WE News:
2025-09-18@12:07:31 GMT

بلی سے مکالمہ

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

میں بالکونی میں چپ چاپ کھڑا اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا، وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی اچانک رک گئی، نظریں چار ہوئیں تو وہ پلکیں جھپکانا بھول گئی اور ایسے ساکت ہو گئی جیسے بے جان ہو، میں اس کوشش میں تھا کہ اس کے ریشمی بالوں میں ہاتھ پھیر سکوں اور اس کے لمس کا گداز حاصل کر سکوں، میں اس کی جانب بڑھا تو وہ چھلانگ لگا کر دیوار پر جا بیٹھی اور میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ آس پاس کی بالکونیوں پر کوئی ذی روح موجود نہ تھا سو میں نے انہیں اکیلا پا کر بات کرنے کی ٹھان لی، ہلکا سا کھنگارا اور کہا:

محترمہ! لگتا ہے آپ مجھ سے ناراض ہیں؟

پلیز آپ زیادہ فری ہونے کی کوشش مت کریں، میرے آپ کے کون سے یارانے چل رہے تھے کہ میں ناراض ہوتی؟۔

جی میرا مطلب یہ تھا کہ آپ میری موجودگی سے ڈسٹرب ہوئی ہوں گی۔ میں صحافی ہوں اور آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔

’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘ یہ کہہ کر وہ چل دیں۔

میں فوراً بولا محترمہ ٹھہریں تو سہی، انہوں نے رک کر میری جانب ایسے دیکھا کہ تیر نیم کش سینے میں ترازو ہو گیا، محترمہ آپ نے جو ضرب المثل سنائی ہے وہ تو آپ کے بارے میں کہی جاتی ہے؟

وہ غصے سے بولیں، یہی تو مصیبت ہے کہ آپ لوگوں نے الٹے سیدھے محاورے بنا کر اس میں بلی ایسے ڈال رکھی ہے کہ محاورہ نہ ہوا کوئی تھیلا ہوا۔ موقع کی مناسبت سے تو وہ ضرب المثل درست ہے کہ نہیں؟

اس کا مطلب ہے کہ آپ انٹرویو نہیں دینا چاہتیں؟
دراصل میں ان دھندوں میں پڑنا نہیں چاہتی کیونکہ آپ لوگ توبات کا بَتَن٘گَڑ بنا دیتے ہیں، اب آپ خود دیکھ لیں کہ ملک صاحب کی ’کتیا‘ جو ٹرک تلے آ گئی تھی، اس خبر کو آپ لوگوں نے مرچ مسالہ لگا کر شائع کیا، بھلا اس میں ’مزے‘ لینے والی کون سی بات تھی۔

محترمہ وہ خبر ایک شام کے اخبار نے لگائی تھی اور اگر وہ ایسی خبریں نہ لگائیں تو انہیں خریدے کون؟ بہرحال میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی گفتگو کو مِن و عَن شائع کیا جائیگا۔

وہ اچانک کھڑی ہو گئیں اور پورے جسم کو جھرجھری دے کر جھٹک دیا اور جمائی لے کر بولیں۔ جی پوچھیں؟

محترمہ سب سے پہلے تو آپ اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں کچھ بتائیں؟

میرے آباؤ اجداد بھارت کی راجدھانی دہلی میں مقیم تھے، شاید آپ جانتے ہوں وہاں لال قلعے کے پچھواڑے میں ایک محلہ ہے، وہاں مقیم ایک شخص قاسم جان نے میرے خاندان سے ایک بلی پال رکھی تھی جو ایک دن کھیل کود میں کافی گندی ہو گئی، تو اس بیوقوف نے نہ صرف اسے ٹھنڈے پانی سے دھو دیا بلکہ بعد میں سکھانے کی خاطر نچوڑ بھی دیا، یوں وہ بلی مر گئی جس پر لوگوں نے محلے کا نام ’بلی ماراں‘ جبکہ گلی کا نام ’قاسم جان‘ رکھ دیا جو آج تک مشہور ہیں۔

اس اندوہناک سانحے کے بعد ہمارے بزرگوں نے لال قلعے کے کھونے کھدروں میں وقت گزارا اور پھر تقسیم کے وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اچھے دنوں کی آس لگائے پاکستان آ گئے جبکہ واقفان حال نے مشہور کر دیا کہ ’بلی کے خواب میں چھیچھڑے۔‘

