Express News:
2025-06-10@22:16:37 GMT

زباں فہمی نمبر243 ؛اچّھے سے……

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

دیکھیے! اگلا کالم اچّھے سے لکھیے گا

سنیے گا .....اچّھے سے کام کریں تو ہم سبھی خوش ہو ں گے۔

بچّوں سے کہیے کہ جو اچّھے سے کام کرے گا ، ہم اُسے انعام دیں گے۔

یقیناًآپ نے بھی ایسے جملے سُنے پڑھے ہوں گے، ٹی وی ڈراموں میں بھی سنے ہوں گے۔ کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ ’’اچّھے سے‘‘ کیا ہوتا ہے؟ سامنے کی بات ہے کہ اس کی جگہ کہنا چاہیے ’اچھی طرح‘۔ یہ ’’اچّھے سے‘‘ کہاں سے آیا؟ اس بابت ذر ا ٹھہرکر بتاتا ہوں۔ ابھی تو آپ کچھ اور نکات سے لطف اندوز ہوں۔

 ا)۔ ایک ویب سائٹ کی اطلاع کے مطابق، اپریل2023ء میں ہندوستان کے معروف مُوسِیقار جناب اے آر رحمان کے متعلق ایک دل چسپ خبر سامنے آئی کہ انھوں نے اپنی بیگم کو عوام کے سامنے بجائے ہندی (یعنی اردو) یا انگریزی کے، اپنی زبان تَمِل میں گفتگو کرنے کو کہا اور جواب میں خاتون نے کہا کہ میں تَمِل، اچّھے سے نہیں بول سکتی۔

ب)۔ پچھلے ایک سال سے ایک کلام سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے اور جا بجا اُسے گنگنایا جارہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

تم عید منانا اَچھے سے

کوئی بھی کسر نہ چھوڑو تم

ہم لوگ منائیں گے کیسے

اب فکر ہماری چھوڑو تم

تم لوگ دعا ہی کرنا بس

وہ مسجد اقصیٰ ڈھا دیں گے

سوتے ہی رہو تم غفلت میں

وہ موت کی نیند سلا دیں گے

تم عید منانا اچھے سے

المیہ فلسطین کے موضوع پر یہ اچھی کاوش ہے۔ مجھے تلاشِِ بسیار کے باوجود اِس کلام کے شاعر کا نام نہیں ملا۔ آگے چلیں۔

ج)۔ عامر اعظمی (ساکنِ اَلعین، متحدہ عرب امارات) نامی شاعر کی ایک غزل آنلائن دیکھی جس میں یہ شعر توجہ طلب ہے:

خوب واقف ہیں اُس کی رگ رگ سے

اُس کو اچھے سے جانتے ہیں ہم

چونکہ اعظم گڑھ (نیز غازی پور، گورکھ پور وغیرہ) کے لوگ عموماً اپنی ثقافت بشمول زبان (بولی ٹھولی) میں اہل بِہار سے قریب اور مماثل نظر آتے ہیں، لہٰذا یہ شاعر بھی خالص بِہاری بولی کا استعمال بخوبی کرگئے۔ (نجی مشاہدے کی با ت کروں تو معروف شاعر، ادیب ونقاد ڈاکٹر فہیم اعظمی، ممتاز شاعر سہیل غازی پوری اور معلوماتی کتب کے مؤلف وناشر محمد ظفر اقبال غازی پوری اس کی روشن مثال تھے)۔ فیس بُک پر بھی ایک عامر اعظمی شاعر موجود ہیں، مگر اُن کے کوائف سے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ وہی شاعر ہیں یا اُن کے ہم نام۔ ریختہ ڈاٹ آرگ میں ایک ناول ’خونِ تمنّا‘ (سن اشاعت: 1974ء)محفوظ ہے جس کے مصنف کا نام عامر برقی اعظمی ہے، لیکن یہ ہرگز میرے کرم فرما، زود گو فارسی واُردو شاعر ڈاکٹر اَحمد علی برقیؔ اعظمی مرحوم کے فرزند نہیں، جنھوں نے خاکسار کے کلام اور کتب کو (بلا فرمائش ودرخواست) متعدد بار منظوم خراج ِ تحسین پیش کیا تھا۔ (ڈاکٹر برقی اعظمی مرحوم کے لب ولہجے میں وہ ’بِہاری‘ عنصر کبھی محسوس نہ ہوا جس کی اوپر مثال دے چکا ہوں)۔

ضمنی مگر اہم بات یہ ہے کہ اس ناول کا انتساب عظیم فن کا ر یوسف خان عُرف دلیپ کُمار (مرحو م) کے نام کیا گیا تھا۔

اب آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ یہ ’’اچّھے سے‘‘ خالص بِہاری بولی ٹھولی ہے۔ آپ مستندومعتبر لغات ازقسمے فرہنگ آصفیہ ونوراللغات میں تلاش کریں تو اِس کا اندراج نہیں ملے گا۔ محفوظ ’بِہار اُردولغت‘ (دو جلد) میںبھی یہ ترکیب شامل نہیں۔ (یاد رکھیں کہ خاکسار نے اس لغت کے مندرجات پر مبنی ایک تحقیقی تحریر، سلسلہ زباں فہمی میں پیش کی تھی جو آنلائن موجود ہے۔ زباں فہمی نمبر 155مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین، مؤرخہ 11ستمبر 2022ء)۔ لگے ہاتھوں اپنے ا س یادگار مضمون سے ایک اقتباس بھی نقل کرتا چلوں کہ بہت سے قارئین کے لیے نیا ہوگا:

