Express News:
2025-06-11@19:39:27 GMT

زباں فہمی نمبر243 ؛اچّھے سے……

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

دیکھیے! اگلا کالم اچّھے سے لکھیے گا

سنیے گا .....اچّھے سے کام کریں تو ہم سبھی خوش ہو ں گے۔

بچّوں سے کہیے کہ جو اچّھے سے کام کرے گا ، ہم اُسے انعام دیں گے۔

یقیناًآپ نے بھی ایسے جملے سُنے پڑھے ہوں گے، ٹی وی ڈراموں میں بھی سنے ہوں گے۔ کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ یہ ’’اچّھے سے‘‘ کیا ہوتا ہے؟ سامنے کی بات ہے کہ اس کی جگہ کہنا چاہیے ’اچھی طرح‘۔ یہ ’’اچّھے سے‘‘ کہاں سے آیا؟ اس بابت ذر ا ٹھہرکر بتاتا ہوں۔ ابھی تو آپ کچھ اور نکات سے لطف اندوز ہوں۔

 ا)۔ ایک ویب سائٹ کی اطلاع کے مطابق، اپریل2023ء میں ہندوستان کے معروف مُوسِیقار جناب اے آر رحمان کے متعلق ایک دل چسپ خبر سامنے آئی کہ انھوں نے اپنی بیگم کو عوام کے سامنے بجائے ہندی (یعنی اردو) یا انگریزی کے، اپنی زبان تَمِل میں گفتگو کرنے کو کہا اور جواب میں خاتون نے کہا کہ میں تَمِل، اچّھے سے نہیں بول سکتی۔

ب)۔ پچھلے ایک سال سے ایک کلام سوشل میڈیا کی زینت بنا ہوا ہے اور جا بجا اُسے گنگنایا جارہا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

تم عید منانا اَچھے سے

کوئی بھی کسر نہ چھوڑو تم

ہم لوگ منائیں گے کیسے

اب فکر ہماری چھوڑو تم

تم لوگ دعا ہی کرنا بس

وہ مسجد اقصیٰ ڈھا دیں گے

سوتے ہی رہو تم غفلت میں

وہ موت کی نیند سلا دیں گے

تم عید منانا اچھے سے

المیہ فلسطین کے موضوع پر یہ اچھی کاوش ہے۔ مجھے تلاشِِ بسیار کے باوجود اِس کلام کے شاعر کا نام نہیں ملا۔ آگے چلیں۔

ج)۔ عامر اعظمی (ساکنِ اَلعین، متحدہ عرب امارات) نامی شاعر کی ایک غزل آنلائن دیکھی جس میں یہ شعر توجہ طلب ہے:

خوب واقف ہیں اُس کی رگ رگ سے

اُس کو اچھے سے جانتے ہیں ہم

چونکہ اعظم گڑھ (نیز غازی پور، گورکھ پور وغیرہ) کے لوگ عموماً اپنی ثقافت بشمول زبان (بولی ٹھولی) میں اہل بِہار سے قریب اور مماثل نظر آتے ہیں، لہٰذا یہ شاعر بھی خالص بِہاری بولی کا استعمال بخوبی کرگئے۔ (نجی مشاہدے کی با ت کروں تو معروف شاعر، ادیب ونقاد ڈاکٹر فہیم اعظمی، ممتاز شاعر سہیل غازی پوری اور معلوماتی کتب کے مؤلف وناشر محمد ظفر اقبال غازی پوری اس کی روشن مثال تھے)۔ فیس بُک پر بھی ایک عامر اعظمی شاعر موجود ہیں، مگر اُن کے کوائف سے یہ معلوم نہ ہوسکا کہ یہ وہی شاعر ہیں یا اُن کے ہم نام۔ ریختہ ڈاٹ آرگ میں ایک ناول ’خونِ تمنّا‘ (سن اشاعت: 1974ء)محفوظ ہے جس کے مصنف کا نام عامر برقی اعظمی ہے، لیکن یہ ہرگز میرے کرم فرما، زود گو فارسی واُردو شاعر ڈاکٹر اَحمد علی برقیؔ اعظمی مرحوم کے فرزند نہیں، جنھوں نے خاکسار کے کلام اور کتب کو (بلا فرمائش ودرخواست) متعدد بار منظوم خراج ِ تحسین پیش کیا تھا۔ (ڈاکٹر برقی اعظمی مرحوم کے لب ولہجے میں وہ ’بِہاری‘ عنصر کبھی محسوس نہ ہوا جس کی اوپر مثال دے چکا ہوں)۔