سنا ہے آپ نے صوفی غلام مصطفی تبسم کے دور سخن میں چوہے بھی پالے تھے؟
مسکراتے ہوئے بولیں، شاعر حضرات کو تو سات خون معاف ہیں اور ویسے بھی ان دنوں دنیا کے رنگ نرالے ہی تھے، تبسم صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ’چاند پہ جا کے کودا شیر، بلی کھا گئی سارے بیر‘ حالانکہ انسان کے علاوہ چاند پر صرف کتا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بلی شیر کی خالہ ہے تو اب جبکہ ’شیر‘ جلاوطن ہے اس ضمن میں آپ کا مؤقف سامنے نہیں آیا؟
آپ عجیب بات کر رہے ہیں جب شیر خود ہی کچھ ہمت نہیں کر رہا تو خالہ بیچاری کیوں مصیبت مول لے، ویسے بھی ایسے موقع پر ہی کہا جاتا ہے کہ ’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے‘ اور میں بھی کہاں کی سورما، ایک ہی داؤ تھا درخت والا، اب تو وہ بھی بے سود، بھلا بُوٹ والے کو درخت پر چڑھنے سے کون روکے؟۔

ایک بات کی تشریح کردیں کہ ’نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی‘؟
میں کوئی شاعر نہیں کہ تشریح کروں بہرحال آسان لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں، اس محاورے کو آپ اس تناظر میں دیکھیں جیسے آپ کے سیاستدان بڑھاپے میں حج پر چلے جاتے ہیں، بس یہی ساری بات ہے اور ویسے بھی ایک بلی کے نصیب میں نو سو چوہے کہاں، ہمیں کون سے ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں کہ ہم کچھ کھا پی سکیں؟

آپ کے خاندان میں کسی کو اداکاری کا شوق ہے یا کبھی تھا؟
جی ہاں میری ایک خالہ زاد بہن کو اداکاری کا شوق ہوا کچھ عرصہ تک تو وہ ’کیٹ واک‘ کرتی رہی پھر اسے ایک سگریٹ کے اشتہار میں کام ملا تھا، ماحول پسند نہ آنے پر اس نے شوبز سے کنارہ کشی کرلی، بعد ازاں سید نور کچھ عرصہ اپنی فلم ’بلی‘ کے ٹائٹل رول کے لیے میری کزن کو مناتے رہے لیکن میری کزن کے انکار پر انہوں نے فلمسٹار ’نور‘ کو بلی بنالیا۔

آپ کے خاندان کی کوئی مشہور شخصیت جس کا ذکر کرنا آپ ضروری سمجھتی ہوں؟
جی ہاں میری دادی جان بہت شہرت یافتہ بلی تھیں، امتیاز علی تاج نے ان پر ایک کہانی بھی لکھی، یوں میری دادی حضور ’بیگم کی بلی‘ کے نام سے آج بھی زبان زدِ عام و خاص ہیں۔

ایک شاعر نے تو میری پھوپھو کی شان میں قصیدہ بھی کہا ’میں نے بلی پالی ہے، نیلی آنکھوں والی ہے، میرا جی بہلاتی ہے بی مانو کہلاتی ہے، لیکن جب اداکارہ نیلی کا فلموں میں آنا ہوا تو پھوپھو نے سبز لینز لگانا شروع کر دیے تھے مبادا کوئی انہیں ’نیلی‘ نہ کہہ دے۔

اچھایہ بتائیں کہ بھیگی بلی بننا کیسے ممکن ہے؟
یہ کوئی شہرت یا عزت کی بات نہیں، انسانوں میں کمزور، بزدل یا ڈرپوک انسان کو بھیگی بلی کہہ کر ہماری تضحیک کی جاتی ہے، ہوا یوں تھا کہ ایک روز میری امی جان کے اودھم مچانے اور بھاگنے سے شیخ صاحب (جن کے گھر میں وہ رہتی تھیں) کا چھینکا ٹوٹ گیا یہ بات ذہن میں رہے کہ چھینکا اس وقت زمین پر ہی پڑا تھا، لہٰذا اس کنجوس شخص نے ’ماں جی‘ کو گھر سے نکال دیا، اس ظلم و زیادتی پر بادل ساری رات روئے اور یوں وہ بھیگ گئیں، دسمبر کے دن تھے لہٰذا وہ ٹھنڈ سے سکڑی سمٹی بیٹھی تھیں کسی نے انہیں اس حالت میں دیکھا اور یوں اردو ادب کو مزید دو محاورے مل گئے۔

