(امیر تنظیم اسلامی پاکستان)
سورہ الذاریات آیت 56 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ؛ ترجمہ:’’ اور مَیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اِس لیے کہ وہ میری بندگی کریں ۔‘‘
عبادت کے مفہوم میں جو شے مطلوب ہے وہ تذلل ہے۔ یعنی جھک جانا، بچھ جانا۔ مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے جھک جائے، اْس کی بندگی اختیار کر لے، بندگی کا یہ تقاضا اِنفردی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر ہے اور پوری زندگی کے لیے ہے۔ اِس کیفیت کا بہت زیادہ اظہار تب ہوتا ہے جب بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے۔ اِس حوالے سے رسول اللہﷺ کی بہت جامع احادیث موجود ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا؛ ترجمہ :’’دعا عبادت ہے۔‘‘ اور ’’دعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘
دعا یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا ہے، اللہ کے سامنے اپنی کمزوری ، محتاجی، بے بسی کا اظہار کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی شان کریمی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود دعائیں ہمیں سکھائی ہیں ۔ کبھی اللہ تعالیٰ لفظ" قل" لاتا ہے ۔ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر24 میں ارشاد ہوتا ہے؛ ترجمہ :’’ اور دعا کرتے رہو: اے میرے رب اِن دونوں پر رحم فرما جیسے کہ اِنہوں نے مجھے بچپن میں پالا ۔ ‘‘سورہ طٰہٰ آیت 114 میں ہے ؛ترجمہ: ’’اور آپﷺ یہ کہتے رہا کیجیے کہ اے میرے ربّ! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘ اور کبھی اللہ تعالیٰ دعائیہ کلمات عطا کرتا ہے۔
جیسا کہ سورۃالفاتحہ ہے : اِھدِنَا الصِّرَاطَ المْستَقِیمَo ہمیں ہدایت دے سیدھے راستے کی۔ یہ دعائیہ انداز خود اللہ تعالیٰ سکھا رہا ہے اورکبھی اللہ تعالیٰ پیغمبروں اور اپنے نیک بندوں کی دعائیں قرآن حکیم میں نقل کرتا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت آسیہؑ کی دعا بھی سورۃ التحریم آیت11میں موجود ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے:’’ اے میرے پروردگار! تْو میرے لیے بنا دے اپنے پاس ایک گھر جنّت میں ۔‘‘ اِن مختلف پیرایوں میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا مانگنا سکھایا ہے۔
سورۃ ابراہیم کا چھٹا رکوع اِس حوالے سے انتہائی اہم ہے جس میں سیدنا ابراہیمؑ کا ذکر خیر بھی ہے ، دعا کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں، عاجزی اور انکساری کا ذکر بھی آرہا ہے، دعا کے اعتبار سے پیغمبرانہ طرز عمل بھی اللہ تعالیٰ نقل فرما رہا ہے ، روحانی نعمتیں مانگنے کا تذکرہ بھی ہے۔ اِسی طرح مقصدِ زندگی بھی واضح ہو رہا ہے اور اپنی اولاد کے بارے میں فکرمند ہونے کے اعتبار سے یہ رہنمائی بھی آ رہی ہے کہ اولاد کو سیٹل کرنا ہے تو کِن مقاصد کے تحت سیٹل کرنا چاہیے۔
