Daily Ausaf:
2025-11-03@17:50:04 GMT

سہولت کار

اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT

ریاست کی پہچان اس کی رٹ سے ہوتی ہے، اور اگر رٹ کا تصور مصلحت، سیاسی منافقت، یا بزدلی سے بدل دیا جائے، تو وہ ریاست نہیں رہتی، سرکس بن جاتی ہے،جہاں تماشائی ہر روز خون کا تماشا دیکھتے ہیں۔ پاکستان کو بھی بعض سیاسی گدھ اسی انجام سے دو چار کرنے کی کوشش میں ہیں۔ان کے نزدیک قاتل عزت دار اور وفادار مجرم قرار پا رہے ہیں، ملک دشمنی فن اور ریاستی وفاداری جرم بنادی گئی ہے۔ جس ملک کی بنیاد کلمۂ حق پر رکھی گئی، وہاں دہشت گردوں، علیحدگی پسندوں اور قاتلوں کے لیے نرم گوشے پیدا کیے جا رہےہیں ۔
اختر مینگل اور اس کا لانگ مارچ کیا حیثیت رکھتا ہے؟ کون نہیں جانتا، سگا بھائی جاوید مینگل لشکر بلوچستان نامی دہشت گرد تنظیم کا سربراہ ہے۔موصوف خود کیا ہیں؟ دہشت گردوں کا سیاسی چہرہ اورسہولت کار ، یقین نہ آئے تو وائرل ویڈیو دیکھ لیں، ’’بلوچ ملی ٹینٹ ، ہم سے انہیں کوئی فائدہ ہوا یا نہیں ، لیکن نقصان نہیں ہوا، میں ان کے لئے دعا ضرور کرتا ہوں ، آج بھی کرتا ہوں ۔‘‘ سوال یہ ہے کہ دہشت گردوں کا یہ سلیپر سیل آج اچانک ایکٹو کیوں ہوا؟ وجہ صاف ظاہر ہے ، جب دہشت گردوں کا عورت کارڈ ناکام ہوگیا ، ان کی سافٹ لانچنگ ماہ رنگ نام نہاد بلوچ گرفتار کر لی گئی تو اس کی رہائی اور دہشت گردوں کی سہولت کاری کے لئے اس پرانے سہولت کار کو میدان میں اتارا گیا ہے۔ موصوف کی کوئٹہ آمد کا روٹ دیکھ لیں ، اس کے نام نہاد لانگ مارچ کے مقررین کو دیکھ لیں ، سب وہی ہیں ، جو ماہ رنگ کے شانہ بشانہ تھے۔ اس لانگ مارچ میں کھل کر پاکستان دشمنی کی بات کی جا رہی ہے ، ماہ رنگ اور بی ایل سے کے تمام سہولت کار اور ایجنٹ اس کے ہمراہ ہیں ، لہٰذا بی این پی اور اختر مینگل کا ماضی اور حال سب کے سامنے ہے ۔ مزے کی بات یہ ہے کہ پورے ملک سے اس کا کوئی اتحادی یا ہمدرد اس مارچ میں ساتھ نہیں ، لیکن فتنہ انتشار کی قیادت تردد کے ساتھ وہاں پہنچی ہے،کوئی اور نہیں پارٹی کا سیکریٹری جنرل ، پارلیمانی لیڈر اور پیر انتشار کا وکیل پورا وفد دہشت گردوں اور ملک دشمنوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کرنے پہنچا ہے ، سیکریٹری جنرل کی سوشل میڈیا پر وائرل تقریر ہی یہ بتانے کو کافی ہے کہ یہ وہاں کیوں گئےاور ان کے دہشت گردوں سے تعلقات کی نوعیت کیا ہے ۔ ’’ کسی کا خون بلوچوں کے خون سے مقدس نہیں ، ہم اس جنگ میں پورے ملک میں آپ کے ساتھ ہیں ۔‘‘ سوال یہ ہے کہ صرف یہ ایک جملہ کس جانب اشارہ کر رہا ہے ؟ دہشت گردوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے بےگناہوں کے خون کا موازنہ فورسز کے ہاتھوں دہشت گردی کے دوران مارے جانے والوں کے ساتھ کرنا اور دہشت گردوں کو مقدس قرار دینا، کیادہشت گردوں کی حمائت نہیں ؟۔بات یہیں ختم نہیں ہوجاتی ، بلکہ گزشتہ روز 5اپریل کو فتنہ انتشار نے پشین میں جلسہ کیا ہے ، انہی کا ایک سوشل میڈیا ’’گرو گھنٹال‘‘ اس پر کھل کر لکھ رہا ہے کہ ’’آج پشین میں PTIکا جلسہ اس لیے ہوا کیونکہ وہاں پولیس نہیں بلکہBLAکے لوگ سڑکوں پر گھوم رہے ہیں۔‘‘ اس کے بعد بھی فتنہ انتشار کے دہشت گرد اور دشت گردوں کا سہولت کار ہونے میں کوئی شک باقی رہ گیا ہے ؟ سوال یہ ہے کہ ریاست کہاں ہے ؟ ریاست کی رٹ کس گھنی چھائوں میں محوآرام ہے ؟ کھلے عام دہشت گردوں کی حمائت اور سویلینز پر حملوں کی حمائت پر ان کے خلاف مقدمات درج کیوں نہیں ہوئے ؟
بی این پی کے دھرنے میں جو زبان استعمال کی گئی اگر کسی اور ملک میں ہوتی تو ان پر غداری کے مقدمات قائم کیے جا چکے ہوتے ، لیکن یہاں نہ صرف انہیں کھلا چھوڑا گیا بلکہ ریاست کی رٹ کو چیلنج کیا جا رہا ہے ۔ سمجھ سے باہر ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب ریاست کو ہارڈ سٹیٹ میں بدلنے کی بات کی جارہی ہے، ایسے مجرموں کے معاملہ میں حکومت نے ایک بار پھر مصلحت اور خاموشی کو ترجیح کیوں دی؟جس ماہ رنگ بلوچ کی خاطر یہ انتشاری ٹولہ اسلام آباد سے سفر کرکے کوئٹہ پہنچا اوراسے ہاتھوں ہاتھ لیا گیا ، اس کی اپنی ہمدردیاں ان دہشت گرد گروہوں سے وابستہ ہیں جنہوں نے ہزاروں پاکستانیوں کو شہید کیا۔ جس ملک میں فوجی شہداء کی ماؤں کی آوازیں سننے والا کوئی نہ ہو، وہاں دہشت گردوں کی سہولت کاروں کے حق میں کیمپ اور مہمات چلائی جا رہی ہیں۔ یہ کوئی اتفاق نہیں، بلکہ ایک مکمل منظم سازش ہے، جس میں دشمن ایجنسیوں، نام نہاد این جی اوز، اور اندرونی سہولت کاروں کا پورا نیٹ ورک شامل ہے۔ اور ہماری حکومتیں ؟ وہ صرف “نوٹس” لے رہی ہے۔دنیا کے کسی بھی ملک میں ریاست مخالف بیانیہ کو اتنی ڈھیل نہیں دی جاتی جتنی یہاں حاصل ہے ۔ امریکہ میں کوئی کیپیٹل ہل پر حملہ کرے توسزائیں بھگتتا ہے، فرانس میں اگر کوئی ریاست کے وجود پر سوال اٹھائے تو اُس کی زبان بند کر دی جاتی ہے، بھارت، روس اور چین کی تو بات ہی چھوڑ دیجیےکہ ایسی حرکتوں پر کسی کو جینے کی مہلت بھی نہیں ملتی۔ مگر یہ پاکستان ہے جہاں بغاوت کو ’’رائے، علیحدگی کو حق‘‘ دہشت گردوں کو ’’مظلوم‘‘ قرار دیا جاتا ہے اور حکومتیں خاموش تماشائی بنی صرف بیان جاری کرنے پر اکتفا کر رہی ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ صرف جذبات کی بنیاد پر ہورہا ہے؟ نہیں، بلکہ یہ ایک مکمل ہائبرڈ وار ہے، جس کا مقصد پاکستان کو مفلوج کرنا ہے۔ اس جنگ میں ہتھیار نہیں، الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ بندوق کی جگہ بیانیہ ہے، اور گولی کی جگہ سیاسی حمایت۔ تحریک انصاف، بی این پی، اور ان جیسے دیگر عناصر آج اسی بیانیے کا حصہ ہیں۔ یہ خطرناک ترین بات ہے، کیونکہ یہ ملک کے اندر دشمن کا محاذ ہے، جو دن بدن مضبوط ہو رہا ہے ۔
ریاست کو اب فیصلہ کرنا ہوگا۔ یہ وقت نرم بیانات اور غیر موثر “تشویش” کا نہیں۔ یہ وقت ہے کہ آئین کی شق 6 کو حرکت میں لایا جائے۔ ان تمام عناصر پر مقدمات چلائے جائیں جو ریاست سے وفاداری کو جرم بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ ان سیاستدانوں کو ننگا کیا جائے جواقتدار کے لیے دشمنوں سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔ ان صحافیوں، اینکرز، اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو لگام دی جائے جو دشمن کا بیانیہ پھیلا رہے ہیں۔ اور ان “حقوق انسانی” کے بہروپیوں کو بے نقاب کیا جائے جو دراصل دہشت گردی کا سافٹ چہرہ بنے ہوئے ہیں۔ یا تو اب فیصلہ کر لیا جائے کہ دشمن صرف سرحد پار نہیں، ہمارے درمیان بھی ہے،یا پھر آنے والی نسلوں کو ذہنی غلامی، داخلی بغاوت، اور مسلسل خونریزی کا تحفہ دے دیا جائے۔ ہم کب تک قاتلوں کو گلے لگاتے رہیں گے؟ کب تک غداروں کے بیانیے کو ’’سیاسی اختلاف‘‘ کا نام دیتے رہیں گے؟ کب تک ریاستی اداروں کے خلاف کھلے عام نفرت انگیزی کو “رائے کی آزادی” سمجھتے رہیں گے؟وقت آ چکا ہے کہ ریاست پورے قد سے کھڑی ہو اور فیصلہ کرے کہ بہت ہو چکا، اب دشمن صرف دشمن ہے،خواہ وہ بندوق اٹھائے یا مائیک، دہشت گرد ہو یا جمہوریت کے لبادے میں۔ پاکستان کا مطلب’’لا الہ الا اللہ‘‘ ہے، اور اس مطلب پر سودے بازی نہ پہلے کی، نہ اب کی جائے گی۔ملک اس وقت جن خطرات سے دوچار ہے، ان میں سب سے مہلک اور ناپاک خطرہ وہ ہے جو دشمن کی گولیوں سے نہیں بلکہ اپنوں کی منافقت، اقتدار کی ہوس اور ریاستی مفادات سے کھلواڑ کی شکل میں ہمارے داخلی وجود کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے۔پاکستان اس وقت ایک سنگین نظریاتی جنگ کے دہانے پر کھڑا ہے۔ یہ جنگ ٹینکوں، میزائلوں اور بندوقوں سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ بیانیے کی جنگ ہے، نفسیاتی جنگ ہے، اور معلوماتی محاذ پر لڑی جانے والی جنگ ہے۔ریاست کو اب صرف ایک راستہ اپنانا ہوگا: سختی، یکسوئی، اور غداری پر بے رحم ضرب۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: دہشت گردوں کی سوال یہ ہے کہ سہولت کار کے ساتھ ملک میں ماہ رنگ رہے ہیں اور ان رہا ہے

پڑھیں:

بھارتی ریاست تلنگانہ میں المناک بس حادثہ، 20 افراد ہلاک

ریاستی وزیراعلیٰ ریڈی نے رنگا ریڈی ضلع کے کلکٹر کو ہدایت دی ہے کہ وہ بچاؤ اور راحت کے کاموں میں مزید تیزی لائیں تاکہ متاثرہ لوگوں کو فوری اور موثر امداد مل سکے۔ اسلام ٹائمز۔ تلنگانہ کے رنگا ریڈی ضلع کے چیویلا منڈل میں ایک المناک سڑک حادثے میں بس میں سوار 20 افراد کی موت ہوگئی جب کہ درجنوں مسافروں کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔ حیدرآباد بیجاپور شاہراہ پر چیویلا منڈل کے مرزا گوڈا کے قریب یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب تانڈور ڈپو کی ایک آر ٹی سی بس سیدھے مٹی سے لدے ایک ٹپر ٹرک سے ٹکرا گئی۔ یہ ٹکر اتنی بھیانک تھی کہ ٹپر پر لدی مٹی بس کے اندر گری جس سے کئی مسافر اس کے نیچے دب گئے۔ ٹپر کے ڈرائیور نے موقع پر ہی دم توڑ دیا۔ اطلاعات کے مطابق حادثے کے وقت بس میں 70 سے زائد مسافر سوار تھے۔ دو گاڑیوں میں خوفناک تصادم کے بعد بس میں افراتفری مچ گئی اور متعدد مسافروں کو شدید چوٹیں آئی ہیں۔ مقامی لوگوں اور پولیس نے فوری طور پر امدادی کارروائیاں شروع کیں اور زخمیوں کو نکال کر چیویلا کے سرکاری اسپتال پہنچایا گیا، جہاں ان کاعلاج کیا جارہا ہے۔ اطلاع ملتے ہی موقع پر پہنچی پولیس نے تفتیش شروع کردی ہے۔

اس موقع پر ریاستی وزیراعلیٰ ریونت ریڈی نے حادثے پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا اور فوری طور پر افسران کو ضروری ہدایات جاری کیں۔ انہوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ جائے وقوعہ پر راحت اور بچاؤ کے کاموں کو کسی بھی قیمت پر تیز کیا جائے اور زخمیوں کو بہترین علاج فراہم کرایا جائے۔ وزیراعلیٰ کے دفتر سے جاری ایک بیان کے مطابق وزیراعلیٰ ریونت ریڈی نے تلنگانہ کے چیف سکریٹری اور ڈائرکٹر جنرل آف پولیس (ڈی جی پی) کو براہ راست ہدایت دی ہے کہ حادثے میں زخمی ہونے والوں کو فوری طور پر حیدرآباد کے اسپتالوں میں منتقل کیا جائے۔

انہوں نے یہ بھی ہدایت کی ہے کہ زخمیوں کے علاج میں کوئی کوتاہی نہ ہو اور انہیں بہترین طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ وزیراعلیٰ نے تمام سطحوں پر افسران کو ہدایت دی ہے کہ وہ صورتحال سے باخبر رہیں اور حادثے کے بارے میں مسلسل اپ ڈیٹ فراہم کریں۔ انہوں نے وزراء کو بھی جائے وقوعہ پر پہنچ کر صورتحال کا جائزہ لینے اور انتظامیہ کو ہر ممکن مدد پہنچانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعلیٰ ریڈی نے رنگا ریڈی ضلع کے کلکٹر کو ہدایت دی ہے کہ وہ بچاؤ اور راحت کے کاموں میں مزید تیزی لائیں تاکہ متاثرہ لوگوں کو فوری اور موثر امداد مل سکے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی ریاست تلنگانہ میں المناک بس حادثہ، 20 افراد ہلاک
  • طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری کر رہے ہیں، پاکستان اپنی سیکیورٹی خود یقینی بنائے گا،  ڈی جی آئی ایس پی آر
  • غزہ میں فوج بھیجنے کا فیصلہ حکومت اور پارلیمنٹ کریگی، فوج کو سیاست سے دور رکھا جائے، ڈی جی آئی ایس پی آر
  • خیبر، دہشت گردوں نے مغوی پولیس اہلکار رہا کردیا
  • پنجاب بڑی تباہی سے بچ گیا، 18 دہشت گرد گرفتار
  • افغان وفدنے دہشت گردوںکی حوالگی کی پیشکش نہیں کی‘پاکستان
  • سی ٹی ڈی نے دو دہشتگرد گرفتار کرلیے
  • پنجاب کے مختلف شہروں سے 18 دہشت گرد گرفتار، بارودی مواد برآمد
  • امریکا, دہشت گردی کی کوشش ناکام، 5 افراد گرفتار
  • دہشت گردوں کی سرپرستی کاخاتمہ ناگزیر