ضمنی مگر اہم بات یہ ہے کہ اس ناول کا انتساب عظیم فن کا ر یوسف خان عُرف دلیپ کُمار (مرحو م) کے نام کیا گیا تھا۔

اب آتے ہیں اصل بات کی طرف۔ یہ ’’اچّھے سے‘‘ خالص بِہاری بولی ٹھولی ہے۔ آپ مستندومعتبر لغات ازقسمے فرہنگ آصفیہ ونوراللغات میں تلاش کریں تو اِس کا اندراج نہیں ملے گا۔ محفوظ ’بِہار اُردولغت‘ (دو جلد) میںبھی یہ ترکیب شامل نہیں۔ (یاد رکھیں کہ خاکسار نے اس لغت کے مندرجات پر مبنی ایک تحقیقی تحریر، سلسلہ زباں فہمی میں پیش کی تھی جو آنلائن موجود ہے۔ زباں فہمی نمبر 155مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس، سنڈے میگزین، مؤرخہ 11ستمبر 2022ء)۔ لگے ہاتھوں اپنے ا س یادگار مضمون سے ایک اقتباس بھی نقل کرتا چلوں کہ بہت سے قارئین کے لیے نیا ہوگا:

’بہار اردو لغت‘ کے مرتبین وناشرین اس نکتے کے پرچار ک نظر آتے ہیں کہ دیگر علاقوں میں رائج معیاری اردو کے برعکس، بِہار میں زبان کی تشکیل زیادہ منطقی ہے ۔’’ایک پہلو یہ ہے کہ اردو کا وہ رُوپ جو بِہار میں تشکیل پایا، اس میں جابجا الفاظ کی تشکیل میں دہلی، لکھنؤ، رام پور سے زیادہ منطقیت پائی جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال گنتی میں استعمال ہونے والے الفاظ سے دی جاسکتی ہے۔ دس(10) کے بعد ایک تا آٹھ مزید گنتی (11,12,13,14,15,16,17,18)اور اسی طرح ہر دَہائی کے بعد کی گنتی کے لیے (20,22-28),(30,31-38) ، یکساں طریقہ کار ہے‘‘۔ اُن کے خیال میں چالیس (40)سے پہلے کا عدد، اُنتالیس (39)کی بجائے بِہار کے قاعدے سے اُنچالیس کہلائے تو بہتر ہے، اسے ہی لغت کا حصہ بنانا چاہیے۔ بات یہیں تک موقوف نہیں، بلکہ اُن کے بیان کے مطابق، پنڈِت دتاتریہ کیفیؔ کی تحریک کے زیرِاثر، اسم سے فاعل بنانے کا جوطریقہ شروع ہوا (مثلاً برق سے برقیانا، قوم سے قومیانا)، بِہار میں مدتوں سے رائج تھا، مثلاً پانی سے پَنیانا(کسی کھانے میں پتلا کرنے کے لیے پانی ڈالنا)، بات سے بَتیانا (بات کرنی یا باتیں بنانا)۔ اب یہاں رک کر سوچیں کہ آیا ہم اہل زبان، معیاری زبان میں، ایسی کسی اصلاح یا ترمیم یا اضافے کو اَزخود ، بلا چُوں چرا قبول کرلیں گے؟ 

بِہار کی اُردو میں واحد سے جمع بنانے کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ مذکرومؤنث دونوں کے لیے ایک ہی لفظ برتا جائے جیسے لڑکا اور لڑکی دونوں کی جمع لڑکن۔ ویسے خاکسار نے ان گناہگار کانوں سے متعدد بار’’لڑکا‘‘ کی جمع ’’لڑکا لوگ‘‘ بھی سنی ہے۔ بِہاری اردو میں کسی بھی لفظ یا اسم کے آگے ’وا‘ لگاکر اس کی ہیئت تبدیل کرنا عام بات ہے، خواہ ایسا اظہارِالفت میں ہو یا تحقیر میں، جیسے من کو مَنوا، بابو کو بَبوا، مشتاق کو مُستاکوا۔ ایک مثال موٌنث کی ذہن میں آئی جو بِہار اُردولغت کے پیش لفظ میں درج نہیں: مُنّی کو مُنیا۔ (یہ معاملہ پُوربی میں بھی ہے، بیل سے بَیَلوا، سجن سے سجنوا، سجنی سے سجنیا وغیرہ۔ خاکسار نے ایک گزشتہ کالم میں پُوربی کے ضمن میں گلوکار رَنگیلا کے مقبول گانے ’’گا مورے منوا، گاتا جارے، جانا ہے ہم کا، دور، ٹھُمک ٹھُمک نہیں چل رے بَیَلوا، اپنی نگریا ہے دور‘‘ کا ذکر نہیں کیا تھا، مگر ہے بہت عمدہ مثال)۔ بِہار میں ہندوستان کے کسی بھی علاقے کی نسبت کہیں زیادہ ایسے انگریزی الفاظ بولنے کا چلن عام ہے جن کا مترادف یا متبادل اردو میں موجود ہے جیسے سڑک کی بجائے Roadا ور اسے بنایا ، روڈوا۔ لوجی! ہم تو اپنے یہاں سڑکوں کی بجائے روڈوں کہنے پر اعتراض کرتے ہیں، اب کیا کہیں؟