آجکل ہمارے ہاں امیگریشن اور ہجرت بہت ہو رہی ہے ۔ یقیناً لوگوں کے معاشی مسائل بھی ہیں جس کی وجہ سے لوگ دھڑا دھڑ بیرون ملک جا رہے ہیں ۔ یہ ہجرت دنیوی مفادات کے زیر اثر ہوتی ہے لیکن مذکورہ رکوع میں مہاجرت کے اعلیٰ ترین مقاصد کی بھی نشاندہی ہوتی ہے ۔ یہ بھی سکھایا جا رہا ہے کہ صرف اپنی ذات کی فکر کرنا کافی نہیں بلکہ اپنے گھر والوں اور تمام مسلمانوں کے بارے میں بھی فکرمند ہونا چاہیے اور یہ فکر مندی صرف دنیا کے لیے نہیں بلکہ اصل میں آخرت کے حوالے سے ہونی چاہیے۔ اِسی طرح صرف اللہ سے ہی مانگنا، اْس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اللہ کی شکرگزاری کا راستہ اختیار کیے رکھنا وغیرہ یہ سب پہلو اِن دعائیہ آیات کے ذیل میں آتے ہیں ۔
سورہ ابراہیم آیت:35 میں ہے ؛ ترجمہ: ’’ اور یاد کرو جب کہا ابراہیم ؑ نے کہ اے میرے رب اِس شہر (مکہ) کو بنا دے اَمن کی جگہ۔‘‘ یہ دعا اَمن کے حوالے سے ہے جو ہم اپنے شہر، اپنے ملک اور پورے عالم کے لیے بھی کرسکتے ہیں۔ اَمن کتنی بڑی نعمت ہے اور پوری دنیا آج اِس کی ضرورت محسوس کر رہی ہے۔ اَمن ہو گا تو معاشی سرگرمی بھی ہو گی اور اللہ کی بندگی کے تقاضے پورے کرنے میں سہولت بھی ہو گی اور لوگ اپنی آخرت کے لیے بھی تیاری کر سکیں گے۔
یہ دعا مادی اور روحانی نعمتوں کے اعتبار سے بہت بڑی دعا ہے آگے فرمایا : ترجمہ: ’’اور بچائے رکھ مجھے اور میری اولاد کو اِس سے کہ ہم بْتوں کی پرستش کریں۔‘‘ یہ پیغمبر کی عاجزی ہے اور اْمّت کے لیے تعلیم ہے۔ پھر آیت 36 میں فرمایا؛ ترجمہ:’’اے میرے پروردگار! اِن ْبتوں نے (پہلے بھی) بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔‘‘ آگے فرمایا؛ ترجمہ:’’ تو جو کوئی میری پیروی کرے، وہ تو بلاشبہ مجھ سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو بلاشبہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ حضرت ابراہیمؑ کی اِس بات میں شفاعت کاایک لطیف انداز ہے۔ یہ ابوالانبیاء ابراہیمؑ بھی سکھاتے ہیں اور یہ روح اللہ عیسیٰؑ کا ایک انداز قیامت کے دن ہو گا اور پھر یہ انداز امام الانبیاء محمد مصطفیﷺ نے زمین پر بھی اختیار کیا ۔
حضرت عیسیٰﷺ کا اِس حوالے سے قرآن میں مکالمہ نقل ہوا ہے۔ سورۃ المائدہ کی آیت 118میں فرمایا؛ ترجمہ :’’اب اگر تو اْنہیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تْو اْنہیں بخش دے تو تو زبردست ہے ، حکمت والا ہے۔‘‘ تیرے اختیار کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ، ٹال نہیں سکتا اور پھر تو حکیم ہے، تیرا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اے اللہ! اگر توسب کو معاف کرنے کا فیصلہ کر لے تو تیرا پورا اختیار بھی ہے اور تیرا یہ فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہے ۔ پیغمبر ہمیں مانگنا سکھا رہے ہیں ۔ مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے تہجد کی نماز میں یہ آیت پوری رات تلاوت کی ہے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ کو اپنی اْمّت کا بہت خیال تھا اور کیوں نہ ہوتا کہ آپ رحمۃ للعالمینﷺ ہیں ۔