محترمہ ایک محاورہ ہوا نہ ’بھیگی بلی بننا‘ آپ دو کا ذکر کر رہی ہیں؟

محترم آپ کا صابن سلو ہے کیا؟ میں نے اپنی امی جان کا واقعہ سنایا ہے آپ لوگوں نے اس سے بھی محاورہ بنا تو رکھا ہے’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘۔

لیکن اس محاورے میں تو ’بھاگوں‘ (ہندی لفظ بھاگ کی جمع) استعمال ہوا ہے جس کے معنی مقدر، نصیب یا خوش قسمتی سمجھے جاتے ہیں؟

محترم ہمارے اتنے بھاگ کہاں؟ امی جان تو بھاگی تھیں، آپ نے اب نیا قصہ چھیڑ لیا، اب نوٹ بک کو دوسرے ہاتھ پر مار کر یہ مت کہہ دینا کہ ’بھاگ لگے رہین‘۔ (ہنستے ہوئے، جسٹ کڈنگ، آگے بڑھیں)

چوہے بلی کے کھیل سے مراد کون سا کھیل ہے اور کھسیانی بلی کھمبا کیوں نوچتی ہے؟

لگتا ہے آپ ’ٹام اینڈ جیری‘ بھی نہیں دیکھتے، اس میں چوہے بلی کے خاصے دلچسپ کھیل دکھائے جا چکے ہیں، آپ کو آسان لفظوں میں سمجھاتی ہوں، یہ کھیل مختلف قواعد وضوابط کے تحت پوری دنیا میں ذوق و شوق سے کھیلا جاتا ہے۔ امریکا دنیا بھر میں جو کچھ غریب ممالک کے ساتھ کر رہا ہے، وہ بھی یہی کھیل ہے۔

کھمبا نوچنے کا الزام ایسے ہی ہے جیسے ہماری ہر حکومت پر آئی ایم ایف کے دباؤ کا الزام ہے یا پھر جیسے ہمارے حکومتی ترجمانوں کی پریس کانفرنسز میں وضاحتیں۔ اب میں کسی نئی یا پرانی سیاسی جماعت کی ترجمان کا نام لیکر انٹرویو کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہتی۔

محترمہ آپ کے بارے میں ایک کہانی یہ بھی مشہور ہے، جس میں دو بلیاں ایک بندر سے انصاف کرانے جاتی ہیں لیکن دونوں ہی روٹی کے ٹکڑے سے محروم رہ جاتی ہیں؟

جی ہاں یہ سچی کہانی ہے، آپ کا اشارہ غالباً اسی کہانی کی جانب ہے جس کے نتیجے میں ’بندر بانٹ‘ کا لفظ نکلا تھا۔ یہ المیہ ابھی تازہ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی انصاف کا ترازو بندر کے ہاتھ ہے۔

محترمہ ایک محاورہ ہے ’بلی مارنا‘ اس پہ روشنی ڈال دیں تو قارئین کی تشفی ہو جائے گی؟

جناب اردو کا یہ محاورہ ’بِلی مارنا‘ نہیں ہے بلکہ ’بَلی مارنا‘ ہے۔ آپ کا شین قاف ہی نہیں زیر زبر بھی خراب ہے۔ اس محاورے کا معنی ہے کشتی چلانا یا ناؤ کھینا، آسان لفظوں میں چپو چلانا بھی کہہ سکتے ہیں۔

جو بلی آپ مارنا چاہ رہے ہیں وہ فارسی کا مشہور محاورہ ہے ’گُربہ کشتن روزِ اوّل‘ یعنی بلی پہلے دن ہی مار دینی چاہیئے، ہمارے ہاں اس محاورے کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اسے نہ صرف مشرف بہ اردو کیا گیا بلکہ ہر نو بیاہتا مَرد خدا جانے کیوں بلی ہی مارنا چاہتا ہے؟