’بہار اردو لغت‘ کے مرتبین وناشرین اس نکتے کے پرچار ک نظر آتے ہیں کہ دیگر علاقوں میں رائج معیاری اردو کے برعکس، بِہار میں زبان کی تشکیل زیادہ منطقی ہے ۔’’ایک پہلو یہ ہے کہ اردو کا وہ رُوپ جو بِہار میں تشکیل پایا، اس میں جابجا الفاظ کی تشکیل میں دہلی، لکھنؤ، رام پور سے زیادہ منطقیت پائی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال گنتی میں استعمال ہونے والے الفاظ سے دی جاسکتی ہے۔ دس(10) کے بعد ایک تا آٹھ مزید گنتی (11,12,13,14,15,16,17,18)اور اسی طرح ہر دَہائی کے بعد کی گنتی کے لیے (20,22-28),(30,31-38) ، یکساں طریقہ کار ہے‘‘۔ اُن کے خیال میں چالیس (40)سے پہلے کا عدد، اُنتالیس (39)کی بجائے بِہار کے قاعدے سے اُنچالیس کہلائے تو بہتر ہے، اسے ہی لغت کا حصہ بنانا چاہیے۔ بات یہیں تک موقوف نہیں، بلکہ اُن کے بیان کے مطابق، پنڈِت دتاتریہ کیفیؔ کی تحریک کے زیرِاثر، اسم سے فاعل بنانے کا جوطریقہ شروع ہوا (مثلاً برق سے برقیانا، قوم سے قومیانا)، بِہار میں مدتوں سے رائج تھا، مثلاً پانی سے پَنیانا(کسی کھانے میں پتلا کرنے کے لیے پانی ڈالنا)، بات سے بَتیانا (بات کرنی یا باتیں بنانا)۔ اب یہاں رک کر سوچیں کہ آیا ہم اہل زبان، معیاری زبان میں، ایسی کسی اصلاح یا ترمیم یا اضافے کو اَزخود ، بلا چُوں چرا قبول کرلیں گے؟ 

بِہار کی اُردو میں واحد سے جمع بنانے کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ مذکرومؤنث دونوں کے لیے ایک ہی لفظ برتا جائے جیسے لڑکا اور لڑکی دونوں کی جمع لڑکن۔ ویسے خاکسار نے ان گناہگار کانوں سے متعدد بار’’لڑکا‘‘ کی جمع ’’لڑکا لوگ‘‘ بھی سنی ہے۔ بِہاری اردو میں کسی بھی لفظ یا اسم کے آگے ’وا‘ لگاکر اس کی ہیئت تبدیل کرنا عام بات ہے، خواہ ایسا اظہارِالفت میں ہو یا تحقیر میں، جیسے من کو مَنوا، بابو کو بَبوا، مشتاق کو مُستاکوا۔ ایک مثال موٌنث کی ذہن میں آئی جو بِہار اُردولغت کے پیش لفظ میں درج نہیں: مُنّی کو مُنیا۔ (یہ معاملہ پُوربی میں بھی ہے، بیل سے بَیَلوا، سجن سے سجنوا، سجنی سے سجنیا وغیرہ۔ خاکسار نے ایک گزشتہ کالم میں پُوربی کے ضمن میں گلوکار رَنگیلا کے مقبول گانے ’’گا مورے منوا، گاتا جارے، جانا ہے ہم کا، دور، ٹھُمک ٹھُمک نہیں چل رے بَیَلوا، اپنی نگریا ہے دور‘‘ کا ذکر نہیں کیا تھا، مگر ہے بہت عمدہ مثال)۔ بِہار میں ہندوستان کے کسی بھی علاقے کی نسبت کہیں زیادہ ایسے انگریزی الفاظ بولنے کا چلن عام ہے جن کا مترادف یا متبادل اردو میں موجود ہے جیسے سڑک کی بجائے Roadا ور اسے بنایا ، روڈوا۔ لوجی! ہم تو اپنے یہاں سڑکوں کی بجائے روڈوں کہنے پر اعتراض کرتے ہیں، اب کیا کہیں؟

بِہاری اردو میں امالہ کا اصول بالکل رائج نہیں (اور شاید اہل پنجاب نے بھی، یہ طرز اُنھی سے سیکھا ہے)، جس کی بے شمار مثالیں تحریر اور بول چال میں موجود ہیں، فی الحال زیرِبحث لغت ہی میں منقولہ عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:

ا)۔ اسلام میں بیٹا (بیٹے ) کے مقابلہ (مقابلے) پر بیٹی کا نصف حصہ ہے۔

ب)۔ سونا (سونے) کی نیلامی ہوئی۔

ج)۔ کُتّا (کُتّے) کی چوکیداری مشہور ہے۔

اسی لغت (’بہار اردو لغت‘) سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ بِہار میں بعض الفاظ وتراکیب کے معانی بھی مختلف مراد لیے جاتے ہیں، جیسے ’’تڑپنا‘‘ سے مراد ہے ، (کسی جگہ پانی میں) کُود کر پار ہوجانا۔ اب آئیے ہم لغت کی مدد سے ایسے چُنیدہ الفاظ کی فہرست پیش کرتے ہیں جو مرتبین ِبہار اُردو لغت کے بیان کے مطابق، خاص بِہاری اردو ہی میں مروج ہیں۔ الفاظ کے معانی قوسین میں درج ہیں، جبکہ وضاحت اس راقم کی ہے:

