Daily Ausaf:
2025-04-25@11:46:37 GMT

امریکی پالیسیاں، امریکی نقاد نوم چومسکی کی نظر میں

اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT

نوم چومسکی ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں جو ۱۹۱۳ء میں روس سے ترکِ وطن کر کے امریکہ میں جا بسا تھا۔ ان کی ولادت ۱۹۲۸ء میں امریکی ریاست پنسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں ہوئی۔ انہوں نے تعلیم حاصل کرنے کے بعد تدریس کا شعبہ اختیار کیا، وہ لسانیات کے عالمی ماہرین میں شمار ہوتے ہیں اور بائیں بازو کے چوٹی کے دانشوروں کی پہلی صف میں شامل ہیں۔ امریکی پالیسیوں کے زبردست نقاد ہیں اور اسرائیل کے وجود کے حامی ہونے کے باوجود اس کی جارحیت، تشدد اور نسل پرستانہ پالیسیوں کے خلاف مسلسل آواز اٹھاتے رہتے ہیں۔ انہوں نے یہودیوں کی مذہبی زبان عبرانی کے اَحیا و ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے اور انہیں اس میں سند کا درجہ دیا جاتا ہے۔
نوم چومسکی کے نزدیک امریکہ ایک استعماری ریاست ہے جس کی پالیسیوں کا دائرہ عالمی دہشت گردی کے گرد گھومتا ہے۔ وہ اپنے ملک کو دنیا میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سرپرست قرار دیتے ہیں اور حقائق و دلائل کے ساتھ اسے ثابت کرتے ہیں۔ انہوں نے ویتنام پر امریکی فوج کشی کے خلاف آواز اٹھائی اور مظاہرین کی قیادت کی، جس پر انہیں جیل بھی جانا پڑا۔ امریکہ کی طرف سے اسرائیل کی سرپرستی، افغانستان پر امریکی حملہ اور عراق پر امریکہ کی فوج کشی پر بھی انہوں نے کھلے بندوں تنقید کی اور اسے امریکہ کی استعماری پالیسیوں کا تسلسل قرار دیتے ہوئے امریکی پالیسیوں اور اقدامات کے اصل مقاصد کو بے نقاب کیا۔
ان کی ایک مختصر کتاب کا اردو ترجمہ ’’چچا سام کیا چاہتا ہے؟‘‘ کے نام سے اسلم خواجہ نے کیا ہے اس میں انہوں نے موجودہ عالمی تناظر میں امریکہ کے کردار اور اس کی پالیسیوں کے تاریخی پس منظر اور مقاصد کی وضاحت کی ہے۔ چونکہ ان کا تعلق واضح طور پر بائیں بازو سے ہے، اس لیے ان کی تنقید و تجزیہ اور بحث و گفتگو میں بائیں بازو کے افکار و رجحانات کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔ البتہ انہوں نے اس دوران جن حقائق کا انکشاف کیا ہے اور امریکی پالیسیوں کے جس تاریخی تسلسل کی نشاندہی کی ہے وہ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والے ہر شخص کے پڑھنے کی چیز ہے اور سیاسی و دینی کارکنوں کے لیے تو اس کا مطالعہ از حد ضروری ہے۔ پوری کتاب کا خلاصہ تو مشکل بات ہے، البتہ اس کے چند اہم اقتباسات قارئین کی خدمت میں پیش کیے جا رہے ہیں:
★ امریکہ اور دیگر ممالک کے درمیان تعلقات کے تانے بانے امریکی تاریخ کی ابتدا سے ملتے ہیں۔ مگر دوسری جنگ عظیم ہی اس ضمن میں اہم موڑ تھی، اس لیے آئیے وہاں سے ابتدا کرتے ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے ہمارے کئی صنعتی مخالفین شدید کمزور ہو گئے یا مکمل طور پر تباہ، جب کہ امریکہ نے اس جنگ سے بے انتہا فائدہ حاصل کیا۔ ہمارا ملک براہ راست حملے کا ہدف نہیں بنا اور اس دوران امریکہ کی پیداوار تین گنا بڑھ گئی۔
جنگ سے قبل نئی صدی کے آغاز سے ہی امریکہ دنیا کا سرکردہ صنعتی ملک بن چکا تھا اور یہ اس صدی کے آغاز سے ہی تھا، لیکن اب ہمیں دنیا کی دولت کا پچاس فیصد ہاتھ لگ گیا اور دونوں سمندروں بحیرہ اوقیانوس اور بحیرہ کاہل کے دونوں ساحل ہمارے زیردست تھے۔ تاریخ میں اس سے قبل کبھی بھی کسی ایک ملک کو دنیا پر اتنا کنٹرول یا اتنا زبردست تحفظ حاصل نہیں رہا تھا۔ امریکی پالیسیوں کا تعین کرنے والے افراد اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ دنیا میں پہلی عالمگیر طاقت کے طور پر ابھرے گا، اور جنگ کے دوران اور اس کے بعد وہ انتہائی احتیاط سے منصوبہ بندی کر رہے تھے کہ جنگ کے بعد کی دنیا کو کیا صورت دی جائے۔ چونکہ یہ ایک کھلا سماج ہے اس لیے ہم ان منصوبوں کو دیکھ اور جانچ سکتے ہیں جو انتہائی واضح اور دورس نتائج کے حامل تھے۔
امریکی منصوبہ ساز اس بات پر متفق تھے کہ امریکی بالادستی کو برقرار رکھنا ہے۔ ان میں محکمہ خارجہ سے لے کر خارجہ تعلقات کی کونسل سے تعلق رکھنے والے اہلکار شامل تھے۔ تاہم یہ مقصد کس طرح حاصل کیا جائے؟ اس پر مختلف نقطہ ہائے نظر ضرور تھے۔
★ جارج کینان جو ۱۹۵۰ء تک محکمہ خارجہ کے پلاننگ اسٹاف کے سربراہ رہے ہیں، امریکی پالیسی سازوں میں سب سے زیادہ ذہین اور جنگ کے بعد کی دنیا کی تشکیل کرنے والی ایک اہم شخصیت تھے۔ اگر آپ اپنے ملک (امریکہ) کو سمجھنا چاہیں تو پھر پالیسی پلاننگ سٹڈی نمبر ۲۳ کو دیکھنا ضروری ہے۔ یہ دستاویز کینان نے ۱۹۴۸ء میں محکمہ خارجہ میں منصوبہ ساز عملے کے لیے تحریر کی تھی۔ اس میں وہ لکھتے ہیں:
’’ہمارے پاس عالمی دولت کا تقریباً نصف ہے، جبکہ ہماری آبادی دنیا کی آبادی کا ۶.