یقیناً آپ کے علم میں نہیں ہوگا کہ بلی پر میر تقی میر نے ایک طویل نظم لکھی تھی، گوگل کریں ’موہنی بلی‘ نظم مل جائے گی۔ یہی نہیں شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی ہم پر نظم لکھی ہے، جس کا عنوان ہے’۔۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر‘ یہ نظم ان کی کتاب بانگ درا میں ہے، اب آپ تحقیق کریں اور پتا چلائیں کہ اقبال نے اتنی خوبصورت نظم کس کی گود میں ہمیں دیکھ کر لکھی تھی۔

مائنڈ نہ کیجئے گا ویسے آجکل کے صحافی تحقیق و تحریر کے بجائے پریس ریلیز اور وٹس ایپ کے سہارے چل رہے ہیں، کرنے کو کیا کچھ نہیں لیکن مثل مشہور ہے کہ کام جوان کی موت ہے، اپنی سستی کا اندازا اس بات سے لگائیں کہ بھارت تک چاند پہ پہنچ گیا اور آپ کی سوئی اس بات پہ اٹکی ہے کہ ’کالی بلی رستہ کاٹ گئی‘۔

محترمہ انٹرویو کے شروع میں آپ نے کہا کہ ہم نے ہر محاورے میں بلی یوں ڈال رکھی ہے کہ محاورہ نہ ہوا کوئی تھیلا ہوگیا، مگر میرے خیال میں جو محاورے اور واقعات آپ سے منسوب تھے وہ میں آپ سے پوچھ چکا ہوں، اس الزام بارے آپ کچھ فرمائیں گی؟

لگتا ہے کہ آپ انٹرویو کی تیاری کرکے نہیں آئے یا پھر آپ کو مطالعے کا شوق نہیں میں اب بھی اپنے مؤقف پر قائم ہوں، کاپی قلم سنبھالیے اور لکھئے!

بلی الانگنا
بلی بھی لڑتی ہے تو پنجہ منہ پر دھر لیتی ہے
بلی جب گرتی ہے تو پنجوں کے بل
بلی خدا واسطے چوہا نہیں مارتی
بلی سے دودھ کی رکھوالی
بلی کا گو نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا
بلی کھائے گی نہیں تو پھیلائے گی ضرور
بلی کی میاؤں سے ڈر لگتا ہے
بلی لوٹن
بلی نے شینہ پڑھایا، بلی کو کھانے آیا
بلی تھیلے سے باہر آگئی
اونٹ کے گلے میں بلی

پلیز ذرا ٹھہریئے، اتنے محاورے کافی ہیں، میں لغت میں ان کے مطلب بھی ضرور دیکھوں گا، آپ سے آخری سوال ہے کہ میاؤں میاؤں سے کیا مراد ہے؟

بڑا دلچسپ سوال ہے دراصل یہ لفظ ’می آؤں‘ ہے، می انگریزی کا لفظ ہے جس کے ہجے ایم اور ای ہیں، جس کے معنی ہیں ’میں‘، آؤں اردو میں آنے کی اجازت لینا ہے، یوں ’می آؤں‘ لفظ کے معنی ہوئے میں آؤں؟ اس تکیہ کلام کا مطلب دوسروں کو ہوشیار کرنا ہے کہ میں آ رہی ہوں۔

اپنے چند اشعار کے بعد اجازت چاہوں گی کہ گلی میں کتے بھونکنے لگے ہیں:

جہاں پر کہ دو چار کتے ہوں موجود
تو ایسی جگہ کب ٹھہرتی ہے بلی

می آؤں، می آؤں، می آؤں، می آؤں
اجازت طلب ایسے کرتی ہے بلی

بلا وجہ بلی سے ڈرتے ہیں بچے
دراصل بچوں سے ڈرتی ہے بلی

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

بلی بلی ماراں بیگم کی بلی علامہ اقبا علامہ اقبال مرزا غالب مشکورعلی می آؤں وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلی بلی ماراں بیگم کی بلی علامہ اقبا علامہ اقبال مرزا غالب مشکورعلی وی نیوز اس محاورے لوگوں نے میں بلی لگتا ہے ہے کہ ا سے بھی ہے بلی نہیں ا بلی کے تھا کہ

پڑھیں:

قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت

مہذّب ملکوں میں آئین کو سپریم لاء کی حیثیّت حاصل ہوتی ہے۔ آئین کی خلاف ورزی کو اس ملک میں سب سے بڑا جرم قرار دیا جاتا ہے۔ آئین ہی مختلف اکائیوں کو ملاکر، ریاست کی تشکیل کرتا ہے اور آئین ہی طرزِ حکمرانی کے بارے میں راہنما اصول فراہم کرتا ہے۔

آئین ہی کو قومی اتحادکی بنیاد اور ضمانت سمجھا جاتا ہے۔مہذّب معاشروں میں آئین کو پامال کرنا ناقابلِ معافی جرم سمجھا جاتاہے۔ اس کو محض آئین شکنی ہی کہہ لیں تو بھی جرم کی سنگینی برقرار رہتی ہے۔جمہوری معاشروں میں آئین شکنی کو بغاوت کی طرح سزا دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں آئین توڑنے والے سزاسے بچتے رہے اس لیے قانون شکنی کو فروغ ملا اور قانون کی حکمرانی قائم نہ ہوسکی۔

دوست ممالک کے سفارتکار کسی تقریب میں ملیں تو حیرانی سے پوچھتے ہیں کہ’’ آپ عجیب قوم ہیں جہاں ٹی وی پر وزراء کھلم کھلا ہائبرڈ نظام کی تعریف و تحسین کرتے ہیں۔ کسی ایسے نظام کی تعریف صرف وہ دسترخوانی ٹولہ ہی کرسکتا ہے جو اس نظام کے دسترخوان پر بیٹھا، اس کی برکات سے پوری طرح مستفیض ہورہا ہے۔ افسوس یہ ہے کہ وہ اپنے سامعین کو جاہل یا بھیڑ بکریاں سمجھ کر فسطائیت کو ایک بہتر آپشن کے طور پر پیش کرتے ہیں اور اس کے خطرناک اثرات اور نتائج سے عوام کو جان بوجھ کر بے خبر رکھتے ہیں۔

کیا وہ نہیں جانتے کہ جدید ریاست تین ستونوں پر کھڑی ہوتی ہے مقننہ ، عدلیہ اور انتظامیہ ۔ میڈیا کو بھی چوتھا ستون سمجھا جاتا ہے۔ ایک مہذّب معاشرے کی نشوونما کے لیے عوام کی منتخب پارلیمنٹ، طاقتور عدلیہ ، آزاد میڈیا، باضمیر انتظامیہ اور قانون کی حکمرانی کی ضرورت ہوتی ہے مگر آمریّت ان سب کی نفی کرتی ہے۔ ڈکٹیٹروں کو اپنے غیر آئینی اقدام پر قانونی مہر لگوانے کے لیے تابعدار عدلیہ کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے پارلیمنٹ کے بعد سب سے پہلے عدلیہ کو قابو کیا جاتا ہے۔

اعلیٰ عدلیہ کے جج صاحبان کو حکومت، وزیرِاعظم یا صدر اپنے عہدے سے سبکدوش نہیں کرسکتا۔ انھیں صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی عہدے سے برخاست کرسکتی ہے مگر ڈکٹیٹروں نے جج صاحبان کو ہٹانے کا ایک انوکھا طریقہ ایجاد کرلیا، وہ اپنے وفادار اٹارنی جنرل یا وزیرِ قانون کے ذریعے معلوم کرتے ہیں کہ کون سے جج فرمانبردار ہیں اور کون سے جج ایسے ہیں جن کی ریڑھ کی ہڈّی مضبوط ہے، اگر باضمیر جج کافی تعداد میں نظر آئیں تو پھر شریف الدّین پیرزادوں کے مشورے پر PCO کے نام سے ایک نیا آئین نافذ کردیا جاتا ہے۔

جج صاحبان کو پابند کیاجاتا ہے کہ وہ پی سی او کے تحت حلف اُٹھائیں یا پھر گھر جائیں۔ جب جنرل مشرّف نے آئین توڑ کر حکومت پر قبضہ کیا تو اس کے مشیر سپریم کورٹ کے جج صاحبان کو ڈکٹیٹر کے غیر آئینی اقدام کی حمایت پر آمادہ کرتے رہے۔ جب آدھے سے زیادہ جج صاحبان (ان ججوں میں کوئی بھی پنجابی نہیں تھا) اس پر تیار نہ ہوئے تو انھیں عہدوں سے فارغ کردیا گیا۔ انھیں دو دن کے لیے گھروں پر نظر بند کرکے فرمانبردار ججوں سے حلف اُٹھوالیا گیا اوراس کے بعد اپنی مرضی کے کچھ اور جج تعنیات کرکے ان سے مارشل لاء کے حق میں فیصلہ لے لیا گیا۔

 سپریم کورٹ سے اپنے حق میں فیصلہ لینے کے بعد بھی آئین کے آرٹیکل چھ کی تلوار ان کے سر پر لٹکتی رہتی ہے، اس کے لیے ان پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے تمام (غیر آئینی) اقدامات کو پارلیمنٹ سے ratifyکروائیں۔ اس کے لیے اِدھر اُدھر سے لوٹے جمع کرکے ایک کنگز پارٹی بنائی جاتی ہے، جس طرح جنرل مشرّف نے ق لیگ بنائی تھی، اسی طرح کی پارٹی ہر آمر کو بنانا پڑتی ہے، اس کے لیے ایک جعلی ساالیکشن کروایا جاتا ہے جس میں کنگز پارٹی کے امیدواروں کو جتوانے کے لیے انتظامیہ اور پولیس کے ایسے افسر تیّار کیے جاتے ہیں، جو ہر غیر قانونی اور غیر اخلاقی حربہ استعمال کرنے کے لیے تیار ہوں۔

ان کے ساتھ ایک غیر تحریری معاہدہ ہوتا ہے کہ تم ہمارے کہنے پر غیر قانونی کام کرتے رہو، ہمارے مخالفین کے خلاف جھوٹے مقدمے بناؤ ۔ اس کے صلے میں ہم تمہیں تخفّظ دیں گے، تمہیں فیلڈ پوسٹنگ سے نہیں ہٹایا جائے گا۔ تم فیلڈ میں جتنا عرصہ چاہے رہو اور جتنی چاہے لوٹ مار کرتے رہو، تمہیں کوئی نہیں پوچھے گا، اس کے بعد بھی تمہیں بہترین پوسٹنگ دلادیں گے۔ اس طرح پولیس اور انتظامیہ میں ایک نئی کلاس تیار کی جاتی ہے۔ ایسے افسر، سول سرونٹس نہیں رہتے بلکہ حکمرانوں کے نوکر بن جاتے ہیں۔ اس طرح مقننّہ اور عدلیہ کے ساتھ انتظامیہ کو بھی برباد کردیا جاتا ہے۔

 آمر اور فاشسٹ حکمران آزاد میڈیا کو بھی کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے چنانچہ میڈیا کو جو ریاست کا چوتھا ستون کہلاتا ہے، خوف اور تحریص سے اپنا حامی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جھکنے سے انکار کرنے والے صحافیوں کو آمروں کے دور میں کوڑے مارے گئے، گرفتار کیا گیا، کچھ کو خرید لیا گیا اور کئی قتل کردیے گئے ۔ اس طرح ملک کا نام دنیا بھر میں بدنام اور بے وقار ہوتا رہا اور دیارِ غیر میں رہنے والے پاکستانیوں کو رسوائی اور طعنوں کا سامنا کرنا پڑتا رہا۔

آمریتوں کے دور میں میڈیا جبر کا شکار رہا ہے اور کالم نگار ، اینکرز اور تجزیہ کار آمروں کی بنائی ریڈ لائنز کراس کرنے کی جرأت نہیں کرسکتے، انھیں صرف تعریف و تحسین کرنے کی آزادی ہوتی ہے۔ بڑے بڑے صحافیوں کے تجزئیے سن کر افتخار عارف یاد آیا کرتے ہیں جو درست کہہ گئے کہ ؎ہوسِ لقمۂ تر کھاگئی لہجے کا جلال ۔تلخ حقیقت یہی ہے کہ ریاست کا چوتھا ستون بھی بوسیدہ کردیا گیا ہے۔

اِس وقت بھی اگر عام آدمی سے پوچھا جائے کہ کیا الیکشن کمیشن پر اعتماد ہے؟ تو اس کا جواب ناں میں ہوگا۔ یوں الیکشن کمیشن پر بھی عوامی اعتماد ختم کرادیا گیا۔ آمرانہ حکومتیں جب چاہیں پولیس اور انتظامیہ کو اپنے ناپسندیدہ سیاستدانوں یا صحافیوں کے پیچھے لگادیتی ہیں، جو افراد پھر بھی راہِ راست پر نہ آئیں، ان کے پیچھے نیب، ایف آئی اے اور ایف بی آر کو لگادیا جاتا ہے کیونکہ مخالفین کو تنگ کرنے کے لیے ان کی خدمات ہر وقت حاضر رہتی ہیں۔

 ہائبرڈ نظام میں ادارے متنازعہ بنا دیے جاتے ہیں۔ کنگز پارٹی کے سوا باقی تمام پارٹیاں اور ان کے حامی اداروں سے نفرت اور غصّے کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ یہ ہیں آمرانہ حکمرانی کے نتائج۔ جمہوریّت کو مطعون کرنے والوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ جمہوریت ملک ٹوٹنے نہیں دیتی اور تمام کنفیڈریٹنگ یونٹس کو ریاست کے ساتھ مضبوطی سے جوڑ کر رکھتی ہے۔

قومی اداروں کی کمزوری کے خطرناک after effects  یا side effects سے ملک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچتا ہے۔ ایوّب خان کے دور میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بیج بوئے گئے اور بنگلہ دیش کی بنیاد رکھ دی گئی ۔ یحیٰ خان جیسے آمر نے ملک کا ایک بازو کٹوا دیا۔ جنرل ضیاالحق نے قوم کو کلاشنکوف، ہیروئن، انتہاپسندی اور لسانی اور فرقہ وارانہ تنظیموں کے تحفے دیے اور جنرل مشّرف نے ملک کو د ہشت گردی کے اندھیروں میں دھکیل دیا۔

کل ایک شادی کی تقریب میں ایک بڑی عدالت کے ایک ریٹائرڈ جج صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ گفتگو کے دوران کہنے لگے ’’جمہوریت دوسرے نظاموں سے اس لیے بہتر ہے کہ اس میں چیک اینڈ بیلنس کو یقینی بنایا جاتا ہے، کوئی ادارہ لا محدود اختیارات کا حامل نہیں ہوتا، ہر ادارے پر چیک رکھا جاتا ہے کیونکہ کسی حکمران کے پاس لامحدود اختیارات آجائیں تو سسٹم میں کرپشن در آتی ہے اور  'Absolute Power Corrupts absolutely' دوسرے یہ کہ وہ تمام اداروں کو نگل جاتا ہے۔

ایک طاقتور آمر کے علاوہ باقی سب اپنا وجود کھو دیتے ہیں، پارلیمنٹ irrelevant ہو جاتی ہے۔ میڈیا صرف قصیدہ گوئی کرسکتا ہے۔ انتظامیہ اور پولیس کے افسران حکمرانوں کے تابع فرمان بن جاتے ہیں، وہ حکمرانوں کے کہنے پر ہر غیر قانونی اور غیراخلاقی کام کرنے کے لیے تیّار رہتے ہیں۔ ادارے کمزور ہوجائیں تو شہریوں کا ریاست سے تعلق کمزور ہوتے ہوتے بالآخر ختم ہوجاتا ہے ۔کیا اس طرح ملک ترقی کرسکتے ہیں؟ ترقّی کیا اِس طرح تو ملک قائم بھی نہیں رہ سکتے۔‘‘

یادرکھیں امن، جبر سے نہیں انصاف سے قائم ہوتا ہے اور استحکام ظلم سے نہیں قانون کی حکمرانی سے حاصل ہوتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
  • انسان بیج ہوتے ہیں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • لازوال عشق
  • اگر کوئی سمجھتا ہے کہ میں ٹوٹ جا ئوں گا تو یہ غلط فہمی ہے ، عمران خان
  • قومی اداروں کی اہمیت اور افادیت
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • فیس لیس اسیسمنٹ کی وجہ سے ریونیو میں اضافہ ہوا: ایف بی آر
  • Self Sabotage