Daily Ausaf:
2025-07-26@15:26:20 GMT

امریکی پالیسیاں، امریکی نقاد نوم چومسکی کی نظر میں

اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT

نوم چومسکی ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو ۱۹۱۳ء میں روس سے ترکِ وطن کر کے امریکہ میں جا بسا تھا۔ ان کی ولادت ۱۹۲۸ء میں امریکی ریاست پنسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں ہوئی۔ انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد تدریس کا شعبہ اختیار کیا، وہ لسانیات کے عالمی ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور بائیں بازو کے چوٹی کے دانشوروں کی پہلی صف میں شامل ہیں۔ امریکی پالیسیوں کے زبردست نقاد ہیں اور اسرائیل کے وجود کے حامی ہونے کے باوجود اس کی جارحیت، تشدد اور نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے یہودیوں کی مذہبی زبان عبرانی کے اَحیا و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور انہیں اس میں سند کا درجہ دیا جاتا ہے۔
نوم چومسکی کے نزدیک امریکہ ایک استعماری ریاست ہے جس کی پالیسیوں کا دائرہ عالمی دہشت گردی کے گرد گھومتا ہے۔ وہ اپنے ملک کو دنیا میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سرپرست قرار دیتے ہیں اور حقائق و دلائل کے ساتھ اسے ثابت کرتے ہیں۔ انہوں نے ویتنام پر امریکی فوج کشی کے خلاف آواز اٹھائی اور مظاہرین کی قیادت کی، جس پر انہیں جیل بھی جانا پڑا۔ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی سرپرستی، افغانستان پر امریکی حملہ اور عراق پر امریکہ کی فوج کشی پر بھی انہوں نے کھلے بندوں تنقید کی اور اسے امریکہ کی استعماری پالیسیوں کا تسلسل قرار دیتے ہوئے امریکی پالیسیوں اور اقدامات کے اصل مقاصد کو بے نقاب کیا۔
ان کی ایک مختصر کتاب کا اردو ترجمہ ’’چچا سام کیا چاہتا ہے؟‘‘ کے نام سے اسلم خواجہ نے کیا ہے اس میں انہوں نے موجودہ عالمی تناظر میں امریکہ کے کردار اور اس کی پالیسیوں کے تاریخی پس منظر اور مقاصد کی وضاحت کی ہے۔ چونکہ ان کا تعلق واضح طور پر بائیں بازو سے ہے، اس لیے ان کی تنقید و تجزیہ اور بحث و گفتگو میں بائیں بازو کے افکار و رجحانات کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ البتہ انہوں نے اس دوران جن حقائق کا انکشاف کیا ہے اور امریکی پالیسیوں کے جس تاریخی تسلسل کی نشاندہی کی ہے وہ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے پڑھنے کی چیز ہے اور سیاسی و دینی کارکنوں کے لیے تو اس کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ پوری کتاب کا خلاصہ تو مشکل بات ہے، البتہ اس کے چند اہم اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں:
★ امریکہ اور دیگر ممالک کے درمیان تعلقات کے تانے بانے امریکی تاریخ کی ابتدا سے ملتے ہیں۔ مگر دوسری جنگ عظیم ہی اس ضمن میں اہم موڑ تھی، اس لیے آئیے وہاں سے ابتدا کرتے ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے ہمارے کئی صنعتی مخالفین شدید کمزور ہو گئے یا مکمل طور پر تباہ، جب کہ امریکہ نے اس جنگ سے بے انتہا فائدہ حاصل کیا۔ ہمارا ملک براہ راست حملے کا ہدف نہیں بنا اور اس دوران امریکہ کی پیداوار تین گنا بڑھ گئی۔
جنگ سے قبل نئی صدی کے آغاز سے ہی امریکہ دنیا کا سرکردہ صنعتی ملک بن چکا تھا اور یہ اس صدی کے آغاز سے ہی تھا، لیکن اب ہمیں دنیا کی دولت کا پچاس فیصد ہاتھ لگ گیا اور دونوں سمندروں بحیرہ اوقیانوس اور بحیرہ کاہل کے دونوں ساحل ہمارے زیردست تھے۔ تاریخ میں اس سے قبل کبھی بھی کسی ایک ملک کو دنیا پر اتنا کنٹرول یا اتنا زبردست تحفظ حاصل نہیں رہا تھا۔ امریکی پالیسیوں کا تعین کرنے والے افراد اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ دنیا میں پہلی عالمگیر طاقت کے طور پر ابھرے گا، اور جنگ کے دوران اور اس کے بعد وہ انتہائی احتیاط سے منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ جنگ کے بعد کی دنیا کو کیا صورت دی جائے۔ چونکہ یہ ایک کھلا سماج ہے اس لیے ہم ان منصوبوں کو دیکھ اور جانچ سکتے ہیں جو انتہائی واضح اور دورس نتائج کے حامل تھے۔
امریکی منصوبہ ساز اس بات پر متفق تھے کہ امریکی بالادستی کو برقرار رکھنا ہے۔ ان میں محکمہ خارجہ سے لے کر خارجہ تعلقات کی کونسل سے تعلق رکھنے والے اہلکار شامل تھے۔ تاہم یہ مقصد کس طرح حاصل کیا جائے؟ اس پر مختلف نقطہ ہائے نظر ضرور تھے۔
★ جارج کینان جو ۱۹۵۰ء تک محکمہ خارجہ کے پلاننگ اسٹاف کے سربراہ رہے ہیں، امریکی پالیسی سازوں میں سب سے زیادہ ذہین اور جنگ کے بعد کی دنیا کی تشکیل کرنے والی ایک اہم شخصیت تھے۔ اگر آپ اپنے ملک (امریکہ) کو سمجھنا چاہیں تو پھر پالیسی پلاننگ سٹڈی نمبر ۲۳ کو دیکھنا ضروری ہے۔ یہ دستاویز کینان نے ۱۹۴۸ء میں محکمہ خارجہ میں منصوبہ ساز عملے کے لیے تحریر کی تھی۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:
’’ہمارے پاس عالمی دولت کا تقریباً نصف ہے، جبکہ ہماری آبادی دنیا کی آبادی کا ۶.

