زباں فہمی نمبر243 ؛اچّھے سے……
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
دیکھیے! اگلا کالم اچّھے سے لکھیے گا
سنیے گا .....اچّھے سے کام کریں تو ہم سبھی خوش ہو ں گے۔
بچّوں سے کہیے کہ جو اچّھے سے کام کرے گا ، ہم اُسے انعام دیں گے۔
یقیناًآپ نے بھی ایسے جملے سُنے پڑھے ہوں گے، ٹی وی ڈراموں میں بھی سنے ہوں گے۔ کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ ’’اچّھے سے‘‘ کیا ہوتا ہے؟ سامنے کی بات ہے کہ اس کی جگہ کہنا چاہیے ’اچھی طرح‘۔ یہ ’’اچّھے سے‘‘ کہاں سے آیا؟ اس بابت ذر ا ٹھہرکر بتاتا ہوں۔ ابھی تو آپ کچھ اور نکات سے لطف اندوز ہوں۔
ا)۔ ایک ویب سائٹ کی اطلاع کے مطابق، اپریل2023ء میں ہندوستان کے معروف مُوسِیقار جناب اے آر رحمان کے متعلق ایک دل چسپ خبر سامنے آئی کہ انھوں نے اپنی بیگم کو عوام کے سامنے بجائے ہندی (یعنی اردو) یا انگریزی کے، اپنی زبان تَمِل میں گفتگو کرنے کو کہا اور جواب میں خاتون نے کہا کہ میں تَمِل، اچّھے سے نہیں بول سکتی۔
ب)۔ پچھلے ایک سال سے ایک کلام سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے اور جا بجا اُسے گنگنایا جارہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
تم عید منانا اَچھے سے
کوئی بھی کسر نہ چھوڑو تم
ہم لوگ منائیں گے کیسے
اب فکر ہماری چھوڑو تم
تم لوگ دعا ہی کرنا بس
وہ مسجد اقصیٰ ڈھا دیں گے
سوتے ہی رہو تم غفلت میں
وہ موت کی نیند سلا دیں گے
تم عید منانا اچھے سے
المیہ فلسطین کے موضوع پر یہ اچھی کاوش ہے۔ مجھے تلاشِِ بسیار کے باوجود اِس کلام کے شاعر کا نام نہیں ملا۔ آگے چلیں۔
ج)۔ عامر اعظمی (ساکنِ اَلعین، متحدہ عرب امارات) نامی شاعر کی ایک غزل آنلائن دیکھی جس میں یہ شعر توجہ طلب ہے:
خوب واقف ہیں اُس کی رگ رگ سے
اُس کو اچھے سے جانتے ہیں ہم
چونکہ اعظم گڑھ (نیز غازی پور، گورکھ پور وغیرہ) کے لوگ عموماً اپنی ثقافت بشمول زبان (بولی ٹھولی) میں اہل بِہار سے قریب اور مماثل نظر آتے ہیں، لہٰذا یہ شاعر بھی خالص بِہاری بولی کا استعمال بخوبی کرگئے۔ (نجی مشاہدے کی با ت کروں تو معروف شاعر، ادیب ونقاد ڈاکٹر فہیم اعظمی، ممتاز شاعر سہیل غازی پوری اور معلوماتی کتب کے مؤلف وناشر محمد ظفر اقبال غازی پوری اس کی روشن مثال تھے)۔ فیس بُک پر بھی ایک عامر اعظمی شاعر موجود ہیں، مگر اُن کے کوائف سے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ وہی شاعر ہیں یا اُن کے ہم نام۔ ریختہ ڈاٹ آرگ میں ایک ناول ’خونِ تمنّا‘ (سن اشاعت: 1974ء)محفوظ ہے جس کے مصنف کا نام عامر برقی اعظمی ہے، لیکن یہ ہرگز میرے کرم فرما، زود گو فارسی واُردو شاعر ڈاکٹر اَحمد علی برقیؔ اعظمی مرحوم کے فرزند نہیں، جنھوں نے خاکسار کے کلام اور کتب کو (بلا فرمائش ودرخواست) متعدد بار منظوم خراج ِ تحسین پیش کیا تھا۔ (ڈاکٹر برقی اعظمی مرحوم کے لب ولہجے میں وہ ’بِہاری‘ عنصر کبھی محسوس نہ ہوا جس کی اوپر مثال دے چکا ہوں)۔
ضمنی مگر اہم بات یہ ہے کہ اس ناول کا انتساب عظیم فن کا ر یوسف خان عُرف دلیپ کُمار (مرحو م) کے نام کیا گیا تھا۔
اب آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ یہ ’’اچّھے سے‘‘ خالص بِہاری بولی ٹھولی ہے۔ آپ مستندومعتبر لغات ازقسمے فرہنگ آصفیہ ونوراللغات میں تلاش کریں تو اِس کا اندراج نہیں ملے گا۔ محفوظ ’بِہار اُردولغت‘ (دو جلد) میںبھی یہ ترکیب شامل نہیں۔ (یاد رکھیں کہ خاکسار نے اس لغت کے مندرجات پر مبنی ایک تحقیقی تحریر، سلسلہ زباں فہمی میں پیش کی تھی جو آنلائن موجود ہے۔ زباں فہمی نمبر 155مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین، مؤرخہ 11ستمبر 2022ء)۔ لگے ہاتھوں اپنے ا س یادگار مضمون سے ایک اقتباس بھی نقل کرتا چلوں کہ بہت سے قارئین کے لیے نیا ہوگا:
’بہار اردو لغت‘ کے مرتبین وناشرین اس نکتے کے پرچار ک نظر آتے ہیں کہ دیگر علاقوں میں رائج معیاری اردو کے برعکس، بِہار میں زبان کی تشکیل زیادہ منطقی ہے ۔’’ایک پہلو یہ ہے کہ اردو کا وہ رُوپ جو بِہار میں تشکیل پایا، اس میں جابجا الفاظ کی تشکیل میں دہلی، لکھنؤ، رام پور سے زیادہ منطقیت پائی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال گنتی میں استعمال ہونے والے الفاظ سے دی جاسکتی ہے۔ دس(10) کے بعد ایک تا آٹھ مزید گنتی (11,12,13,14,15,16,17,18)اور اسی طرح ہر دَہائی کے بعد کی گنتی کے لیے (20,22-28),(30,31-38) ، یکساں طریقہ کار ہے‘‘۔ اُن کے خیال میں چالیس (40)سے پہلے کا عدد، اُنتالیس (39)کی بجائے بِہار کے قاعدے سے اُنچالیس کہلائے تو بہتر ہے، اسے ہی لغت کا حصہ بنانا چاہیے۔ بات یہیں تک موقوف نہیں، بلکہ اُن کے بیان کے مطابق، پنڈِت دتاتریہ کیفیؔ کی تحریک کے زیرِاثر، اسم سے فاعل بنانے کا جوطریقہ شروع ہوا (مثلاً برق سے برقیانا، قوم سے قومیانا)، بِہار میں مدتوں سے رائج تھا، مثلاً پانی سے پَنیانا(کسی کھانے میں پتلا کرنے کے لیے پانی ڈالنا)، بات سے بَتیانا (بات کرنی یا باتیں بنانا)۔ اب یہاں رک کر سوچیں کہ آیا ہم اہل زبان، معیاری زبان میں، ایسی کسی اصلاح یا ترمیم یا اضافے کو اَزخود ، بلا چُوں چرا قبول کرلیں گے؟
بِہار کی اُردو میں واحد سے جمع بنانے کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ مذکرومؤنث دونوں کے لیے ایک ہی لفظ برتا جائے جیسے لڑکا اور لڑکی دونوں کی جمع لڑکن۔ ویسے خاکسار نے ان گناہگار کانوں سے متعدد بار’’لڑکا‘‘ کی جمع ’’لڑکا لوگ‘‘ بھی سنی ہے۔ بِہاری اردو میں کسی بھی لفظ یا اسم کے آگے ’وا‘ لگاکر اس کی ہیئت تبدیل کرنا عام بات ہے، خواہ ایسا اظہارِالفت میں ہو یا تحقیر میں، جیسے من کو مَنوا، بابو کو بَبوا، مشتاق کو مُستاکوا۔ ایک مثال موٌنث کی ذہن میں آئی جو بِہار اُردولغت کے پیش لفظ میں درج نہیں: مُنّی کو مُنیا۔ (یہ معاملہ پُوربی میں بھی ہے، بیل سے بَیَلوا، سجن سے سجنوا، سجنی سے سجنیا وغیرہ۔ خاکسار نے ایک گزشتہ کالم میں پُوربی کے ضمن میں گلوکار رَنگیلا کے مقبول گانے ’’گا مورے منوا، گاتا جارے، جانا ہے ہم کا، دور، ٹھُمک ٹھُمک نہیں چل رے بَیَلوا، اپنی نگریا ہے دور‘‘ کا ذکر نہیں کیا تھا، مگر ہے بہت عمدہ مثال)۔ بِہار میں ہندوستان کے کسی بھی علاقے کی نسبت کہیں زیادہ ایسے انگریزی الفاظ بولنے کا چلن عام ہے جن کا مترادف یا متبادل اردو میں موجود ہے جیسے سڑک کی بجائے Roadا ور اسے بنایا ، روڈوا۔ لوجی! ہم تو اپنے یہاں سڑکوں کی بجائے روڈوں کہنے پر اعتراض کرتے ہیں، اب کیا کہیں؟
بِہاری اردو میں امالہ کا اصول بالکل رائج نہیں (اور شاید اہل پنجاب نے بھی، یہ طرز اُنھی سے سیکھا ہے)، جس کی بے شمار مثالیں تحریر اور بول چال میں موجود ہیں، فی الحال زیرِبحث لغت ہی میں منقولہ عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:
ا)۔ اسلام میں بیٹا (بیٹے ) کے مقابلہ (مقابلے) پر بیٹی کا نصف حصہ ہے۔
ب)۔ سونا (سونے) کی نیلامی ہوئی۔
ج)۔ کُتّا (کُتّے) کی چوکیداری مشہور ہے۔
اسی لغت (’بہار اردو لغت‘) سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ بِہار میں بعض الفاظ وتراکیب کے معانی بھی مختلف مراد لیے جاتے ہیں، جیسے ’’تڑپنا‘‘ سے مراد ہے ، (کسی جگہ پانی میں) کُود کر پار ہوجانا۔ اب آئیے ہم لغت کی مدد سے ایسے چُنیدہ الفاظ کی فہرست پیش کرتے ہیں جو مرتبین ِبہار اُردو لغت کے بیان کے مطابق، خاص بِہاری اردو ہی میں مروج ہیں۔ الفاظ کے معانی قوسین میں درج ہیں، جبکہ وضاحت اس راقم کی ہے:
اذاں پڑنا (اذان ہونا)، اکثر ہا (اکثر اوقات، بسا اوقات)، اِگیارہ (گیارہ)، آبھ (پَرتَو)، آدرمان (قدرومنزلت)، آسامی (جیل کی اصطلاح میں قیدی)، آسمان تارہ (ایک قسم کی آتش بازی)، آنھِٹی (تاڑ کا پھل)، آنب (آم)، بھائی جہ (بھتیجہ )، بہن جہ (بھانجہ)، بہن وَئی (بہنوئی);ویسے یہ لفظ اس تلفظ کے ساتھ بعض دیگر برادریوں میں بھی سننے کو ملا ہے، بھوجائی (بھاوج)، بھُتانا (بھول جانا)، بھنٹا (بیگن)، بدھنا =بَدھ +نا (تانبے یا المونیئم کا بنا ہوا لوٹا) (یہ لفظ بھی خالص بِہاری نہیں)، بوڑانا (بَولانا) (شاید لفظ بَوڑَم بمعنی بے وقوف سے تعلق ہے)، پھُلیا (سوزنی)، پھیپھسا (پھیپھڑا)، چونٹی یعنی چیونٹی کاٹنا (دِق /ضیق کرنا ، نوچنا)، تیرنا (کھینچنا، پھیلانا)، ٹھونگا (کاغذ کی تھیلی جس میں نیچے موٹے کاغذ کی تہہ ہو)، ٹھیونا (گھُٹنا)، چُکڑ (آب خورہ یعنی جدید زبان میںپانی پینے کا گلاس)، چیں را/چیرا (کینچوا)، دائی (گھریلو خادمہ);آج کل کی اُردو میں ماسی، حالانکہ دائی سے مراد قابلہ یعنی وہ عورت ہے جو زچگی کے عمل میں مدد فراہم کرتی ہے)، ڈیڑھ سَس (بڑی سالی)، رام تُرَئی (بھنڈی)، روپنا (بونا)، ساٹنا/سانٹنا (چپکانا)، سنگھاڑا/سینگھاڑا (سموسہ)، قلفی (چائے کی پیالی)، کرائی (کلرک)، کسیلی (چھالیہ);حالانکہ کسیلا تو بذاتہ ایک ذائقے کا نام ہے، کونہڑا (گول کدّو)، کھُدیڑنا (رگیدنا);یہ غیربہِاری طبقے میں بھی مستعمل ہے، کھوکھی (کھانسی)، کیولا (سنترہ )، کتّنی (دیورانی)، گارنا (نچوڑنا)، گوئٹھا (اُپلا)، گولکی (کالی مرچ)،گھاگھرا (چکوترہ)، گھیلا (پانی کا گھڑا)، لخیرا/لاخیرا (غنڈہ)، لَسّا (چینپ ، پِیپ وغیرہ کا)، لُکنا (چھُپنا); یہ پنجابی میں بھی مستعمل ہے، لَند پھند (چکربازآدمی)، لنگا (ننگا)، لوکنا (ہوا میں پکڑلینا، کیچ کرلینا)، مُلّا زادہ (خادم، نوکر)، مَیلنا (مَلنا،میل صاف کرنا)، ناتی (نواسہ);یہ دیگر مقامات پر بھی رائج ہے، نَتنی (نواسی)، ننواں (تُرئی/توری)، نیہر (میکا /میکہ);یہ بھی دیگر برادریوں میں سننے کو ملتا ہے، خصوصاً شادی بیاہ کے گیتوں میں جیسے ’’میرے نیہر سے آج مجھے آیا، یہ پیلا جوڑا، یہ ہَری ہَری چوڑیاں‘‘۔
قارئین کرام! یہاں دونِکات پر بطورِخاص توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں:
ا)۔ ’اچھی طرح‘ کی بجائے ’’اچّھے سے‘‘ کہنے کا روزاَفزوں رِواج پاکستان میں آباد بِہاری برادری کے طفیل نہیں، بلکہ اس کا سہرا ہندوستانی ٹیلیوژن چینلز دیکھ کر زبان سیکھنے والے اور ڈرامے لکھنے والے افراد کے سر ہے جنھوں نے یہ ترکیب عام کی۔
ب)۔ سوال یہ ہے کہ کیا بِہاری بولی ٹھولی یا مخصوص لہجے کی کوئی ایسی ترکیب تمام اہل زبان کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے؟
راقم کی رائے میں، دوسرے نکتے کا جواب نفی میں ملے گا، کیونکہ (صحیح یا غلط کی بحث سے قطع نظر) یوپی، خصوصاً دِلّی اور لکھنؤ کی زبان کو معیار اور سند مانا جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ ایک بزرگ بِہاری معاصر کے بیان کے مطابق، عظیم آباد (پٹنہ، بِہار) کا خدمتِ اردو میں لکھنؤ سے زیادہ حصہ ہے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی کوئی بھی ترکیب، اصطلاح، فقرہ، جملہ یا محض اسماء تمام اہل زبان کے لیے قابل قبول معیاری زبان کا حصہ نہیں بن پاتے، البتہ انھیں عوامی بول چال میں اپنایا جاتا ہے جسے انگریزی میں Slang کہتے ہیں۔ لطف کی بات ہے کہ ڈاکٹر رَؤف پاریکھ صاحب کی مرتبہ سلینگ لغت میں (بے شمار دیگر اسماء و اصطلاحات کی طرح) اس کا بھی اندراج نہیں!
مزید تحقیق کی جائے تو یہ نکتہ اظہر من الشمس معلوم ہوتا ہے کہ اردو کی عوامی بولی ٹھولی میں ایک حصہ بہرحال معیاری زبان (ادبی، رسمی، کتابی ودفتری) میں شامل ہوچکا ہے، لیکن ایسا ہونے میں ایک مدت لگتی ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ب ہار میں کی بجائے کے مطابق یہ ہے کہ میں بھی ب ہاری کے لیے
پڑھیں:
وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
کتنی اچھی تھی وہ بیسویں صدی۔تھوڑے سے ڈاکٹر، اور تھوڑے ہی مریض ہوتے۔ موسمی بخار اور نزلہ زکام ہی معمول کی بیماریاں تھیں۔ ہاں کسی کو ماں کی بددعا یا فقیر کی آہ لگ جاتی تو دانت یا کان کے درد جیسے ’سنگین امراض‘ بھی لاحق ہوجاتے۔ تشویشناک مریضوں کی اکثریت وہ ہوتی جو ٹرک اور بس کے تصادم میں اوپر پہنچنے کی بجائے اسپتال پہنچ جاتے۔ یوں سرجیکل وارڈ ہی ہر اسپتال کے بڑے وارڈز ہوتے۔ تب پبلک ٹرانسپورٹ کم اور شاہراہیں شہروں میں بھی یکطرفہ پر دو طرفہ تھیں۔ سو تصادم آمنے سامنے کے ہوتے اور ہر دوسرے ہفتے 20 ہلاک 40 زخمی کی خبر اخبارات میں نظر آتی۔ پھر نواز شریف کی حکومت آئی اور اس نے دو رویہ شاہراہوں کا جال پھیلا کر قوم کو مزید معذور ہونے سے بچا لیا۔ یوں پاکستان نئے دور یعنی اکیسویں صدی میں دو رویہ سڑکوں کے ساتھ داخل ہوا۔
نئی صدی تھی، سو لوگ بھی نئے تھے۔ اور لوگ نئے تھے تو ڈاکٹر بھی نئے تھے۔ بیسویں صدی والا ڈاکٹر بہت بڑی بے ایمانی بھی کرتا تو یہ کہ 50 روپے فیس پتلون میں اڑسنے کے بعد جو دوا لکھ کر دیتا وہ ایسی دیتا کہ مریض پہلے ہی چکر پر ٹھیک نہ ہو۔ کم از کم 50 کا ایک نوٹ مزید دینے کو حاضر ہو پھر بیشک صحت مند ہوجائے۔ مطب بند ہوتا تو شٹر کو چائنا والے 2 عدد تالے لگے ہوتے۔ یوں بورڈ پڑھے بغیر بند شٹرز سے پتہ ہی نہ چلتا کہ کون سا کلینک ہے اور کون سی پرچون کی دکان؟ مطب کھلتا تو کوئی ریسیپشن نہ ہوتا۔ ڈاکٹر اور اس کا کمپاؤڈرہی کل اہلیان مطب ہوتے۔ اور کمپاؤڈر کمپاؤڈری کے ساتھ مطب کے جھاڑو پوچے اور چوکیداری کے اضافی قلمدان بھی رکھتا۔ بھروسہ اس پر ڈاکٹر ٹکے کا نہ کرتا۔ جس کا پتہ یوں چلتا کہ فیس ڈاکٹر صاحب ہر حال میں بدست خود وصول فرماتے اور پتلون کی جیب میں اڑستے جاتے۔ گھر جاتے تو بیگم کو ساتھ ملا کر ان مڑے تڑے 50 کے نوٹوں کو استری کر لیتے۔ بیگم کسی ہفتہ صفائی کے نتیجے میں کم آمدنی کی شکایت کرتی تو وہ فرماتے
’ڈارلنگ ! بس کسی طرح یہ مہینہ گزار لو۔ اگلے مہینے ساون شروع ہوجائے گا، پھر مریض ہی مریض ہوں گے۔‘
دور نے گزرنا ہوتا ہے، سو وہ دور بھی نہ رہا۔ اب ہم کھڑے ہیں اکیسویں صدی میں۔
جہاں وہ بیسویں صدی والا ڈاکٹر ایکسپائر ہوچکا۔ اور اس کی جگہ لے لی ہے نئے دور کے نئے ڈاکٹر نے۔ جتنا یہ ڈاکٹر خود عجیب و غریب ہے اتنی ہی عجیب و غریب یہ بیماریاں ساتھ لایا ہے، جس کے لیے اسے جراثیمی امور کے سائنسدانوں کی مدد حاصل ہے۔ اس کے کلینک کی دیوار شیشے کی ہے۔ سلائیڈنگ ڈورز ہیں، اور سلائیڈنگ ہی کھڑکیاں۔ جھاڑو پوچے کے لیے سویپر رکھا ہوا ہے۔ باہر ایک کاؤنٹر ہے، اور کاؤنٹر پر ایک دوشیزہ ہے۔ صورت بیشک ڈراؤنی ہے مگر ہے دوشیزہ ہی۔ اندر ڈاکٹر صاحب کے ہمراہ ایک اسسٹنٹ چوکس و تیار کھڑا ہے۔ جو بوقت ضرورت مریض کا ناڑا کھولنے کی ڈیوٹی انجام دیتا ہے۔ اور ماشاءاللہ کلینک میں اے سی بھی چل رہا ہے۔ یوں پہلے صرف ڈاکٹر کی فیس دینا پڑتی تھی جو 50 روپے ہوتی۔ اب ڈاکٹر کے کلینک کے کھڑکی شیشوں کا خرچ بھی مریض نے ہی تاحیات قسطوں میں اٹھانا ہے۔ اے سی کا بل، وہ باہر والی دوشیزہ، اندر والے اسسٹنٹ اور سویپر کی تنخواہیں بھی مریض کی جب سے جائیں گی۔ یوں جاتے ہم ڈاکٹر کے پاس ہیں مگر فیس ہمیں ان 4 لوگوں کی ادا کرنا ہوتی ہے۔
آپ نے غور کیا؟ اس اکیسویں صدی والے ڈاکٹر کے اسٹاف میں کمپاؤڈر کا ذکر نہیں آیا۔ ہے نا عجیب بات ؟ سوال یہ ہے کہ کمپاؤڈر گیا کہا ں؟ اگر کوئی ارتقاء ہوا ہے تو اس کی جگہ لینے والا اب کیا کہلاتا ہے ؟ یہی تو سب سے بڑی واردات ہوئی ہے۔ کمپاؤڈر کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں نے نسل ہی ختم کردی۔ اب آپ کو مطب سے دوا نہیں صرف پرچی ملتی ہے۔ اور پرچی بھی نہیں بلکہ پرچیاں ملتی ہیں۔ وہ 50 روپے والا ڈاکٹر اتنا وضعدار تھا کہ ہم منہ بنا کر جاتے تو وہ کہتا
’منہ کیوں لٹکا رکھا ہے؟ ہلکا سا بخار ہے دو دن میں ٹھیک ہوجائے گا’
اور یہ آج کل والے نمونے کے پاس اگر ہنستے مسکراتے جایئے تو یہ فورا کہتا ہے
مجھے لگتا ہے آپ اپنی بیماری کو سیریس نہیں لے رہے !
‘سیریس؟ ہلکا سا زکام ہی تو ہے، اس میں سیریس کیا چیز ہے ؟‘
’نہیں بھئی ! مجھے یہ کچھ اور لگ رہا ہے۔ بس دعا کیجیے کہ جو مجھے لگ رہا ہے وہ ہو ناں۔ یہ پرچی لیجیے، اور ’لٹ مچاؤ لیب‘ سے ٹیسٹ کروا کر رپورٹس لائیے تب ہی صورتحال واضح ہوگی۔‘
جو شخص کچھ ہی دیر قبل بہت پر اعتماد قدموں سے چلتا کلینک میں داخل ہوا تھا۔ وہ خود پر آیت الکرسیاں پڑھتے ٹیسٹ کروانے کے لیے روانہ ہوجاتا ہے تو اکیسویں صدی کا ڈاکٹر پیچھے سے آواز دے کر کہتا ہے:
میں ’لٹ مچاؤ لیب‘ کے سوا کسی بھی لیب پر ٹرسٹ نہیں کرتا۔ ٹیسٹ وہیں کے ہونے چاہئیں۔
اور جب وہ 10 ہزار روپے کے ٹیسٹ کرا کر رپورٹس کا لفافہ ڈاکٹر کے ہاتھ پر لا رکھتا ہے تو یہ رپورٹ پر ایک نظر ڈالتا ہے اور پھر چہرے پر مصنوعی تبسم پھیلا کر یوں گویا ہوتا ہے
’شکر الحمدللہ ! ! ! ! ! مبارک ہو سر ! مجھے جو خدشہ تھا وہ غلط ثابت ہوا۔ یہ زکام ہی ہے۔ 5 دوائیں لکھ کر دے رہا ہوں۔ باہر فارمیسی ہے، اسی سے یہ ساری دوائیاں لیجیے گا، کیونکہ باقی سب جعلی دوائیاں فروخت کرتے ہیں۔ پورے شہر میں اصلی دوائیاں صرف اسی فارمیسی سے ملتی ہیں۔ انشاءاللہ دو تین ہفتے میں ٹھیک ہو جائیں گے۔‘
’سر ! زکام کے لیے اتنی ساری دوائیں؟‘
’یہ عام زکام نہیں ہے۔ اسے ہلکا مت لیجیے۔ معمولی سی بھی غفلت برتی توکووڈ 19 میں کنورٹ ہوجائے گا۔‘
یوں یہ اکیسویں صدی کا ڈاکٹر لیب اور فارماسیوٹیکل کمپنی دونوں سے کمیشن پاتا ہے۔ اور اس لیے پاتا ہے کہ لیب اور فارما کے لیے ہماری جیبوں بلکہ تجوریوں پر ڈاکہ ڈاکٹر صاحب نے ہی ڈالا ہے۔ یہ محض اتفاق تو نہیں ہوسکتا کہ جس طرح ’ڈاکے‘ والا ڈاکو کہلاتا ہے، اسی طرح ڈاکٹر بھی ڈاکے سے ہی ماخوذ لگ رہا ہے۔ صورتحال اس قدر افسوسناک ہے کہ نیورالوجسٹ ڈپریشن کےشکار شخص کا ڈیڑھ برس تک اس کے باوجود علاج کرتے ہیں کہ ڈپریشن سرے سے طبی مرض ہی نہیں۔ انسان ایک سوشل اینمل ہے۔ سو یہ جب بھی سوشل سرگرمیاں کمپرومائز کرے گا، ڈپریشن کا شکار ہونا طے ہے۔ کیا نیورالوجسٹ کو نہیں معلوم کہ ڈپریشن طبی عارضہ نہیں؟ اور اس کا شکار شخص کبھی بھی دوا کے ذریعے اس سے نجات نہیں پاسکتا ؟ وہ اچھی طرح جانتا ہے مگر کلینک آیا شخص تو ڈاکٹر کی روزی روٹی ہے۔ بھلا کوئی روزی روٹی کو بھی لات مارتا ہے؟
اگر آپ ڈپریشن کا شکار ہیں تو کسی ڈاکٹر کے پاس مت جایئے۔ بس اتنا کر لیجیے کہ اپنی سوشل سرگرمی کے تینوں سرکل پوری طرح ایکٹو کر لیجیے۔ پہلا سرکل فیملی کا ہے۔ فیملی کو باقاعدہ وقت دیجیے۔ اہلخانہ سے روز کم از کم گھنٹہ دو گپ شپ کیجیے۔ اس کی بہترین صورت یہ ہوسکتی ہے کہ شام 6 بجھے سے رات 9 تک گھر کا وائی فائی بند رکھیے۔ وہ بند ہوگا سب اہلخانہ ٹی وی لاؤنج میں ہوں گے، اور خود کار طور پر گپ شپ کا ماحول بن جایا کرے گا۔
دوسرا سرکل آپ کے رشتے داروں کا ہے، ان سے اسی طرح میل جول اختیار کر لیجیے جس طرح سوشل میڈیا دور سے قبل والی نسل کا تھا۔
تیسرا سرکل ذاتی دوستوں کا ہے۔ ان میں آپ کے کلاس فیلوز، کولیگز، ٹیم میٹس، اور گاؤں والوں سمیت وہ سب آتے ہیں جن سے آپ کی ذاتی دوستی ہے۔ ان سے بھی آپ کا میل جول متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
اگر آپ کے یہ تینوں سرکل پورے بھی ہیں اور نارمل بھی ہیں تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا کہ آپ ڈپریشن کا شکار ہوں۔ یہ وبا سوشل میڈیا دور کی دین ہے۔ اس کا میڈیکل سائنس سے دور کا بھی کوئی لینا دینا نہیں۔ سو اس کے علاج کے لیے نیورالوجسٹ سے دور رہیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں