Daily Ausaf:
2025-06-09@05:18:34 GMT

میرٹ کی پامالی اور ناکامی کا سفر

اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT

ہر چیز کے انتخاب کا ایک معیار ہوتا ہے، کامیابی اور ناکامی کو ناپنے کا ایک پیمانہ مقرر ہوتا ہے، اور کوالٹی اور کارکردگی جانچنے کے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ کسی بھی شعبہ زندگی میں بہتری اور ترقی کے لیے ان اصولوں کی پاسداری لازم ہے۔ یہ اصول دراصل وہ تقاضے ہوتے ہیں جنہیں پورا کیے بغیر نہ انصاف ممکن ہے اور نہ ہی میرٹ کے معیارات حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ وہ نظام، جس میں انصاف اور میرٹ نہ ہو، وہ کبھی بھی زوال اور ناکامی کے دائرے سے باہر نہیں نکل سکتا۔ ایسے نظام میں امن، خوشحالی اور اتحاد ہمیشہ ناپید رہتے ہیں، چاہے وہاں وسائل اور مواقع بے شمار کیوں نہ ہوں، بے روزگاری، غربت اور بدانتظامی کا راج برقرار رہتا ہے۔
پاکستان کی کرکٹ کا حال بھی کچھ ایسا ہی ہے۔ آج کل قومی ٹیم نیوزی لینڈ کے دورے پر ہے، جہاں ٹی ٹوئنٹی سیریز پہلے ہی ہار چکی ہے اور ون ڈے سیریز میں بھی شکست کا سامنا کر رہی ہے۔ جب میں یہ سطور لکھ رہا ہوں، دوسرا ون ڈے میچ جاری ہے اور صرف دس رنز پر تین کھلاڑی پویلین لوٹ چکے ہیں۔ کھلاڑیوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ میرٹ کی پامالی واضح ہے۔ چند غیر سنجیدہ اور موقع پرست فیصلہ سازوں کی ضد اور نااہلی سب پر عیاں ہو چکی ہے۔ ان کے ذہنوں پر سیاست اور خود نمائی کا نشہ چھایا ہوا ہے۔ ان کے نزدیک ملک اور ٹیم کی عزت ایک عارضی چیز ہے، جبکہ دکھاوا اور نمائش ان کے لیے زیادہ اہمیت رکھتی ہے۔
چیمپئنز ٹرافی میں بھی یہی صورتحال دیکھی گئی۔ بطور میزبان ملک، ہم نے تمام تر توجہ اسٹیڈیمز کی تزئین و آرائش، نئی سڑکوں اور عمارتوں کی تعمیر، اور جدید تکنیکی آلات کی تنصیب پر مرکوز رکھی، مگر جب اصل امتحان کا وقت آیا، تو ہماری کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی۔ چیمپئنز ٹرافی سے جس طرح ذلت آمیز بیدخلی ہوئی، اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ یہ شکست ہر محب وطن شہری کے لیے شدید مایوسی کا باعث بنی۔ ٹورنامنٹ کے دوران سوشل میڈیا پر عوام کے جذبات اور ان کی بے چینی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔
عوام کو صرف ٹیم کی سلیکشن پر ہی اعتراض نہیں تھا، بلکہ انہیں انتخاب کرنے والوں کی اپنی اہلیت پر بھی شدید تحفظات تھے۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے اربابِ اختیار کس معیار اور قابلیت کی بنیاد پر فیصلے کر رہے ہیں؟ کرکٹ ایک پروفیشنل اور ٹیکنیکل کھیل ہے، جس کی بہتری کے لیے سائنسی بنیادوں پر حکمت عملی ترتیب دی جاتی ہے۔ کھلاڑیوں کی کوچنگ اور تربیت جدید تقاضوں کے مطابق کی جاتی ہے، اور یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہے جب فیصلہ ساز باخبر، تجربہ کار اور اس کھیل کے ماہر ہوں۔ لیکن اگر ہم پاکستان کرکٹ کی قیادت پر نظر ڈالیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان میں سے کسی نے کبھی خود کرکٹ کھیلی ہے؟ کیا انہیں کرکٹ کے بنیادی اصولوں کا بھی علم ہے؟ ان کی کارکردگی اور فیصلوں سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ نہیں۔
یہ صورتحال ایسے ہی ہے جیسے کسی موٹر مکینک کو سرجری کے فرائض سونپ دیے جائیں۔ نتیجہ کیا ہوگا، یہ سمجھنے کے لیے راکٹ سائنس کی ضرورت نہیں۔ جس شخص نے بھی یہ فیصلہ کیا ہوگا، اس کے نزدیک مریض کی صحت کی کوئی اہمیت نہیں ہوگی، بلکہ مکینک سے قربت زیادہ عزیز ہوگی۔ یہی کچھ ہماری کرکٹ کے ساتھ ہو رہا ہے۔ ذمہ داری ان لوگوں کے سپرد کی گئی ہے، جنہیں خود اس کھیل کی ابجد سے بھی آگاہی نہیں۔
چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان ٹیم کی مایوس کن کارکردگی کے بعد کچھ لوگوں کو عہدوں سے ہٹایا جانا چاہیے تھا، لیکن ایسا نہیں ہوا۔ اگر ان میں ذرا بھی غیرت اور احساس ہوتا، تو وہ خود ہی مستعفی ہو جاتے۔ مگر کرکٹ سے جڑی مراعات اور مالی فوائد ایسے ہیں کہ جو ایک بار اس سے چمٹ جاتا ہے، وہ جوک کی طرح چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتا۔
عوام کی برداشت جواب دے چکی ہے۔ کرکٹ شائقین کا غصہ بڑھ رہا ہے، اور ان کے جذبات ایک پریشر ککر کی طرح ہیں، جس کا والوو چیخ رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ یہ پھٹ جائے، فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان کرکٹ کے نظام میں انصاف اور میرٹ کو بحال کرنا ہوگا۔ کھلاڑیوں کے انتخاب اور کوچنگ کے معاملات میں میرٹ کو یقینی بنانا ہوگا۔ تمام غیر قانونی اور غیر منصفانہ تعیناتیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ کرکٹ سمیت دیگر شعبوں کو کامیابی کے ساحل پر پہنچانے کے لیے باصلاحیت، قابل اور پروفیشنل افراد کو قیادت سونپنا ہوگی۔
یہ کام اب ٹالا نہیں جا سکتا۔ عوام کی توقعات اور امیدیں دن بہ دن ختم ہو رہی ہیں۔ حکومت سے گزارش ہے کہ مہنگائی، بے روزگاری اور معیشت جیسے پیچیدہ مسائل کا حل شاید فوری ممکن نہ ہو، لیکن کم از کم میرٹ اور انصاف کی بحالی کے لیے تو کوئی قانون یا اضافی فنڈز درکار نہیں۔ اگر اس پر عمل کر لیا جائے، تو تاریخ میں ہمیشہ کے لیے ایک سنہری باب رقم کیا جا سکتا ہے۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ہوتا ہے کے لیے

پڑھیں:

نسلی تعصب؛ حریف ٹیم کے کوچ کیخلاف شکایت درج

زمبابوین ٹی20 ٹیم کے کپتان اور لاہور قلندرز کو پی ایس ایل 10 کا ٹائٹل جتوانے میں اہم کردار ادا کرنیوالے سکندر رضا نے حریف ٹیم کے کوچ کیخلاف شکایت درج کروادی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق زمبابوین کپتان نے لوکل ایونٹ میں میچ کے دوران تعصب پر مبنی جملے کسنے پر حریف ٹیم کے کوچ کے خلاف ہرارے میٹروپولیٹن کرکٹ ایسوسی ایشن (ایچ ایم سی اے) میں باضابطہ شکایت درج کروائی ہے۔

مبینہ طور پر یہ واقعہ اولڈ ہراریئنز اور رینبو کرکٹ کلب کے درمیان کھیلے گئے میچ کے دوران پیش آیا۔ 

مزید پڑھیں: "پیسوں سے بڑھ کر کچھ نہیں" عماد کا سکندر رضا کی کمٹمنٹ پر بیان

سکندر رضا اس میچ میں اولڈ ہراریئنز کی نمائندگی کررہے تھے، انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں حریف ٹیم کے کوچ نے اسوقت نسلی تعصب کا نشانہ بنایا جب وہ میدان سے باہر جارہے تھے۔

مزید پڑھیں: سکندر رضا ٹاس سے چند لمحے پہلے برمنگھم سے لاہور کیسے پہنچے؟، فلمی کہانی بیان کردی

زمبابوین کپتان نے کہا کہ میں مکمل تحقیقات کی توقع کرتا ہوں، اگر کوئی قصوروار پایا جاتا ہے تو اس کی مثال بننا چاہئے تاکہ اس طرح کی چیزیں اس اور آنے والی نسلوں کے ساتھ دوبارہ نہ ہوں۔

مزید پڑھیں: کرکٹر سے ممبر پارلیمنٹ کی منگنی ہوگئی، ویڈیو وائرل

دوسری جانب میٹروپولیٹن کرکٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے کوئی بیان جاری کیا گیا ہے۔

واضح رہے کہ گزشتہ ماہ لاہور قلندرز کیلئے ڈرامائی انداز میں واپس آنے والے سکندر رضا ننے 11 میچوں میں 169.33 کے اسٹرائیک ریٹ سے 254 رنز بنا کر ٹورنامنٹ میں اپنی فرنچائز کو تیسری مرتبہ فاتح بنوایا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • نسلی تعصب؛ حریف ٹیم کے کوچ کیخلاف شکایت درج
  • تھامی سولیکلی: باکمال وکٹ کیپر کی المیہ داستان
  • بابر اعظم کی پی سی بی کی عید ویڈیو سے غیر موجودگی پر مداحوں کا اظہارِ حیرت
  • جاپانی کمپنی کا مون لینڈر ایک بار پھر ناکام، چاند پر پہنچنے سے پہلے رابطہ منقطع
  • امریکہ کون ہوتا ہے؟
  • بار بی کیو کے لیے کون سا کوئلہ اچھا ہوتا ہے؟
  • کیا آسٹریلوی گائے کی قربانی جائز ہے؟
  • رواں مالی سال 2024-25 کیلئے مقرر کردہ معاشی اہداف میں سے متعدد اہداف کے حصول میں ناکامی کا انکشاف
  • آپریشن سندور میں بدترین ناکامی،اپوزیشن نے مودی سرکار پر سوالات کی بوچھاڑ کردی
  • بھارت میں دہشتگردی کا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو اسے جنگ سمجھا جاتا ہے: بلاول