سورہ التوبہ آیت 128 میں ارشاد ہوتا ہے؛ ترجمہ :"بہت بھاری گزرتی ہے آپﷺ پر تمہاری تکلیف ، تمہارے حق میں آپﷺ (بھلائی کے) بہت حریص ہیں ، اہل ایمان کے لیے شفیق بھی ہیں، رحیم بھی۔‘‘ سورۃ ابراہیم میں آگے فرمایا ؛ ترجمہ: ’’اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد (کی ایک شاخ) کو آبادکر دیا ہے، اِس بے آب و گیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس ، اے ہمارے پروردگار ! تاکہ یہ نماز قائم کریں ، تو تْو لوگوں کے دلوں کو اْن کی طرف مائل کر دے۔‘‘
حضرت ابراہیمؑ کی پوری زندگی امتحانات سے بھری ہوئی تھی۔ سورہ البقرۃ آیت 124میں ارشا د باری تعالیٰ ہے: ’اورذرا یاد کرو جب ابراہیمؑ کو آزمایا، اْس کے ربّ نے بہت سی باتوں میں تو اْس نے اْن سب کو پورا کر دکھایا۔‘‘ امتحان لینے والا رب اْن کو یہ سند دے رہا ہے۔ اِنہی امتحانات میں ایک یہ بھی تھا کہ اْنہوں نے اپنے دودھ پیتے بچے (حضرت اسمٰعیلؑ) کو اْس کی ماں (بی بی حاجرہؑ) کے ساتھ مکہ کی بے آباد زمین میں چھوڑ دیا۔ بی بی حاجرہؑ کا آخری ایک سوال یہ تھا کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟ توآپؑ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ بی بی حاجرہؑ نے کہا: پھر آپؑ بے فکر ہو کر جائیں، اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ یہ حضرت ہاجرہؑ کا اللہ پر توکل تھا۔ پھر صفا و مروہ کے درمیان پانی کی تلاش میں دوڑنا اور اللہ تعالیٰ کا زم زم عطا کرنا، یہ مشہور واقعات ہیں۔
بہرحال اِس سارے واقعہ سے تعلیم یہ ملتی ہے کہ اللہ کی فرمانبرداری میں زندگی گزارو، گھر بار چھوڑنا پڑے تو اللہ کی رضا اور اللہ کے دین کے لیے چھوڑو۔ دوسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ خانہ کعبہ پہلے سے مکہ میں موجود تھا ۔ روایت کے مطابق اِس کی تعمیر سب سے پہلے حضرت آدمؑ نے کی تھی ، پھر حضرت ابراہیمؑ نے اِس کی دوبارہ تعمیر کی۔آپؑ نے جو دعا کی تھی کہ اے اللہ! اِس خاندان کو تیرے حکم پریہاں آباد کر رہا ہوں تاکہ تیرا یہ گھردوبارہ آباد ہو، یہاں تیرا ذکر ہو، تیرا نام لیا جائے اور دنیا جہاں سے لوگ یہاں پر آئیں۔ آج کروڑوں مسلمانوں کے دل اِس مقدس مقام کی طرف مائل ہیں۔ یعنی اِس ہجرت کا اصل مقصد روحانی تھا ، باقی سب باتیں اِس مقصد کے تابع تھیں۔ اِسی لیے اِس کے بعد آپؑ نے دنیوی نعمتوں کے لیے دعا کی۔
سورہ ابراہیم کی آیت37 میں فرمایا؛ ترجمہ:’’ اور اْن کو رزق عطا کر پھلوں سے، تاکہ وہ شکر ادا کریں۔‘‘ ثمرات کا لفظ پھلوں کے لیے بھی آتا ہے، کھانے پینے کی چیزوں کے لیے بھی آتا ہے ، پیداوار کے لیے بھی آتا ہے اور محنتوں کے نتائج کے لیے بھی آتا ہے ۔ یہاں پر مادی اعتبار سے جوکھانے پینے کی چیزیں ہیں اْن کی طرف اشارہ ہے۔ آج بھی مکہ مکرمہ کے پہاڑوں میں اْگتا کچھ بھی نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسی کون سی نعمت ہے، جو وہاں عطا نہیں کر رکھی ۔ یہ ابراہیمؑ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ اِس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ نماز پڑھنا بھی شکر ہے، اللہ کے دین کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا بھی شکر کا تقاضا ہے۔ لیکن آج مسلمان یہ تقاضا بھول چکے ہیں ۔
