Express News:
2025-11-03@17:25:09 GMT

عبادت کا حاصل: دعا

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

(امیر تنظیم اسلامی پاکستان)

سورہ الذاریات آیت 56 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ؛ ترجمہ:’’ اور مَیں نے نہیں پیدا کیا جنوں اور انسانوں کو مگر صرف اِس لیے کہ وہ میری بندگی کریں ۔‘‘

عبادت کے مفہوم میں جو شے مطلوب ہے وہ تذلل ہے۔ یعنی جھک جانا، بچھ جانا۔ مراد یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کے سامنے جھک جائے، اْس کی بندگی اختیار کر لے، بندگی کا یہ تقاضا اِنفردی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر ہے اور پوری زندگی کے لیے ہے۔ اِس کیفیت کا بہت زیادہ اظہار تب ہوتا ہے جب بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے۔ اِس حوالے سے رسول اللہﷺ کی بہت جامع احادیث موجود ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا؛ ترجمہ :’’دعا عبادت ہے۔‘‘ اور ’’دعا عبادت کا مغز ہے۔‘‘

دعا یہ ہے کہ بندہ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کرتا ہے، اللہ کے سامنے اپنی کمزوری ، محتاجی، بے بسی کا اظہار کرتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ کی شان کریمی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود دعائیں ہمیں سکھائی ہیں ۔ کبھی اللہ تعالیٰ لفظ" قل" لاتا ہے ۔ سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر24 میں ارشاد ہوتا ہے؛ ترجمہ :’’ اور دعا کرتے رہو: اے میرے رب اِن دونوں پر رحم فرما جیسے کہ اِنہوں نے مجھے بچپن میں پالا ۔ ‘‘سورہ طٰہٰ آیت 114 میں ہے ؛ترجمہ: ’’اور آپﷺ یہ کہتے رہا کیجیے کہ اے میرے ربّ! میرے علم میں اضافہ فرما۔‘‘ اور کبھی اللہ تعالیٰ دعائیہ کلمات عطا کرتا ہے۔

جیسا کہ سورۃالفاتحہ ہے : اِھدِنَا الصِّرَاطَ المْستَقِیمَo ہمیں ہدایت دے سیدھے راستے کی۔ یہ دعائیہ انداز خود اللہ تعالیٰ سکھا رہا ہے اورکبھی اللہ تعالیٰ پیغمبروں اور اپنے نیک بندوں کی دعائیں قرآن حکیم میں نقل کرتا ہے۔ یہاں تک کہ حضرت آسیہؑ کی دعا بھی سورۃ التحریم آیت11میں موجود ہے ۔ ارشاد ہوتا ہے:’’ اے میرے پروردگار! تْو میرے لیے بنا دے اپنے پاس ایک گھر جنّت میں ۔‘‘ اِن مختلف پیرایوں میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں دعا مانگنا سکھایا ہے۔

سورۃ ابراہیم کا چھٹا رکوع اِس حوالے سے انتہائی اہم ہے جس میں سیدنا ابراہیمؑ کا ذکر خیر بھی ہے ، دعا کے آداب بھی سکھائے گئے ہیں، عاجزی اور انکساری کا ذکر بھی آرہا ہے، دعا کے اعتبار سے پیغمبرانہ طرز عمل بھی اللہ تعالیٰ نقل فرما رہا ہے ، روحانی نعمتیں مانگنے کا تذکرہ بھی ہے۔ اِسی طرح مقصدِ زندگی بھی واضح ہو رہا ہے اور اپنی اولاد کے بارے میں فکرمند ہونے کے اعتبار سے یہ رہنمائی بھی آ رہی ہے کہ اولاد کو سیٹل کرنا ہے تو کِن مقاصد کے تحت سیٹل کرنا چاہیے۔

آجکل ہمارے ہاں امیگریشن اور ہجرت بہت ہو رہی ہے ۔ یقیناً لوگوں کے معاشی مسائل بھی ہیں جس کی وجہ سے لوگ دھڑا دھڑ بیرون ملک جا رہے ہیں ۔ یہ ہجرت دنیوی مفادات کے زیر اثر ہوتی ہے لیکن مذکورہ رکوع میں مہاجرت کے اعلیٰ ترین مقاصد کی بھی نشاندہی ہوتی ہے ۔ یہ بھی سکھایا جا رہا ہے کہ صرف اپنی ذات کی فکر کرنا کافی نہیں بلکہ اپنے گھر والوں اور تمام مسلمانوں کے بارے میں بھی فکرمند ہونا چاہیے اور یہ فکر مندی صرف دنیا کے لیے نہیں بلکہ اصل میں آخرت کے حوالے سے ہونی چاہیے۔ اِسی طرح صرف اللہ سے ہی مانگنا، اْس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا، اللہ کی شکرگزاری کا راستہ اختیار کیے رکھنا وغیرہ یہ سب پہلو اِن دعائیہ آیات کے ذیل میں آتے ہیں ۔

