مرغی کے گوشت کی قیمتوں کو ایک بار پھر پر لگ گئے
اشاعت کی تاریخ: 6th, April 2025 GMT
کراچی(نیوز ڈیسک)کراچی میں مرغی کے گوشت کی فی کلو قیمت 800 روپے تک جا پہنچی۔
کراچی میں دودھ فروشوں کی من مانیوں کے بعد مرغی کا گوشت فروخت کرنے والوں نے بھی قیمتوں میں من مانا اضافہ کررکھا ہے۔
شہرکے مختلف علاقوں میں مرغی کا گوشت 800 روپے سے زائد فی کلو میں فروخت ہورہی ہے جبکہ مرغی کےگوشت کی سرکاری قیمت 650 روپے فی کلو مقرر ہے۔
دکاندار کا کہنا ہے کہ پولٹری فارمرز مہنگائی کے اصل ذمہ دار ہیں، پولٹری فارمرز سے مرغی مہنگی ملتی ہے جس کے باعث سرکاری نرخ پر فروخت کرنا ممکن نہیں ہے۔
شہریوں نے زائد نرخ پر مرغی کا گوشت بیچنے والوں کیخلاف کارروائی کا مطالبہ کرتے ہوئے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ اس مسئلے کو حل کریں۔
دوسری جانب پولٹری کے تاجر نے قیمتوں میں اضافے کی وجہ عید کی چھٹیوں کے دوران مانگ میں اضافے، سپلائی چین میں خلل اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو قرار دیا ہے۔
مزیدپڑھیں:ملک میں ایک ماہ میں مہنگائی کتنی بڑھی؟
ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
پاکستانی ماہرین نے سالانہ 200 انڈے دینے والی مرغی تیار کرلی
فیصل آباد:پاکستانی ماہرین نے پولٹری فارمنگ کے شعبے میں بڑی کامیابی حاصل کرتے ہوئے دیہی علاقوں کے لیے موزوں نئی مرغی کی نسل متعارف کروا دی ہے، جو سال بھر میں 200 سے زائد انڈے دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
زرعی یونیورسٹی فیصل آباد کے ماہرین نے اس منفرد بریڈ کو ’’یونی گولڈ‘‘ کا نام دیا ہے، جو کم فیڈ پر پلتی ہے اور شدید موسم، خاص طور پر گرمی کو بخوبی برداشت کر سکتی ہے۔
نئی نسل کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ عام دیسی مرغی کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ انڈے دیتی ہے، جبکہ خوراک کی طلب نسبتاً کم ہے، جو اسے چھوٹے فارمرز کے لیے ایک بہترین انتخاب بناتی ہے۔
ماہرین کے مطابق یونی گولڈ بریڈ دیہی علاقوں میں پولٹری انڈسٹری کے فروغ کے لیے ایک گیم چینجر ثابت ہو سکتی ہے، کیونکہ اس سے انڈوں کی پیداوار کے ساتھ ساتھ گوشت کی ضروریات بھی پوری کی جا سکتی ہیں۔
سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی پاکستان میں گزشتہ 6 دہائیوں کے بعد حاصل ہوئی ہے، جو ملکی تحقیق میں ایک اہم سنگِ میل ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ نے اس نسل کو ملک بھر کے فارمنگ کرنے والوں تک پہنچانے کا منصوبہ بھی ترتیب دیا ہے، تاکہ مقامی سطح پر دیسی پولٹری کی پیداوار میں اضافہ ہو اور دیہی معیشت کو فروغ ملے۔
یہ مرغی نہ صرف ماحول کے لحاظ سے ہم آہنگ ہے بلکہ دیہی خواتین کے لیے روزگار کا ذریعہ بھی بن سکتی ہے، کیونکہ اس کی دیکھ بھال آسان اور کم لاگت ہے۔