آگے عرض کیا :’’اے ہمارے پروردگار ! تو ْخوب جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں ۔ کل شْکر اور کْل ثنا اْس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے عطا فرمائے‘ باوجود بڑھاپے کے اسماعیلؑ اور اسحاقؑ (جیسے بیٹے)۔‘‘ بیوی اور اولاد سے فطری محبت ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ دودھ پیتے بچے اور بیوی کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔
اْن کے دل کے جذبات بھی تھے مگر اْن کا ایمان تھا کہ اللہ تعالیٰ اسباب پیدا کر دے گا اور اْن کی حفاظت فرمائے گا۔ یہ غیب اور ظاہر کی تقسیم ہمارے اعتبارسے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی شے غیب یا پوشیدہ نہیں ہے۔ آگے فرمایا؛ ترجمہ:’’اور اللہ پرتو کوئی شے مخفی نہیں، زمین میں اور نہ آسمان میں ، یقینا ً میرا پروردگار دعاؤں کا سننے والا ہے ۔‘‘
اللہ تعالیٰ دعا مانگنے کا حکم بھی دیتا ہے ، دعا کے آداب بھی سکھاتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ دعا کی قبولیت کا یقین بھی رکھو اور دعا کی قبولیت کا اقرار بھی کرو ۔ ارشاد ہوتا ہے ؛ ترجمہ :’’ اے میرے پروردگار! مجھے بنا دے نماز قائم کرنے والا اور میری اولاد میں سے بھی‘ اے ہمارے پروردگار ! میری اِس دعا کو قبول فرما۔‘‘ پیغمبر سے بڑھ کرکون اللہ کی بندگی کرنے والا ہو گا لیکن وہ بھی دعا کر رہے ہیں کہ مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد کو بھی۔ یعنی نماز اِس قدر اہم ہے۔آج بچوں کے سکولوں کے نتائج کی ہمیں کتنی فکر ہے لیکن کیا ہمیں فکر ہے کہ اْن کی نمازیں ضائع ہو رہی ہیں؟۔ انگریزی انگریز کے لہجے میں نہیں بول پا رہے تو پریشانی ہے لیکن اللہ کا کلام گھروں میں بند پڑا ہے،کیا اِس پر پریشانی ہے؟ حالانکہ ایک مسلمان کے لیے فکرمندی کی بات کیا ہونی چاہیے، اللہ کے پیغمبروں کی اِن دعاؤں میں ہمیں تعلیم دی جا رہی ہے۔
آگے فرمایا؛ترجمہ:’’اے ہمارے پروردگار! مجھے‘میرے والدین اور تمام مومنین کو بخش دے، جس دن حساب قائم ہو۔‘‘ حضرت ابراہیمؑ کی یہ دعا ایک جامع دعا ہے جس میں اپنے لیے بھی دنیا و آخرت کی بھلائی مانگی گئی، اپنی اولاد کے لیے بھی اور پھر اپنے والدین کے لیے بھی اور اِس میں آخرت کی فکرمندی بھی آگئی۔
آج نوجوان نسل میں ایسے بھی ہیں کہ اْنہیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ اْنہیں اپنے ماں باپ کے لیے دعا بھی کرنا ہوتی ہے ۔ اب تو بڑے شہروں میں اولڈ ہاؤسز بہت بڑھ رہے ہیں ۔ جو اولاد والدین کو نکال رہی ہے، ایسی اولاد سے کم ہی توقع ہے کہ وہ ماں باپ کے لیے دعا بھی کرتی ہو گی۔ اِس میں ماں باپ کا بھی قصور ہے کہ اْنہوں نے اپنی اولاد کی تربیت اْن خطوط پر نہیں کی جن کی تعلیم پیغمبروں نے دی تھی ۔ اللہ ہمیں اِن نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورقرآن کی تعلیمات پر غوروفکر کرنے اور اْن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین !
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: اے ہمارے پروردگار کے لیے بھی ا تا ہے بھی اللہ تعالی ارشاد ہوتا ہے حضرت ابراہیم ا گے فرمایا اپنی اولاد حوالے سے اور اللہ ا رہا ہے کرتا ہے رہے ہیں ہے لیکن اے میرے اللہ کے ہوتی ہے اللہ کی ہے کہ ا اپنی ا بھی کر ہے اور دعا کی تھا کہ ا نہیں یہ بھی رہی ہے یہ دعا
پڑھیں:
اے اللہ! فلسطینیوں کی مدد فرما!
ریاض احمدچودھری
مسجد الحرام کے امام شیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللّٰہ نے خطبہ حج میں دعا کی کہ اے اللہ فلسطین کے بھائیوں کی مدد فرما، ان کے شہدا کو معاف فرما، زخمیوں کو شفا دے اور ان کے دشمنوں کو تباہ و برباد کر دے، فلسطین کے دشمن بچوں کے قاتل ہیں، ان قاتلوں کو تباہ کر دے۔حج کے رکن اعظم وقوف عرفہ کے دوران میدان عرفات کی مسجد نمرہ میں خطبہ حج دیتے ہوئے شیخ ڈاکٹر صالح بن عبد اللّہ نے کہا کہ اے ایمان والوں اللہ سے ڈرو اور تقویٰ اختیار کرو، تقویٰ اختیار کرنا ایمان والوں کی شان ہے، اے ایمان والوں عہد کی پاسداری کرو، اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
زمین اور آسمان کا مالک صرف رب ہے، تقویٰ اختیار کرنے والوں کو جنت کی نوید سنائی گئی ہے، اے ایمان والوں اپنے ہمسائیوں کے حقوق کا خیال رکھو، شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے اس سے دور رہو، اللہ اور اس کے دین پر قائم رہو، اللہ اور اس کے رسول ۖ کی تعلیمات پر عمل کرو۔’بدعت اور غیبت سے دور رہو۔ رب کے سوا غیر کو مت پکارو۔ رب کے سوا کسی غیر کی عبادت مت کرنا۔ نبی اکرم ۖ اللہ کے آخری رسول ہیں، وہ خاتم النبین ہیں۔ اللہ اور بندے کا تعلق نجات کا ذریعہ ہے۔ اللہ نے فرمایا تعاون کرو اور تقویٰ اختیار کرو۔ اپنے والدین سے نیکی کرنا اور سچ بولنا ہے۔’خطبہ حج میں کہا گیا کہ یتیموں، مساکین، بیواؤں اور ہمسایوں کے ساتھ شفقت فرماؤ، اللہ کسی تکبر اور غرور کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا، اے ایمان والوں عہد کی پاسداری کرو، شیطان تمہارے درمیان دوریاں ڈالتا ہے۔’نماز قائم کرو، زکوة ادا کرو، رمضان کے روزے رکھو اور حج کرو۔ روزہ صبر اور برداشت کا درس دیتا ہے۔ ضرورت مندوں کو کھانا کھلاؤ، اللہ تمہارا حج قبول کرے۔ خادم الحرمین شریفین نے ضیوف الرحمان کیلیے بہترین انتظامات کیے۔ حجتہ الوداع میں نبی پاک ۖ نے حج کرنے کا طریقہ سکھایا۔ حضرت محمد ۖ نے مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے قیام کیا۔ حضرت محمد ۖ نے شیطان کو کنکریاں مار کر تزکیہ نفس کے بارے میں بتایا۔’امام مسجد الحرام نے کہا کہ ان دنوں میں اللہ کا تذکرہ کرو یہی تمہارے دن ہیں، اللہ خوش ہوتا ہے کہ میری خاطر جمع ہوئے ہیں، آپ اس مقام پر ہیں جس میں دعا قبول ہوگی، اللہ ہمارے مناسک حج کو قبول فرما، اے اللہ ہمارے گھروں میں عافیت فرما وطن کی حفاظت فرما۔ امت مسلمہ اسی صورت میں بام عروج تک پہنچ سکتی ہے جب قرآن و سنت کو مضبوطی سے تھامے اورہرپہلومیں انہیں سرچشموں سے راہ ہدایت حاصل کریں ۔ امت مسلمہ اپنے اصلی منصب تبلیغ و دعوت کی طرف پلٹ کر اورجہادوقتال کے راستے کواپناکر اس دنیامیں اپنا ایک مقام حاصل کر سکتی ہے۔
آنحضرت محمد ۖ محسن انسانیت ہیں، انسان کامل ہیں اور ہر لحاظ سے قابلِ تقلید ہیں۔ آپۖ کی زندگی قیامت تک کے انسانوں کے لئے بہترین نمونہ ہے۔ بطور مسلمان ہمیں ہر وقت اللہ کریم کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے کہ اْس نے ہمیں آپۖ کا اْمتی بنایا۔ جو شخص دنیا میں آپۖ پر ایمان لائے گا اور آپۖ کی اطاعت و پیروی کرے گا اْسے دونوں جہانوں میں آپۖ کی رحمت سے حصہ ملے گا۔ ہمارے ایمان کا تقاضا ہے کہ ہم سیرتِ نبوی ۖکا مطالعہ کریں اور اپنی زندگی کے ہر پہلو میں نبی کریم ۖ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہوں۔ آپ ۖکی سیرتِ طیبہ کو اپنے لئے مشعلِ راہ بنائیں تا کہ ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائیں۔اسلام کی اس سچائی اور عظمت شان کی وجہ یہ ہے کہ اس کا پیغام اور اس کا انداز ِفکر انسانوں تک دنیا کے مفکر ین وعقلاء کے واسطہ سے ،دنیا کے قانون دانوں اور حقوق کی آواز بلند کرنے والے انسانوں کے ذریعہ یا فلاسفہ وخیالی تانے بانے جوڑنے والوں یا سیاسی قائدین ورہنمائوں کے ذریعہ یا سماجی کارکنوں اور تجربات سے گزرنے والے ماہر نفسیات کی جانب سے نہیں پہنچا بلکہ نبیوں اور رسولوں کے واسطہ سے پہنچا ہے جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی جانب سے وحی آتی تھی۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ « بیشک آپ کو اللہ حکیم وعلیم کی طرف سے قرآن سکھایا جارہا ہے۔”(النمل6)
آج امت کی زبوں حالی کی سب سے بڑی اور بنیادی وجہ اشرافیہ کی غفلت، نادانی، عیاشی اور ملت فراموشی ہی ہے۔ جہاں تک متوسط و نادار طبقے کا تعلق ہے تو یہ بے چارے کسی طرح دو وقت کی روٹی کما کر باعزت زندگی گزارنے کی کوشش کر رہے ہیں اور حتیٰ الامکان اپنے معاملات کو اسلامی نہج پر ڈھالنے کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ انہیں نہ تو بڑے بڑے مذہبی فلسفوں سے غرض ہے نہ دین کے مقابلے میں دولت کا گھمنڈ، نہ ہی سیاست کے نام پر دین و ملت کی سودا گری کا ڈھنگ۔ اسلام کا سب سے بہتر گروہ عام مسلمان ہیں ،یعنی مسلمان عوام۔ وہ اسلام سے متعلق بحیثیت دین اور فلسفہ کے بہت کم جانتے ہیں اور ان کی بہت سی چیزیں اسلام سے مطابقت نہیں رکھتیں، لیکن وہ ایک قابلِ شناخت اسلامی زندگی گزارتے ہیں ،جس کا سبب ان کا اسلام پر پختہ یقین ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