اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 06 اپریل 2025ء) یورپی ممالک میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درج کی جانے والی درخواستوں کے مرکزی ڈیٹا بینک کے دفتر ''یورو اسٹیٹ‘‘ کے تازہ ترین اعداد و شمار سے یہ انکشاف ہوا ہے کہ 2024 ء میں یورپی یونین میں شامل ممالک میں جمع کروائی گئی پناہ کی پہلی درخواستوں میں 13 فیصد کی کمی واقع ہوئی۔

سیاسی پناہ کی پہلی درخواستوں میں کمی کا یہ رجحان 2022 ء کے بعد دیکھنے میں آیا۔

جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں واضح کمی

یورو اسٹیٹ کے اعداد وشمار کیا کہتے ہیں

یورواسٹیٹ کی رپورٹ کے مطابق 27 رکنی یورپی بلاک کے رکن ممالک میں غیر یورپی یونین ممالک سے آکر درج کروائی گئی سیاسی پناہ کی اولین درخواستوں کی تعداد 912,000 رہی جو 2023 ء کی تعداد کے مقالے میں ایک ملین سے زیادہ کی کمی ہے۔

(جاری ہے)

درخواست دہندگان کون تھے؟

یورو اسٹیٹ کے مطابق پناہ کی پہلی بار درخواست جمع کروانے والوں میں شامل گروپوں میں سب سے بڑا گروپ شامی باشندوں کا تھا۔ یہ رجحان 2013 ء سے ہر سال ایسا ہی چلا آ رہا ہے۔ یہ تعداد پناہ کی پہلی کُل درخواستوں کا 16 فیصد بنتا ہے۔ شامی پناہ گزینوں کے بعد سیاسی پناہ کی پہلی درخواست جمع کروانے والا دوسرا بڑا گروپ وینزویلا کے باشندوں کا تھا اور اُس کے بعد نمبر پناہ کے متلاشی افغان باشندوں کے گروپ کا تھا اور ان دونوں کی شرح 8 فیصد ہے۔

جرمنی نے مہاجرت کنٹرول کرنے کے لیے سرحدوں پر سختی کردی

یورپ میں پناہ کے بے قاعدہ اندراجات

یورپی یونیورسٹی انسٹی ٹیوٹ میں مائیگریشن پالیسی سینٹر کے ڈائرکٹر اینڈریو گیڈس نے ایک ای میل بیان میں اس بارے میں روئٹرز کوبتایا کہ یورو اسٹیٹ کے اعداد و شمار سے اس امر کی نشاندہی بھی ہوئی ہے کہ یورپی یونین کی سرحدوں میں پناہ کے بے قاعدہ اندراجات کا سراغ مل جانے والے کیسز کی تعداد میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔

اُدھر یورپی یونین کی سرحدی نگرانی کی ایجنسی فرونٹیکس نے کہا ہے کہ 2024 ء میں غیر قانونی راستوں سے یورپی یونین میں داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد میں مجموعی طور پر 38 فیصد کی کمی آئی جو2021ء کے بعد سے اب تک کی سب سے کم سطح ہے۔

پناہ کے سخت قوانین اور ناروا سلوک، تارکین وطن شمالی برطانیہ کی طرف بڑھنے پر مجبور

اینڈریو گیڈس نے کہا کہ ان اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یورپی یونین میں داخلے کو منظم کرنے کی کوششیں کسی حد کامیاب ہوئی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا،''اس رجحان کا ایک پوشیدہ پہلو بھی ہے۔ وہ یہ کہ نقل مکانی کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد شمالی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں پائی جاتی ہے۔ اُن علاقوں میں جہاں کے ممالک میں تحفظ کے معیارات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کے بارے میں شدید خدشات پائے جاتے ہیں۔"

پناہ گزینوں کو درپیش مسائل

پناہ گزینوں اور جلاوطنی سے متعلق یورپین کونسل کی ڈائرکٹر کیتھرین وولارڈ نے خبر رساں ایجنسی روئٹرز کو ایک ای میل کے ذریعے مطلع کیا کہ وینیزویلا کے باشندوں کی طرف سے جمع کروائی گئی پناہ کی درخواستوں کی تعداد افغان پناہ گزینوں کی دوخواستوں سے زیادہ تھی۔

یہ امر اس بات کا ثبوت ہے کہ افغان باشندوں کو فرار ہونے میں بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہے۔

2023ء: یورپ میں پناہ کی درخواستیں 10 لاکھ سے زائد

یورواسٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق شام سے آکر یورپی یونین کے کسی ملک میں پناہ کی پہلی درخواست دہندگان کی تعداد 2024 ء میں تقریباً 148,000 رہی جو 2023 ء کے مقابلے میں پہلی بار درج کی گئی شامی باشندوں کی درخواستیں کے مقابلے میں 19.

