ریاست کی پہچان اس کی رٹ سے ہوتی ہے، اور اگر رٹ کا تصور مصلحت، سیاسی منافقت، یا بزدلی سے بدل دیا جائے، تو وہ ریاست نہیں رہتی، سرکس بن جاتی ہے،جہاں تماشائی ہر روز خون کا تماشا دیکھتے ہیں۔ پاکستان کو بھی بعض سیاسی گدھ اسی انجام سے دو چار کرنے کی کوشش میں ہیں۔ان کے نزدیک قاتل عزت دار اور وفادار مجرم قرار پا رہے ہیں، ملک دشمنی فن اور ریاستی وفاداری جرم بنادی گئی ہے۔ جس ملک کی بنیاد کلمۂ حق پر رکھی گئی، وہاں دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں اور قاتلوں کے لیے نرم گوشے پیدا کیے جا رہےہیں ۔
اختر مینگل اور اس کا لانگ مارچ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ کون نہیں جانتا، سگا بھائی جاوید مینگل لشکر بلوچستان نامی دہشت گرد تنظیم کا سربراہ ہے۔موصوف خود کیا ہیں؟ دہشت گردوں کا سیاسی چہرہ اورسہولت کار ، یقین نہ آئے تو وائرل ویڈیو دیکھ لیں، ’’بلوچ ملی ٹینٹ ، ہم سے انہیں کوئی فائدہ ہوا یا نہیں ، لیکن نقصان نہیں ہوا، میں ان کے لئے دعا ضرور کرتا ہوں ، آج بھی کرتا ہوں ۔‘‘ سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کا یہ سلیپر سیل آج اچانک ایکٹو کیوں ہوا؟ وجہ صاف ظاہر ہے ، جب دہشت گردوں کا عورت کارڈ ناکام ہوگیا ، ان کی سافٹ لانچنگ ماہ رنگ نام نہاد بلوچ گرفتار کر لی گئی تو اس کی رہائی اور دہشت گردوں کی سہولت کاری کے لئے اس پرانے سہولت کار کو میدان میں اتارا گیا ہے۔ موصوف کی کوئٹہ آمد کا روٹ دیکھ لیں ، اس کے نام نہاد لانگ مارچ کے مقررین کو دیکھ لیں ، سب وہی ہیں ، جو ماہ رنگ کے شانہ بشانہ تھے۔ اس لانگ مارچ میں کھل کر پاکستان دشمنی کی بات کی جا رہی ہے ، ماہ رنگ اور بی ایل سے کے تمام سہولت کار اور ایجنٹ اس کے ہمراہ ہیں ، لہٰذا بی این پی اور اختر مینگل کا ماضی اور حال سب کے سامنے ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پورے ملک سے اس کا کوئی اتحادی یا ہمدرد اس مارچ میں ساتھ نہیں ، لیکن فتنہ انتشار کی قیادت تردد کے ساتھ وہاں پہنچی ہے،کوئی اور نہیں پارٹی کا سیکریٹری جنرل ، پارلیمانی لیڈر اور پیر انتشار کا وکیل پورا وفد دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے پہنچا ہے ، سیکریٹری جنرل کی سوشل میڈیا پر وائرل تقریر ہی یہ بتانے کو کافی ہے کہ یہ وہاں کیوں گئےاور ان کے دہشت گردوں سے تعلقات کی نوعیت کیا ہے ۔ ’’ کسی کا خون بلوچوں کے خون سے مقدس نہیں ، ہم اس جنگ میں پورے ملک میں آپ کے ساتھ ہیں ۔‘‘ سوال یہ ہے کہ صرف یہ ایک جملہ کس جانب اشارہ کر رہا ہے ؟ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے بےگناہوں کے خون کا موازنہ فورسز کے ہاتھوں دہشت گردی کے دوران مارے جانے والوں کے ساتھ کرنا اور دہشت گردوں کو مقدس قرار دینا، کیادہشت گردوں کی حمائت نہیں ؟۔بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی ، بلکہ گزشتہ روز 5اپریل کو فتنہ انتشار نے پشین میں جلسہ کیا ہے ، انہی کا ایک سوشل میڈیا ’’گرو گھنٹال‘‘ اس پر کھل کر لکھ رہا ہے کہ ’’آج پشین میں PTIکا جلسہ اس لیے ہوا کیونکہ وہاں پولیس نہیں بلکہBLAکے لوگ سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔‘‘ اس کے بعد بھی فتنہ انتشار کے دہشت گرد اور دشت گردوں کا سہولت کار ہونے میں کوئی شک باقی رہ گیا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ ریاست کہاں ہے ؟ ریاست کی رٹ کس گھنی چھائوں میں محوآرام ہے ؟ کھلے عام دہشت گردوں کی حمائت اور سویلینز پر حملوں کی حمائت پر ان کے خلاف مقدمات درج کیوں نہیں ہوئے ؟