۳ فیصد ہے۔ اس صورتحال میں ہم حسد اور ناراضگی کا سبب بن سکتے ہیں۔ آنے والے دور میں ہمارا اصل کام تعلقات کے ایک ایسے انداز کا قیام ہو گا جو ہمیں عدم مساوات کی یہ حیثیت برقرار رکھنے کی اجازت دے۔ یہ حاصل کرنے کے لیے ہمیں جذباتی ہونے اور دن کو سپنے دیکھنے کی عادت ترک کرنا ہو گی اور ہر جگہ اپنی توجہ کا مرکز قومی مقاصد کو بنانا ہو گا۔ ہمیں ان مبہم اور غیر حقیقت پسندانہ مقاصد مثلاً انسانی حقوق، لوگوں کا معیار زندگی بہتر کرنے اور جمہوری عمل کی باتوں سے دستبردار ہونا ہو گا۔ وہ دن دور نہیں جب ہمیں طاقت کے براہ راست تصور سے مد مقابل ہونا پڑے گا، اس لیے ہم جس حد تک آدرشی نعروں سے بچے رہیں اتنا ہی بہتر ہوگا۔‘‘
ظاہر ہے کہ یہ پالیسی پلاننگ اسٹڈی نمبر ۲۳ انتہائی خفیہ دستاویز تھی۔ عوام کو مطمئن کرنے کے لیے آدرشی نعروں کا طوفان اٹھانا ضروری تھا، لیکن یہاں پالیسی ساز ایک دوسرے سے مخاطب ہیں۔ ان ہی خطوط پر ۱۹۵۰ء میں لاطینی امریکہ کے ممالک میں متعین سفیروں کی بریفنگ کے دوران کینان نے کہا تھا کہ امریکی خارجہ پالیسی کا ایک اہم مقصد لاطینی امریکہ میں ہمارے خام مال کا تحفظ کرنا ہے۔ اس لیے ہمیں اس خطرناک بدعت کا مقابلہ کرنا ہوگا جو امریکی جاسوس رپورٹوں کے مطابق لاطینی امریکہ میں پھیل رہی ہے کہ ’’عوامی فلاح و بہبود حکومت کی براہ راست ذمہ داری ہے۔‘‘
( جاری ہے )

