میں بالکونی میں چپ چاپ کھڑا اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا، وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی اچانک رک گئی، نظریں چار ہوئیں تو وہ پلکیں جھپکانا بھول گئی اور ایسے ساکت ہو گئی جیسے بے جان ہو، میں اس کوشش میں تھا کہ اس کے ریشمی بالوں میں ہاتھ پھیر سکوں اور اس کے لمس کا گداز حاصل کر سکوں، میں اس کی جانب بڑھا تو وہ چھلانگ لگا کر دیوار پر جا بیٹھی اور میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ آس پاس کی بالکونیوں پر کوئی ذی روح موجود نہ تھا سو میں نے انہیں اکیلا پا کر بات کرنے کی ٹھان لی، ہلکا سا کھنگارا اور کہا:
محترمہ! لگتا ہے آپ مجھ سے ناراض ہیں؟
پلیز آپ زیادہ فری ہونے کی کوشش مت کریں، میرے آپ کے کون سے یارانے چل رہے تھے کہ میں ناراض ہوتی؟۔
جی میرا مطلب یہ تھا کہ آپ میری موجودگی سے ڈسٹرب ہوئی ہوں گی۔ میں صحافی ہوں اور آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔
’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘ یہ کہہ کر وہ چل دیں۔
میں فوراً بولا محترمہ ٹھہریں تو سہی، انہوں نے رک کر میری جانب ایسے دیکھا کہ تیر نیم کش سینے میں ترازو ہو گیا، محترمہ آپ نے جو ضرب المثل سنائی ہے وہ تو آپ کے بارے میں کہی جاتی ہے؟
وہ غصے سے بولیں، یہی تو مصیبت ہے کہ آپ لوگوں نے الٹے سیدھے محاورے بنا کر اس میں بلی ایسے ڈال رکھی ہے کہ محاورہ نہ ہوا کوئی تھیلا ہوا۔ موقع کی مناسبت سے تو وہ ضرب المثل درست ہے کہ نہیں؟
اس کا مطلب ہے کہ آپ انٹرویو نہیں دینا چاہتیں؟
دراصل میں ان دھندوں میں پڑنا نہیں چاہتی کیونکہ آپ لوگ توبات کا بَتَن٘گَڑ بنا دیتے ہیں، اب آپ خود دیکھ لیں کہ ملک صاحب کی ’کتیا‘ جو ٹرک تلے آ گئی تھی، اس خبر کو آپ لوگوں نے مرچ مسالہ لگا کر شائع کیا، بھلا اس میں ’مزے‘ لینے والی کون سی بات تھی۔
محترمہ وہ خبر ایک شام کے اخبار نے لگائی تھی اور اگر وہ ایسی خبریں نہ لگائیں تو انہیں خریدے کون؟ بہرحال میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی گفتگو کو مِن و عَن شائع کیا جائیگا۔
وہ اچانک کھڑی ہو گئیں اور پورے جسم کو جھرجھری دے کر جھٹک دیا اور جمائی لے کر بولیں۔ جی پوچھیں؟
محترمہ سب سے پہلے تو آپ اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں کچھ بتائیں؟
میرے آباؤ اجداد بھارت کی راجدھانی دہلی میں مقیم تھے، شاید آپ جانتے ہوں وہاں لال قلعے کے پچھواڑے میں ایک محلہ ہے، وہاں مقیم ایک شخص قاسم جان نے میرے خاندان سے ایک بلی پال رکھی تھی جو ایک دن کھیل کود میں کافی گندی ہو گئی، تو اس بیوقوف نے نہ صرف اسے ٹھنڈے پانی سے دھو دیا بلکہ بعد میں سکھانے کی خاطر نچوڑ بھی دیا، یوں وہ بلی مر گئی جس پر لوگوں نے محلے کا نام ’بلی ماراں‘ جبکہ گلی کا نام ’قاسم جان‘ رکھ دیا جو آج تک مشہور ہیں۔
اس اندوہناک سانحے کے بعد ہمارے بزرگوں نے لال قلعے کے کھونے کھدروں میں وقت گزارا اور پھر تقسیم کے وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اچھے دنوں کی آس لگائے پاکستان آ گئے جبکہ واقفان حال نے مشہور کر دیا کہ ’بلی کے خواب میں چھیچھڑے۔‘
سنا ہے آپ نے صوفی غلام مصطفی تبسم کے دور سخن میں چوہے بھی پالے تھے؟