بی این پی کے دھرنے میں جو زبان استعمال کی گئی اگر کسی اور ملک میں ہوتی تو ان پر غداری کے مقدمات قائم کیے جا چکے ہوتے ، لیکن یہاں نہ صرف انہیں کھلا چھوڑا گیا بلکہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے ۔ سمجھ سے باہر ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ریاست کو ہارڈ سٹیٹ میں بدلنے کی بات کی جارہی ہے، ایسے مجرموں کے معاملہ میں حکومت نے ایک بار پھر مصلحت اور خاموشی کو ترجیح کیوں دی؟جس ماہ رنگ بلوچ کی خاطر یہ انتشاری ٹولہ اسلام آباد سے سفر کرکے کوئٹہ پہنچا اوراسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ، اس کی اپنی ہمدردیاں ان دہشت گرد گروہوں سے وابستہ ہیں جنہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کیا۔ جس ملک میں فوجی شہداء کی ماؤں کی آوازیں سننے والا کوئی نہ ہو، وہاں دہشت گردوں کی سہولت کاروں کے حق میں کیمپ اور مہمات چلائی جا رہی ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں، بلکہ ایک مکمل منظم سازش ہے، جس میں دشمن ایجنسیوں، نام نہاد این جی اوز، اور اندرونی سہولت کاروں کا پورا نیٹ ورک شامل ہے۔ اور ہماری حکومتیں ؟ وہ صرف “نوٹس” لے رہی ہے۔دنیا کے کسی بھی ملک میں ریاست مخالف بیانیہ کو اتنی ڈھیل نہیں دی جاتی جتنی یہاں حاصل ہے ۔ امریکہ میں کوئی کیپیٹل ہل پر حملہ کرے توسزائیں بھگتتا ہے، فرانس میں اگر کوئی ریاست کے وجود پر سوال اٹھائے تو اُس کی زبان بند کر دی جاتی ہے، بھارت، روس اور چین کی تو بات ہی چھوڑ دیجیےکہ ایسی حرکتوں پر کسی کو جینے کی مہلت بھی نہیں ملتی۔ مگر یہ پاکستان ہے جہاں بغاوت کو ’’رائے، علیحدگی کو حق‘‘ دہشت گردوں کو ’’مظلوم‘‘ قرار دیا جاتا ہے اور حکومتیں خاموش تماشائی بنی صرف بیان جاری کرنے پر اکتفا کر رہی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف جذبات کی بنیاد پر ہورہا ہے؟ نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ہائبرڈ وار ہے، جس کا مقصد پاکستان کو مفلوج کرنا ہے۔ اس جنگ میں ہتھیار نہیں، الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ بندوق کی جگہ بیانیہ ہے، اور گولی کی جگہ سیاسی حمایت۔ تحریک انصاف، بی این پی، اور ان جیسے دیگر عناصر آج اسی بیانیے کا حصہ ہیں۔ یہ خطرناک ترین بات ہے، کیونکہ یہ ملک کے اندر دشمن کا محاذ ہے، جو دن بدن مضبوط ہو رہا ہے ۔
ریاست کو اب فیصلہ کرنا ہوگا۔ یہ وقت نرم بیانات اور غیر موثر “تشویش” کا نہیں۔ یہ وقت ہے کہ آئین کی شق 6 کو حرکت میں لایا جائے۔ ان تمام عناصر پر مقدمات چلائے جائیں جو ریاست سے وفاداری کو جرم بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ان سیاستدانوں کو ننگا کیا جائے جواقتدار کے لیے دشمنوں سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ ان صحافیوں، اینکرز، اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو لگام دی جائے جو دشمن کا بیانیہ پھیلا رہے ہیں۔ اور ان “حقوق انسانی” کے بہروپیوں کو بے نقاب کیا جائے جو دراصل دہشت گردی کا سافٹ چہرہ بنے ہوئے ہیں۔ یا تو اب فیصلہ کر لیا جائے کہ دشمن صرف سرحد پار نہیں، ہمارے درمیان بھی ہے،یا پھر آنے والی نسلوں کو ذہنی غلامی، داخلی بغاوت، اور مسلسل خونریزی کا تحفہ دے دیا جائے۔ ہم کب تک قاتلوں کو گلے لگاتے رہیں گے؟ کب تک غداروں کے بیانیے کو ’’سیاسی اختلاف‘‘ کا نام دیتے رہیں گے؟ کب تک ریاستی اداروں کے خلاف کھلے عام نفرت انگیزی کو “رائے کی آزادی” سمجھتے رہیں گے؟وقت آ چکا ہے کہ ریاست پورے قد سے کھڑی ہو اور فیصلہ کرے کہ بہت ہو چکا، اب دشمن صرف دشمن ہے،خواہ وہ بندوق اٹھائے یا مائیک، دہشت گرد ہو یا جمہوریت کے لبادے میں۔ پاکستان کا مطلب’’لا الہ الا اللہ‘‘ ہے، اور اس مطلب پر سودے بازی نہ پہلے کی، نہ اب کی جائے گی۔ملک اس وقت جن خطرات سے دوچار ہے، ان میں سب سے مہلک اور ناپاک خطرہ وہ ہے جو دشمن کی گولیوں سے نہیں بلکہ اپنوں کی منافقت، اقتدار کی ہوس اور ریاستی مفادات سے کھلواڑ کی شکل میں ہمارے داخلی وجود کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔پاکستان اس وقت ایک سنگین نظریاتی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یہ جنگ ٹینکوں، میزائلوں اور بندوقوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ بیانیے کی جنگ ہے، نفسیاتی جنگ ہے، اور معلوماتی محاذ پر لڑی جانے والی جنگ ہے۔ریاست کو اب صرف ایک راستہ اپنانا ہوگا: سختی، یکسوئی، اور غداری پر بے رحم ضرب۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: دہشت گردوں کی سوال یہ ہے کہ سہولت کار کے ساتھ ملک میں ماہ رنگ رہے ہیں اور ان رہا ہے
پڑھیں:
ریاست اتراکھنڈ میں 50 سال پرانے مزار پر بلڈوزر چلایا گیا
اتراکھنڈ کے رودرا پور میں واقع یہ مزار پچاس سال پرانا ہے اور کہا گیا کہ سڑک کو کشادہ کرنے کیلئے انتظامیہ نے اسطرح کی کارروائی کی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارت کی شمالی ریاست اتراکھنڈ کے رودرا پور میں انتظامیہ نے نیشنل ہائی وے کی توسیعی پروجیکٹ کے دائرے میں آنے والے ایک مبینہ غیر قانونی مزار کو منہدم کر دیا۔ نوٹس جاری ہونے کے بعد انتظامیہ کی ٹیم نے آج صبح مزار کو مسمار کرنے کی کارروائی کی۔ آپریشن کے دوران اندرا چوک کو چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا۔ اس دوران اندرا چوک آنے والی گاڑیوں کا رخ موڑ دیا گیا۔ قومی شاہراہ 74 کے توسیع شدہ دائرے میں آنے والے معصوم میاں کے مزار پر ایک بار پھر دھامی حکومت کا بلڈوزر چلایا گیا۔ کئی دہائیوں پرانے مقبرے کے بارے میں قیاس آرائیاں کی جا رہی تھیں کہ انتظامیہ اسے ہٹا سکتی ہے۔ مسماری کے عمل کو مکمل طور پر خفیہ رکھا گیا۔ معلومات کے مطابق این ایچ آئی ضلع انتظامیہ اور پولس انتظامیہ کی ایک ٹیم صبح بلڈوزر کے ساتھ اندرا چوک پہنچی۔
یہ حقیقت ہے کہ اتراکھنڈ کے رودرا پور میں واقع یہ مزار پچاس سال پرانا ہے اور کہا گیا کہ سڑک کو کشادہ کرنے کے لئے انتظامیہ نے اس طرح کی کارروائی کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوٹس جاری ہونے کے چند گھنٹوں بعد ہی اس پر کارروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ مقامی افراد نے اس کو راتوں رات عمل میں لائی گئی کارروائی کہا ہے۔ اس بات کو یقینی بنانے کے لئے کہ مزار کو گرانے میں کوئی رکاوٹ نہ آئے، اندرا چوک کی طرف جانے والی سڑک پر پیدل چلنے والوں کی آمدورفت پر پابندی لگا دی گئی۔ یہی نہیں میڈیا اہلکاروں کو بھی موقع پر پہنچنے سے روک دیا گیا۔ تقریباً دو گھنٹے تک جاری رہنے والے انہدام کے بعد ٹریفک بحال کر دی گئی، جس جگہ مقبرہ تھا وہ جگہ مکمل طور پر ہموار کر دی گئی ہے۔ احتیاطی تدابیر کے طور پر اندرا چوک پر پولیس کی بھاری نفری بدستور تعینات ہے۔