حکومت مخالف تحریک کے امکانات
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
پی ٹی آئی سمیت حکومت مخالف جماعتوں کا دعویٰ ہے کہ عید کے بعد ان کا ایک مشترکہ گرینڈ الائنس سامنے آ جائے گاجو ایک بڑی سیاسی تحریک کا نقطہ آغاز بھی ہوگا۔پی ٹی آئی کے کچھ سیاسی رہنما اس نقطہ پر اتفاق کرتے ہیں کہ موجودہ صورتحال میں پی ٹی آئی مختلف ریاستی اور حکومتی جبر و پابندیوں کی وجہ سے سیاسی طور پر تن تنہا کوئی بڑی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور اسے دیگر جماعتوں پر انحصار کرنا ہوگا۔
پی ٹی آئی نے سیاسی سرگرمیاں کرنے کی کوشش کی تو انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پی ٹی آئی میں شامل بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ اگر ہم نے عملی طور پر بڑی تحریک چلانی ہے تو دیگر سیاسی جماعتوں بالخصوص مولانا فضل الرحمان کی جے یو آئی اور جماعت اسلامی کو گرینڈ الائنس کا حصہ بنانا ہوگا۔اسی بنیاد پر پی ٹی آئی نے عید کے بعد ایک بڑے گرینڈ الائنس کا عندیہ دیا ہے بلکہ مکمل اتفاق ہو گیا ہے۔
پی ٹی آئی ماضی میں کیونکہ سولو فلائٹ کی سیاست کی حامی رہی ہے، اس لیے بہت سی سیاسی جماعتیں اس وقت بھی پی ٹی آئی کے ساتھ کسی بھی بڑے اتحاد کا حصہ بننے پر اپنے تحفظات رکھتی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن اگرچہ اس وقت حکومت مخالف سیاست کا حصہ ہیں۔لیکن ان کا بھی اپنا موقف ہے کہ وہ اس وقت تک پی ٹی آئی کے ساتھ گرینڈ الائنس کا حصہ نہیں بنیں گے جب تک اس اتحاد کو مستقبل کے تناظر میں انتخابی اتحاد میں تبدیل نہ کیا جائے۔کیونکہ مولانا فضل الرحمن کو خیبرپختون خواہ میں پی ٹی آئی کے تناظر میں سخت مزاحمت کا سامنا ہے اور ان کی سیاسی و انتخابی پوزیشن کافی کمزور ہے۔
اس لیے مولانا فضل الرحمن چاہتے ہیں کہ عمران خان کا ساتھ اسی صورت میں دیا جائے جب مستقبل میں ان کے ساتھ انتخابی اتحاد ہو تاکہ ان کے ارکان پی ٹی آئی کی حمایت کے ساتھ پارلیمنٹ کا حصہ بن سکیں۔کیونکہ مولانا فضل الرحمن کو اندازہ ہے کہ اگر وہ صرف خود کو گرینڈ الائنس تک محدود رکھتے ہیں اور یہ اتحاد انتخابی اتحاد میں تبدیل نہیں ہوتا تو اس کا براہ راست فائدہ پی ٹی آئی کو ہوگا اور انھیں اگلے انتخابات میںایک بار پھر خیبر پختون خواہ میں سیاسی پسپائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔جب کہ دوسری طرف حکومت کی پوری کوشش یہ ہی ہے کہ مولانا فضل الرحمن کو کسی بھی طور پر بانی تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد کا حصہ نہ بننے دیا جائے۔
یہ ہی وجہ ہے کہ مولانا فضل الرحمن کے ساتھ حکومت بھی مسلسل رابطے میں ہے اور ان کو سیاسی طور پر رام کرنا چاہتی ہے۔مولانا فضل الرحمن کو گلہ ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون نے ان سے اقتدار کی شراکت کے فارمولے میں وعدہ خلافی کی ہے۔بہرحال مولانا فضل الرحمن اس وقت وکٹ کی دونوں طرف کھیل رہے ہیں اور جہاں ان کو سیاسی فائدہ ہوگا وہ اپنا فیصلہ ضرور اسی طرف کریں گے۔
وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس وقت پی ٹی آئی کا ساتھ دینے کا مقصد اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست ہے اور وہ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکراؤ کی بجائے مفاہمت کے ساتھ چلنے کے حامی رہے ہیں۔اس لیے دیکھنا ہوگا کہ مولانا فضل الرحمن حتمی فیصلہ کیا کرتے ہیں۔خود پی ٹی آئی میں بھی بالخصوص ووٹرز میں مولانا فضل الرحمن کی سیاست کے بارے میں اچھی رائے نہیں ہے اور نہ ہی ان کا ووٹر اس طرح کے انتخابی اتحاد کو قبول کرے گا اور نہ بانی پی ٹی آئی اس طرح کے انتخابی اتحاد کے حامی ہیں۔ ایسا کوئی واضح اشارہ ہمیں دیکھنے کو نہیں ملا کہ جماعت اسلامی اس گرینڈ الائنس کا حصہ ہوگی۔اگر جے یو آئی اور جماعت اسلامی گرینڈ الائنس کا بھی عملا حصہ نہیں بنتی تو پھر تحریک چلانے کے امکانات کم ہوں گے۔
بانی پی ٹی آئی کی سیاسی مقبولیت اپنی جگہ جب کہ کامیاب سیاسی تحریک چلانا ایک دوسری بات ہے۔ پی ٹی آئی کو اس وقت بڑے داخلی بحران کا سامنا ہے۔پی ٹی آئی میںکچھ لوگ اینٹی اسٹیبلشمنٹ ہیں تو ایک بڑا گروپ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات بہتر بنا کر چلنے کا حامی ہے۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کا تنظیمی ڈھانچہ بہت کمزور ہے اور اس کی بیشتر قیادت کارکنوں کو یکجا کرنے میں ناکامی سے دوچار ہے۔
اس لیے جب تک پنجاب سے کوئی بڑی تحریک شروع نہیں ہوگی تو پی ٹی آئی کو اس کا کوئی بڑا فائدہ نہیں پہنچ سکے گا۔پی ٹی آئی کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔جو کچھ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پس پردہ پی ٹی آئی کی باہر بیٹھی قیادت کرنا چاہتی ہے اس میں بھی سب سے بڑی رکاوٹ خود بانی پی ٹی آئی ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کو اندازہ ہے کہ اگر انھوں نے کسی بھی سطح پر سیاسی کمزوری کا مظاہرہ کیا یا کوئی ایسا سمجھوتہ کیا جو ان کے مزاحمتی موقف کے برعکس ہوا تو اس سے ان کو سیاسی نقصان سمیت عوامی مقبولیت میں بھی کمی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اسی طرح اگر بانی پی ٹی آئی مزید جیل میں رہتے ہیں تو ان کی غیر موجودگی میں ایک بڑی سیاسی تحریک کے چلنے کے امکانات محدود ہیں۔ لیکن اگر وہ جیل سے باہر آتے ہیں تو سیاسی حالات اور عوامی طاقت کی لہر ان کے حق میں ہو سکتی ہے۔لیکن فوری طور پر ان کی رہائی کے امکانات بھی کم نظر آتے ہیں ۔
بانی پی ٹی آئی کے چار مطالبات ہیں اول، ملک کے نظام کو آئین و قانون کی حکمرانی کے تابع کیا جائے۔ دوئم، آٹھ فروری کے انتخابات کا سیاسی آڈٹ کیا جائے اور عدالتی کمیشن بنے یا نئے انتخابات کا راستہ اختیار کیا جائے۔سوئم ،نو مئی کے واقعات پر جوڈیشل کمیشن بنے ۔چہارم، پی ٹی آئی کے تمام سیاسی کارکنوں کی رہائی اور مقدمات کا خاتمہ شامل ہے۔
اب اگر پی ٹی آئی کو کسی بڑے بڑے گرینڈ الائنس کا حصہ بننا ہے تو اسے دیگر سیاسی جماعتوں کے مطالبات بھی سامنے رکھنے پڑیں گے۔حکومت کی پوری کوشش ہوگی کہ پی ٹی آئی یا گرینڈ الائنس کی ممکنہ سیاسی تحریک کو پیدا ہی نہ ہونے دیا جائے اور اس طرح کی تشکیل کو اپنی سیاسی حکمت عملیوں سے ناکام بنانا ان کی حکمت عملی کا حصہ ہوگا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مولانا فضل الرحمن کو کہ مولانا فضل الرحمن گرینڈ الائنس کا حصہ بانی پی ٹی ا ئی انتخابی اتحاد پی ٹی آئی کو سیاسی تحریک پی ٹی آئی کے کے امکانات کیا جائے کا سامنا کے ساتھ ہے اور اس لیے
پڑھیں:
مودی حکومت وقف کے تعلق سے غلط فہمی پیدا کررہی ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی
مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر نے کہا کہ ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اسکو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کیلئے سبھی کو اتحاد کیساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ اسلام ٹائمز۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ذریعہ تال کٹورہ انڈور اسٹیڈیم میں منعقدہ تحفظ اوقاف کانفرنس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے صدارتی خطاب میں کہا کہ وقف قانون کے تعلق سے لوگوں میں غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مودی حکومت کے لوگ کہتے ہیں کہ وقف قانون کا مذہب سے تعلق نہیں ہے، تو پھر مذہبی قیدوبند کیوں لگائی ہے، کہا جاتا ہے کہ وقف قانون کا مقصد غریبوں کی مدد کرنا ہے، لیکن ہم پوچھتے ہیں کہ کوئی بھی نکات یا پہلو بتا دیجیئے جس سے غریبوں کو فائدہ ہوسکتا ہو۔ انہوں نے کہا کہ یہ قانون کسی بھی طرح سے غریبوں کے حق میں نہیں ہے، ہمیں احتجاج کرنا ہے، یہ ہمارا جمہوری حق ہے، لیکن احتجاج پُرامن ہونا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری صفوں میں لوگ گھس کر امن و امان کو ختم کرنا چاہتے ہیں، لیکن ہمیں اس سے محتاط رہنا ہے۔
مولانا خالد سیف اللہ رحمانی نے کہا کہ ہمیں اپنے اتحاد کو مزید مضبوط کرنا ہے، ہمارے درمیان مسلکی اور عقیدے کی بنیاد پر اختلافات ہوسکتے ہیں، لیکن اس کو ہمیں اپنے درسگاہوں تک محدود رکھنا ہوگا اور اس لڑائی کے لئے سبھی کو اتحاد کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے غیر مسلم بھائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ بھی ہمارے ساتھ ہیں، ہماری مضبوط لڑائی کو جیت ملے گی۔ انہوں نے کہا کہ آج ہمارے علماء کرام اس کانفرنس میں شیروانی پہن کر آئے ہیں، کل اگر ضرورت پڑی تو وہ کفن بھی پہن کر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آج ان کے ہاتھوں میں گھڑی ہے، کل ضرورت پڑی تو ہتکڑی بھی پہننے سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ حکومت کہتی ہے کہ یہ قانون مسلمانوں کے مفاد میں ہے اور غریب مسلمانوں کے مفاد میں ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت ملک میں نفرت پیدا کرکے اوقاف کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ بورڈ کا کہنا ہے کہ وقف قانون بناکر حکومت نے اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کو اجاگر کر دیا ہے، لیکن ہم اپنی پُرامن لڑائی کے ذریعہ اس قانون کی مخالفت کرتے رہیں گے۔ اس موقع پر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے صدر مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، بورڈ کے جنرل سکریٹری مولانا فضل الرحیم مجددی، امیر جماعت اسلامی ہند سید سعادت اللہ حسینی، بورڈ کے نائب صدر اور مرکزی جمعیت اہل حدیث کے امیر مولانا اصغر علی امام مہدی سلفی، شیعہ مذہبی رہنما مولانا سید کلب جواد، خواجہ اجمیری درگاہ کے سجادہ نشین حضرت مولانا سرور چشتی، محمد سلیمان، صدر انڈین یونین مسلم لیگ، عیسائی رہنما اے سی مائیکل، محمد شفیع، نائب صدر ایس ڈی پی آئی، روی شنکر ترپاٹھی، سردار دیال سنگھ وغیرہ موجود تھے۔
قابل ذکر ہے کہ مودی حکومت نے وقف ترمیمی بل 2024 کو پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا، لیکن اپوزیشن کی مخالفت کے بعد اسے جوائنٹ پارلیمنٹری کمیٹی (جے پی سی) میں بھیج دیا گیا۔ جے پی سی کا چیئرمین یوپی کے ڈومریا گنج کے رکن پارلیمنٹ جگدمبیکا پال کو بنایا گیا تھا۔ مختلف ریاستوں میں کئی میٹنگوں کے بعد 14 ترامیم کے ساتھ اس بل کو منظوری دی تھی۔ جس کے بعد پارلیمنٹ میں اس بل کو منظور کیا گیا۔ اس کے بعد صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے بھی مہر لگا دی، جس کے بعد یہ قانون بن گیا۔ اس کے بعد مختلف تنظیموں اور کئی اراکین پارلیمنٹ نے اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا، جس پر سماعت جاری ہے۔ حکومت کو جواب داخل کرنے کے لئے ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے، جبکہ عدالت نے عبوری حکم جاری کرتے ہوئے اس قانون کے کچھ پہلوؤں پر سوال اٹھایا اور چند نکات کے نفاذ پر روک لگا دی ہے۔ عدالت میں اب 5 مئی 2025ء کو اس معاملے کی اگلی سماعت ہوگی۔