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: امریکی پالیسیوں امریکی پالیسی کی پالیسیوں پالیسیوں کے امریکہ کی انہوں نے نے والے اس لیے کے لیے کے بعد اور اس

پڑھیں:

مودی سرکار کی ناکام پالیسیوں کا خمیازہ؛ مقبوضہ کشمیر کی معیشت تباہی  کا شکار

مقبوضہ کشمیر میں اقتصادی بحران شدت اختیار کر گیا ہے، جس کی بڑی وجہ بھارتی حکومت کی متنازع و ناکام پالیسیاں اور آرٹیکل 370 کی منسوخی ہے۔

خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد مقبوضہ وادی کی معیشت شدید زوال کا شکار ہوئی ہے، جس سے کشمیری عوام بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ 2019 ء میں آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد سے مواصلاتی بلیک آؤٹ مسلط کیا گیا، جس نے لاکھوں افراد کو بنیادی سہولیات سے محروم کر دیا۔

کشمیر چیمبر آف کامرس کے مطابق زرعی مصنوعات کی ترسیل پر عائد پابندیوں سے معیشت کو 400 ارب روپے کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح بھارتی پالیسیوں نے سیاحت کے شعبے کو بھی شدید نقصان پہنچایا، جس سے 100 کروڑ روپے سے زائد کا خسارہ ہوا ہے۔

علاوہ ازیں تجارتی سرگرمیوں پر پابندیوں کے باعث کشمیری تاجروں کی آمدنی میں 60 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ زرعی مصنوعات پر پابندیاں کسانوں کے لیے معاشی بربادی کا باعث بن گئی ہیں اور وہ شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔

تعلیمی اداروں کی بندش نے بھی لاکھوں کشمیری نوجوانوں کے تعلیمی مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ 2019 کے بعد بے روزگاری کی شرح میں 20 فیصد تک اضافہ ہوا، جو خطے میں بڑھتی ہوئی محرومی کی نشاندہی کرتا ہے۔

بھارتی فوج کی مسلسل موجودگی اور نگرانی مقبوضہ وادی کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے۔

بھارت کی جانب سے مقامی وسائل پر قبضہ اور معیشت پر سخت نگرانی نے وادی کو بدترین اقتصادی عدم استحکام کا شکار کر دیا ہے۔ ان تمام تر مشکلات کے باوجود کشمیری عوام اپنی جدوجہد آزادی سے پیچھے نہیں ہٹے اور ان کا حوصلہ ناقابل تسخیر ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بالواسطہ مذاکرات میں پیشرفت امریکہ کی حقیقت پسندی پر منحصر ہے، ایران
  • ٹیرف جنگ کی بدولت امریکہ کے معاشی نقصانات کا آغاز ، چینی میڈیا
  • امریکہ نئے دلدل میں
  • امریکہ نے پہلگام فالس فلیگ آپریشن کو دہشت گردی قرار دیدیا
  • مودی سرکار کی ناکام پالیسیوں کا خمیازہ؛ مقبوضہ کشمیر کی معیشت تباہی  کا شکار
  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں سونا کیوں مہنگا ہو رہا ہے، کیا امریکی ڈالر اپنی قدر کھونے والا ہے؟
  • تعلیمی خودمختاری کیلئے ہارورڈ کی جدوجہد
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • امریکہ کے ساتھ معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں، وزیر خزانہ
  • امریکہ کے ساتھ بڑے پیمانے پر معاشی روابط بڑھانا چاہتے ہیں، محمد اورنگزیب