بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کا دھرنا ساتویں روز بھی جاری
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
سردار اختر مینگل کی جانب سے احتجاج کے دوران 3 مطالبات رکھے گئے ہیں
دھرنے میں بی این پی قیادت، سیاسی و قبائلی رہنما، لاپتا افراد کے لواحقین شریک
بلوچستان کے ضلع مستونگ میں بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی۔ مینگل) کی جانب سے انسانی حقوق کے کارکنوں کی حالیہ گرفتاریوں کے خلاف دھرنا ساتویں روز بھی جاری ہے جب کہ پارٹی سربراہ سردار اختر مینگل کی جانب سے احتجاج کے دوران 3 مطالبات رکھے گئے ہیں۔تفصیلات کے مطابق مستونگ میں جاری دھرنے میں بی این پی قیادت، سیاسی و قبائلی رہنماؤں کے علاوہ لاپتا افراد کے لواحقین شریک ہیں جب کہ گزشتہ روز گرینڈ اپوزیشن کے رہنماؤں نے بھی دھرنے میں شریک ہوکر سردار اختر مینگل سے یکجہتی کا اظہار کیا تھا۔خیال رہے کہ سردار اختر مینگل نے بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی چیف آرگنائزر ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ اور دیگر رہنماؤں کی گرفتاریوں اور دھرنے پر پولیس کریک ڈاؤن کے خلاف 25 مارچ کو وڈھ سے کوئٹہ تک ‘لانگ مارچ’ کا اعلان کیا تھا۔26 مارچ کو بی این پی-مینگل نے دعویٰ کیا تھا کہ اس کے 250 سے زائد کارکنوں کو حراست میں لے لیا گیا، جب کہ مارچ کے شرکا مستونگ کے قریب پہنچے تھے تو ایک خودکش حملہ آور نے خود کو اڑا لیا تھا، تاہم سردار اختر مینگل اور دیگر محفوظ رہے تھے ۔دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی – مینگل کے سربراہ کا کہنا تھا کہ حکومت طاقت کے استعمال کا شوق پورا کر لے ، امن وامان کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔انہوں نے کہا کہ حکومتی مذاکراتی ٹیم سے مذاکرات کا دوسرا راؤنڈ ختم ہونے کے باوجود ڈیڈلاک تاحال برقرار ہے جب کہ ہمارے 3 مطالبات ہیں جن میں خواتین سمیت بلوچ یکجہتی کمیٹی کے تمام اسیران کی رہائی یا پھر ہمیں کوئٹہ جانے کی اجازت دی جائے تاکہ ہم وہاں پرامن دھرنا دے سکیں یا ہمیں گرفتار کر لیں۔ان کا کہنا تھا کہ ہم نے حکومت کی جانب سے صوبائی وزرا میر ظہور احمد بلیدی، بخت محمد کاکڑ اور پارلیمانی سیکریٹری عبید للہ گورگیج کے علاوہ ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ زاہد سلیم اور کمشنر قلات ڈویڑن پر مشتمل حکومت کے وفد کے سامنے یہ مطالبات رکھے ہیں۔اختر مینگل نے کہا کہ اس کے علاوہ ہمارا کوئی مطالبہ ہے اور نہ ہی کوئی آپشن ہے ، درمیانی راستے اور مصلحت کا تو سوال پیدا نہیں ہوتا ہم پہلے دن سے ہی اپنا واضح موقف حکومت کو پیش کر چکے ہیں اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومتی وفد نے صلاح مشورے کے لیے وقت مانگا ہے اور حکومت سے دوسرا مذاکراتی راؤنڈ ختم ہونے پرتاحال ڈیڈلاک برقرار ہے جب کہ میں نے انہیں 2 دن کی ڈیڈلائن دی ہے جو آج رات تک ختم ہوجائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اگر خواتین سمیت تمام اسیران کو رہا نہ کیا گیا تو ہم کوئٹہ کی جانب لانگ مارچ شروع کر دیں گے ۔بی این پی کے مرکزی رہنما سابق سینیٹر ثنا بلوچ نے ڈان ڈاٹ کام کو بتایا کہ بلوچستان کے تمام قومی شاہراہیں حکومتی نااہلی کی وجہ سے بند ہیں جب کہ ہمارا دھرنا مستونگ قومی شاہراہ کے ایک طرف جاری ہے اور ہم نے کوئی قومی شاہراہ بند نہیں کی۔ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان حکومت دنیا کی واحد حکومت ہے جو شاہراؤں کو بند کرکے عوام کو اذیت میں مبتلا کررہی ہے ، صوبائی حکومت نے لکپاس ٹنل، مستونگ، کولپور سمیت کوئٹہ جانیوالی تمام چھوٹی بڑی شاہراؤں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کردیا ہے ۔ثنا بلوچ نے کہا کہ حکومت کی جانب سے لانگ مارچ کو روکنے کے بعد شرکا کی تعداد میں کمی کے بجائے اضافہ ہوا ہے کیونکہ لوگ اپنے پیاروں کی بازیابی چاہتے ہیں اور اس لیے لوگ جوگ درجوگ دھرنے میں شریک ہورہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو امید ہے کہ سردار اختر مینگل نہ صرف بلوچ خواتین اور بچوں کو رہا کرائیں گے بلکہ لاپتا افراد کی بازیابی میں بھی اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے جب کہ اختر مینگل ہی وہ سیاسی لیڈر ہیں جو پرامن سیاسی جدوجہد کررہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ کوئٹہ اور مستونگ سے صوبے کے مختلف علاقوں میں موبائل نیٹ ورک اور انٹرنیٹ کی بندش سے نہ صرف عوام مشکلات میں مبتلا ہے بلکہ حالات مزید خراب ہوں گے ۔ دوسری جانب، گزشتہ 7 دن سے شاہراؤں کی بندش کے باعث کوئٹہ-کراچی قومی شاہراہ سمیت کوئٹہ کا صوبے کے دیگر 12 اضلاع سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہے ۔