2 فیصد کم ہے۔

برطانیہ میں پناہ: سمندری راستوں سے آنے والوں پر پابندی کا منصوبہ

کیتھرین وولارڈ کا اندازہ ہے کہ اگر سابق صدر بشار الاسد کی حکومت کے زوال کے بعد شام میں سیاسی استحکام کی صورتحال بہتر ہوتی ہے تو مستقبل میں شام سے آنے والوں کی پناہ کی درخواستوں کی تعداد مزید کم ہو سکتی ہے۔ اگرچہ 2024 ء کے اعداد و شمار کے اثرات پر روشنی ڈالنا فی الحال قبل از وقت ہے۔

یورپی یونین کے ممالک میں بین الاقوامی تحفظ حاصل کرنے کی غرض سے دی گئیں پناہ کی درخواستوں کی کُل تعداد کا تین چوتھائی سے زیادہ جرمنی، اسپین، فرانس اور یونان میں درج ہوا۔

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے درخواستوں کی تعداد پناہ کی درخواستوں یورپی یونین میں سیاسی پناہ کی پناہ گزینوں یورو اسٹیٹ کے اعداد ممالک میں میں پناہ اسٹیٹ کے پناہ کے کے بعد

پڑھیں:

غزہ کا 90 فیصد حصہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا، اقوام متحدہ کا ہولناک انکشاف

غزہ:

بین الاقوامی ادارہ برائے مہاجرین (IOM) نے انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں 90 فیصد سے زائد مکانات مکمل یا جزوی طور پر تباہ ہو چکے ہیں، جس سے لاکھوں افراد کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔

ادارے نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ انسانی بنیادوں پر غزہ میں داخلے کے راستے فوری طور پر کھولے تاکہ پناہ گاہی امداد متاثرہ افراد تک پہنچائی جا سکے۔

بین الاقوامی ادارے نے اقوام متحدہ کے انسانی امور کی رابطہ ایجنسی (OCHA) کے ڈیٹا کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی جاری کارروائیوں کے باعث غزہ کے شہری شدید انسانی بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: غزہ میں جنگ بندی کیلئے قطر اور مصر نے نئی تجویز پیش کردی

آئی او ایم نے گزشتہ روز ایک بیان میں کہا کہ محفوظ جگہ نہ ہونے کے باعث خاندان کھنڈرات میں پناہ لینے پر مجبور ہیں۔

ادارے کے مطابق، امدادی سامان اور پناہ گاہی سہولیات موجود ہیں لیکن داخلی راستوں کی بندش کے باعث غزہ میں انسانی امداد کی فراہمی ممکن نہیں ہو رہی۔ آئی او ایم نے واضح کیا کہ اگر راستے کھول دیے جائیں تو فوری طور پر متاثرین کو ضروری امداد فراہم کی جا سکتی ہے۔

واضح رہے کہ 2 مارچ سے اسرائیل نے غزہ کے داخلی راستے مکمل طور پر بند کر رکھے ہیں، جس کے باعث نہ صرف امدادی سامان کی فراہمی معطل ہو چکی ہے بلکہ قحط کے خدشات بھی بڑھ گئے ہیں۔

مزید پڑھیں: اسرائیل نے غزہ کے 30 فیصد علاقے پر قبضہ کرلیا، امداد کی فراہمی روکنے کا فیصلہ برقرار

صیہونی افواج کی کارروائیوں کے نتیجے میں غزہ کے بیشتر علاقے ملبے کا ڈھیر بن چکے ہیں، اور تقریباً پوری آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔

یہ صورتحال اس وقت بھی جاری ہے جب اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو اور سابق وزیر دفاع یوآو گیلنٹ کے خلاف انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (ICC) میں جنگی جرائم اور نسل کشی کے الزامات کے تحت مقدمہ زیر سماعت ہے۔ اس کے باوجود، اسرائیلی جارحیت میں کوئی کمی نہیں آ رہی۔

متعلقہ مضامین

  • غزہ کا 90 فیصد حصہ صفحہ ہستی سے مٹ گیا، اقوام متحدہ کا ہولناک انکشاف
  • غزہ، گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران مزید 50 فلسطینی شہید
  • 12 ہزار سے زائد غیر قانونی مقیم افغانی ڈی پورٹ
  • جے این یو طلباء یونین انتخابات کی صدارتی بحث میں پہلگام، وقف قانون اور غزہ کا مسئلہ اٹھایا گیا
  • جرمنی شامی مہاجرین کو اپنے گھر جانے کی اجازت دینا چاہتا ہے
  • یورپی یونین نے ایپل اور میٹا پر ڈیجیٹل مسابقتی قوانین کی خلاف ورزی پر 70 کروڑ یورو کا جرمانہ عائد کر دیا
  • ترکیہ میں 6.2 شدت کا زلزلہ، کئی یورپی ممالک میں بھی جھٹکے محسوس کیے گئے
  • انسانیت کے نام پر
  • نو مئی مقدمات:بانی پی ٹی آئی کی ضمانت کی درخواستوں کی کاز لسٹ منسوخ
  • عمران خان کی 9 مئی کے 8 مقدمات میں ضمانت کی درخواستوں کی کاز لسٹ منسوخ