Express News:
2025-07-27@02:39:00 GMT

زباں فہمی نمبر243 ؛اچّھے سے……

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

دیکھیے! اگلا کالم اچّھے سے لکھیے گا

سنیے گا .....اچّھے سے کام کریں تو ہم سبھی خوش ہو ں گے۔

بچّوں سے کہیے کہ جو اچّھے سے کام کرے گا ، ہم اُسے انعام دیں گے۔

یقیناًآپ نے بھی ایسے جملے سُنے پڑھے ہوں گے، ٹی وی ڈراموں میں بھی سنے ہوں گے۔ کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ ’’اچّھے سے‘‘ کیا ہوتا ہے؟ سامنے کی بات ہے کہ اس کی جگہ کہنا چاہیے ’اچھی طرح‘۔ یہ ’’اچّھے سے‘‘ کہاں سے آیا؟ اس بابت ذر ا ٹھہرکر بتاتا ہوں۔ ابھی تو آپ کچھ اور نکات سے لطف اندوز ہوں۔

 ا)۔ ایک ویب سائٹ کی اطلاع کے مطابق، اپریل2023ء میں ہندوستان کے معروف مُوسِیقار جناب اے آر رحمان کے متعلق ایک دل چسپ خبر سامنے آئی کہ انھوں نے اپنی بیگم کو عوام کے سامنے بجائے ہندی (یعنی اردو) یا انگریزی کے، اپنی زبان تَمِل میں گفتگو کرنے کو کہا اور جواب میں خاتون نے کہا کہ میں تَمِل، اچّھے سے نہیں بول سکتی۔

ب)۔ پچھلے ایک سال سے ایک کلام سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے اور جا بجا اُسے گنگنایا جارہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

تم عید منانا اَچھے سے

کوئی بھی کسر نہ چھوڑو تم

ہم لوگ منائیں گے کیسے

اب فکر ہماری چھوڑو تم

تم لوگ دعا ہی کرنا بس

وہ مسجد اقصیٰ ڈھا دیں گے

سوتے ہی رہو تم غفلت میں

وہ موت کی نیند سلا دیں گے

تم عید منانا اچھے سے

المیہ فلسطین کے موضوع پر یہ اچھی کاوش ہے۔ مجھے تلاشِِ بسیار کے باوجود اِس کلام کے شاعر کا نام نہیں ملا۔ آگے چلیں۔

ج)۔ عامر اعظمی (ساکنِ اَلعین، متحدہ عرب امارات) نامی شاعر کی ایک غزل آنلائن دیکھی جس میں یہ شعر توجہ طلب ہے:

خوب واقف ہیں اُس کی رگ رگ سے

اُس کو اچھے سے جانتے ہیں ہم

چونکہ اعظم گڑھ (نیز غازی پور، گورکھ پور وغیرہ) کے لوگ عموماً اپنی ثقافت بشمول زبان (بولی ٹھولی) میں اہل بِہار سے قریب اور مماثل نظر آتے ہیں، لہٰذا یہ شاعر بھی خالص بِہاری بولی کا استعمال بخوبی کرگئے۔ (نجی مشاہدے کی با ت کروں تو معروف شاعر، ادیب ونقاد ڈاکٹر فہیم اعظمی، ممتاز شاعر سہیل غازی پوری اور معلوماتی کتب کے مؤلف وناشر محمد ظفر اقبال غازی پوری اس کی روشن مثال تھے)۔ فیس بُک پر بھی ایک عامر اعظمی شاعر موجود ہیں، مگر اُن کے کوائف سے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ وہی شاعر ہیں یا اُن کے ہم نام۔ ریختہ ڈاٹ آرگ میں ایک ناول ’خونِ تمنّا‘ (سن اشاعت: 1974ء)محفوظ ہے جس کے مصنف کا نام عامر برقی اعظمی ہے، لیکن یہ ہرگز میرے کرم فرما، زود گو فارسی واُردو شاعر ڈاکٹر اَحمد علی برقیؔ اعظمی مرحوم کے فرزند نہیں، جنھوں نے خاکسار کے کلام اور کتب کو (بلا فرمائش ودرخواست) متعدد بار منظوم خراج ِ تحسین پیش کیا تھا۔ (ڈاکٹر برقی اعظمی مرحوم کے لب ولہجے میں وہ ’بِہاری‘ عنصر کبھی محسوس نہ ہوا جس کی اوپر مثال دے چکا ہوں)۔

ضمنی مگر اہم بات یہ ہے کہ اس ناول کا انتساب عظیم فن کا ر یوسف خان عُرف دلیپ کُمار (مرحو م) کے نام کیا گیا تھا۔

اب آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ یہ ’’اچّھے سے‘‘ خالص بِہاری بولی ٹھولی ہے۔ آپ مستندومعتبر لغات ازقسمے فرہنگ آصفیہ ونوراللغات میں تلاش کریں تو اِس کا اندراج نہیں ملے گا۔ محفوظ ’بِہار اُردولغت‘ (دو جلد) میںبھی یہ ترکیب شامل نہیں۔ (یاد رکھیں کہ خاکسار نے اس لغت کے مندرجات پر مبنی ایک تحقیقی تحریر، سلسلہ زباں فہمی میں پیش کی تھی جو آنلائن موجود ہے۔ زباں فہمی نمبر 155مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین، مؤرخہ 11ستمبر 2022ء)۔ لگے ہاتھوں اپنے ا س یادگار مضمون سے ایک اقتباس بھی نقل کرتا چلوں کہ بہت سے قارئین کے لیے نیا ہوگا:

’بہار اردو لغت‘ کے مرتبین وناشرین اس نکتے کے پرچار ک نظر آتے ہیں کہ دیگر علاقوں میں رائج معیاری اردو کے برعکس، بِہار میں زبان کی تشکیل زیادہ منطقی ہے ۔’’ایک پہلو یہ ہے کہ اردو کا وہ رُوپ جو بِہار میں تشکیل پایا، اس میں جابجا الفاظ کی تشکیل میں دہلی، لکھنؤ، رام پور سے زیادہ منطقیت پائی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال گنتی میں استعمال ہونے والے الفاظ سے دی جاسکتی ہے۔ دس(10) کے بعد ایک تا آٹھ مزید گنتی (11,12,13,14,15,16,17,18)اور اسی طرح ہر دَہائی کے بعد کی گنتی کے لیے (20,22-28),(30,31-38) ، یکساں طریقہ کار ہے‘‘۔ اُن کے خیال میں چالیس (40)سے پہلے کا عدد، اُنتالیس (39)کی بجائے بِہار کے قاعدے سے اُنچالیس کہلائے تو بہتر ہے، اسے ہی لغت کا حصہ بنانا چاہیے۔ بات یہیں تک موقوف نہیں، بلکہ اُن کے بیان کے مطابق، پنڈِت دتاتریہ کیفیؔ کی تحریک کے زیرِاثر، اسم سے فاعل بنانے کا جوطریقہ شروع ہوا (مثلاً برق سے برقیانا، قوم سے قومیانا)، بِہار میں مدتوں سے رائج تھا، مثلاً پانی سے پَنیانا(کسی کھانے میں پتلا کرنے کے لیے پانی ڈالنا)، بات سے بَتیانا (بات کرنی یا باتیں بنانا)۔ اب یہاں رک کر سوچیں کہ آیا ہم اہل زبان، معیاری زبان میں، ایسی کسی اصلاح یا ترمیم یا اضافے کو اَزخود ، بلا چُوں چرا قبول کرلیں گے؟ 

بِہار کی اُردو میں واحد سے جمع بنانے کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ مذکرومؤنث دونوں کے لیے ایک ہی لفظ برتا جائے جیسے لڑکا اور لڑکی دونوں کی جمع لڑکن۔ ویسے خاکسار نے ان گناہگار کانوں سے متعدد بار’’لڑکا‘‘ کی جمع ’’لڑکا لوگ‘‘ بھی سنی ہے۔ بِہاری اردو میں کسی بھی لفظ یا اسم کے آگے ’وا‘ لگاکر اس کی ہیئت تبدیل کرنا عام بات ہے، خواہ ایسا اظہارِالفت میں ہو یا تحقیر میں، جیسے من کو مَنوا، بابو کو بَبوا، مشتاق کو مُستاکوا۔ ایک مثال موٌنث کی ذہن میں آئی جو بِہار اُردولغت کے پیش لفظ میں درج نہیں: مُنّی کو مُنیا۔ (یہ معاملہ پُوربی میں بھی ہے، بیل سے بَیَلوا، سجن سے سجنوا، سجنی سے سجنیا وغیرہ۔ خاکسار نے ایک گزشتہ کالم میں پُوربی کے ضمن میں گلوکار رَنگیلا کے مقبول گانے ’’گا مورے منوا، گاتا جارے، جانا ہے ہم کا، دور، ٹھُمک ٹھُمک نہیں چل رے بَیَلوا، اپنی نگریا ہے دور‘‘ کا ذکر نہیں کیا تھا، مگر ہے بہت عمدہ مثال)۔ بِہار میں ہندوستان کے کسی بھی علاقے کی نسبت کہیں زیادہ ایسے انگریزی الفاظ بولنے کا چلن عام ہے جن کا مترادف یا متبادل اردو میں موجود ہے جیسے سڑک کی بجائے Roadا ور اسے بنایا ، روڈوا۔ لوجی! ہم تو اپنے یہاں سڑکوں کی بجائے روڈوں کہنے پر اعتراض کرتے ہیں، اب کیا کہیں؟

بِہاری اردو میں امالہ کا اصول بالکل رائج نہیں (اور شاید اہل پنجاب نے بھی، یہ طرز اُنھی سے سیکھا ہے)، جس کی بے شمار مثالیں تحریر اور بول چال میں موجود ہیں، فی الحال زیرِبحث لغت ہی میں منقولہ عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:

ا)۔ اسلام میں بیٹا (بیٹے ) کے مقابلہ (مقابلے) پر بیٹی کا نصف حصہ ہے۔

ب)۔ سونا (سونے) کی نیلامی ہوئی۔

ج)۔ کُتّا (کُتّے) کی چوکیداری مشہور ہے۔

اسی لغت (’بہار اردو لغت‘) سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ بِہار میں بعض الفاظ وتراکیب کے معانی بھی مختلف مراد لیے جاتے ہیں، جیسے ’’تڑپنا‘‘ سے مراد ہے ، (کسی جگہ پانی میں) کُود کر پار ہوجانا۔ اب آئیے ہم لغت کی مدد سے ایسے چُنیدہ الفاظ کی فہرست پیش کرتے ہیں جو مرتبین ِبہار اُردو لغت کے بیان کے مطابق، خاص بِہاری اردو ہی میں مروج ہیں۔ الفاظ کے معانی قوسین میں درج ہیں، جبکہ وضاحت اس راقم کی ہے:

اذاں پڑنا (اذان ہونا)، اکثر ہا (اکثر اوقات، بسا اوقات)، اِگیارہ (گیارہ)، آبھ (پَرتَو)، آدرمان (قدرومنزلت)، آسامی (جیل کی اصطلاح میں قیدی)، آسمان تارہ (ایک قسم کی آتش بازی)، آنھِٹی (تاڑ کا پھل)، آنب (آم)، بھائی جہ (بھتیجہ )، بہن جہ (بھانجہ)، بہن وَئی (بہنوئی);ویسے یہ لفظ اس تلفظ کے ساتھ بعض دیگر برادریوں میں بھی سننے کو ملا ہے، بھوجائی (بھاوج)، بھُتانا (بھول جانا)، بھنٹا (بیگن)، بدھنا =بَدھ +نا (تانبے یا المونیئم کا بنا ہوا لوٹا) (یہ لفظ بھی خالص بِہاری نہیں)، بوڑانا (بَولانا) (شاید لفظ بَوڑَم بمعنی بے وقوف سے تعلق ہے)، پھُلیا (سوزنی)، پھیپھسا (پھیپھڑا)، چونٹی یعنی چیونٹی کاٹنا (دِق /ضیق کرنا ، نوچنا)، تیرنا (کھینچنا، پھیلانا)، ٹھونگا (کاغذ کی تھیلی جس میں نیچے موٹے کاغذ کی تہہ ہو)، ٹھیونا (گھُٹنا)، چُکڑ (آب خورہ یعنی جدید زبان میںپانی پینے کا گلاس)، چیں را/چیرا (کینچوا)، دائی (گھریلو خادمہ);آج کل کی اُردو میں ماسی، حالانکہ دائی سے مراد قابلہ یعنی وہ عورت ہے جو زچگی کے عمل میں مدد فراہم کرتی ہے)، ڈیڑھ سَس (بڑی سالی)، رام تُرَئی (بھنڈی)، روپنا (بونا)، ساٹنا/سانٹنا (چپکانا)، سنگھاڑا/سینگھاڑا (سموسہ)، قلفی (چائے کی پیالی)، کرائی (کلرک)، کسیلی (چھالیہ);حالانکہ کسیلا تو بذاتہ ایک ذائقے کا نام ہے، کونہڑا (گول کدّو)، کھُدیڑنا (رگیدنا);یہ غیربہِاری طبقے میں بھی مستعمل ہے، کھوکھی (کھانسی)، کیولا (سنترہ )، کتّنی (دیورانی)، گارنا (نچوڑنا)، گوئٹھا (اُپلا)، گولکی (کالی مرچ)،گھاگھرا (چکوترہ)، گھیلا (پانی کا گھڑا)، لخیرا/لاخیرا (غنڈہ)، لَسّا (چینپ ، پِیپ وغیرہ کا)، لُکنا (چھُپنا); یہ پنجابی میں بھی مستعمل ہے، لَند پھند (چکربازآدمی)، لنگا (ننگا)، لوکنا (ہوا میں پکڑلینا، کیچ کرلینا)، مُلّا زادہ (خادم، نوکر)، مَیلنا (مَلنا،میل صاف کرنا)، ناتی (نواسہ);یہ دیگر مقامات پر بھی رائج ہے، نَتنی (نواسی)، ننواں (تُرئی/توری)، نیہر (میکا /میکہ);یہ بھی دیگر برادریوں میں سننے کو ملتا ہے، خصوصاً شادی بیاہ کے گیتوں میں جیسے ’’میرے نیہر سے آج مجھے آیا، یہ پیلا جوڑا، یہ ہَری ہَری چوڑیاں‘‘۔

قارئین کرام! یہاں دونِکات پر بطورِخاص توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں:

ا)۔ ’اچھی طرح‘ کی بجائے ’’اچّھے سے‘‘ کہنے کا روزاَفزوں رِواج پاکستان میں آباد بِہاری برادری کے طفیل نہیں، بلکہ اس کا سہرا ہندوستانی ٹیلیوژن چینلز دیکھ کر زبان سیکھنے والے اور ڈرامے لکھنے والے افراد کے سر ہے جنھوں نے یہ ترکیب عام کی۔

ب)۔ سوال یہ ہے کہ کیا بِہاری بولی ٹھولی یا مخصوص لہجے کی کوئی ایسی ترکیب تمام اہل زبان کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے؟

راقم کی رائے میں، دوسرے نکتے کا جواب نفی میں ملے گا، کیونکہ (صحیح یا غلط کی بحث سے قطع نظر) یوپی، خصوصاً دِلّی اور لکھنؤ کی زبان کو معیار اور سند مانا جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ ایک بزرگ بِہاری معاصر کے بیان کے مطابق، عظیم آباد (پٹنہ، بِہار) کا خدمتِ اردو میں لکھنؤ سے زیادہ حصہ ہے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی کوئی بھی ترکیب، اصطلاح، فقرہ، جملہ یا محض اسماء تمام اہل زبان کے لیے قابل قبول معیاری زبان کا حصہ نہیں بن پاتے، البتہ انھیں عوامی بول چال میں اپنایا جاتا ہے جسے انگریزی میں Slang کہتے ہیں۔ لطف کی بات ہے کہ ڈاکٹر رَؤف پاریکھ صاحب کی مرتبہ سلینگ لغت میں (بے شمار دیگر اسماء و اصطلاحات کی طرح) اس کا بھی اندراج نہیں!

مزید تحقیق کی جائے تو یہ نکتہ اظہر من الشمس معلوم ہوتا ہے کہ اردو کی عوامی بولی ٹھولی میں ایک حصہ بہرحال معیاری زبان (ادبی، رسمی، کتابی ودفتری) میں شامل ہوچکا ہے، لیکن ایسا ہونے میں ایک مدت لگتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ب ہار میں کی بجائے کے مطابق یہ ہے کہ میں بھی ب ہاری کے لیے

پڑھیں:

اک چادر میلی سی

آج تک یہ سمجھ نہیں آیا کہ آخر پسند کی شادی میں بے غیرتی کہاں آ جاتی ہے؟

بیٹی نے اگر اپنی مرضی سے کسی کو چن لیا، تو قیامت کیوں ٹوٹ پڑتی ہے؟

غیرت کے علمبرداروں کو تب تو کچھ محسوس نہیں ہوتا جب اپنی بیٹی کو ڈھول تاشوں کے ساتھ ایک اجنبی کے حوالے کر دیتے ہیں، ایسے مرد کے بستر پر پھینک دیتے ہیں جسے اُس نے نہ کبھی دیکھا، نہ جانا، نہ سمجھا ہوتا ہے ـ ہاں البتہ یہ بڑے فخر کی بات سمجھی جاتی ہے کہ بچی نے بنا چوں چراں،  بنا سوال کیے اپنی زندگی کے سب سے اہم اور بڑے فیصلے پر خاندان کی مرضی کے آگے سر جھکا دیا۔

اور  یہی بیٹی کی قربانی خاندان کی عزت کہلاتی ہے۔

قبائلی اور جاگیردارانہ معاشروں میں عورت

ایک نجی ملکیت سمجھی جاتی ہے،

کبھی باپ کی، کبھی شوہر کی، کبھی بھائی کی، اور کبھی بیٹے کی …..

عزت کا استعارہ،

غیرت کا بہانہ ـ

عورت …اس معاشرے میں انسان کہاں سمجھی جاتی ہے؟

اس کی سوچ؟

اس کی رضا؟

اس کی پسند، ناپسند؟

یہ تمام الفاظ تو اس کے مقدر میں لکھے ہی نہیں گئےـ

وہ تو بس ایک چیز ہے، جیسے کرسی،  میز

جیسے بکری،

جیسے بھینس،

جیسے کھیت کا کوئی زرخیز ٹکڑا،

جسے وقت آنے پر بیچ دیا جائے،

یا دشمنی کے بدلے میں دے دیا جائے،

یا کسی رشتے کی سیج پر رکھ کر اپنی غیرت یا عزت بچانے کا ہتھیار بنا دیا جائے !

کیا کسی نے پوچھا

وہ کیا چاہتی ہے؟

کیا اس کے کوئی خواب ہیں؟

نیلے پیلے اودے….ست رنگی ……رنگ برنگے ـ لیکن …

بھلا ایک عورت کیسے خواب دیکھ سکتی ہے

جس کی گواہی بھی آدھی تسلیم کی جائے وہ کیونکر ایک مکمل انسان ہو سکتی ہے ـ

وہ تو اپنی قسمت کا نوحہ پڑھتی ایک مخلوق ہے

ایک جسم کا لوتھڑا ہے

جو جینے کے لیے نہیں

صرف حکم ماننے اور نبھانے کے لیے ہے ـ

کیا بانو اس معاشرے کی پہلی عورت تھی؟

جو اپنی زندگی کی قیمت

کسی عدالت میں نہیں

بلکہ مقتل میں ادا کر آئی ـ

کسی نے کہا کہ ’قبائل میں اگر کوئی عورت یا مرد ایسی حرکت کریں تو جرگے کو ایسا فیصلہ دینا لازمی ہوتا ہے تاکہ آئندہ کوئی لڑکی ایسا قدم اٹھانے سے پہلے 10 بار سوچے‘  گویا عورت کی عزت کا تحفظ قتل سے مشروط ہے، اور عورت کی ’بھٹکی ہوئی راہ‘ کا حل تعلیم، شعور، یا برابری کے حق میں نہیں بلکہ اس کی جان لینے میں پوشیدہ ہے۔

لیکن سوال یہ ہے کہ قبائلی غیرت کے نظام میں عورت کو کیا کبھی انسان سمجھا گیا ہے؟ اگر اسے اپنی مرضی سے جینے کا اختیار ہو، تو جرگہ کیونکر بیٹھے؟ اگر بیٹی کو تعلیم کے ساتھ اعتماد ، اپنی پسند سے جینے کا حق دیا جائے ، اسے اپنی مرضی کا ہم سفر چننے کی اجازت ہو، اگر اسے کم عمری میں بیاہنے سے گریز کیا جائے، اگر اسے یہ سکھایا جائے کہ اس کی زندگی کا فیصلہ وہ خود کر سکتی ہے، اور اگر شادی ناکام بھی ہو جائے تو ماں باپ کا دروازہ اس کے لیے ہمیشہ کھلا ہو،  تو پھر نہ کوئی بھاگے گی، نہ کسی کو مارنے کے جواز تراشے جائیں گے۔

پہلے بانو کے بہیمانہ قتل کی ویڈیو جنگل میں آگ کی طرح پھیلی ـ ہاہا کار مچ گئی ـ کسی نے اسکی شان میں قصیدے پڑھے تو کسی نے نوحہ۔

اگلے ہی روز وزیراعلیٰ صاحب پریس کانفرنس کرنے آئے اور کیس کو زنا بالرضا کا ڈنکا بجا کر قتل کا بالواسطہ جواز مہیا کر گئے ـ

اس کے بعد جو الزامات کی بوچھاڑ ہوئی، کردار پر کیچڑ اچھالا گیا، اور آخرکار اس کے قتل کو بھی کچھ لوگوں نے ’عبرت کا سامان‘ قرار دے دیا۔

بات یہیں تک نہ رہی بلکہ تیسرے روز بانو کی والدہ نے بَبانگ دُہل اپنی بیٹی کے ہی قصور وار ہونے کا اعلان کردیا جِس سے شکوک و شبہات مزید بڑھ گئے کہ دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ پوری دال ہی کالی ہے ـ

مان لیں کہ وہ  غلط تھی …. مجرم بھی تھی …. تو گویا ماورائے عدالت قتل جائز قرار دے دیا جائے؟  ایک قبیلے کا سردار کیا خدا بن بیٹھا ہے جو کسی کی بھی جان لینے کا حکم صادر کر سکتا ہے؟

اگر ہے …. تو پھر تالے لگادیں قانون کے تمام اداروں کو، اور پھر چلنے دیں  ملک میں جنگل کا قانون۔

چلیں بانو کے کیس میں تو ’آئیں بائیں شائیں‘، ’اگر مگر‘ شامل ہو گیا ہے ـ لیکن کیا یہ عورت کے ساتھ تشدد کی واحد کہانی ہے؟

کراچی کے علاقے لیاری کی 19 سالہ شانتی کی مثال لیجیے۔

شانتی نے محبت میں خاندان کا نام رسوا نہیں کیا تھا۔ وہ چپ چاپ گھر سے بھاگ کر کسی غیر مرد سے شادی کرنے نہیں گئی تھی۔ اس نے اپنے گھر والوں کی رضا سے، رسم و رواج نبھاتے ہوئے اشوک کے ساتھ 7 پھیرے لیے۔ وہ تمام مراحل طے کیے جو ایک ’مہذب‘ شادی کے لیے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ لیکن پھر شادی کے تیسرے دن ہی اشوک ’اس کے اپنے شوہر‘  نے اس کے جسم کو کیوں دوزخ بنا دیا؟

وہ تو ایک بیوی تھی،

جسے شوہر نے انسان نہیں

اپنی ملکیت سمجھا ـ

جسے مارنا، پیٹنا، نوچنا، روندنا اُس کا حق تھا۔

وہی ظلم جو دہلی کی بس میں ہوا، وہی اذیتیں، وہی زخم، وہی چیخیں ـ فرق صرف اتنا تھا کہ دہلی کی بس میں وہ 6 ریپسٹ غیر مرد تھے، اور یہاں شانتی کا ریپسٹ اس کا اپنا شوہر تھا۔

دلی بس ریپ والا واقعہ اور اشوک نے جو شانتی کے ساتھ کیا وہ ہوبہو ایک جیسا تھاـ

وہی راڈ تھی،

وہی سفاکیت تھیـ

انتڑیاں تھیں،

خون تھا،

اور عورت کی زندہ لاش تھی،

کہانی ختم ۔

جان بھی گئی اور شان بھی گئی۔

چلیے شانتی تو ہندو مذہب کی ایک کمتر لڑکی تھی غریب ـ چمار … اس کے مر جانے سے کون سے ہمارے مسلم ملک میں کوئی فرق پڑ جائے گا ـ

لیکن کورنگی کی عائشہ نور کا کیا قصور تھا، جو 2 بچیوں کی ماں تھی۔ نہ جانے کس بات پر اس کے شوہر کو غصہ آیا شاید صرف اس لیے کہ وہ اس کے سامنے جواب دینے کی جرأت کر بیٹھی، یا آواز بلند ہو گئی۔ پہلے تو شوہر نے بے رحمی سے مارا پیٹا، جیسے وہ کوئی انسان نہیں، ایک چیز ہو۔ پھر جب وہ جان بچانے کے لیے بھاگی تو شوہر نے اپنے باپ اور بھائی کے ساتھ مل کر اس کے منہ میں تیزاب انڈیل دیا۔ جلتا ہوا جسم، جھلستی چیخیں، لڑکھڑاتی سانسیں….

عائشہ بھی عورت تھی، اور عورت ملکیت ہوتی ہے۔

ایک اور کہانی ختم ہوئی۔

جھنگ کی کنزی، زرعی یونیورسٹی راولپنڈی کی طالبہ، تعلیم کے خواب آنکھوں میں سجائے، ایک روشن کل کی امید لیے جینے والی کنزی، اپنے عم زاد ادریس کے ہاتھوں برباد ہو گئی۔ پہلے اس نے کنزی کا ریپ کیا، پھر زہر دے کر اسے مار ڈالا۔ ….وجہ؟  رشتے سے انکار….گویا عورت کا انکار بھی موت کا پروانہ ہے۔

ویہاڑی کی نائلہ کی کہانی بھی لرزہ خیز ہے۔ محض کھانے میں دیر ہو جانے پر اس کے بھائی نے غصے میں چھری اٹھائی، ایک بہن کو موقعے پر ہلاک کیا، دوسری کو شدید زخمی کر دیا۔ کیونکہ گھر میں عورت مرد کی ملکیت ہوتی ہے۔

اب قانون حرکت میں آئے، عدالتیں لگیں ، کیس چلے، دیت ہو جائے،  معافی نامہ ہو یا سزا مل جائے ـ جان تو گئی … سج دھج سے گئی یا خوف سے … کیا فرق پڑتا ہےـ

یہ واقعات انفرادی نہیں، یہ ایک اجتماعی المیہ ہیں۔

مقامی این جی او ساحل کی حالیہ رپورٹ کے مطابق اس سال جنوری تا جون تک خواتین پر تشدد، ریپ اور قتل کے 3958 کیسز رجسٹرڈ ہوئے جو کہ پچھلے سال 1732 تھےـ ان میں 80% پنجاب، 13% سندھ اور بقیہ کیسز بلوچستان،  کے پی،  گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے ہیں ـ لیکن یہ پوری سچائی نہیں کیونکہ حالات اسے کہیں زیادہ بدتر ہیں ـ

دس دنوں میں، ملک کے مختلف حصوں میں، سینکڑوں عورتیں قتل ہو گئیں۔ سب کی کہانیاں الگ الگ دکھ سے بھری ہیں لیکن سچ ایک ہے : عورت کو مارنے کے لیے صرف اتنا ہی کافی ہے کہ وہ عورت ہے ـ

چونکہ وہ ایک ملکیت ہے، ایک شے…..جسے خریدنا، بیچنا، قابو رکھنا اور بوقتِ ضرورت ختم کرنا مرد کا پیدائشی حق مان لیا گیا ہے۔ اور جب تک اس سوچ کی بنیادیں نہیں ہلائی جاتیں، جب تک ریاست اس ظلم کے خلاف تن کر نہیں کھڑی ہوتی تب تک عورت قتل ہوتی رہے گی نام بدل بدل کر …… اور ہم صرف ان کے نام یاد رکھیں گے، ان کے زخم نہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

صنوبر ناظر

صنوبر ناظر ایک متحرک سیاسی و سماجی کارکن ہیں۔ تاریخ میں ماسٹرز کر رکھا ہے جبکہ خواتین کی فلاح اور مختلف تعلیمی پراجیکٹس پر کام کر چکی ہیں۔ کئی برس سے قومی و بین الاقوامی میڈیا اداروں کے لیے باقاعدگی سے لکھتی ہیں۔

بلوچستان دہرا قتل عورت کا قصور عورت ہونا قاتل بھائی قاتل شوہر کراچی کی شانتی

متعلقہ مضامین

  • نام ماں کا بھی
  • کیا یہ ہے وہ پاکستان
  • یہ غلط ہو رہا ہے
  • خودکار ترجمے میں بھارتی وزیر اعلیٰ کی موت کی جھوٹی اطلاع جاری ہونے پر میٹا نے معافی مانگ لی
  • ظلم کا لفظ کم پڑ گیا، غزہ، کربلا کی صدا
  • اسرائیلی فوج کے لیے اسلام اور عربی زبان کی تعلیم لازمی کیوں قرار دی گئی؟
  • اک چادر میلی سی
  • رائے عامہ
  • پی ٹی آئی سے کوئی بات نہیں کر رہا، وہ احتجاج نہ کرے تو کیا کرے؟، اسد عمر
  • ’اسلام کا دفاع‘