مسکراتے ہوئے بولیں، شاعر حضرات کو تو سات خون معاف ہیں اور ویسے بھی ان دنوں دنیا کے رنگ نرالے ہی تھے، تبسم صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ’چاند پہ جا کے کودا شیر، بلی کھا گئی سارے بیر‘ حالانکہ انسان کے علاوہ چاند پر صرف کتا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ بلی شیر کی خالہ ہے تو اب جبکہ ’شیر‘ جلاوطن ہے اس ضمن میں آپ کا مؤقف سامنے نہیں آیا؟
آپ عجیب بات کر رہے ہیں جب شیر خود ہی کچھ ہمت نہیں کر رہا تو خالہ بیچاری کیوں مصیبت مول لے، ویسے بھی ایسے موقع پر ہی کہا جاتا ہے کہ ’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے‘ اور میں بھی کہاں کی سورما، ایک ہی داؤ تھا درخت والا، اب تو وہ بھی بے سود، بھلا بُوٹ والے کو درخت پر چڑھنے سے کون روکے؟۔
ایک بات کی تشریح کردیں کہ ’نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی‘؟
میں کوئی شاعر نہیں کہ تشریح کروں بہرحال آسان لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں، اس محاورے کو آپ اس تناظر میں دیکھیں جیسے آپ کے سیاستدان بڑھاپے میں حج پر چلے جاتے ہیں، بس یہی ساری بات ہے اور ویسے بھی ایک بلی کے نصیب میں نو سو چوہے کہاں، ہمیں کون سے ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں کہ ہم کچھ کھا پی سکیں؟
آپ کے خاندان میں کسی کو اداکاری کا شوق ہے یا کبھی تھا؟
جی ہاں میری ایک خالہ زاد بہن کو اداکاری کا شوق ہوا کچھ عرصہ تک تو وہ ’کیٹ واک‘ کرتی رہی پھر اسے ایک سگریٹ کے اشتہار میں کام ملا تھا، ماحول پسند نہ آنے پر اس نے شوبز سے کنارہ کشی کرلی، بعد ازاں سید نور کچھ عرصہ اپنی فلم ’بلی‘ کے ٹائٹل رول کے لیے میری کزن کو مناتے رہے لیکن میری کزن کے انکار پر انہوں نے فلمسٹار ’نور‘ کو بلی بنالیا۔
آپ کے خاندان کی کوئی مشہور شخصیت جس کا ذکر کرنا آپ ضروری سمجھتی ہوں؟
جی ہاں میری دادی جان بہت شہرت یافتہ بلی تھیں، امتیاز علی تاج نے ان پر ایک کہانی بھی لکھی، یوں میری دادی حضور ’بیگم کی بلی‘ کے نام سے آج بھی زبان زدِ عام و خاص ہیں۔
ایک شاعر نے تو میری پھوپھو کی شان میں قصیدہ بھی کہا ’میں نے بلی پالی ہے، نیلی آنکھوں والی ہے، میرا جی بہلاتی ہے بی مانو کہلاتی ہے، لیکن جب اداکارہ نیلی کا فلموں میں آنا ہوا تو پھوپھو نے سبز لینز لگانا شروع کر دیے تھے مبادا کوئی انہیں ’نیلی‘ نہ کہہ دے۔
اچھایہ بتائیں کہ بھیگی بلی بننا کیسے ممکن ہے؟
یہ کوئی شہرت یا عزت کی بات نہیں، انسانوں میں کمزور، بزدل یا ڈرپوک انسان کو بھیگی بلی کہہ کر ہماری تضحیک کی جاتی ہے، ہوا یوں تھا کہ ایک روز میری امی جان کے اودھم مچانے اور بھاگنے سے شیخ صاحب (جن کے گھر میں وہ رہتی تھیں) کا چھینکا ٹوٹ گیا یہ بات ذہن میں رہے کہ چھینکا اس وقت زمین پر ہی پڑا تھا، لہٰذا اس کنجوس شخص نے ’ماں جی‘ کو گھر سے نکال دیا، اس ظلم و زیادتی پر بادل ساری رات روئے اور یوں وہ بھیگ گئیں، دسمبر کے دن تھے لہٰذا وہ ٹھنڈ سے سکڑی سمٹی بیٹھی تھیں کسی نے انہیں اس حالت میں دیکھا اور یوں اردو ادب کو مزید دو محاورے مل گئے۔
محترمہ ایک محاورہ ہوا نہ ’بھیگی بلی بننا‘ آپ دو کا ذکر کر رہی ہیں؟
محترم آپ کا صابن سلو ہے کیا؟ میں نے اپنی امی جان کا واقعہ سنایا ہے آپ لوگوں نے اس سے بھی محاورہ بنا تو رکھا ہے’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘۔
لیکن اس محاورے میں تو ’بھاگوں‘ (ہندی لفظ بھاگ کی جمع) استعمال ہوا ہے جس کے معنی مقدر، نصیب یا خوش قسمتی سمجھے جاتے ہیں؟
محترم ہمارے اتنے بھاگ کہاں؟ امی جان تو بھاگی تھیں، آپ نے اب نیا قصہ چھیڑ لیا، اب نوٹ بک کو دوسرے ہاتھ پر مار کر یہ مت کہہ دینا کہ ’بھاگ لگے رہین‘۔ (ہنستے ہوئے، جسٹ کڈنگ، آگے بڑھیں)
چوہے بلی کے کھیل سے مراد کون سا کھیل ہے اور کھسیانی بلی کھمبا کیوں نوچتی ہے؟
لگتا ہے آپ ’ٹام اینڈ جیری‘ بھی نہیں دیکھتے، اس میں چوہے بلی کے خاصے دلچسپ کھیل دکھائے جا چکے ہیں، آپ کو آسان لفظوں میں سمجھاتی ہوں، یہ کھیل مختلف قواعد وضوابط کے تحت پوری دنیا میں ذوق و شوق سے کھیلا جاتا ہے۔ امریکا دنیا بھر میں جو کچھ غریب ممالک کے ساتھ کر رہا ہے، وہ بھی یہی کھیل ہے۔
کھمبا نوچنے کا الزام ایسے ہی ہے جیسے ہماری ہر حکومت پر آئی ایم ایف کے دباؤ کا الزام ہے یا پھر جیسے ہمارے حکومتی ترجمانوں کی پریس کانفرنسز میں وضاحتیں۔ اب میں کسی نئی یا پرانی سیاسی جماعت کی ترجمان کا نام لیکر انٹرویو کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہتی۔
محترمہ آپ کے بارے میں ایک کہانی یہ بھی مشہور ہے، جس میں دو بلیاں ایک بندر سے انصاف کرانے جاتی ہیں لیکن دونوں ہی روٹی کے ٹکڑے سے محروم رہ جاتی ہیں؟
جی ہاں یہ سچی کہانی ہے، آپ کا اشارہ غالباً اسی کہانی کی جانب ہے جس کے نتیجے میں ’بندر بانٹ‘ کا لفظ نکلا تھا۔ یہ المیہ ابھی تازہ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی انصاف کا ترازو بندر کے ہاتھ ہے۔
محترمہ ایک محاورہ ہے ’بلی مارنا‘ اس پہ روشنی ڈال دیں تو قارئین کی تشفی ہو جائے گی؟
جناب اردو کا یہ محاورہ ’بِلی مارنا‘ نہیں ہے بلکہ ’بَلی مارنا‘ ہے۔ آپ کا شین قاف ہی نہیں زیر زبر بھی خراب ہے۔ اس محاورے کا معنی ہے کشتی چلانا یا ناؤ کھینا، آسان لفظوں میں چپو چلانا بھی کہہ سکتے ہیں۔
جو بلی آپ مارنا چاہ رہے ہیں وہ فارسی کا مشہور محاورہ ہے ’گُربہ کشتن روزِ اوّل‘ یعنی بلی پہلے دن ہی مار دینی چاہیئے، ہمارے ہاں اس محاورے کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اسے نہ صرف مشرف بہ اردو کیا گیا بلکہ ہر نو بیاہتا مَرد خدا جانے کیوں بلی ہی مارنا چاہتا ہے؟
یقیناً آپ کے علم میں نہیں ہوگا کہ بلی پر میر تقی میر نے ایک طویل نظم لکھی تھی، گوگل کریں ’موہنی بلی‘ نظم مل جائے گی۔ یہی نہیں شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی ہم پر نظم لکھی ہے، جس کا عنوان ہے’۔۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر‘ یہ نظم ان کی کتاب بانگ درا میں ہے، اب آپ تحقیق کریں اور پتا چلائیں کہ اقبال نے اتنی خوبصورت نظم کس کی گود میں ہمیں دیکھ کر لکھی تھی۔
مائنڈ نہ کیجئے گا ویسے آجکل کے صحافی تحقیق و تحریر کے بجائے پریس ریلیز اور وٹس ایپ کے سہارے چل رہے ہیں، کرنے کو کیا کچھ نہیں لیکن مثل مشہور ہے کہ کام جوان کی موت ہے، اپنی سستی کا اندازا اس بات سے لگائیں کہ بھارت تک چاند پہ پہنچ گیا اور آپ کی سوئی اس بات پہ اٹکی ہے کہ ’کالی بلی رستہ کاٹ گئی‘۔
محترمہ انٹرویو کے شروع میں آپ نے کہا کہ ہم نے ہر محاورے میں بلی یوں ڈال رکھی ہے کہ محاورہ نہ ہوا کوئی تھیلا ہوگیا، مگر میرے خیال میں جو محاورے اور واقعات آپ سے منسوب تھے وہ میں آپ سے پوچھ چکا ہوں، اس الزام بارے آپ کچھ فرمائیں گی؟
لگتا ہے کہ آپ انٹرویو کی تیاری کرکے نہیں آئے یا پھر آپ کو مطالعے کا شوق نہیں میں اب بھی اپنے مؤقف پر قائم ہوں، کاپی قلم سنبھالیے اور لکھئے!
بلی الانگنا
بلی بھی لڑتی ہے تو پنجہ منہ پر دھر لیتی ہے
بلی جب گرتی ہے تو پنجوں کے بل
بلی خدا واسطے چوہا نہیں مارتی
بلی سے دودھ کی رکھوالی
بلی کا گو نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا
بلی کھائے گی نہیں تو پھیلائے گی ضرور
بلی کی میاؤں سے ڈر لگتا ہے
بلی لوٹن
بلی نے شینہ پڑھایا، بلی کو کھانے آیا
بلی تھیلے سے باہر آگئی
اونٹ کے گلے میں بلی
پلیز ذرا ٹھہریئے، اتنے محاورے کافی ہیں، میں لغت میں ان کے مطلب بھی ضرور دیکھوں گا، آپ سے آخری سوال ہے کہ میاؤں میاؤں سے کیا مراد ہے؟
بڑا دلچسپ سوال ہے دراصل یہ لفظ ’می آؤں‘ ہے، می انگریزی کا لفظ ہے جس کے ہجے ایم اور ای ہیں، جس کے معنی ہیں ’میں‘، آؤں اردو میں آنے کی اجازت لینا ہے، یوں ’می آؤں‘ لفظ کے معنی ہوئے میں آؤں؟ اس تکیہ کلام کا مطلب دوسروں کو ہوشیار کرنا ہے کہ میں آ رہی ہوں۔
اپنے چند اشعار کے بعد اجازت چاہوں گی کہ گلی میں کتے بھونکنے لگے ہیں:
جہاں پر کہ دو چار کتے ہوں موجود
تو ایسی جگہ کب ٹھہرتی ہے بلی
می آؤں، می آؤں، می آؤں، می آؤں
اجازت طلب ایسے کرتی ہے بلی
بلا وجہ بلی سے ڈرتے ہیں بچے
دراصل بچوں سے ڈرتی ہے بلی
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلی بلی ماراں بیگم کی بلی علامہ اقبا علامہ اقبال مرزا غالب مشکورعلی وی نیوز اس محاورے لوگوں نے میں بلی لگتا ہے ہے کہ ا سے بھی ہے بلی نہیں ا بلی کے تھا کہ
پڑھیں:
زباں فہمی251 ؛ بقرہ عید، بقر عید۔یا۔ بکرا عید
بفضلہ تعالیٰ ہر سال کی طرح اِمسال بھی ہم عیدالاضحٰی یا بقرعید کی خوشیاں منارہے ہیں اور تب تک مناتے رہیں گے جب تک اس دنیائے فانی میں موجود ہیں۔ ’’آخرت کی خبر، خُدا جانے‘‘ کے مصداق دوسرے جہان میں عید کے تصور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ راقم نے ماقبل اپنے سلسلہ زباں فہمی میں، متعدد بار عیدالاضحی یا بقرعید (عیدِ قرباں، بقرہ عید۔یا۔ بکرا عید) عُرف ’بڑی عید‘ کے موضوع پر خامہ فرسائی کی ہے ، مگر جس طر ح ہر سال، اس مقدس موقع پر قربانی ضروری ہے۔
اسی طرح قربانی کے مسائل اور دیگر متعلقات پر ہر مرتبہ لکھا جانا اور دُہرایا جانا بھی ضروری ہے۔ ہم لوگ یوں بھی سال بھر میں ایک مرتبہ ’چھوٹی‘ اور ایک مرتبہ ’بڑی عید‘ مناتے ہیں تو یہ منظر بہت جگہوں پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ نمازِعید میں کئی افراد ، ’تکبیراتِ واجب‘ کی تعدادوترتیب بھُول جاتے ہیں ۔اس موقع پر ایک بہت ہی پیاری شخصیت کی یاد تازہ کرتا چلوں۔ فیڈرل ’بی‘ ایریا کی جامع مسجد رضوان کے خطیب مولانا سراج مرحوم (اگر مجھے نام صحیح یاد ہے تو) ، اپنے بزرگ معاصر جناب احتشام الحق تھانوی کی پیروی میں بعینہٖ اُسی طرح میٹھے (بلکہ اُن سے بھی زیادہ مٹھاس بھرے) لہجے میں جمعہ وعیدین کے موقع پر وعظ فرماتے تھے۔
وہ اس حد تک مقبول تھے کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اَپنی مساجد چھوڑ کر بطورِخاص اُن کی اقتداء میں نمازِعید پڑھنے جاتی تھی۔ مجھے بھی کئی مرتبہ اتفاق ہوا۔ {حضرت صلوٰۃ وسلام کے قائل اور شائق تھے۔ ہماری نوجوانی کے معروف بزرگ میلادخواں جناب مُسافر لودھی (والدِ سلیم لودھی گلوکار) کو خاص طور پر اپنے حُجرے میں بُلواکر سلام سُنا کرتے تھے، جبکہ مُسافر صاحب ( ایک مدت سے اُن کے متعلق کوئی خبر نہیں، اللہ اُن پر رحم کرے) ہماری جامع مسجد غفران (بلاک 16، فیڈرل ’بی ‘ ایریا، عُرف واٹرپمپ) سے منسلک اور اُسی علاقے کے مکین تھے جہاں خاکسار نے بھی عین نوجوانی میں بطور میلادخواں اور بانی ومنتظم بزم غفران نام کمایا}۔ آمدم برسرمطلب! حضرت بہت دل چسپ پیرائے میں فرمایا کرتے ;’بھئی اگر کوئی بھُول جائے تو پریشانی کی کوئی بات نہیں، آپ اپنے آگے والے نمازی کو دیکھیں، وہ اپنے آگے والے کو، اُس سے آگے والے، اپنے آگے والے کو (کہ رکوع کررہا ہے یا سجدہ) اور یوں شُدہ شُدہ سب امام کی صحیح اور بَروَقت تقلید کرلیں گے۔ بھئی اگر کوئی سہو بھی ہوجائے تو کوئی مسئلہ نہیں، آپ امام کے پیچھے کھڑے ہیں، یہ سب اُس کے ذمّے!
آج جب بقرعید پر لکھنے بلکہ کمپیوٹر پر ماؤس چلانے بیٹھا ہوں تو بہت سی نئی پُرانی باتیں سامنے آگئی ہیں۔ جی چاہا کہ حسبِ معمول عیدین پر ماقبل لکھے گئے اپنے ہی مضامین سے استفادے کی بجائے آغاز میں کوئی نئی چیز پیش کی جائے، سو اَپنے عالم دوست حافظ سلمان رضا صدیقی فریدی مصباحی، خطیب (مسقط ،عُمان ) کا ایک عمدہ کلام قارئین کی نذرکرتا ہوں۔ (حافظ صاحب بارہ بنکی، ہندوستان سے تعلق رکھنے والے زُودگو شاعر ہیں مگر اُن کے موضوعات فقط دینی ہوتے ہیں جن میں حالاتِ حاضرہ سے متعلق بعض مواد بھی شامل ہوتا ہے۔ کچھ عرصے سے رابطہ منقطع ہے، ویسے وہ میری ’بزم زباں فہمی‘ کے خاموش رُکن ہیں)۔ ملاحظہ فرمائیں کہ اُنھوں نے کس طرح بقرعید کے موقع پر اسلامی تعلیمات کا خلاصہ نظم کیا ہے:
ہم اپنی ساری غفلت کو چلو قربان کر ڈالیں
مزاجِ بے مُرَوَّت کو چلو قربان کر ڈالیں
نہ ہوں ہم مطمئن، بس جانور قربان کرنے سے
بدی کرنے کی عادت کو چلو قربان کر ڈالیں
بتاتی ہے ہمیں یہ ’’لَن یَّنَالَ اللّہ‘‘ کی آیت
غَرَض آلُود نِیّت کو چلو قربان کر ڈالیں
رضائے رب، رضائے مصطفٰی (ﷺ) سب سے مقدم ہو
یہاں ہم اپنی چاہت کو چلو قربان کر ڈالیں
گَلا کاٹیں، اِسی قربانی میں اپنی ’’اَنَا‘‘ کا بھی
تکبر اور نَخوت کو چلو قربان کر ڈالیں
ہمارے واسطے یہ درس لے کر بقرعید آئی
کہ ہر دنیاوی رغبت کو چلو قربان کر ڈالیں
ہماری اپنی مرضی کا نہ کوئی دخل ہو اِس میں
شریعت پر طبیعت کو چلو قربان کرڈالیں
اگر چلنا ہے ابراہیمؑ و اسماعیلؑؑ کے رستے
زمانے کی ہر الفت کو چلو قربان کرڈا لیں
چلو ہم مُتّحِد ہوکر، کریں باطل کی سر کوبی
ہر اک شکوہ شکایت کو چلو قربان کر ڈالیں
کھڑے ہوں جرأتوں سے قوم وملت کی مدد کو ہم
خموشی اور دہشت کو چلو قربان کرڈالیں
دلیری اور خودداری میں پنہاں ہے وقار اپنا
تَمَلُّق اور لَجاجَت کو چلو قربان کرڈالیں
ہمارا ہر عمل، اخلاص ہی کے دائرے میں ہو
ریاکاری کی فطرت کو چلو قربان کرڈالیں
بَراہیمی صفت پیدا کریں کردار کے اندر
جہاں کی ہر محبت کو چلو قربان کر ڈالیں
ذبیحُ اللّہ سے سیکھیں اطاعت آشنائی ہم
کہ جان و دل کی ثَروت کو چلو قربان کر ڈالیں
ہمارا جینا مرنا، ہو فقط اللہ کی خاطر
ہر اک خواہش کو، لذت کو چلو قربان کر ڈالیں
فریدی! عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ کر ہم
خِرَد کی ساری حُجَّت کو چلو قربان کر ڈالیں
(حافظ سلمان رضا صدیقی نے اس دل نشیں کلام میں ’دُنیاوی‘ لکھا ہے جو درحقیقت ’دُنیَوی ‘ ہے، مگر غالباً اُن کے پیش نظر غلط العام ہی ہوگا اور عروضی اعتبار سے سقم کا بھی خدشہ ہوگا)
عیدالاضحیٰ کے لسانی موضوعات متعدد ہیں جن پر یہ خاکسار خامہ فرسائی کرتا رہا ہے، مگر اعادہ بھی ضروری سمجھتا ہے۔ نکتہ وار عرض کرتا ہوں:
ا)۔ اس تہوار (اگر قبلہ مفتی اعظم پاکستان پروفیسر مفتی منیب الرحمٰن صاحب، اس لفظ کے استعمال پر بُرانہ مانیں تو) کا نام بھی بہت تنوع کے ساتھ مشہور ہے۔ ہرچندکہ یہ معروف معنیٰ میں تہوار (تیوہار) نہیں، مگر کیا کریں صاحبو! کوئی اور لفظ سُوجھتا بھی نہیں۔ خیر! تو جناب ہم اسے بقرہ عید کہہ کر گائے سے منسوب کرتے ہیں اور یوں بھی کم از کم پاکستان میں گائے کی قربانی کا رواج بوجوہ بہت زیادہ ہے۔ بقرہ کے نام پر سورۃ البقرہ ہے جو قرآن مجید کی دوسری سورت ہے اور احکام کے لحاظ سے بہت اہم بھی۔ پھر اِس کا ایک مختصر نام ’بقرعید‘ ہے ، لیکن یہ نام ’بکراعید‘ کیسے ہوا، اس بابت دوم مختلف ومتضاد آراء سامنے آتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ اصل نام ’بقرہ عید‘ سے بگڑکر ’بکرا عید‘ بنا، (عوام تو بقرِید، بکرِید اور بخرِید بھی بولتے ہیں)، دوسری یہ کہ بقول بابائے اردو ڈاکٹر مولوی عبدالحق صاحب، یہ بکرے کی نسبت سے بکرا عید ہی ہے۔
راقم نے اس سے قبل بھی اس بارے میں اظہارِخیال کیا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ مولوی موصوف نے انگریز سرکار کے عہد میں، گائے کے ذبیحہ پر شروع کیے جانے والے، ہندومسلم فسادات کے بعد، گائے کی قربانی کے رجحان میں کمی اور پھر اس کے خاتمے ہی کا سارا منظرنامہ پیش نظر رکھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان انگریز کی حکومت سے قبل، اپنی مرضی سے گائے کی قربانی کیا کرتے تھے، ہندوؤں کو کوئی اعتراض نہیں تھا، پھر جب انگریز نے ’لڑاؤ اور حکومت کرو‘ کے اصول کے تحت ان دو قوموں کو مذہب او ر زبان کی بنیاد پر ایک دوسرے کا دشمن بنادیا تو یہ مسئلہ اس قدر سنگین ہوگیا کہ ایک مرتبہ ایم اے او کالج، علی گڑھ میں مسلمان طلبہ نے چندہ کرکے ایک گائے خریدی کہ بقرعید پر قربان کریں گے۔ سرسید کو معلوم ہوا تو وہ اپنی بیماری کے باوجود، فوراً موقع پر پہنچے اور لڑکوں کو ڈانٹ پھٹکار کرکے گائے لے جاکر قسائی کو واپس کی اور آئندہ کے لیے سخت تنبیہ کی۔
’حیاتِ جاوید‘ میں مذکور اِس واقعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ سرسید ہر قیمت پر ہندومسلم یک جہتی چاہتے تھے، کیونکہ اُن کے نزدیک یہ دونوں ایک ہندوستانی قوم کے حصے تھے اور اُنھیں کسی صورت ہندوؤں کی دل آزاری گوارا نہ تھی، حالانکہ یہ مسئلہ مسلم عہداقتدار میں کبھی پیدا نہیں ہوا کہ مسلمان اپنی دینی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے محض اس لیے گریز کریں کہ دوسرے مذہب کا مقلد ناراض ہوجائے گا۔ ہندومسلم فساد ات (درحقیقت مُسلم کُش فسادات) کا سلسلہ بھی انگریز ہی کے دور میں شروع ہوا۔
ب)۔ عید کے موقع پر سب سے زیادہ استعمال ہونے والے الفاظ میں ’قسائی‘ شامل اور نمایاں ہے جسے سہواً قصائی لکھا جاتا ہے۔ اس بابت راقم اور سید اطہرعلی ہاشمی مرحوم نیز اُن کے شاگر درشید جناب احمد حاطب صدیقی کے کالم اور مضامین موجودہیں، انٹرنیٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں، خلاصہ کلام یہ ہے کہ لسانی تحقیق کے مطابق یہ لفظ ’قصّاب‘ سے بگڑ کر ’قصائی‘ نہیں بنا بلکہ ’قساوت ‘ سے مشتق ہے، اس لیے قسائی صحیح ہے۔
اوروں کو چھوڑیں، نامور انگریز ماہرلغات فیلن S. W.Fallon] [ نے اس باب میں ٹھوکر کھائی ہے۔
[Fallon, S. W. A new Hindustani-English dictionary, with illustrations from Hindustani literature and folk-lore. Banaras, London: Printed at the Medical Hall Press; Trubner and Co., 1879].
یہاں اپنے پرانے مضمون (زباں فہمی نمبر 212بعنوان ’قصائی نہیں قسائی‘) کا اختتامی اقتباس نقل کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں:
قصائی اور قسائی کی بحث میں ایک دل چسپ اور ناقابل یقین انکشاف ہمارے ایک خُردمعاصر نے کیا۔ اُن کا خیال ہے کہ دِلّی والے ’’قصائی‘‘ کہتے اور لکھتے ہیں، جبکہ لکھنؤ والے ’’قسائی‘‘..... معلوم نہیں اُنھیں یہ اور ایسے ہی بعض دیگر نکات کس دلی والے یا لکھنؤ والے نے سُجھائے۔
اگر ایسا ہی ہوتا تو فرہنگ آصفیہ اور نوراللغات اس وضاحت سے خالی نہ ہوتیں۔ بات کی بات ہے کہ یہ صاحب کچھ سال پہلے تک محض شعبہ تشہیر سے بطور ’’اخترا ع نگار‘‘ منسلک تھے (Creative Copywriter کا یہ اردو ترجمہ خاکسار نے کچھ عرصہ قبل کیا اور اپنے کالم میں استعمال بھی کیا تھا)۔ یکایک وہ اصلاح زبان کے موضوع پر خالص علمی نوعیت کے مضامین لکھنے لگے، خیر کوئی بھی لکھ سکتا ہے، پابندی نہیں، مگر مقام حیرت یہ ہے کہ وہ اہل زبان نہیں، بہرحال کوئی بات اگر مع حوالہ وسند نقل کی جائے تو غیراہل زبان کی تحریر بھی مسترد نہیں کی جاسکتی۔
ج)۔ عیدالاضحٰی کے مسائل میں یہ بات بھی شامل ہے کہ ہم قربانی اس لیے کرتے ہیں کہ یہ اللّہ اور اُس کے رسول (ﷺ) کا حُکم ہے اور اِس میں بشرطِ استطاعت قربانی واجب ہے ;نصاب کا مسئلہ بھی بالکل واضح ہے۔ لادینیت، مذہبی بے راہ رَوی المعروف آزادخیالی یا Liberalismکے ماننے والے یہ کہہ کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں کہ بے چارے جانوروں پر ظلم کرنے کی بجائے کسی غریب کی امداد کرنا بہتر ہے۔ یہاں مصلحتاً ایک بزرگ وکیل +سیاست داں کا ذکر بھی ناگزیر ہے جن کا ایک انٹرویو بہت مشہور ہوا تھا اور لوگ بغیر سوچے سمجھے اُن کی ہاں میں ہاں ملانے لگے تھے کہ ہمارے یہاں تو دادا کے وقت سے قربانی نہیں کی جاتی، بلکہ غریب کی مدد کرتے ہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اُنھیں اور اُن کے اندھے مقلدوں کو اسلام کا پتا ہی نہیں، دوسری بات یہ کہ اُن کے پڑدادا نے ایک بے گناہ مسلمان کو قید اور پھانسی کی سزادِلواکر، انگریز سے انعام واکرام حاصل کیا تھا، ورنہ وہ معمولی حیثیت کے شخص تھے اور تیسری بات یہ کہ موصوف کا اسلام سے تعلق اس قدر کمزور ہے کہ اُنھیں سورۂ اخلاص بھی پڑھنی نہیں آتی، ہاں موئن جو دَڑو کی مشرکانہ تہذیب کو اَپنی تہذیب قرار دینے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اے کمال افسوس ہے، تجھ پر کمال افسوس ہے! جملہ معترضہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایک مقدمے کی فیس ایک سے ڈیڑھ کروڑ روپے وصول کرنے والے ان صاحب نے کبھی کسی غریب کا مقدمہ بلامعاوضہ بھی لڑا ہے یا ساری ہمدردی محض بقرعید ہی پر یاد آتی ہے۔
د)۔ اگر بنظرِغائر جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ عیدالاضحٰی کے موقع پر قربانی کی مخالفت کے پیچھے بھی صہیونی یہود ی استعمار ہی کارفرما ہے۔ (یہ لفظ صہیونی ہے نہ کہ صیہونی، اس بارے میں بھی زباں فہمی کا ایک مکمل مضمون لکھ کر شائع کرواچکا ہوں، سوشل میڈیا پر پیغامات کے ذریعے بھی اس اہم سہو کی نشان دہی کئی بار کرچکا ہوں)۔ اس مخالفت کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہود کے نزدیک ’ذبیح اللّہ‘ حضرت اسمٰعیل (علیہ السلام) نہیں، بلکہ حضرت اسحٰق (علیہ السلام) تھے۔ یہ بات مُحَرّف (تحریف شُدہ ) تورات میں اس طرح لکھی گئی ہے:
’’ابراہیم تُو اپنے بیٹے کو قربان کردے! ان تمام باتوں کے بعد خدا نے ابراہیم کو آزمایا۔ خدا نے آواز دی:’ابراہیم! ’ابراہیم نے جواب دیا،’میں یہاں ہوں‘۔ تب خدا نے اُس سے کہا کہ تیرا بیٹا یعنی تیرا اکلوتا بیٹا اسحاق کو، جسے تو پیار کر تا ہے موریاہ علاقے میں لے جا۔ میں تجھے جس پہاڑ پر جانے کی نشاندہی کروں گا وہاں جاکر اپنے بیٹے کو قربان کر دینا۔ (پیدائش 22) ۔اس عبارت میں اردو ترجمے کی اغلاط کے ساتھ ساتھ تاریخ کی گڑبڑ بھی توجہ طلب ہے۔ [Torah: Genesis 22- https://www.biblegateway.com]۔ بات آگے چلتی ہے تو یہ اَمر بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ وہ مسلمانوں اور اُن کے رسول (ﷺ) کے اس لیے بھی دشمن تھے یا ہیں کہ اُن کے خیال میں نبوت ورسالت کا سلسلہ بنی اسرائیل تک ہی محدود رہنا چاہیے تھا۔ {یہاں ایک اور دل چسپ انکشاف کرتا چلوں۔
دنیا بھر پر معاشی ومعاشرتی تسلط قائم کرنے کے لیے پیہم سرگرم عمل صہیونی درحقیقت مقامی (یعنی فِلَسطینی) ہیں نہ حقیقی یہودی۔ یہ ساری تحقیق اب انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ آج بھی توحیدپرست یہودیوں کا ایک فرقہ صہیونیت اور اِسرائیل کا مخالف اور مظلوم فِلَسطینیوں کا حامی ہے}۔ قربانی کے سہ روزہ عمل میں جانور فروش، قصاب، ذرائع نقل وحمل سے متعلق لوگ یعنی ٹرانسپورٹرز، کھالوں کے بیوپاری، چمڑے کے بیوپاری اور ان سب سے ذیلی طور پر مستفید ہونے والے لاتعداد مسلمانوں کو معاشی فائد ہ پہنچتا ہے۔ اندرون وبیرون ِملک سے اس موقع پر رقوم کی ترسیل کا سلسلہ بھی منفعت بخش ہے۔ ان نکات نیز اِسلامی تعلیمات کے پیش نظر، عیدالاضحی کی قربانی کا مقصد بالکل واضح ہوجاتا ہے۔