اذاں پڑنا (اذان ہونا)، اکثر ہا (اکثر اوقات، بسا اوقات)، اِگیارہ (گیارہ)، آبھ (پَرتَو)، آدرمان (قدرومنزلت)، آسامی (جیل کی اصطلاح میں قیدی)، آسمان تارہ (ایک قسم کی آتش بازی)، آنھِٹی (تاڑ کا پھل)، آنب (آم)، بھائی جہ (بھتیجہ )، بہن جہ (بھانجہ)، بہن وَئی (بہنوئی);ویسے یہ لفظ اس تلفظ کے ساتھ بعض دیگر برادریوں میں بھی سننے کو ملا ہے، بھوجائی (بھاوج)، بھُتانا (بھول جانا)، بھنٹا (بیگن)، بدھنا =بَدھ +نا (تانبے یا المونیئم کا بنا ہوا لوٹا) (یہ لفظ بھی خالص بِہاری نہیں)، بوڑانا (بَولانا) (شاید لفظ بَوڑَم بمعنی بے وقوف سے تعلق ہے)، پھُلیا (سوزنی)، پھیپھسا (پھیپھڑا)، چونٹی یعنی چیونٹی کاٹنا (دِق /ضیق کرنا ، نوچنا)، تیرنا (کھینچنا، پھیلانا)، ٹھونگا (کاغذ کی تھیلی جس میں نیچے موٹے کاغذ کی تہہ ہو)، ٹھیونا (گھُٹنا)، چُکڑ (آب خورہ یعنی جدید زبان میںپانی پینے کا گلاس)، چیں را/چیرا (کینچوا)، دائی (گھریلو خادمہ);آج کل کی اُردو میں ماسی، حالانکہ دائی سے مراد قابلہ یعنی وہ عورت ہے جو زچگی کے عمل میں مدد فراہم کرتی ہے)، ڈیڑھ سَس (بڑی سالی)، رام تُرَئی (بھنڈی)، روپنا (بونا)، ساٹنا/سانٹنا (چپکانا)، سنگھاڑا/سینگھاڑا (سموسہ)، قلفی (چائے کی پیالی)، کرائی (کلرک)، کسیلی (چھالیہ);حالانکہ کسیلا تو بذاتہ ایک ذائقے کا نام ہے، کونہڑا (گول کدّو)، کھُدیڑنا (رگیدنا);یہ غیربہِاری طبقے میں بھی مستعمل ہے، کھوکھی (کھانسی)، کیولا (سنترہ )، کتّنی (دیورانی)، گارنا (نچوڑنا)، گوئٹھا (اُپلا)، گولکی (کالی مرچ)،گھاگھرا (چکوترہ)، گھیلا (پانی کا گھڑا)، لخیرا/لاخیرا (غنڈہ)، لَسّا (چینپ ، پِیپ وغیرہ کا)، لُکنا (چھُپنا); یہ پنجابی میں بھی مستعمل ہے، لَند پھند (چکربازآدمی)، لنگا (ننگا)، لوکنا (ہوا میں پکڑلینا، کیچ کرلینا)، مُلّا زادہ (خادم، نوکر)، مَیلنا (مَلنا،میل صاف کرنا)، ناتی (نواسہ);یہ دیگر مقامات پر بھی رائج ہے، نَتنی (نواسی)، ننواں (تُرئی/توری)، نیہر (میکا /میکہ);یہ بھی دیگر برادریوں میں سننے کو ملتا ہے، خصوصاً شادی بیاہ کے گیتوں میں جیسے ’’میرے نیہر سے آج مجھے آیا، یہ پیلا جوڑا، یہ ہَری ہَری چوڑیاں‘‘۔

قارئین کرام! یہاں دونِکات پر بطورِخاص توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں:

ا)۔ ’اچھی طرح‘ کی بجائے ’’اچّھے سے‘‘ کہنے کا روزاَفزوں رِواج پاکستان میں آباد بِہاری برادری کے طفیل نہیں، بلکہ اس کا سہرا ہندوستانی ٹیلیوژن چینلز دیکھ کر زبان سیکھنے والے اور ڈرامے لکھنے والے افراد کے سر ہے جنھوں نے یہ ترکیب عام کی۔

ب)۔ سوال یہ ہے کہ کیا بِہاری بولی ٹھولی یا مخصوص لہجے کی کوئی ایسی ترکیب تمام اہل زبان کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے؟

راقم کی رائے میں، دوسرے نکتے کا جواب نفی میں ملے گا، کیونکہ (صحیح یا غلط کی بحث سے قطع نظر) یوپی، خصوصاً دِلّی اور لکھنؤ کی زبان کو معیار اور سند مانا جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ ایک بزرگ بِہاری معاصر کے بیان کے مطابق، عظیم آباد (پٹنہ، بِہار) کا خدمتِ اردو میں لکھنؤ سے زیادہ حصہ ہے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی کوئی بھی ترکیب، اصطلاح، فقرہ، جملہ یا محض اسماء تمام اہل زبان کے لیے قابل قبول معیاری زبان کا حصہ نہیں بن پاتے، البتہ انھیں عوامی بول چال میں اپنایا جاتا ہے جسے انگریزی میں Slang کہتے ہیں۔ لطف کی بات ہے کہ ڈاکٹر رَؤف پاریکھ صاحب کی مرتبہ سلینگ لغت میں (بے شمار دیگر اسماء و اصطلاحات کی طرح) اس کا بھی اندراج نہیں!

مزید تحقیق کی جائے تو یہ نکتہ اظہر من الشمس معلوم ہوتا ہے کہ اردو کی عوامی بولی ٹھولی میں ایک حصہ بہرحال معیاری زبان (ادبی، رسمی، کتابی ودفتری) میں شامل ہوچکا ہے، لیکن ایسا ہونے میں ایک مدت لگتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ب ہار میں کی بجائے کے مطابق یہ ہے کہ میں بھی ب ہاری کے لیے

پڑھیں:

فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام

عیدالاضحی اس بے مثال قربانی کی یادگار ہے، جو حضرت ابراہیم ؑ نے اللہ تعالٰی کے حضور پیش کی تھی۔ اپنی نوعیت اور تاریخ کے لحاظ سے یہ پہلی انسانی قربانی تھی، کیوںکہ یہ صرف اللہ تعالی کے لئے تھی۔

اللہ تعالی کو حضرت ابراہیم ؑ کی یہ ادا اتنی پسند آئی کہ رہتی دنیا تک اسے ایک پسندیدہ ترین عبادت قرار دے دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ خدائے بزرگ و برتر کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے آج دنیا بھر میں کروڑوں مسلمان قربانی کا فریضہ سرانجام دیتے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے اللہ کے حکم پر اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو قربان کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ صرف ایک والد کی طرف سے اپنے بیٹے کی جان دینے کا نہیں تھا، بلکہ یہ ایک عظیم آزمائش تھی۔

حضرت اسماعیلؑ کا رضا مند ہونا، حضرت ابراہیم ؑ کا صبر، اور پھر اللہ تعالیٰ کا فدیہ بھیج دینا ۔ یہ سب ایمان، وفاداری اور تسلیم و رضا کی اعلیٰ مثالیں ہیں۔ یہی واقعہ آج بھی قربانی کی صورت میں دہرایا جاتا ہے۔ اگرچہ مسلمانوں کے ہاں دو عیدیں منائی جاتی ہیں: عید الفطر اور عید الاضحی…لیکن ان میں سے عید الاضحی کو ایک منفرد مقام حاصل ہے کیوںکہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بے مثال قربانی اور اللہ سے وفاداری کی یاد دلاتی ہے۔ یہ دن فقط ظاہری مسرتوں اور چمک دمک کا مظہر نہیں، بلکہ یہ اندرونی پاکیزگی، خلوص نیت، اور اللہ تعالیٰ سے تعلق کو گہرا کرنے کا نام ہے۔

عید کے موقع پر جب لوگ ایک دوسرے کو گلے ملتے ہیں، دل کی کدورتیں دور کرتے ہیں، اور خوشیوں کو دوسروں کے ساتھ بانٹتے ہیں، تو یہ محض رسمی عمل نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کے اتحاد، اخوت، اور بھائی چارے کا عملی اظہار ہوتا ہے۔ عید الفطر، رمضان کے بابرکت مہینے کے اختتام پر خوشی کا پیغام ہوتی ہے، جہاں روزے داروں کو اللہ کی طرف سے انعام و انعام ملتا ہے۔ جبکہ عید الاضحی، ایمان کے ایک عظیم امتحان کی یادگار ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی وہ عظیم سنت، جس میں انہوں نے اپنے بیٹے حضرت اسماعیلؑ کو اللہ کے حکم پر قربان کرنے کا عزم کیا۔ یہ واقعہ صرف ایک تاریخی حوالہ نہیں بلکہ ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ایک عظیم سبق ہے کہ اللہ کی رضا کے آگے ہر چیز ہیچ ہے، حتیٰ کہ اپنی اولاد بھی۔ عید الاضحی دراصل قربانی کے فلسفے کو زندہ کرنے کا دن ہے۔ یہ وہ وقت ہے جب انسان اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی راہ میں پیش کر کے، اپنی بندگی، عاجزی، اور فرمانبرداری کا عملی ثبوت دیتا ہے۔

عیدِ قربان پر معاشی سرگرمیاں

عید الاضحی کا معیشت پر بھی نمایاں اثر پڑتا ہے۔ لاکھوں جانوروں کی خرید و فروخت، قصائیوں، چارہ فروشوں، اور ٹرانسپورٹ سے وابستہ افراد کے لیے یہ دن معاشی سرگرمی کا باعث بنتے ہیں۔ دیہی علاقوں سے جانور شہروں میں آتے ہیں، بازار سجتے ہیں، اور ہزاروں خاندانوں کو روزگار ملتا ہے۔ اگرچہ معاشی ناہمواریوں کی وجہ سے ہر سال قربان ہونے والے کروڑوں جانوروں میں کچھ کمی بیشی ہوتی رہتی ہے، لیکن پھر بھی ہر مسلمان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی طرح اپنے رب کا حکم بجا لائے۔ قربانی کے جانوروں کا سالانہ بنیادوں پر جائزہ لیا جائے تو پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق عید الاضحیٰ 2023ء کے دوران پاکستان میں تقریباً 6.1 ملین (61 لاکھ) جانور قربان کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 531 ارب روپے تھی۔ اس برس قربان کیے گئے جانوروں گائے اور بیل 2.6 ملین، بکرے 3 ملین، بھیڑیں 350,000، بھینسیں: 150,000 اور اونٹ: 87,000 تھے۔

پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کے مطابق، ان قربانیوں سے حاصل ہونے والی کھالوں کی مالیت تقریباً 7 ارب روپے تھی، تاہم شدید گرمی اور مناسب دیکھ بھال کی کمی کی وجہ سے کھالوں کا تقریباً 35 فیصد حصہ ضائع ہونے کا خدشہ ظاہر کیا گیا۔ یوں ہی پاکستان ٹینرز ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ عید الاضحیٰ 2024ء کے دوران پاکستان میں تقریباً 6.8 ملین (68 لاکھ) جانور قربان کیے گئے، جن کی مجموعی مالیت 500 ارب روپے سے زائد تھی۔ قربان کیے گئے جانوروں میں 28 لاکھ گائے، 33 لاکھ بکرے، 1.65 لاکھ بھینسیں، 99 ہزار اونٹ اور 3.85لاکھ بھیڑیں شامل تھیں۔

عید الاضحیٰ 2025ء کے دوران پاکستان میں قربانی کے جانوروں کی تعداد اور مالیت کے حوالے سے سرکاری یا مستند اعداد و شمار فی الحال دستیاب نہیں تاہم، گزشتہ سالوں کے رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے، ماہرین کا اندازہ ہے کہ اس سال بھی تقریباً 6.5 سے 7.0 ملین (65 سے 70 لاکھ) جانور قربان کیے جا سکتے ہیں، جن کی مجموعی مالیت 500 سے 550 ارب روپے کے درمیان ہو سکتی ہے۔

قربانی کی اصل روح

قربانی اسلام کا ایک عظیم شعائر ہے، جو صرف ایک رسم یا ظاہری عمل نہیں بلکہ انسان کے باطن کی پاکیزگی اور خلوص نیت کا امتحان ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ’’اللہ تک نہ ان کے گوشت پہنچتے ہیں اور نہ خون، بلکہ اْسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے‘‘ (سور? الحج: 37)۔ یہ آیت ہمیں یاد دلاتی ہے کہ قربانی محض جانور ذبح کرنے کا نام نہیں، بلکہ اس کا اصل مقصد اللہ کی رضا، عاجزی اور اخلاص کا اظہار ہے۔ قربانی ایک روحانی کیفیت کا نام ہے، جس میں انسان صرف جانور ہی نہیں، بلکہ اپنے نفس کی قربانی دیتا ہے۔

اس میں وہ اپنی خواہشات، ضد، انا، حسد، خود غرضی، اور دنیاوی لالچ کو راہِ خدا میں چھوڑنے کا عہد کرتا ہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت صرف بیٹے کو قربان کرنے کی تیاری نہ تھی، بلکہ مکمل طور پر اللہ کے حکم کے سامنے جھک جانے کا جذبہ تھا۔ یہی جذبہ آج بھی قربانی کی اصل روح ہے۔ اگر ہم اس عبادت کو صرف گوشت حاصل کرنے، یا رسم نبھانے کی حد تک محدود رکھیں گے تو ہم اس کے اصل مقصد سے محروم ہو جائیں گے۔ قربانی ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم دنیا میں اپنے مفادات اور نفس پر قابو پاتے ہوئے، خلوص کے ساتھ اللہ کی رضا کو اپنی زندگی کا مرکز بنائیں۔

عبادت یا دکھاوا؟

بدقسمتی سے آج کل قربانی جیسے عظیم اور پاکیزہ عمل کو ایک معاشرتی ’’ایونٹ‘‘ بنا دیا گیا ہے، جہاں عبادت کی جگہ نمائش، اخلاص کی جگہ فخر، اور عاجزی کی جگہ برتری کا اظہار نظر آتا ہے۔ سوشل میڈیا پر جانوروں کی ویڈیوز، ان کی قیمتوں کا دکھاوا اور غیر ضروری تشہیر نے اس مقدس فریضے کو سطحی اور مصنوعی بنا دیا ہے۔ جہاں پہلے قربانی خالص نیت سے کی جاتی تھی، وہیں اب کئی لوگ اسے محض دوسروں کو مرعوب کرنے اور اپنی حیثیت جتانے کا ذریعہ بنا بیٹھے ہیں۔ قربانی کے جانور کی قیمت، جسامت یا نسل کبھی بھی عبادت کا معیار نہیں تھے۔

اصل عبادت تو نیت، تقویٰ اور عاجزی میں پنہاں ہے۔ جانور کو محبت سے پالنا، اس کی خدمت کرنا اور نرمی سے سنتِ ابراہیمیؑ کے مطابق ذبح کرنا، یہ سب وہ اقدار ہیں جو ہمیں قربانی کے ذریعے سیکھنے کو ملتی ہیں۔ مگر جب ہم اس عمل کو سوشل میڈیا پر ’’لائکس‘‘ اور ’’کمنٹس‘‘ کے لیے استعمال کرتے ہیں تو یہ گویا روحِ قربانی کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے۔ عبادت کو دکھاوے سے پاک رکھنا ایمان کا تقاضا ہے۔ رسولؐ اللہ نے فرمایا کہ ’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے‘‘۔ لہذا اگر نیت خالص نہ ہو تو عمل خواہ کتنا بھی عظیم ہو، اس کی روح فنا ہو جاتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم قربانی کو اس کے اصل مفہوم اور مقصد کے ساتھ انجام دیں۔

قربانی اور اسلامی مساوات

اسلام نے ہمیشہ معاشرتی مساوات کی تعلیم دی ہے اور عید الاضحی اس کا عملی مظہر ہے۔ قربانی کا گوشت صرف گھر والوں تک محدود نہ رہے بلکہ رشتہ داروں، ہمسایوں اور مستحق افراد تک پہنچے، کیوں کہ یہی اسلام کا اصل پیغام ہے۔ اگر ہر صاحب حیثیت فرد سچے دل سے قربانی کرے اور گوشت کو صحیح طور پر تقسیم کرے، تو معاشرے میں بھوک اور محرومی کی شدت بڑی حد تک کم ہو سکتی ہے۔

اجتماعی قربانی اور جدید رجحانات

آج کے تیز رفتار اور مصروف طرزِ زندگی میں جب وقت، جگہ، اور وسائل محدود ہوتے جا رہے ہیں، اجتماعی قربانی ایک قابلِ عمل، بامقصد اور بابرکت حل کے طور پر سامنے آئی ہے۔ شہروں میں رہنے والے بہت سے لوگ، جنہیں نہ جگہ میسر ہے، نہ جانور کی دیکھ بھال کا وقت اور نہ ذبح و تقسیم کا تجربہ، وہ اجتماعی قربانی کے ذریعے نہ صرف اپنی عبادت ادا کر لیتے ہیں بلکہ بہتر نظم و نسق کا حصہ بھی بنتے ہیں۔

مساجد، مدارس، سماجی تنظیمیں اور فلاحی ادارے اجتماعی قربانی کے عمل کو نہایت منظم انداز میں سرانجام دیتے ہیں، جس سے جانوروں کی دیکھ بھال، اسلامی اصولوں کے مطابق ذبح اور گوشت کی ترسیل، سب کچھ احسن انداز میں انجام پاتا ہے۔ اسی طرح یہ قربانی نہ صرف ایک فرد کی عبادت رہتی ہے بلکہ ایک اجتماعی فلاحی عمل میں ڈھل جاتی ہے، جہاں سینکڑوں مستحقین کے گھروں میں خوشیاں پہنچتی ہیں۔ مزید یہ کہ کورونا کے بعد کے دور میں، صحت اور صفائی کے خدشات کی وجہ سے بھی اجتماعی قربانی کو مزید پذیرائی ملی ہے۔ اس سے نہ صرف ماحول کو آلودگی سے بچایا جا سکتا ہے بلکہ جانوروں کے فضلے، خون اور باقیات کے بہتر طریقے سے انتظامات کیے جا سکتے ہیں۔

آن لائن قربانی نے بھی انفرادی سطح پر ایک نئی سہولت مہیا کی ہے۔ اب لوگ موبائل ایپس، ویب سائٹس اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کے ذریعے قربانی کا جانور منتخب کر سکتے ہیں، ادائیگی کر سکتے ہیں، اور ذبح کے بعد گوشت کی ترسیل بھی حاصل کر سکتے ہیں، تاہم اس سہولت کے ساتھ ایک اہم ذمہ داری بھی جڑی ہے کیوں کہ قربانی محض ’’ٹرانزیکشن‘‘ نہیں بلکہ عبادت ہے۔ اس لیے نیت کا اخلاص، اعتماد والے ادارے کا انتخاب اور شفافیت کو یقینی بنانا ازحد ضروری ہے۔

کچھ افراد آن لائن قربانی کے ذریعے اپنی عبادت کو باآسانی مکمل تو کر لیتے ہیں، لیکن اس عمل سے دوری کی وجہ سے اس عبادت کی روحانی گہرائی کو پوری طرح محسوس نہیں کر پاتے۔ اس لیے، جہاں یہ سہولت کارآمد ہے، وہیں روحانی تعلق اور شعور کو قائم رکھنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔ اجتماعی قربانی کا رجحان اگر خلوص، نظم اور مقصدیت کے ساتھ قائم رہے تو یہ نہ صرف وقت کی ضرورت ہے بلکہ ایک ایسی سماجی عبادت بھی بن سکتی ہے جو انفرادی نفع سے بڑھ کر اجتماعی فلاح کا سبب بنتی ہے۔

خاندانی بندھن

عید الاضحی صرف عبادت اور قربانی کا موقع نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا تہوار ہے جو خاندان کے افراد کو قلبی طور پر قریب لاتا ہے۔ گھر کے تمام افراد، چاہے وہ بچے، جوان ہوں یا بزرگ، سب مل کر عید کی تیاریوں میں حصہ لیتے ہیں۔

جانور کی دیکھ بھال، چارہ ڈالنا، پانی دینا اور اس سے مانوس ہونا، یہ سب وہ سرگرمیاں ہیں جو خاندان میں محبت، تعاون اور ذمہ داری کا احساس پیدا کرتی ہیں۔ خواتین کھانے کی تیاری میں مشغول ہوتی ہیں، مرد حضرات انتظامات سنبھالتے ہیں، اور بچے جوش و خروش سے گھومتے پھرتے ہیں۔ اس سب کا مجموعی اثر یہ ہوتا ہے کہ خاندان کے افراد میں وہ قربت اور محبت پیدا ہوتی ہے جو عام دنوں میں شاید نہ ہو۔ یہ دن ہمیں سکھاتا ہے کہ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی ہیں، اور رشتہ داروں سے جڑا رہنا ہی معاشرتی سکون کا اصل ذریعہ ہے۔

خواتین کا کردار: قربانی، پکوان اور سخاوت

عید الاضحی کے موقع پر خواتین کا کردار قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہوتا ہے، لیکن بدقسمتی سے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ وہ نہ صرف گھر کے اندرونی امور کو سنبھالتی ہیں بلکہ قربانی کے بعد گوشت کی تقسیم، سلیقے سے رکھنا اور پکوان کی تیاری میں مرکزی کردار ادا کرتی ہیں۔ ان کی تنظیمی صلاحیتیں اور وقت پر ہر کام کی انجام دہی قربانی کی مجموعی کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔ کئی خواتین اس موقع کو سخاوت اور ہمدردی کے اظہار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور ضرورت مندوں کے گھروں تک گوشت پہنچاتی ہیں۔ ان کے بنائے ہوئے روایتی کھانے نہ صرف ذائقے دار ہوتے ہیں بلکہ محبت سے بھرپور بھی ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ عید کی اصل رونق انہی کے دم سے ہے۔

جانوروں سے محبت دراصل بچوں کی تربیت

قربانی سے پہلے جانور سے تعلق قائم کرنا، اس سے شفقت سے پیش آنا اور اس کی دیکھ بھال میں دلچسپی لینا ایک ایسا تربیتی عمل ہے جو بچوں کی شخصی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جب بچہ کسی جاندار کے ساتھ پیار کا رشتہ بناتا ہے اور پھر اس کے فراق پر صبر کا مظاہرہ کرتا ہے، تو یہ اس کے اندر ہمدردی، برداشت، اور قربانی کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ عمل بچوں کو محض مذہبی معلومات نہیں دیتا بلکہ ان کے جذبات اور اخلاقیات کو نکھارتا ہے۔ یہ سبق وہ کتابوں سے نہیں بلکہ عملی تجربے سے سیکھتے ہیں کہ اصل قربانی یہ ہے کہ اپنی محبوب چیز کو رضائے الٰہی کے لیے چھوڑ دیا جائے۔

صفائی اور شہری ذمہ داریاں

عید الاضحی کے بعد شہروں اور محلوں میں صفائی کا جو منظر پیش آتا ہے وہ ہماری اجتماعی غفلت کی تصویر ہوتا ہے۔ اگرچہ بلدیاتی ادارے صفائی کی مہم چلاتے ہیں، لیکن اصل تبدیلی تب آئے گی جب ہم بطور ذمہ دار شہری اپنی ذمہ داریاں سمجھیں گے۔ گوشت کے فضلات کو مناسب طریقے سے ٹھکانے لگانا، خون کو پانی سے دھونا، اور آس پاس کے ماحول کو صاف رکھنا صرف حکومت کا نہیں، ہر فرد کا اخلاقی اور دینی فریضہ ہے کیوں کہ ہمارے دین نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا ہے، اور قربانی جیسے مقدس موقع پر اگر ہم صفائی کا خیال نہ رکھیں تو یہ عبادت کی روح کے منافی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم نہ صرف اپنے گھروں بلکہ گلی محلوں کو بھی پاکیزہ بنائیں تاکہ عید واقعی ایک خوشگوار تجربہ بن سکے۔

عید کا حقیقی حسن

عید کی خوشیوں کا اصل حسن تب نمایاں ہوتا ہے جب یہ صرف امیروں یا صاحبِ استطاعت لوگوں تک محدود نہ رہے، بلکہ غربا، یتامیٰ اور نادار افراد بھی ان خوشیوں میں شریک ہوں۔ اگر ہمارے اردگرد کوئی ایسا خاندان ہے جو گوشت خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتا، یا کوئی بچہ عید پر نیا لباس نہیں پہن سکا، تو یہ ہماری اجتماعی ناکامی ہے۔

عید کے موقع پر احساس، درد مندی اور سخاوت وہ اقدار ہیں جو ہمیں ایک باوقار معاشرہ بننے میں مدد دیتی ہیں۔ اگر ہم اپنے پڑوسیوں، ملازمین، اور کمزور طبقات کو نظر انداز کر کے صرف اپنے خاندان کی خوشیوں میں مگن رہیں گے، تو یہ خوشی مکمل نہیں ہو سکتی۔ ہمیں چاہیے کہ ہم عید کو خدمتِ خلق، انفاق اور باہمی محبت کا ذریعہ بنائیں۔

خطبہِ عید

نمازِ عید کے بعد کا خطبہ محض رسمی خطاب نہیں بلکہ ایک بیداری اور اصلاح کا سنہری موقع ہوتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب ہزاروں افراد یکجا ہو کر دل و دماغ کے ساتھ بات سننے کو تیار ہوتے ہیں، اور اگر اس موقع پر دین کے ساتھ سماجی پہلوؤں پر روشنی ڈالی جائے تو ایک مثبت تبدیلی کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے۔ اگر خطیب قربانی کی روح، معاشرتی اتحاد، صفائی کی اہمیت، اور معاشرتی ذمہ داریوں پر سیر حاصل گفتگو کرے، تو سننے والوں کے رویے اور سوچ میں فرق آ سکتا ہے۔ یہ موقع قوم کو متحد، باشعور، اور باعمل بنانے کا موقع ہے، جسے ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

عید الاضحیٰ کا بین الاقوامی رنگ

دنیا بھر میں عید الاضحیٰ مختلف ثقافتی رنگوں، زبانوں اور مقامی روایات کے ساتھ منائی جاتی ہے، لیکن اس کی اصل روح’’قربانی برائے رضائے الٰہی‘‘ ہر جگہ یکساں ہے۔ افریقہ میں قبیلے کے لوگ اجتماعی طور پر جانور ذبح کرتے ہیں، بنگلہ دیش میں پورا محلہ ایک ساتھ مل کر حصہ ڈالتا ہے، اور یورپ و امریکہ میں مسلمان تارکین وطن اپنی کمیونٹیز میں عبادت کے ساتھ اپنی شناخت کو محفوظ رکھتے ہیں۔ ان مختلف اندازوں کے باوجود جو چیز سب کو جوڑتی ہے وہ قربانی کی اصل نیت، وحدتِ امت، اور اخوت کا پیغام ہے۔ یہ عالمی منظر ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم چاہے کسی بھی ملک میں ہوں، ہماری عبادت ایک ہے، اور ہمارا خالق بھی ایک۔

مہنگائی

گزشتہ چند برسوں سے مہنگائی نے متوسط اور کم آمدنی والے طبقے کے لیے قربانی جیسے فریضے کو ایک کٹھن آزمائش بنا دیا ہے۔ جانوروں کی قیمتیں عام آدمی کی پہنچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں، جس سے وہ ذہنی دباؤ اور سماجی احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے۔ لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اسلام نے استطاعت کو بنیاد بنایا ہے، اور جو شخص واقعی قربانی کا متحمل نہیں، وہ شرعی طور پر معذور ہے، محروم نہیں۔ دین ہمیں دکھاوے سے روکتا ہے اور نیت کے اخلاص کو سب سے بلند رکھتا ہے۔ اس مشکل معاشی ماحول میں وہ افراد جو صاحبِ حیثیت ہیں، ان پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دوسرے بھائیوں کو قربانی میں شامل کریں یا ان کے لیے آسانیاں پیدا کریں۔

قربانی کا گوشت

قربانی کے فوراً بعد اکثر گھروں میں گوشت کی بھرمار ہو جاتی ہے، لیکن اگر اس گوشت کا درست انداز میں استعمال نہ ہو تو یہ نعمت ضیاع میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ گوشت کو ذخیرہ کرنے کے لیے صفائی، درجہ حرارت اور مناسب پیکنگ کا خیال رکھنا ضروری ہے، ورنہ بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

فریزر میں بلاوجہ گوشت بھرنا اور مہینوں تک اسے ضائع کر دینا، اسراف کے زمرے میں آتا ہے، جس کی سخت ممانعت کی گئی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم گوشت کی تقسیم میں توازن رکھیں، عزیز و اقارب کے ساتھ ساتھ ہمسایوں اور مستحقین کو بھی شامل کریں، اور اسے اعتدال کے ساتھ استعمال کریں۔ اس سے نہ صرف نعمت کا شکر ادا ہو گا بلکہ دوسروں کا حق بھی ادا کیا جا سکے گا۔

نوجوان نسل کے لیے پیغام

عید کا دن نوجوانوں کے لیے محض تعطیل یا تفریح کا موقع نہیں، بلکہ تربیت اور کردار سازی کا ایک نادر موقع ہے۔ جب نوجوان قربانی کی تیاری، جانور کی دیکھ بھال، اور اس کے ساتھ محبت میں شریک ہوتے ہیں، تو ان کے اندر احساس، ذمہ داری، اور خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔ انہیں یہ سیکھنے کا موقع ملتا ہے کہ قربانی صرف جسمانی عمل نہیں بلکہ ایک روحانی جہاد ہے، جس کا مقصد اپنے اندر کی خود پسندی، غفلت، اور دنیا پرستی کو ختم کرنا ہے۔ اگر نوجوان اس عبادت کے گہرے مفہوم کو سمجھ لیں، تو وہ اپنی زندگی کو خدمت، خلوص، اور قربانی کے اصولوں پر استوار کر سکتے ہیں، جو مستقبل میں انہیں ایک بہتر انسان، شہری اور مسلمان بننے میں مدد دے گا۔  

متعلقہ مضامین

  • یہ ظلم کب تک ؟
  • ابوظبی کے اسکولوں میں عربی زبان کی تعلیم لازمی قرار
  • پی ٹی آئی کا بجٹ کیخلاف احتجاج کا فیصلہ، اہم اجلاس آج طلب
  • منی پور ،بھارت کے تابوت میں آخری کیل
  • امرتسر سے سری نگر قتل عام کی سیاہ تاریخ
  • ابوظبی میں بچوں کے لیے عربی سیکھنے کے لیے 240 منٹ فی ہفتہ لازم قرار
  • قلم اُٹھایئے اور شعور پھیلایئے
  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • زباں فہمی251  ؛  بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید
  • فرد سے معاشرے تک عیدِ قربان کا پیغام