بِہاری اردو میں امالہ کا اصول بالکل رائج نہیں (اور شاید اہل پنجاب نے بھی، یہ طرز اُنھی سے سیکھا ہے)، جس کی بے شمار مثالیں تحریر اور بول چال میں موجود ہیں، فی الحال زیرِبحث لغت ہی میں منقولہ عبارتیں ملاحظہ فرمائیں:

ا)۔ اسلام میں بیٹا (بیٹے ) کے مقابلہ (مقابلے) پر بیٹی کا نصف حصہ ہے۔

ب)۔ سونا (سونے) کی نیلامی ہوئی۔

ج)۔ کُتّا (کُتّے) کی چوکیداری مشہور ہے۔

اسی لغت (’بہار اردو لغت‘) سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ بِہار میں بعض الفاظ وتراکیب کے معانی بھی مختلف مراد لیے جاتے ہیں، جیسے ’’تڑپنا‘‘ سے مراد ہے ، (کسی جگہ پانی میں) کُود کر پار ہوجانا۔ اب آئیے ہم لغت کی مدد سے ایسے چُنیدہ الفاظ کی فہرست پیش کرتے ہیں جو مرتبین ِبہار اُردو لغت کے بیان کے مطابق، خاص بِہاری اردو ہی میں مروج ہیں۔ الفاظ کے معانی قوسین میں درج ہیں، جبکہ وضاحت اس راقم کی ہے:

اذاں پڑنا (اذان ہونا)، اکثر ہا (اکثر اوقات، بسا اوقات)، اِگیارہ (گیارہ)، آبھ (پَرتَو)، آدرمان (قدرومنزلت)، آسامی (جیل کی اصطلاح میں قیدی)، آسمان تارہ (ایک قسم کی آتش بازی)، آنھِٹی (تاڑ کا پھل)، آنب (آم)، بھائی جہ (بھتیجہ )، بہن جہ (بھانجہ)، بہن وَئی (بہنوئی);ویسے یہ لفظ اس تلفظ کے ساتھ بعض دیگر برادریوں میں بھی سننے کو ملا ہے، بھوجائی (بھاوج)، بھُتانا (بھول جانا)، بھنٹا (بیگن)، بدھنا =بَدھ +نا (تانبے یا المونیئم کا بنا ہوا لوٹا) (یہ لفظ بھی خالص بِہاری نہیں)، بوڑانا (بَولانا) (شاید لفظ بَوڑَم بمعنی بے وقوف سے تعلق ہے)، پھُلیا (سوزنی)، پھیپھسا (پھیپھڑا)، چونٹی یعنی چیونٹی کاٹنا (دِق /ضیق کرنا ، نوچنا)، تیرنا (کھینچنا، پھیلانا)، ٹھونگا (کاغذ کی تھیلی جس میں نیچے موٹے کاغذ کی تہہ ہو)، ٹھیونا (گھُٹنا)، چُکڑ (آب خورہ یعنی جدید زبان میںپانی پینے کا گلاس)، چیں را/چیرا (کینچوا)، دائی (گھریلو خادمہ);آج کل کی اُردو میں ماسی، حالانکہ دائی سے مراد قابلہ یعنی وہ عورت ہے جو زچگی کے عمل میں مدد فراہم کرتی ہے)، ڈیڑھ سَس (بڑی سالی)، رام تُرَئی (بھنڈی)، روپنا (بونا)، ساٹنا/سانٹنا (چپکانا)، سنگھاڑا/سینگھاڑا (سموسہ)، قلفی (چائے کی پیالی)، کرائی (کلرک)، کسیلی (چھالیہ);حالانکہ کسیلا تو بذاتہ ایک ذائقے کا نام ہے، کونہڑا (گول کدّو)، کھُدیڑنا (رگیدنا);یہ غیربہِاری طبقے میں بھی مستعمل ہے، کھوکھی (کھانسی)، کیولا (سنترہ )، کتّنی (دیورانی)، گارنا (نچوڑنا)، گوئٹھا (اُپلا)، گولکی (کالی مرچ)،گھاگھرا (چکوترہ)، گھیلا (پانی کا گھڑا)، لخیرا/لاخیرا (غنڈہ)، لَسّا (چینپ ، پِیپ وغیرہ کا)، لُکنا (چھُپنا); یہ پنجابی میں بھی مستعمل ہے، لَند پھند (چکربازآدمی)، لنگا (ننگا)، لوکنا (ہوا میں پکڑلینا، کیچ کرلینا)، مُلّا زادہ (خادم، نوکر)، مَیلنا (مَلنا،میل صاف کرنا)، ناتی (نواسہ);یہ دیگر مقامات پر بھی رائج ہے، نَتنی (نواسی)، ننواں (تُرئی/توری)، نیہر (میکا /میکہ);یہ بھی دیگر برادریوں میں سننے کو ملتا ہے، خصوصاً شادی بیاہ کے گیتوں میں جیسے ’’میرے نیہر سے آج مجھے آیا، یہ پیلا جوڑا، یہ ہَری ہَری چوڑیاں‘‘۔

