Daily Ausaf:
2025-04-25@02:33:06 GMT

میرٹ کی پامالی اور ناکامی کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT

ہر چیز کے انتخاب کا ایک معیار ہوتا ہے، کامیابی اور ناکامی کو ناپنے کا ایک پیمانہ مقرر ہوتا ہے، اور کوالٹی اور کارکردگی جانچنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ کسی بھی شعبہ زندگی میں بہتری اور ترقی کے لیے ان اصولوں کی پاسداری لازم ہے۔ یہ اصول دراصل وہ تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کیے بغیر نہ انصاف ممکن ہے اور نہ ہی میرٹ کے معیارات حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ وہ نظام، جس میں انصاف اور میرٹ نہ ہو، وہ کبھی بھی زوال اور ناکامی کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ایسے نظام میں امن، خوشحالی اور اتحاد ہمیشہ ناپید رہتے ہیں، چاہے وہاں وسائل اور مواقع بے شمار کیوں نہ ہوں، بے روزگاری، غربت اور بدانتظامی کا راج برقرار رہتا ہے۔
پاکستان کی کرکٹ کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آج کل قومی ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر ہے، جہاں ٹی ٹوئنٹی سیریز پہلے ہی ہار چکی ہے اور ون ڈے سیریز میں بھی شکست کا سامنا کر رہی ہے۔ جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، دوسرا ون ڈے میچ جاری ہے اور صرف دس رنز پر تین کھلاڑی پویلین لوٹ چکے ہیں۔ کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ میرٹ کی پامالی واضح ہے۔ چند غیر سنجیدہ اور موقع پرست فیصلہ سازوں کی ضد اور نااہلی سب پر عیاں ہو چکی ہے۔ ان کے ذہنوں پر سیاست اور خود نمائی کا نشہ چھایا ہوا ہے۔ ان کے نزدیک ملک اور ٹیم کی عزت ایک عارضی چیز ہے، جبکہ دکھاوا اور نمائش ان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
چیمپئنز ٹرافی میں بھی یہی صورتحال دیکھی گئی۔ بطور میزبان ملک، ہم نے تمام تر توجہ اسٹیڈیمز کی تزئین و آرائش، نئی سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر، اور جدید تکنیکی آلات کی تنصیب پر مرکوز رکھی، مگر جب اصل امتحان کا وقت آیا، تو ہماری کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ چیمپئنز ٹرافی سے جس طرح ذلت آمیز بیدخلی ہوئی، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ شکست ہر محب وطن شہری کے لیے شدید مایوسی کا باعث بنی۔ ٹورنامنٹ کے دوران سوشل میڈیا پر عوام کے جذبات اور ان کی بے چینی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔
عوام کو صرف ٹیم کی سلیکشن پر ہی اعتراض نہیں تھا، بلکہ انہیں انتخاب کرنے والوں کی اپنی اہلیت پر بھی شدید تحفظات تھے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے اربابِ اختیار کس معیار اور قابلیت کی بنیاد پر فیصلے کر رہے ہیں؟ کرکٹ ایک پروفیشنل اور ٹیکنیکل کھیل ہے، جس کی بہتری کے لیے سائنسی بنیادوں پر حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے۔ کھلاڑیوں کی کوچنگ اور تربیت جدید تقاضوں کے مطابق کی جاتی ہے، اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب فیصلہ ساز باخبر، تجربہ کار اور اس کھیل کے ماہر ہوں۔ لیکن اگر ہم پاکستان کرکٹ کی قیادت پر نظر ڈالیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان میں سے کسی نے کبھی خود کرکٹ کھیلی ہے؟ کیا انہیں کرکٹ کے بنیادی اصولوں کا بھی علم ہے؟ ان کی کارکردگی اور فیصلوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نہیں۔
یہ صورتحال ایسے ہی ہے جیسے کسی موٹر مکینک کو سرجری کے فرائض سونپ دیے جائیں۔ نتیجہ کیا ہوگا، یہ سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ جس شخص نے بھی یہ فیصلہ کیا ہوگا، اس کے نزدیک مریض کی صحت کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی، بلکہ مکینک سے قربت زیادہ عزیز ہوگی۔ یہی کچھ ہماری کرکٹ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ذمہ داری ان لوگوں کے سپرد کی گئی ہے، جنہیں خود اس کھیل کی ابجد سے بھی آگاہی نہیں۔
چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد کچھ لوگوں کو عہدوں سے ہٹایا جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر ان میں ذرا بھی غیرت اور احساس ہوتا، تو وہ خود ہی مستعفی ہو جاتے۔ مگر کرکٹ سے جڑی مراعات اور مالی فوائد ایسے ہیں کہ جو ایک بار اس سے چمٹ جاتا ہے، وہ جوک کی طرح چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔
عوام کی برداشت جواب دے چکی ہے۔ کرکٹ شائقین کا غصہ بڑھ رہا ہے، اور ان کے جذبات ایک پریشر ککر کی طرح ہیں، جس کا والوو چیخ رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ پھٹ جائے، فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کرکٹ کے نظام میں انصاف اور میرٹ کو بحال کرنا ہوگا۔ کھلاڑیوں کے انتخاب اور کوچنگ کے معاملات میں میرٹ کو یقینی بنانا ہوگا۔ تمام غیر قانونی اور غیر منصفانہ تعیناتیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ کرکٹ سمیت دیگر شعبوں کو کامیابی کے ساحل پر پہنچانے کے لیے باصلاحیت، قابل اور پروفیشنل افراد کو قیادت سونپنا ہوگی۔
یہ کام اب ٹالا نہیں جا سکتا۔ عوام کی توقعات اور امیدیں دن بہ دن ختم ہو رہی ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری اور معیشت جیسے پیچیدہ مسائل کا حل شاید فوری ممکن نہ ہو، لیکن کم از کم میرٹ اور انصاف کی بحالی کے لیے تو کوئی قانون یا اضافی فنڈز درکار نہیں۔ اگر اس پر عمل کر لیا جائے، تو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ایک سنہری باب رقم کیا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہوتا ہے کے لیے

پڑھیں:

شادی سے پہلے لڑکی سے اسکی تنخواہ پوچھنے والا مرد، مرد نہیں ہوتا، خلیل الرحمان قمر

پاکستان کے معروف ڈرامہ نگار خلیل الرحمان قمر کا کہنا ہے کہ مردوں کو کبھی شادی سے قبل لڑکی سے ان کی تنخواہ کا سوال نہیں کرنا چاہیے۔

حال ہی میں خلیل الرحمان قمر ایک نجی ٹی وی پروگرام میں شریک ہوئے جہاں انہوں نے مختلف سوالات کے جواب دیتے ہوئے اظہار رائے کیا۔

ایک سوال کے جواب میں ڈرامہ نگار نے کہا کہ ’جو شادی سے پہلے لڑکی سے اس کی سیلری پوچھے وہ مرد، مرد نہیں ہوتا، مرد بنیں کیونکہ آج مردوں کو ڈھونڈنا مردوں میں بہت مشکل ہوگیا ہے۔

        View this post on Instagram                      

A post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)

انڈسٹری میں دوستوں سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ انڈسٹری میں کوئی بہترین دوست نہیں کیونکہ انڈسٹری میں کوئی بہترین دوست ہوتا ہی نہیں۔

اپنی سب سے بڑی غلطی سے متعلق ایک سوال کے جواب میں خلیل الرحمان قمر نے ہدایتکار ہیسم حسین کو بطور ڈائریکٹر آن بورڈ لینے کو اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیا۔

        View this post on Instagram                      

A post shared by Galaxy Lollywood (@galaxylollywood)



خلیل الرحمان قمر کی یہ ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہو رہی ہے جس پر ان کے مداح اور سوشل میڈیا صارفین دلچسپ تبصرے کر رہے ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • کوئٹہ، مرکزی مسلم لیگ کا بھارتی جارحیت کیخلاف احتجاجی مظاہرہ
  • پاکستان کیساتھ آئندہ دو طرفہ کرکٹ سیریز نہیں کھیلیں گے، نائب صدر بی سی سی آئی
  • شادی سے پہلے لڑکی سے اسکی تنخواہ پوچھنے والا مرد، مرد نہیں ہوتا، خلیل الرحمان قمر
  • کرکٹ میں بھی سیاست، پہلگام حملے کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ نے پاکستان کو کیا پیغام دیا؟
  • ورلڈکپ میں پاک بھارت میچ ہو گا یا نہیں ؟ بھارتی کرکٹ بورڈ نے حیران کن کا اعلان کر دیا
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے:شاہد خاقان عباسی
  • پیپلز پارٹی 17 سال سے حکومت کر رہی ہے، کراچی کے حالات دیکھ کر افسوس ہوتا ہے، شاہد خاقان عباسی
  • پاکستان صحیح سمت میں چل پڑا، سب کو ملکر ترقی میں کردار ادا کرنا ہوگا: نوازشریف
  • پاکستان صحیح سمت میں چل پڑا ہے ; نواز شریف
  • ہم نے پاکستان کو اوپر لے جانے کی کوشش کی تو ہمارا راستہ روکا گیا، نواز شریف کا پھر شکوہ