شادی شدہ بیٹیوں کو مرحوم والد کے کوٹے پر ملازمت نہ دینا غیر قانونی اور امتیازی سلوک ہے، سپریم کورٹ
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
عورت کی شناخت، قانونی حقوق اور خودمختاری شادی کے بعد ختم نہیں ہوتی، سپریم کورٹ نے سرکاری ملازم کے انتقال کے بعد بیٹی کو نوکری سے محروم کرنے کے کیس کا تحریری فیصلہ جاری کردیا جس میں عدالت نے والد کی جگہ بیٹی کو نوکری کے لیے اہل قرار دے دیا۔ سپریم کورٹ نے فیصلہ میں لکھا کہ شادی شدہ بیٹیوں کو مرحوم والد کے کوٹے پر ملازمت نہ دینا غیر قانونی اور امتیازی سلوک ہے۔
سپریم کورٹ کے جسٹس منصور علی شاہ نے 9 صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کیا، فیصلہ کے مطابق کے پی سول سرونٹس رولز کے تحت مرحوم یا طبعی بنیادوں پر ریٹائر سرکاری ملازم کے تمام بچے ملازمت کے اہل ہیں، سیکشن آفیسر کی جانب سے ایک وضاحتی خط کے ذریعے رولز کو تبدیل کرنا غیر قانونی ہے۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں 90فیصد سے زائد خواتین وراثتی حصے سے محروم
فیصلے کے مطابق ایسی ایگزیکٹو ہدایات قانون سے بالاتر نہیں ہو سکتیں، شادی کی بنیاد پر بیٹیوں کو مرحوم ملازم کے کوٹے سے خارج کرنا امتیازی سلوک ہے، ایسا عمل آئین کے آرٹیکل 25، 27 اور 14 کی خلاف ورزی ہے، شادی سے عورت کی قانونی حیثیت، اس کی ذات اور خود مختاری ختم نہیں ہو جاتی۔
کہا گیا ہے کہ عورت کے یہ حقوق شادی پر منحصر نہیں ہوسکتے، عورت کی مالی خود مختاری ایک بنیادی حق ہے، آئین ازدواجی اکائیوں یا سماجی کرداروں کی بنیاد کے بجائے ہر شہریوں کو انفرادی حقوق دیتا ہے، اسلام میں بھی عورت کو اپنی جائیداد، آمدنی اور مالی معاملات پر مکمل اختیار حاصل ہے۔
مزید پڑھیں: خیبرپختونخوا میں 90فیصد سے زائد خواتین وراثتی حصے سے محروم
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان نے خواتین کے خلاف ہر قسم کے امتیازی سلوک کے خاتمے کے عالمی کنونشن کی توثیق کی ہے، اس کنونشن کے تحت شادی کی بنیاد پر ملازمت میں امتیازی سلوک ممنوع ہے، نسوانی قانونی نظریئے کے تحت عورت کی معاشی اور قانونی خود مختاری کو تسلیم کرنا چاہیے، ایسی روایات کو ختم کرنا چاہیے جو شادی کی بنیاد پر عورتوں کو عوامی حقوق سے محروم کرتی ہیں۔
کہا گیا ہے کہ عدالتوں اور انتظامی اداروں کو اپنے فیصلوں میں صنفی حساس اور غیر جانبدار زبان استعمال کرنی چاہیے۔ شادی شدہ بیٹی شوہر پر بوجھ بن جاتی ہے جیسے الفاظ غیر مناسب ہیں، ایسے الفاظ پدر شاہی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں اور آئینی اقدار کے منافی ہیں۔
مزید پڑھیں: آج کے دن اپنی ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو سلام پیش کرتا ہوں: شہبازشریف
سپریم کورٹ کے جنرل پوسٹ آفس اسلام آباد و دیگر بنام محمد جلال کیس کے فیصلے کا اطلاق موجودہ کیس پر نہیں ہوتا، سپریم کورٹ نے مرحوم یا طبعی بنیادوں پر نوکری سے ریٹائر ہونے پر بچوں کو ملازمت دینے کو آئین سے متصادم قرار دیا تھا۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کا اطلاق ان تقرریوں پر نہیں ہوتا جو پہلے ہی کی جا چکی ہیں، یہ اصول طے شدہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے فیصلے عمومی طور پر آئندہ کے لیے لاگو ہوتے ہیں، فیصلہ میں مزید کہا کہ عورت کو نوکری سے برخاست کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے، متعلقہ محکمہ کو ہدایت کی کہ درخواست گزار کی تقرری کو تمام سابقہ مراعات کے ساتھ بحال کیا جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
باپ بیٹی جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ سرکاری نوکری.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: باپ بیٹی جسٹس منصور علی شاہ سپریم کورٹ سرکاری نوکری امتیازی سلوک سپریم کورٹ بیٹیوں کو کی بنیاد عورت کی
پڑھیں:
تاحیات سیکیورٹی ریٹائرڈ ججز کیلئے ہے انکی بیواؤں کے لیے نہیں، سپریم کورٹ
اسلام آباد:سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ ریٹائرڈ ججز کو تاحیات سیکیورٹی صدارتی آرڈر کے تحت ہے تاہم ان کی بیواؤں کو تاحیات سیکیورٹی نہیں جاسکتی انہیں سیکیورٹی دینے کا حوالہ خط میں غلطی سے شامل ہوا۔
سپریم کورٹ نے اپنے وضاحتی بیان میں کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے ریٹائرڈ ججز تاحیات سیکیورٹی کے حق دار ہیں، ریٹائرڈ ججز کو تاحیات سیکیورٹی کا حق 2018ء کے صدارتی آرڈر نمبر سات میں دیا گیا تاہم ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کی سیکیورٹی کی حد تک آرڈر واپس لیا جاتا ہے۔
وضاحت میں کہا گیا ہے کہ ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کو 2108ء کے صدارتی آرڈر نمبر سات کے تحت تاحیات سیکیورٹی نہیں دی جاسکتی، ریٹائرڈ ججز کی سیکیورٹی سے متعلق وزارت داخلہ کو خط ارسال کیا گیا تھا، ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کو سیکیورٹی دینے کا حوالہ خط میں غلطی سے شامل ہوا۔
اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ ریٹائرڈ ججز کی بیواؤں کا حوالہ واپس لے لیا گیا ہے، ججز کی بیوائیں صدارتی آرڈر نمبر 7 کے تحت اس میں شامل نہیں۔