قارئین کرام! یہاں دونِکات پر بطورِخاص توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں:

ا)۔ ’اچھی طرح‘ کی بجائے ’’اچّھے سے‘‘ کہنے کا روزاَفزوں رِواج پاکستان میں آباد بِہاری برادری کے طفیل نہیں، بلکہ اس کا سہرا ہندوستانی ٹیلیوژن چینلز دیکھ کر زبان سیکھنے والے اور ڈرامے لکھنے والے افراد کے سر ہے جنھوں نے یہ ترکیب عام کی۔

ب)۔ سوال یہ ہے کہ کیا بِہاری بولی ٹھولی یا مخصوص لہجے کی کوئی ایسی ترکیب تمام اہل زبان کے لیے قابل قبول ہوسکتی ہے؟

راقم کی رائے میں، دوسرے نکتے کا جواب نفی میں ملے گا، کیونکہ (صحیح یا غلط کی بحث سے قطع نظر) یوپی، خصوصاً دِلّی اور لکھنؤ کی زبان کو معیار اور سند مانا جاتا ہے۔ یہ اور بات کہ ایک بزرگ بِہاری معاصر کے بیان کے مطابق، عظیم آباد (پٹنہ، بِہار) کا خدمتِ اردو میں لکھنؤ سے زیادہ حصہ ہے ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ایسی کوئی بھی ترکیب، اصطلاح، فقرہ، جملہ یا محض اسماء تمام اہل زبان کے لیے قابل قبول معیاری زبان کا حصہ نہیں بن پاتے، البتہ انھیں عوامی بول چال میں اپنایا جاتا ہے جسے انگریزی میں Slang کہتے ہیں۔ لطف کی بات ہے کہ ڈاکٹر رَؤف پاریکھ صاحب کی مرتبہ سلینگ لغت میں (بے شمار دیگر اسماء و اصطلاحات کی طرح) اس کا بھی اندراج نہیں!

مزید تحقیق کی جائے تو یہ نکتہ اظہر من الشمس معلوم ہوتا ہے کہ اردو کی عوامی بولی ٹھولی میں ایک حصہ بہرحال معیاری زبان (ادبی، رسمی، کتابی ودفتری) میں شامل ہوچکا ہے، لیکن ایسا ہونے میں ایک مدت لگتی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ب ہار میں کی بجائے کے مطابق یہ ہے کہ میں بھی ب ہاری کے لیے

پڑھیں:

✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟

عیدالاضحیٰ کا تہوار مسلمانوں کے لیے خوشی، ایثار اور قربانی کا مظہر ہے۔ ہر سال لاکھوں جانور اللہ کی راہ میں قربان کیے جاتے ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم اس عظیم عبادت کی اصل روح کو سمجھ پائے ہیں؟ یا ہم نے اسے صرف ایک "رسم" اور "سماجی مقابلے بازی" کا میدان بنا دیا ہے؟