سورہ ابراہیم آیت:35 میں ہے ؛ ترجمہ: ’’ اور یاد کرو جب کہا ابراہیم ؑ نے کہ اے میرے رب اِس شہر (مکہ) کو بنا دے اَمن کی جگہ۔‘‘ یہ دعا اَمن کے حوالے سے ہے جو ہم اپنے شہر، اپنے ملک اور پورے عالم کے لیے بھی کرسکتے ہیں۔ اَمن کتنی بڑی نعمت ہے اور پوری دنیا آج اِس کی ضرورت محسوس کر رہی ہے۔ اَمن ہو گا تو معاشی سرگرمی بھی ہو گی اور اللہ کی بندگی کے تقاضے پورے کرنے میں سہولت بھی ہو گی اور لوگ اپنی آخرت کے لیے بھی تیاری کر سکیں گے۔

یہ دعا مادی اور روحانی نعمتوں کے اعتبار سے بہت بڑی دعا ہے آگے فرمایا : ترجمہ: ’’اور بچائے رکھ مجھے اور میری اولاد کو اِس سے کہ ہم بْتوں کی پرستش کریں۔‘‘ یہ پیغمبر کی عاجزی ہے اور اْمّت کے لیے تعلیم ہے۔ پھر آیت 36 میں فرمایا؛ ترجمہ:’’اے میرے پروردگار! اِن ْبتوں نے (پہلے بھی) بہت سے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔‘‘ آگے فرمایا؛ ترجمہ:’’ تو جو کوئی میری پیروی کرے، وہ تو بلاشبہ مجھ سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے تو بلاشبہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ حضرت ابراہیمؑ کی اِس بات میں شفاعت کاایک لطیف انداز ہے۔ یہ ابوالانبیاء ابراہیمؑ بھی سکھاتے ہیں اور یہ روح اللہ عیسیٰؑ کا ایک انداز قیامت کے دن ہو گا اور پھر یہ انداز امام الانبیاء محمد مصطفیﷺ نے زمین پر بھی اختیار کیا ۔

حضرت عیسیٰﷺ کا اِس حوالے سے قرآن میں مکالمہ نقل ہوا ہے۔ سورۃ المائدہ کی آیت 118میں فرمایا؛ ترجمہ :’’اب اگر تو اْنہیں عذاب دے تو یہ تیرے ہی بندے ہیں اور اگر تْو اْنہیں بخش دے تو تو زبردست ہے ، حکمت والا ہے۔‘‘ تیرے اختیار کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا ، ٹال نہیں سکتا اور پھر تو حکیم ہے، تیرا کوئی فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہوتا۔ اے اللہ! اگر توسب کو معاف کرنے کا فیصلہ کر لے تو تیرا پورا اختیار بھی ہے اور تیرا یہ فیصلہ حکمت سے خالی نہیں ہے ۔ پیغمبر ہمیں مانگنا سکھا رہے ہیں ۔ مسند احمد کی روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے تہجد کی نماز میں یہ آیت پوری رات تلاوت کی ہے۔ کیونکہ رسول اللہﷺ کو اپنی اْمّت کا بہت خیال تھا اور کیوں نہ ہوتا کہ آپ رحمۃ للعالمینﷺ ہیں ۔

سورہ التوبہ آیت 128 میں ارشاد ہوتا ہے؛ ترجمہ :"بہت بھاری گزرتی ہے آپﷺ پر تمہاری تکلیف ، تمہارے حق میں آپﷺ (بھلائی کے) بہت حریص ہیں ، اہل ایمان کے لیے شفیق بھی ہیں، رحیم بھی۔‘‘ سورۃ ابراہیم میں آگے فرمایا ؛ ترجمہ: ’’اے ہمارے رب! میں نے اپنی اولاد (کی ایک شاخ) کو آبادکر دیا ہے، اِس بے آب و گیاہ وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس ، اے ہمارے پروردگار ! تاکہ یہ نماز قائم کریں ، تو تْو لوگوں کے دلوں کو اْن کی طرف مائل کر دے۔‘‘

حضرت ابراہیمؑ کی پوری زندگی امتحانات سے بھری ہوئی تھی۔ سورہ البقرۃ آیت 124میں ارشا د باری تعالیٰ ہے: ’اورذرا یاد کرو جب ابراہیمؑ کو آزمایا، اْس کے ربّ نے بہت سی باتوں میں تو اْس نے اْن سب کو پورا کر دکھایا۔‘‘ امتحان لینے والا رب اْن کو یہ سند دے رہا ہے۔ اِنہی امتحانات میں ایک یہ بھی تھا کہ اْنہوں نے اپنے دودھ پیتے بچے (حضرت اسمٰعیلؑ) کو اْس کی ماں (بی بی حاجرہؑ) کے ساتھ مکہ کی بے آباد زمین میں چھوڑ دیا۔ بی بی حاجرہؑ کا آخری ایک سوال یہ تھا کہ کیا یہ اللہ کا حکم ہے؟ توآپؑ نے فرمایا کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ بی بی حاجرہؑ نے کہا: پھر آپؑ بے فکر ہو کر جائیں، اللہ ہمیں ضائع نہیں کرے گا۔ یہ حضرت ہاجرہؑ کا اللہ پر توکل تھا۔ پھر صفا و مروہ کے درمیان پانی کی تلاش میں دوڑنا اور اللہ تعالیٰ کا زم زم عطا کرنا، یہ مشہور واقعات ہیں۔

بہرحال اِس سارے واقعہ سے تعلیم یہ ملتی ہے کہ اللہ کی فرمانبرداری میں زندگی گزارو، گھر بار چھوڑنا پڑے تو اللہ کی رضا اور اللہ کے دین کے لیے چھوڑو۔ دوسری بات یہ بھی معلوم ہوئی کہ خانہ کعبہ پہلے سے مکہ میں موجود تھا ۔ روایت کے مطابق اِس کی تعمیر سب سے پہلے حضرت آدمؑ نے کی تھی ، پھر حضرت ابراہیمؑ نے اِس کی دوبارہ تعمیر کی۔آپؑ نے جو دعا کی تھی کہ اے اللہ! اِس خاندان کو تیرے حکم پریہاں آباد کر رہا ہوں تاکہ تیرا یہ گھردوبارہ آباد ہو، یہاں تیرا ذکر ہو، تیرا نام لیا جائے اور دنیا جہاں سے لوگ یہاں پر آئیں۔ آج کروڑوں مسلمانوں کے دل اِس مقدس مقام کی طرف مائل ہیں۔ یعنی اِس ہجرت کا اصل مقصد روحانی تھا ، باقی سب باتیں اِس مقصد کے تابع تھیں۔ اِسی لیے اِس کے بعد آپؑ نے دنیوی نعمتوں کے لیے دعا کی۔

سورہ ابراہیم کی آیت37 میں فرمایا؛ ترجمہ:’’ اور اْن کو رزق عطا کر پھلوں سے، تاکہ وہ شکر ادا کریں۔‘‘ ثمرات کا لفظ پھلوں کے لیے بھی آتا ہے، کھانے پینے کی چیزوں کے لیے بھی آتا ہے ، پیداوار کے لیے بھی آتا ہے اور محنتوں کے نتائج کے لیے بھی آتا ہے ۔ یہاں پر مادی اعتبار سے جوکھانے پینے کی چیزیں ہیں اْن کی طرف اشارہ ہے۔ آج بھی مکہ مکرمہ کے پہاڑوں میں اْگتا کچھ بھی نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ نے ایسی کون سی نعمت ہے، جو وہاں عطا نہیں کر رکھی ۔ یہ ابراہیمؑ کی دعاؤں کا نتیجہ ہے۔ اِس کا مقصد یہ تھا کہ مسلمان اپنے رب کا شکر ادا کریں۔ نماز پڑھنا بھی شکر ہے، اللہ کے دین کے قیام کے لیے جدوجہد کرنا بھی شکر کا تقاضا ہے۔ لیکن آج مسلمان یہ تقاضا بھول چکے ہیں ۔

آگے عرض کیا :’’اے ہمارے پروردگار ! تو ْخوب جانتا ہے جو کچھ ہم چھپاتے ہیں اور جو کچھ ہم ظاہر کرتے ہیں ۔ کل شْکر اور کْل ثنا اْس اللہ کے لیے ہے جس نے مجھے عطا فرمائے‘ باوجود بڑھاپے کے اسماعیلؑ اور اسحاقؑ (جیسے بیٹے)۔‘‘ بیوی اور اولاد سے فطری محبت ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیمؑ دودھ پیتے بچے اور بیوی کو چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

اْن کے دل کے جذبات بھی تھے مگر اْن کا ایمان تھا کہ اللہ تعالیٰ اسباب پیدا کر دے گا اور اْن کی حفاظت فرمائے گا۔ یہ غیب اور ظاہر کی تقسیم ہمارے اعتبارسے ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے کوئی شے غیب یا پوشیدہ نہیں ہے۔ آگے فرمایا؛ ترجمہ:’’اور اللہ پرتو کوئی شے مخفی نہیں، زمین میں اور نہ آسمان میں ، یقینا ً میرا پروردگار دعاؤں کا سننے والا ہے ۔‘‘

اللہ تعالیٰ دعا مانگنے کا حکم بھی دیتا ہے ، دعا کے آداب بھی سکھاتا ہے اور یہ بھی کہتا ہے کہ دعا کی قبولیت کا یقین بھی رکھو اور دعا کی قبولیت کا اقرار بھی کرو ۔ ارشاد ہوتا ہے ؛ ترجمہ :’’ اے میرے پروردگار! مجھے بنا دے نماز قائم کرنے والا اور میری اولاد میں سے بھی‘ اے ہمارے پروردگار ! میری اِس دعا کو قبول فرما۔‘‘ پیغمبر سے بڑھ کرکون اللہ کی بندگی کرنے والا ہو گا لیکن وہ بھی دعا کر رہے ہیں کہ مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری اولاد کو بھی۔ یعنی نماز اِس قدر اہم ہے۔آج بچوں کے سکولوں کے نتائج کی ہمیں کتنی فکر ہے لیکن کیا ہمیں فکر ہے کہ اْن کی نمازیں ضائع ہو رہی ہیں؟۔ انگریزی انگریز کے لہجے میں نہیں بول پا رہے تو پریشانی ہے لیکن اللہ کا کلام گھروں میں بند پڑا ہے،کیا اِس پر پریشانی ہے؟ حالانکہ ایک مسلمان کے لیے فکرمندی کی بات کیا ہونی چاہیے، اللہ کے پیغمبروں کی اِن دعاؤں میں ہمیں تعلیم دی جا رہی ہے۔

آگے فرمایا؛ترجمہ:’’اے ہمارے پروردگار! مجھے‘میرے والدین اور تمام مومنین کو بخش دے، جس دن حساب قائم ہو۔‘‘ حضرت ابراہیمؑ کی یہ دعا ایک جامع دعا ہے جس میں اپنے لیے بھی دنیا و آخرت کی بھلائی مانگی گئی، اپنی اولاد کے لیے بھی اور پھر اپنے والدین کے لیے بھی اور اِس میں آخرت کی فکرمندی بھی آگئی۔

آج نوجوان نسل میں ایسے بھی ہیں کہ اْنہیں یہ بھی علم نہیں ہوتا کہ اْنہیں اپنے ماں باپ کے لیے دعا بھی کرنا ہوتی ہے ۔ اب تو بڑے شہروں میں اولڈ ہاؤسز بہت بڑھ رہے ہیں ۔ جو اولاد والدین کو نکال رہی ہے، ایسی اولاد سے کم ہی توقع ہے کہ وہ ماں باپ کے لیے دعا بھی کرتی ہو گی۔ اِس میں ماں باپ کا بھی قصور ہے کہ اْنہوں نے اپنی اولاد کی تربیت اْن خطوط پر نہیں کی جن کی تعلیم پیغمبروں نے دی تھی ۔ اللہ ہمیں اِن نعمتوں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اورقرآن کی تعلیمات پر غوروفکر کرنے اور اْن پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔   آمین !

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اے ہمارے پروردگار کے لیے بھی ا تا ہے بھی اللہ تعالی ارشاد ہوتا ہے حضرت ابراہیم ا گے فرمایا اپنی اولاد حوالے سے اور اللہ ا رہا ہے کرتا ہے رہے ہیں ہے لیکن اے میرے اللہ کے ہوتی ہے اللہ کی ہے کہ ا اپنی ا بھی کر ہے اور دعا کی تھا کہ ا نہیں یہ بھی رہی ہے یہ دعا

پڑھیں:

دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان

لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمتی اتحاد کے سربراہ نے اعلان کیا ہے کہ دشمن کو کسی بھی قسم کی رعایت دینے سے، اسکی بلیک میلنگ و جارحیت میں کسی بھی قسم کی کمی نہ ہوگی بلکہ اس امر کے باعث دشمن مزید طلبگار ہو گا اسلام ٹائمز۔ لبنانی پارلیمنٹ میں مزاحمت کے ساتھ وابستہ اتحاد "الوفاء للمقاومۃ" کے سربراہ محمد رعد نے اعلان کیا ہے کہ گو کہ ہم اسلامی مزاحمت میں، اِس وقت مشکلات برداشت کر رہے ہیں اور دشمن کی ایذا رسانی و خلاف ورزیوں کے سامنے صبر و تحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں لیکن ہم اپنی سرزمین پر پائیدار ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق اپنے موقف و انتخاب پر ثابت قدم رہیں گے تاکہ اپنے اور اپنے وطن کے وقار کا دفاع کر سکیں۔ عرب ای مجلے العہد کے مطابق محمد رعد نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے ملک لبنان کی خودمختاری کے تحفظ کے لئے اپنی جانیں اور  خون تک کا نذرانہ پیش کرتے رہیں گے اور مزاحمت کے انتخاب پر ثابت قدم رہیں گے تاکہ دشمن؛ ہم سے ہتھیار ڈلوانے یا ہمیں اپنے معاندانہ منصوبے کے سامنے جھکانے کو آسان نہ سمجھے۔
  سربراہ الوفاء للمقاومہ نے زور دیتے ہوئے کہا کہ انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اب بھی لبنان کے اندر سے کچھ ایسی آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ جو قابض دشمن کے سامنے ہتھیار ڈال دینے اور لبنان کی خودمختاری سے ہاتھ اٹھا لینے پر اُکسا رہی ہیں درحالیکہ وہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح سے وہ ملکی مفادات کا تحفظ کر سکیں گے! انہوں نے کہا کہ ان افراد نے انتہائی بے شرمی اور ذلت کے ساتھ ملک کو غیروں کی سرپرستی میں دے دیا ہے جبکہ یہ لوگ، خودمختاری کے جھوٹے نعرے لگاتے ہیں۔ 

محمد رعد نے تاکید کی کہ انتخاباتی قوانین کے خلاف حملوں کا مقصد مزاحمت اور اس کے حامیوں کی نمائندگی کو کمزور بنانا ہے تاکہ ملک پر قبضہ کرنا مزید آسان بنایا جا سکے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ دشمن کی جانب سے جنگ بندی کی خلاف ورزی کے باوجود، اسلامی مزاحمت اب بھی جنگ بندی پر پوری طرح سے کاربند ہے تاہم دشمن کو کسی بھی قسم کی رعایت دینا، "لبنان پر حملے" کے بہانے کے لئے تشہیری مہم کا سبب ہے اور یہ اقدام، دشمن کی بلیک میلنگ اور جارحیت کو کسی صورت روک نہیں سکتا بلکہ یہ الٹا، اس کی مزید حوصلہ افزائی ہی کرے گا کہ وہ مزید آگے بڑھے اور بالآخر پورے وطن کو ہی ہم سے چھین لے جائے۔ محمد رعد نے زور دیتے ہوئے مزید کہا کہ دشمن کے اہداف کو ناکام بنانے کے لئے وہ کم از کم کام کہ جو ہمیں انجام دیا جانا چاہیئے؛ اس دشمن کی جارحیت کے خلاف فیصلہ کن مزاحمت اور اپنے حق خود مختاری کی پاسداری ہے!!

متعلقہ مضامین

  • امریکا سے تعاون تب تک نہیں ہوسکتا جب تک وہ اسرائیل کی حمایت ترک نہ کرے، آیت اللہ خامنہ ای
  • افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ذبیح اللہ مجاہد
  • تجدید وتجدّْ
  • سفرِ معرفت۔۔۔۔ ایک قرآنی مطالعہ
  • پاک افغان تعلقات عمران خان دور میں اچھے تھے، ذبیح اللہ مجاہد
  • قال اللہ تعالیٰ  و  قال رسول اللہ ﷺ
  • دشمن کو رعایت دینے سے اسکی جارحیت کو روکا نہیں جا سکتا، حزب اللہ لبنان
  • لبنان میں کون کامیاب؟ اسرائیل یا حزب اللہ
  • پی ٹی آئی رہنما ذاتی نہیں قومی مفاد میں کام کریں: رانا ثنا اللہ
  • جاپان: بے روزگار شخص نے فوڈ ڈیلیوری ایپ سے 1000 سے زائد کھانے مفت حاصل کرلیے