۳ فیصد ہے۔ اس صورتحال میں ہم حسد اور ناراضگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ آنے والے دور میں ہمارا اصل کام تعلقات کے ایک ایسے انداز کا قیام ہو گا جو ہمیں عدم مساوات کی یہ حیثیت برقرار رکھنے کی اجازت دے۔ یہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں جذباتی ہونے اور دن کو سپنے دیکھنے کی عادت ترک کرنا ہو گی اور ہر جگہ اپنی توجہ کا مرکز قومی مقاصد کو بنانا ہو گا۔ ہمیں ان مبہم اور غیر حقیقت پسندانہ مقاصد مثلاً انسانی حقوق، لوگوں کا معیار زندگی بہتر کرنے اور جمہوری عمل کی باتوں سے دستبردار ہونا ہو گا۔ وہ دن دور نہیں جب ہمیں طاقت کے براہ راست تصور سے مد مقابل ہونا پڑے گا، اس لیے ہم جس حد تک آدرشی نعروں سے بچے رہیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہ پالیسی پلاننگ اسٹڈی نمبر ۲۳ انتہائی خفیہ دستاویز تھی۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے آدرشی نعروں کا طوفان اٹھانا ضروری تھا، لیکن یہاں پالیسی ساز ایک دوسرے سے مخاطب ہیں۔ ان ہی خطوط پر ۱۹۵۰ء میں لاطینی امریکہ کے ممالک میں متعین سفیروں کی بریفنگ کے دوران کینان نے کہا تھا کہ امریکی خارجہ پالیسی کا ایک اہم مقصد لاطینی امریکہ میں ہمارے خام مال کا تحفظ کرنا ہے۔ اس لیے ہمیں اس خطرناک بدعت کا مقابلہ کرنا ہوگا جو امریکی جاسوس رپورٹوں کے مطابق لاطینی امریکہ میں پھیل رہی ہے کہ ’’عوامی فلاح و بہبود حکومت کی براہ راست ذمہ داری ہے۔‘‘
( جاری ہے )

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: امریکی پالیسیوں امریکی پالیسی کی پالیسیوں پالیسیوں کے امریکہ کی انہوں نے نے والے اس لیے کے لیے کے بعد اور اس

پڑھیں:

اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ

اسلام ٹائمز: 5 مارچ 2017ء کو، امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انکا ملک پاکستان کیساتھ ملکر کابل ہوائی اڈے پر ہونیوالے مہلک حملے کے مرکزی مجرم کو تلاش کرنے کیلئے کام کر رہا ہے۔ اسوقت انکا کہنا تھا کہ داعش کے رکن کو پاکستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا اور اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا جانا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد پر سنگین الزامات لگانے اور امریکہ کیساتھ قابل قبول تعاون نہ کرنے پر پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود خاص طور پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام آباد، جسے کبھی واشنگٹن کا "نان نیٹو اتحادی" کہا جاتا تھا، ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ کیساتھ انتہائی کشیدہ اور غیر واضح تعلقات کا حامل رہا۔ ترتیب و تنظیم: علی واحدی
 
پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ سینیٹر محمد اسحاق ڈار، نیویارک کے چار روزہ دورے کے بعد ایک روزہ سرکاری دورے پر واشنگٹن پہنچے ہیں۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق اسحاق ڈار کی اس دورے کے دوران امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے باضابطہ ملاقات ہوگی۔ پاکستانی وزیر خارجہ اس کے بعد اٹلانٹک کونسل امریکن تھنک ٹینک میں تقریر کریں گے، جہاں وہ علاقائی اور عالمی مسائل پر پاکستان کے نقطہ نظر کے ساتھ ساتھ امریکہ کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کے مستقبل کی وضاحت کریں گے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں پاکستان امریکہ تعلقات کے اہم پہلوؤں اور تجارت، سرمایہ کاری اور اقتصادی تعاون کے فروغ پر خصوصی توجہ کے ساتھ ان رابطوں کو مضبوط بنانے کے طریقوں اور ذرائع کا جائزہ لیا جائے گا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے دوسرے دور اقتدار کے آغاز کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کی پاکستانی حکومت کے وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ امریکہ ہے۔ اس سے قبل پاکستانی فوج کے کمانڈر فیلڈ مارشل سید عاصم منیر نے رواں سال 18 جون کو امریکہ کے سرکاری دورے پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی تھی۔ اسلام آباد حکومت کے اعلیٰ ترین سفارت کار کا دورہ امریکہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب امریکہ کی حمایت اور مغربی ممالک کی ملی بھگت سے فلسطینیوں کے خلاف صیہونی حکومت کے جرائم جاری ہیں اور پاکستان نے غزہ میں نسل کشی اور اسلامی جمہوریہ ایران  کے خلاف صیہونی جارحیت کی متعدد بار مذمت کی ہے۔ پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کل اسلام آباد میں اپنی ہفتہ وار پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ملک کے وزیر خارجہ اپنے امریکی ہم منصب کے ساتھ اہم علاقائی اور عالمی مسائل بالخصوص ایران کے خلاف اسرائیل کی جارحیت کے بعد کی حالیہ پیش رفت پر بات کریں گے۔

امریکہ اور اس کے یورپی شراکت داروں کے برعکس (جنہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے پرامن جوہری پروگرام کے حوالے سے اشتعال انگیز اور جارحانہ رویہ اپنایا ہے)، اسلام آباد، کسی بھی زبردستی کی مخالفت کرتے ہوئے، تہران کے جوہری مسئلے کے پرامن اور سفارتی حل پر زور دیتا ہے۔ اس سال جولائی کے اوائل میں پاکستان کے نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ نے سفارت کاری کے ذریعے تنازعات کے حل کے لیے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکمت اور تعمیری طرز عمل کی تعریف کرتے ہوئے کہا ہے کہ حالیہ جنگ میں امریکہ اور اسرائیلی حکومت کے رویئے نے خطے کو ناقابل تصور نتائج سے دوچار کیا ہے اور اسے تباہی کے دہانے پر کھڑا کر دیا ہے۔ اسلام آباد نے صیہونی حکومت کی 12 روزہ جنگ کے بعد سے اسرائیل اور امریکہ کے حملوں کی بھی مذمت کی ہے اور جارحین کے خلاف اپنے دفاع کے اسلامی جمہوریہ ایران کے جائز حق کی حمایت بھی کی ہے۔

ٹرمپ کی طرف سے پاک ہند کارڈ کے استعمال کی کوشش
اسحاق ڈار کے دورہ واشنگٹن کے مقاصد کے حوالے سے پاکستانی سیاسی اور میڈیا کے حلقوں میں ایک اور موضوع جو خصوصی طور پر زیر بحث ہے، وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ 4 روزہ جنگ میں ٹرمپ کی طرف سے دو ایٹمی ہمسایوں کے درمیان جنگ بندی قائم کرنے کا دعویٰ ہے۔ اسلام آباد نے تو ٹرمپ کی نام نہاد کوششوں کو سراہا ہے، لیکن نئی دہلی اپنے مغربی پڑوسی کے ساتھ تنازع کے حل میں امریکی صدر کے کردار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کے بعد ٹرمپ نے کئی بار ملکی اور غیر ملکی حلقوں میں خود کو فاتح قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ اپنے تجارتی اقدامات سے اسلام آباد اور نئی دہلی کو جنگ کے پھیلاؤ سے دور رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان، بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات کی نوعیت پر سوال اٹھاتا ہے اور واشنگٹن کی جانب سے چین کے ساتھ پاکستان کے اسٹریٹجک تعلقات پر اعتراض کیا جاتا ہے۔ پاکستانیوں کے مطابق چین کے ساتھ سرد جنگ کو بڑھاوا دے کر امریکہ بیجنگ کے ساتھ دوسرے ممالک کے آزاد اور مستحکم تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور چین مخالف مقاصد کے حصول کے لیے نئی دہلی کے ساتھ بڑے سکیورٹی اور فوجی تعاون کو بڑھا رہا ہے۔ پاکستانی وزیر خارجہ سے توقع ہے کہ وہ ہندوستان کے ساتھ موجودہ کشیدگی کے بارے میں اپنے ملک کے تحفظات کا اظہار کریں گے، جس میں ہندوستان کی جانب سے "سندھ  طاس معاہدہ" کے نام سے موجود مشترکہ آبی معاہدے کو معطل کرنے کا فیصلہ بھی شامل ہے۔ کیا امریکی نئی دہلی کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ وہ دو جنوبی ایشیائی ہمسایوں کے درمیان کشیدگی کو دوبارہ بڑھنے سے روکے۔

ٹرمپ کے کئی ممالک کے خلاف ٹیرف اقدامات کے بعد پاکستان نے بھی واشنگٹن سے مذاکرات کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کے وزیر خزانہ نے حال ہی میں واشنگٹن کا دورہ کیا اور وزیر خزانہ اور ٹرمپ کے نمائندہ خصوصی برائے تجارت سے ملاقاتیں کیں۔ اسلام آباد نے اعلان کیا ہے کہ ان مشاورت کے جلد مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ افغانستان کی صورتحال اور افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحدوں پر دہشت گردی کا چیلنج بھی اسحاق ڈار اور مارکو روبیو کے درمیان بات چیت کے دیگر شعبوں میں متوقع موضوع ہے۔ غور طلب ہے کہ پاکستان میں آئی ایس آئی ایس کے ایک کارکن کی گرفتاری پر مارچ کے وسط میں امریکی صدر کی بات چیت انسداد دہشت گردی کے شعبے میں دو طرفہ تعاون میں نسبتاً بہتری کی نشاندہی کرتی ہے۔

5 مارچ 2017ء کو، امریکی کانگریس سے خطاب کے دوران، ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ ان کا ملک پاکستان کے ساتھ مل کر کابل ہوائی اڈے پر ہونے والے مہلک حملے کے مرکزی مجرم کو تلاش کرنے کے لیے کام کر رہا ہے۔ اس وقت ان کا کہنا تھا کہ داعش کے رکن کو پاکستان نے امریکا کے حوالے کیا تھا اور اس پر امریکا میں مقدمہ چلایا جانا تھا۔ ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں اسلام آباد پر سنگین الزامات لگانے اور امریکہ کے ساتھ قابل قبول تعاون نہ کرنے پر پاکستانی حکام کو تنقید کا نشانہ بنانے کے باوجود خاص طور پر پاکستانی حکومت کا شکریہ ادا کیا۔ اسلام آباد، جسے کبھی واشنگٹن کا "نان نیٹو اتحادی" کہا جاتا تھا، ٹرمپ کے پہلے دور حکومت میں امریکہ کے ساتھ انتہائی کشیدہ اور غیر واضح تعلقات کا حامل رہا۔

جب امریکی صدر نے بیانات میں پاکستان پر جھوٹ اور فریب کا الزام لگایا تو انہوں نے دعویٰ تک کیا کہ ان کے ملک نے پاکستان کو دسیوں ارب ڈالر دینے کے باوجود انسداد دہشت گردی کے تعاون میں کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا۔ ٹرمپ کے ان ریمارکس پر پاکستان میں امریکہ کے خلاف مذمت کی لہر دوڑ گئی اور اسلام آباد میں اس وقت کی حکومت نے دونوں ممالک کے درمیان بداعتمادی کی مسلسل فضا کو تسلیم کرتے ہوئے واشنگٹن سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کا احترام کرے۔

متعلقہ مضامین

  • صدرِ مملکت نے امریکی جنرل مائیکل کوریلہ کو نشانِ امتیاز سے نوازدیا
  • مودی کی ٹرمپ سے دوستی کھوکھلی نکلی،بھارتی وزیراعظم پراپوزیشن کا طنز
  • امریکہ کے ساتھ مذاکرات؟ رہبرِ معظم کا سخت انتباہ!
  • امن کیلئے پاکستان نے ہمیشہ مثبت کردار ادا کیا، امریکی وزیر خارجہ: تعلقات کو وسعت دینے کے خواہاں، اسحاق ڈار
  • اسحاق ڈارکی امریکی وزیرخارجہ سے ملاقات, 40منٹ تک جاری رہنے والی ملاقات میں اہم امور پر گفتگو
  • اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ
  • اسحٰق ڈار واشنگٹن پہنچ گئے، امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو سے آج اہم ملاقات طے
  • ایس اینڈ پی نے پاکستان کی کریڈٹ ریٹنگ بہتر کر دی، عالمی سطح پر معاشی پالیسیوں کا اعتراف
  • امریکہ کو اب فینٹانل کا سیاسی تماشہ بند کرنا چاہیے ، چینی میڈیا
  • یونیسکو رکنیت ترک کرنے کا امریکی فیصلہ کثیرالفریقیت سے متضاد، آزولے