میرٹ کی پامالی اور ناکامی کا سفر
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
ہر چیز کے انتخاب کا ایک معیار ہوتا ہے، کامیابی اور ناکامی کو ناپنے کا ایک پیمانہ مقرر ہوتا ہے، اور کوالٹی اور کارکردگی جانچنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ کسی بھی شعبہ زندگی میں بہتری اور ترقی کے لیے ان اصولوں کی پاسداری لازم ہے۔ یہ اصول دراصل وہ تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کیے بغیر نہ انصاف ممکن ہے اور نہ ہی میرٹ کے معیارات حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ وہ نظام، جس میں انصاف اور میرٹ نہ ہو، وہ کبھی بھی زوال اور ناکامی کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ایسے نظام میں امن، خوشحالی اور اتحاد ہمیشہ ناپید رہتے ہیں، چاہے وہاں وسائل اور مواقع بے شمار کیوں نہ ہوں، بے روزگاری، غربت اور بدانتظامی کا راج برقرار رہتا ہے۔
پاکستان کی کرکٹ کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آج کل قومی ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر ہے، جہاں ٹی ٹوئنٹی سیریز پہلے ہی ہار چکی ہے اور ون ڈے سیریز میں بھی شکست کا سامنا کر رہی ہے۔ جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، دوسرا ون ڈے میچ جاری ہے اور صرف دس رنز پر تین کھلاڑی پویلین لوٹ چکے ہیں۔ کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ میرٹ کی پامالی واضح ہے۔ چند غیر سنجیدہ اور موقع پرست فیصلہ سازوں کی ضد اور نااہلی سب پر عیاں ہو چکی ہے۔ ان کے ذہنوں پر سیاست اور خود نمائی کا نشہ چھایا ہوا ہے۔ ان کے نزدیک ملک اور ٹیم کی عزت ایک عارضی چیز ہے، جبکہ دکھاوا اور نمائش ان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
چیمپئنز ٹرافی میں بھی یہی صورتحال دیکھی گئی۔ بطور میزبان ملک، ہم نے تمام تر توجہ اسٹیڈیمز کی تزئین و آرائش، نئی سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر، اور جدید تکنیکی آلات کی تنصیب پر مرکوز رکھی، مگر جب اصل امتحان کا وقت آیا، تو ہماری کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ چیمپئنز ٹرافی سے جس طرح ذلت آمیز بیدخلی ہوئی، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ شکست ہر محب وطن شہری کے لیے شدید مایوسی کا باعث بنی۔ ٹورنامنٹ کے دوران سوشل میڈیا پر عوام کے جذبات اور ان کی بے چینی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔
عوام کو صرف ٹیم کی سلیکشن پر ہی اعتراض نہیں تھا، بلکہ انہیں انتخاب کرنے والوں کی اپنی اہلیت پر بھی شدید تحفظات تھے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے اربابِ اختیار کس معیار اور قابلیت کی بنیاد پر فیصلے کر رہے ہیں؟ کرکٹ ایک پروفیشنل اور ٹیکنیکل کھیل ہے، جس کی بہتری کے لیے سائنسی بنیادوں پر حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے۔ کھلاڑیوں کی کوچنگ اور تربیت جدید تقاضوں کے مطابق کی جاتی ہے، اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب فیصلہ ساز باخبر، تجربہ کار اور اس کھیل کے ماہر ہوں۔ لیکن اگر ہم پاکستان کرکٹ کی قیادت پر نظر ڈالیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان میں سے کسی نے کبھی خود کرکٹ کھیلی ہے؟ کیا انہیں کرکٹ کے بنیادی اصولوں کا بھی علم ہے؟ ان کی کارکردگی اور فیصلوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نہیں۔
یہ صورتحال ایسے ہی ہے جیسے کسی موٹر مکینک کو سرجری کے فرائض سونپ دیے جائیں۔ نتیجہ کیا ہوگا، یہ سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ جس شخص نے بھی یہ فیصلہ کیا ہوگا، اس کے نزدیک مریض کی صحت کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی، بلکہ مکینک سے قربت زیادہ عزیز ہوگی۔ یہی کچھ ہماری کرکٹ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ذمہ داری ان لوگوں کے سپرد کی گئی ہے، جنہیں خود اس کھیل کی ابجد سے بھی آگاہی نہیں۔
چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد کچھ لوگوں کو عہدوں سے ہٹایا جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر ان میں ذرا بھی غیرت اور احساس ہوتا، تو وہ خود ہی مستعفی ہو جاتے۔ مگر کرکٹ سے جڑی مراعات اور مالی فوائد ایسے ہیں کہ جو ایک بار اس سے چمٹ جاتا ہے، وہ جوک کی طرح چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔
عوام کی برداشت جواب دے چکی ہے۔ کرکٹ شائقین کا غصہ بڑھ رہا ہے، اور ان کے جذبات ایک پریشر ککر کی طرح ہیں، جس کا والوو چیخ رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ پھٹ جائے، فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کرکٹ کے نظام میں انصاف اور میرٹ کو بحال کرنا ہوگا۔ کھلاڑیوں کے انتخاب اور کوچنگ کے معاملات میں میرٹ کو یقینی بنانا ہوگا۔ تمام غیر قانونی اور غیر منصفانہ تعیناتیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ کرکٹ سمیت دیگر شعبوں کو کامیابی کے ساحل پر پہنچانے کے لیے باصلاحیت، قابل اور پروفیشنل افراد کو قیادت سونپنا ہوگی۔
یہ کام اب ٹالا نہیں جا سکتا۔ عوام کی توقعات اور امیدیں دن بہ دن ختم ہو رہی ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری اور معیشت جیسے پیچیدہ مسائل کا حل شاید فوری ممکن نہ ہو، لیکن کم از کم میرٹ اور انصاف کی بحالی کے لیے تو کوئی قانون یا اضافی فنڈز درکار نہیں۔ اگر اس پر عمل کر لیا جائے، تو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ایک سنہری باب رقم کیا جا سکتا ہے۔
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
اے سی سی نے مینز اور ویمنز کرکٹ کی ایشین گیمز میں شمولیت کی تصدیق کر دی
ڈھاکا:ایشین کرکٹ کونسل نے مینز اور ویمنز کرکٹ کی جاپان میں اگلے سال شیڈول ایشین گیمز میں شمولیت کی تصدیق کر دی۔
ایشین گیمز میں کرکٹ پہلے بھی شامل رہی ہے لیکن اس بار پہلی مرتبہ اے سی سی کے پلیٹ فارم سے باقاعدہ طور پر اس کا اعلان کیا گیا ہے۔
ڈھاکا میں محسن نقوی کی زیر صدارت اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ایشین گیمز میں 10 مردوں کے ساتھ 8 ویمنز کرکٹ ٹیموں کو صلاحیتوں کے اظہار کا موقع ملے گا، ان ٹیموں کا انتخاب رینکنگ کی بنیاد پر کیا جائے گا۔
اجلاس میں منگولیا، ازبکستان اور فلپائن کو نیا اے سی سی ممبر بنانے کی بھی منظوری دی گئی۔
یاد رہے کہ آئی سی سی کی منظوری کے بعد 2028 کے لاس اینجلس اولمپکس میں بھی ویمنز کرکٹ کو شامل کیا گیا ہے۔