آج کل ایک رواج عام ہو چکا ہے کہ جس کے گھر سے قربانی کا گوشت آتا ہے، اُسی کے گھر گوشت بھیجا جاتا ہے۔ کیا یہ کوئی معقول بات ہے؟ گوشت کی یہ "ادلا بدلی" اب خلوص کے بجائے ایک طرح کی لین دین یا حساب کتاب بن چکی ہے: اُس نے ہمیں بھیجا تو ہم بھیجیں گے، اُس نے نہیں بھیجا تو ہم بھی نہیں بھیجیں گے۔

لیکن یہ صرف تقسیمِ گوشت کا معاملہ نہیں، بلکہ عبادت کی نیت، اس کی روح اور اس کے نتائج کا معاملہ ہے۔ جب یہ فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کم خوبصورت، ہڈیوں والا یا غیر معیاری گوشت غرباء کو دے دیا جائے اور صاف ستھرا، چربی سے پاک عمدہ گوشت فریزر میں محفوظ کر لیا جائے، تو ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم قربانی کر کس کے لیے رہے ہیں؟ اللہ کے لیے؟ یا اپنے پیٹ اور فریزر کے لیے؟

میرے گھر میں، میں نے یہ اصول سختی سے نافذ کیا ہوا ہے کہ جس کے گھر قربانی ہو رہی ہے، اُسے ہم گوشت نہیں بھیجیں گے۔ خواہ وہ میری سگی بہن ہو، سگا ماموں ہو، میرے سسرال والے ہوں، دوست احباب یا قریبی پڑوسی۔ میری واضح ہدایت ہے کہ قربانی کا گوشت صرف ان لوگوں کو بھیجا جائے جن کے گھروں میں قربانی نہیں ہو رہی۔ کیونکہ وہی لوگ اس کے اصل مستحق ہیں۔ جو لوگ قربانی کر رہے ہیں، ان کے فریزر پہلے ہی بھرے ہوتے ہیں، انہیں گوشت کی نہیں، شاید خلوص کی ضرورت ہو۔

قرآن و حدیث کی روشنی میں قربانی کے گوشت کو تین حصوں میں تقسیم کرنے کا جو تصور ہے — ایک حصہ اپنا، ایک رشتہ داروں کا اور ایک غریبوں کا — اُس پر آج کتنے لوگ عمل کرتے ہیں؟ حقیقت تو یہ ہے کہ اکثر گھروں میں پورا گوشت اپنے فریزر میں رکھ لیا جاتا ہے، اور تین مہینے تک وہی گوشت چلتا رہتا ہے۔ تو یہ کیسا "ایثار" ہے جس میں صرف اپنا فائدہ پیشِ نظر رکھا گیا ہو؟ قربانی کے گوشت کو جمع کرنا عبادت نہیں بناتا، بلکہ تقسیم کرنا ہی اس کی اصل روح ہے۔

اور آخر میں، ایک سادہ سی مگر پُر اثر گزارش:
آپ لاکھوں روپے کا جانور خرید لیتے ہیں، خدارا اس بار ایک لاکھ کی نیت بھی خالص خرید لیں۔
قربانی صرف مستحقین تک پہنچائیں — شاید اسی میں آپ کی قربانی پوری، مکمل اور اللہ کے نزدیک قابلِ قبول ہو جائے۔

قربانی اگر اللہ کے لیے ہے تو اس میں دکھاوا نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر اللہ کے بندوں کے لیے ہے تو پھر اس میں خودغرضی کی کوئی گنجائش نہیں ہونی چاہیے۔
چند لمحے رک کر سوچیں:
قربانی آپ کی عبادت ہے، یا ایک سماجی رسم؟

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

متعلقہ مضامین

  • فریڈم فلوٹیلا
  • طاقت اور مقبولیت کا قہر
  • یہ ظلم کب تک ؟
  • ابوظبی کے اسکولوں میں عربی زبان کی تعلیم لازمی قرار
  • منی پور ،بھارت کے تابوت میں آخری کیل
  • امرتسر سے سری نگر قتل عام کی سیاہ تاریخ
  • ابوظبی میں بچوں کے لیے عربی سیکھنے کے لیے 240 منٹ فی ہفتہ لازم قرار
  • قلم اُٹھایئے اور شعور پھیلایئے
  • ✨ قربانی: رسم، روایت یا روح؟
  • زباں فہمی251  ؛  بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید