوبیٰ کے وائرل کلپ پر ڈاکٹر بشریٰ اقبال نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ اگر احسان فراموشی اور جھوٹ کا کوئی چہرہ ہوتا تو وہ یہی ہوتا، انہوں نے یہ بھی لکھا کہ سچ بتا دوں؟سوشل میڈیا پر صارفین نے بھی طوبیٰ انور کے بیانات کو جھوٹ قرار دیا اور کہا کہ طوبیٰ انور کی حقیقت سب کے سامنے ہے۔واضح رہے کہ عامر لیاقت حسین نے بشریٰ اقبال کو 2020 میں سیدہ طوبیٰ انور سے شادی کے بعد طلاق دے دی تھی۔عامر لیاقت کی دوسری شادی کے بعد ڈاکٹر بشریٰ اقبال اور ان کے بچوں نے عامر لیاقت سے قطع تعلق کر لیا تھا، بعد ازاں سیدہ طوبیٰ انور نے 2022 میں خلع کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا۔اس کے بعد عامر لیاقت نے ٹاک ٹاکر دانیہ شاہ سے 2022 میں شادی کی تھی، اپنی زندگی کے آخری ایام میں ڈاکٹر عامر لیاقت حسین شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہو گئے تھے جس کے باعث جون 2022 میں وہ انتقال کرگئے تھے۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: عامر لیاقت حسین کے بعد
پڑھیں:
پشاور، سابقہ دور حکومت میں 39 کروڑ سے زائد رقم کی عدم وصولی کی نشاندہی
آڈیٹر جنرل پاکستان نے سابقہ دور حکومت میں صوبائی محکموں میں اندرونی آڈٹ نہ ہونے کے باعث 39کروڑ 83 لاکھ سے زائد رقم وصول نہ ہونے کی نشان دہی کردی ہے۔
آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی 2021-2020 کی آڈٹ رپورٹ میں حکومتی خزانے کو ہونے والے نقصان کی نشان دہی گئی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ پراپرٹی ٹیکس اور دیگر مد میں بڑے بقایا جات کی ریکوری نہیں ہوسکی۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ حکومتی آمدن کا بھی درست طریقے سے تخمینہ نہیں لگایا جاسکا، محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹیوں کے اجلاس باقاعدگی سے نہ ہونے پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے فیصلوں کا نفاذ نہیں ہوسکا۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ صوبے میں ریونیو اہداف بھی حاصل نہیں کیے جارہے ہیں، رپورٹ میں مختلف ٹیکسز واضح نہ ہونے کے باعث حکومت کو 32 کروڑ 44لاکھ 20 ہزار روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پراپرٹی ٹیکس، ہوٹل ٹیکس، پروفیشنل ٹیکس، موثر وہیکلز ٹیکس کے 9کیسز کی مد میں نقصان ہوا، صرف ایک کیس ابیانے کی مد میں حکومتی خزانے کو 45لاکھ 80ہزار روپے کا نقصان ہوا۔
اسی طرح اسٹامپ ڈیوٹی اور پروفیشنل ٹیکس کی مد میں ایک کیس میں 15لاکھ روپے کے نقصان کی نشاندہی ہوئی ہے۔
آڈیٹر جنرل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کم یا تخمینہ صحیح نہ لگانے سے انتقال فیس، اسٹمپ ڈیوٹی، رجسٹریشن فیس،کیپٹل ویلتھ ٹیکس، لینڈ ٹیکس، ایگریکلچر انکم ٹیکس اور لوکل ریٹ کے 5کیسوں میں 4کروڑ 40لاکھ روپے کا نقصان ہوا۔
رپورٹ کے مطابق ایڈوانس ٹیکس کا تخمینہ نہ لگانے سے وفاقی حکومت کو دو کیسز میں ایک کروڑ 9لاکھ روپے کا نقصان ہوا جبکہ 69 لاکھ 50 ہزار روپے کی مشتبہ رقم جمع کرائی گئی۔
مزید بتایا گیا ہے کہ روٹ پرمٹ فیس اور تجدید لائنسس فیس کے 2کیسز میں حکومت کو 45لاکھ روپے کا نقصان اور 14لاکھ کی مشتبہ رقم بھی دوسرے کیس میں ڈپازٹ کرائی گئی۔
رپورٹ میں ریکوری کے لیے مؤثر طریقہ کار وضع کرنے اور کم لاگت ٹیکس وصول کرنے کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کی سفارش کی گئی ہے۔