.ذریعہ: Juraat
پڑھیں:
نئے بجٹ میں دفاع، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ متوقع:تعلیم نظرانداز
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:نئے مالی سال میں حکومت کی جانب سے دفاع، تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی توقع ہے جب کہ تعلیم کے معاملے میں حکومت نے خاطر خواہ بجٹ مختص نہیں کیا۔
میڈیا ذرائع کے مطابق وفاقی حکومت آئندہ مالی سال 2025-26 کے لیے ایک ایسے بجٹ کی تیاری میں مصروف ہے جس میں ملک کی موجودہ مالی ضروریات اور معاشی دباؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے کئی اہم شعبوں میں اخراجات بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔
وفاقی بجٹ کا مجموعی حجم 17 ہزار 600 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے، جسے منگل کے روز قومی اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، جب کہ آج پیر کے روز اقتصادی سروے رپورٹ جاری کی گئی ہے، جس میں گزشتہ مالی سال کی معاشی کارکردگی کا احاطہ کیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ نے اس بجٹ کے بنیادی خدوخال کو حتمی شکل دے دی ہے۔ حکومت کی جانب سے رواں مالی سال کے لیے آمدن کا تخمینہ 19 ہزار 400 ارب روپے لگایا گیا ہے جب کہ ایف بی آر کو ٹیکس وصولی کا ہدف 14 ہزار 130 ارب روپے دیا گیا ہے، جو ملکی معیشت کی تاریخ میں ایک بلند ترین ہدف تصور کیا جا رہا ہے۔
بجٹ میں دفاعی اخراجات میں 18 فیصد اضافے کی تجویز سامنے آئی ہے، جو کہ موجودہ سیکورٹی حالات، خطے میں کشیدگی اور اندرونی سلامتی کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جا رہا ہے۔
قرضوں کی ادائیگی ایک اور بڑا چیلنج ہے، جس پر تقریباً 6 ہزار 200 ارب روپے خرچ کیے جائیں گے۔ حیرت انگیز طور پر یہی رقم بجٹ خسارے کے برابر ہے، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قرضوں کا بوجھ حکومت کی مالی منصوبہ بندی پر کتنا اثرانداز ہو رہا ہے۔ بجٹ خسارے کا ہدف بھی اتنا ہی یعنی 6200 ارب روپے مقرر کیا گیا ہے، جو اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ آمدن اور اخراجات کے درمیان خلیج کو کم کرنا اب بھی ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔
سرکاری ملازمین کے لیے خوش آئند خبر ہے کہ ان کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے، جب کہ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 5 سے ساڑھے 7 فیصد تک اضافے پر غور ہو رہا ہے۔ اگر یہ تجاویز منظور ہو جاتی ہیں تو مہنگائی کے موجودہ ماحول میں یہ اقدام ملازمین کے لیے کسی ریلیف سے کم نہ ہوگا، تاہم ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ اضافہ افراطِ زر کی شرح کے مقابلے میں ناکافی ہے۔
دوسری جانب تعلیم اور صحت جیسے عوامی فلاح کے شعبے ایک مرتبہ پھر حکومتی ترجیحات میں پیچھے دکھائی دے رہے ہیں۔ تعلیم کے لیے صرف 13 ارب 58 کروڑ روپے اور صحت کے لیے 14 ارب 30 کروڑ روپے مختص کیے جانے کی تجویز ہے، جو ایک ایسے وقت میں افسوسناک ہے جب ملک کو انسانی ترقی کے ان شعبوں میں ہنگامی بنیادوں پر بہتری کی ضرورت ہے۔ اس کمزور فنڈنگ پر ماہرین تعلیم اور صحت کی تنظیموں کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کا امکان ہے۔
حکومت کی جانب سے ڈیجیٹل معیشت اور آئی ٹی سیکٹر کے لیے 16 ارب 22 کروڑ روپے مختص کرنے کی تجویز بھی سامنے آئی ہے۔ اس اقدام کو ٹیکنالوجی کے میدان میں پاکستان کو ترقی یافتہ دنیا سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش قرار دیا جا رہا ہے، لیکن آئی ٹی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس رقم میں خاطر خواہ اضافہ ہونا چاہیے تاکہ نوجوانوں کو روزگار، تعلیم اور عالمی مارکیٹ میں مواقع فراہم کیے جا سکیں۔
دوسری جانب قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے بجٹ اجلاس کا مکمل شیڈول جاری کر دیا ہے، جس کے مطابق 10 جون کو بجٹ پیش کیا جائے گا۔ 11 اور 12 جون کو اسمبلی اجلاس منعقد نہیں ہوگا، جب کہ بجٹ پر باقاعدہ بحث 13 جون سے شروع ہو کر 21 جون تک جاری رہے گی۔ 22 جون کو بھی اجلاس نہیں ہوگا۔ بجٹ منظوری کا فیصلہ کن دن 26 جون ہوگا، جب فنانس بل 2025-26 کی منظوری متوقع ہے۔