افغانستان اور پاکستان میں سوویت اور نیٹو کے اسلحے کی تجارت تاحال جاری
اشاعت کی تاریخ: 4th, April 2025 GMT
کابل (ڈیلی پاکستان آن لائن )ایک نئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ افغانستان میں سوویت اور نیٹو افواج کی جانب سے چھوڑے گئے ہتھیار اب بھی اس کے مشرقی صوبوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کے قبائلی اضلاع میں بھی قابل رسائی ہیں کیونکہ کابل کی جانب سے لگائی گئی پابندیاں گولہ بارود کے غیر قانونی بہاو کو روکنے کے لئے انتہائی ناکافی ثابت ہورہی ہیں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق افغانستان میں اسلحے کی دستیابی کو دستاویزی شکل دینے کے عنوان سے شائع ہونے والے اس مقالے میں انکشاف کیا گیا ہے کہ غیر رسمی اسلحے کی سمگلنگ میں پرانے ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ سابق افغان نیشنل ڈیفنس اور سکیورٹی فورسز کو فراہم کئے جانے والے ساز و سامان سے حاصل ہونے والا مواد بھی شامل ہے۔
جنیوا سے تعلق رکھنے والی تنظیم سمال آرمز سروے کی جانب سے شائع ہونے والی اس تحقیق میں طالبان حکومت کے دور میں افغانستان میں اسلحے کی دستیابی کی تفصیلات پیش کی گئی ہیں۔یہ رپورٹ 2022 سے 2024 کے درمیان افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں غیر رسمی مارکیٹوں میں چھوٹے ہتھیاروں، ہلکے اسلحے، لوازمات اور گولہ بارود کی دستیابی اور قیمتوں کے بارے میں کی جانے والی فیلڈ تحقیقات پر مبنی ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ طالبان کے برسر اقتدار آنے اور سابقہ حکومت کے ہتھیاروں کے ذخیروں پر قبضے کے 3 سال سے زائد عرصے کے بعد حکام نے کمانڈروں پر کنٹرول کو مضبوط کیا ہے اور شہریوں اور نجی کاروباری اداروں کی ہتھیاروں تک رسائی کو محدود کردیا ہے۔
تاہم نچلی سطح کے طالبان عہدیداروں کی خاموش منظوری کے ساتھ سمگلنگ جاری ہے اور شواہد سے پتا چلتا ہے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے نامزد دہشت گرد گروہوں بشمول کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور القاعدہ کو مسلسل اسلحہ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی منڈیوں میں روایتی ہتھیاروں کے نظام کے حصول کی کوششیں بھی جاری ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان کے علاقائی دہشت گرد نیٹ ورکس بشمول ٹی ٹی پی اور القاعدہ کے ساتھ تعلقات سرحد پار سمگلنگ روکنے کی کوششوں کو مزید پیچیدہ بناتے ہیں۔
ہتھیاروں کی قیمتیں:اس منصوبے کے ابتدائی نتائج میں مشرقی افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں اسلحے کی مارکیٹوں کی موجودگی کو دستاویزی شکل دی گئی تھی، جس میں سرحد پار سے جاری ہتھیاروں کی سمگلنگ کی نشاندہی کی گئی تھی، جس میں مقامی طالبان بھی شامل تھے۔
سمگلروں کے ایک مستحکم نیٹ ورک کے ساتھ اس سرحد پر طویل عرصے سے سمگلنگ کا سلسلہ جاری ہے، طالبان شورش کے دوران اکثر سمگلروں سے ہتھیار خریدتے ہیں۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان اور ہمسایہ ملک پاکستان میں اسلحے کی دستیابی اور قیمتوں کی حرکیات میں 2021 کے اواخر سے نمایاں تبدیلی آئی ہے۔
افغانستان کے صوبوں میں قیمتوں میں اتار چڑھاو¿ دیکھا گیا جبکہ پاکستان میں قیمتیں مستحکم رہیں۔
افغانستان میں ایک امریکی ایم 4 نیٹو اسالٹ رائفل کی قیمت ارگن (پکتیکا) میں 2219 ڈالر سے لے کر سپیرا (خوست) میں 4817 ڈالر تک تھی۔
اس کے باوجود ننگرہار میں قیمتیں خوست کے برابر تھیں، جہاں امریکی ایم 4 رائفل کی کم ترین قیمت 4379 ڈالر تھی جبکہ کلاشنکوف طرز رائفل کی زیادہ سے زیادہ قیمت 1386 ڈالر تھی۔
پاکستانی سرحد کے قریب ننگرہار کے دیہی ضلع دربابا میں امریکی ایم 4 رائفل 3722 ڈالر میں فروخت ہورہی تھی اور مقامی سطح پر تیار کردہ کلاشنکوف طرز کی رائفل 218 ڈالر میں فروخت کی جارہی ہیں۔
محققین نے پایا کہ اس عرصے کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں میں نیٹو اور سوویت طرز کے ہتھیاروں اور گولہ بارود کی قیمتیں نسبتاً مستحکم رہیں۔کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں جاری فوجی آپریشن ’عزم استحکام‘ سے اگرچہ ہتھیاروں کی قیمتوں پر براہ راست اثر نہیں پڑا، لیکن مقامی ذرائع نے عندیہ دیا کہ اسلحے کے ڈیلر گرفتاریوں اور اسلحے اور گولہ بارود کی ضبطی کے خدشات کی وجہ سے مقامی مارکیٹوں میں نیٹو ہتھیاروں کی کھلے عام نمائش سے گریز کر رہے ہیں۔
تحقیق میں ہتھیاروں سے متعلق کچھ مخصوص رجحانات سامنے آئے، مثال کے طور پر ننگرہار اور کنڑ میں 2022 کے آخر سے 2024 کے وسط تک ایم 4 رائفلوں کی قیمت میں تقریباً 13 فیصد اضافہ ہوا، جس کی اوسط قیمت 1،787 ڈالر سے بڑھ کر 3،813 ڈالر ہوگئی۔
اسی دوران ایم 16 رائفلز کی فروخت 38 فیصد اضافے کے ساتھ 1020 ڈالر سے بڑھ کر 2434 ڈالر ہوگئی۔ یہ اضافہ کم رسد، بڑھتی ہوئی طلب، یا دونوں کے امتزاج کی عکاسی کرسکتا ہے۔
اس کے برعکس، اے کے پیٹرن رائفلز اور آر پی جی پیٹرن لانچرز کی قیمتوں میں اضافہ نسبتاً معمولی تھا، جبکہ چینی ٹائپ 56 رائفلز کی قیمتوں میں ممکنہ طور پر مارکیٹ کی دستیابی میں اضافے یا کم طلب کی وجہ سے قدرے کمی آئی۔
تاہم نائٹ ویژن ڈیوائسز کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی ہے اور یہ اوسطاً 2575 ڈالر سے کم ہو کر 781 ڈالر رہ گئی ہے جو تقریباً 70 فیصد کمی ہے۔
پاکستان سپر لیگ کے دوران سکولوں کے اوقات کار تبدیل
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: افغانستان اور افغانستان میں میں اسلحے کی ہتھیاروں کی پاکستان میں پاکستان کے گولہ بارود کی دستیابی قیمتوں میں کی جانب سے کی قیمتوں کی قیمت ڈالر سے کے ساتھ
پڑھیں:
افغانستان میں عسکریت پسندوں کی موجودگی علاقائی سلامتی کے لیے خطرہ ہے، امریکی تھنک ٹینک
پریس ریلیز کے مطابق کیتھی گینن نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی بحالی کی اہمیت پر زور دیا، انہوں نے دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات میں حالیہ مثبت پیش رفت کوبھی سراہا۔ اسلام ٹائمز۔ سینئر صحافی اور ایسوسی ایٹڈ پریس کی افغانستان اور پاکستان کے لیے نیوز ڈائریکٹر کیتھی گینن نے کہا ہے کہ افغان سر زمین پر عسکریت پسند گروپوں کی موجودگی علاقائی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ انسٹیٹوٹ آف ریجنل اسٹیڈیز (آئی آر ایس) کے زیر انتظام اسلام آباد میں منعقدہ ’جیوپولیٹیکل شفٹس اینڈ سیکیورٹی چینلجز‘ کے عنوان سے منعقدہ تقریب میں خطاب کرتے ہوئے کیتھی گینن کا کہنا تھا کہ شاید افغانستان یہ نہ چاہتا ہو کہ عسکریت پسند گروپس افغانستان کی سرزمین استعمال کریں، لیکن اِس سب کے باوجود وہ (عسکریت پسند گروہ) وہاں بدستور موجود ہیں۔
واضح رہے کہ وہ 2014 میں افغانستان میں رپورٹنگ کرتے ہوئے زخمی ہوگئیں تھیں۔ پریس ریلیز کے مطابق کیتھی گینن نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان اعتماد کی بحالی کی اہمیت پر زور دیا۔ انہوں نے دونوں پڑوسیوں کے درمیان تعلقات میں حالیہ مثبت پیش رفت کوبھی سراہا۔ کیتھی گینن نے کہا کہ پاکستان کو اپنے علاقائی مقاصد کے حصول میں افغان حکومت کو ایک برابر اور شراکت دار کے طور پر دیکھنا ہوگا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اسلام آباد کو اپنے اندرونی سیکیورٹی مسائل کے حل کے لیے تمام دہشت گرد گروپوں کے خلاف ایک مضبوط اور طویل المدتی حکمت علمی کے ساتھ کارروائیاں کرنا ہوں گی۔
کیتھی گینن کا کہنا تھا کہ چین کے افغانستان میں معدنی وسائل پر اثر و رسوخ کی وجہ سے افغانستان اب بھی امریکا کی پالیسی سازوں کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ اس موقع پاکستان کے سابق نمائندہ خصوصی برائے افغانستان آصف دُرانی نے کہا کہ پاکستان اور افغانستان جڑواں بھائیوں کی طرح ہیں، جو ہمیشہ مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کے لیے آگے آتے ہیں، انہوں نے کہا کہ افغانستان کی پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) میں شمولیت، پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات کی بہتری کے لیے ایک مثبت پیش رفت ہے۔ آصف درانی نے کہا کہ پاکستان، افغانستان اور چین کے درمیان سہہ ملکی مذاکرات میں دہشت گردی ختم کرنے پراتفاق ہوا۔
پریس ریلیز کے مطابق پاکستان اور افغانستان کے درمیان سفارتی تعلقات کی بہتری کے بعد ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں میں واضح کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے آئی آر ایس کے صدر جوہر سلیم نے کہا کہ چیلنجوں کے باوجود، علاقائی جغرافیائی سیاست اور باہمی مفادات نے دونوں ممالک کو مختلف سطحوں پر منسلک اور دوبارہ ایک دوسرے کے ساتھ تعاون پر مجبور کیا ہے۔ آئی آر ایس میں افغانستان پروگرام کے سربراہ آرش خان نے کہا کہ طالبان بین الاقوامی برادری کے مطالبات کو تسلیم نہیں کر رہے لیکن افغانستان عبوری حکومت نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف حالیہ دنوں میں ٹھوس اقدامات اٹھائے ہیں۔