WE News:
2025-04-25@02:14:42 GMT

بلی سے مکالمہ

اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT

میں بالکونی میں چپ چاپ کھڑا اسے بہت غور سے دیکھ رہا تھا، وہ دھیرے دھیرے چلتی ہوئی اچانک رک گئی، نظریں چار ہوئیں تو وہ پلکیں جھپکانا بھول گئی اور ایسے ساکت ہو گئی جیسے بے جان ہو، میں اس کوشش میں تھا کہ اس کے ریشمی بالوں میں ہاتھ پھیر سکوں اور اس کے لمس کا گداز حاصل کر سکوں، میں اس کی جانب بڑھا تو وہ چھلانگ لگا کر دیوار پر جا بیٹھی اور میاؤں میاؤں کرنے لگی۔ آس پاس کی بالکونیوں پر کوئی ذی روح موجود نہ تھا سو میں نے انہیں اکیلا پا کر بات کرنے کی ٹھان لی، ہلکا سا کھنگارا اور کہا:

محترمہ! لگتا ہے آپ مجھ سے ناراض ہیں؟

پلیز آپ زیادہ فری ہونے کی کوشش مت کریں، میرے آپ کے کون سے یارانے چل رہے تھے کہ میں ناراض ہوتی؟۔

جی میرا مطلب یہ تھا کہ آپ میری موجودگی سے ڈسٹرب ہوئی ہوں گی۔ میں صحافی ہوں اور آپ کا انٹرویو کرنا چاہتا ہوں۔

’بخشو بی بلی چوہا لنڈورا ہی بھلا‘ یہ کہہ کر وہ چل دیں۔

میں فوراً بولا محترمہ ٹھہریں تو سہی، انہوں نے رک کر میری جانب ایسے دیکھا کہ تیر نیم کش سینے میں ترازو ہو گیا، محترمہ آپ نے جو ضرب المثل سنائی ہے وہ تو آپ کے بارے میں کہی جاتی ہے؟

وہ غصے سے بولیں، یہی تو مصیبت ہے کہ آپ لوگوں نے الٹے سیدھے محاورے بنا کر اس میں بلی ایسے ڈال رکھی ہے کہ محاورہ نہ ہوا کوئی تھیلا ہوا۔ موقع کی مناسبت سے تو وہ ضرب المثل درست ہے کہ نہیں؟

اس کا مطلب ہے کہ آپ انٹرویو نہیں دینا چاہتیں؟
دراصل میں ان دھندوں میں پڑنا نہیں چاہتی کیونکہ آپ لوگ توبات کا بَتَن٘گَڑ بنا دیتے ہیں، اب آپ خود دیکھ لیں کہ ملک صاحب کی ’کتیا‘ جو ٹرک تلے آ گئی تھی، اس خبر کو آپ لوگوں نے مرچ مسالہ لگا کر شائع کیا، بھلا اس میں ’مزے‘ لینے والی کون سی بات تھی۔

محترمہ وہ خبر ایک شام کے اخبار نے لگائی تھی اور اگر وہ ایسی خبریں نہ لگائیں تو انہیں خریدے کون؟ بہرحال میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی گفتگو کو مِن و عَن شائع کیا جائیگا۔

وہ اچانک کھڑی ہو گئیں اور پورے جسم کو جھرجھری دے کر جھٹک دیا اور جمائی لے کر بولیں۔ جی پوچھیں؟

محترمہ سب سے پہلے تو آپ اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں کچھ بتائیں؟

میرے آباؤ اجداد بھارت کی راجدھانی دہلی میں مقیم تھے، شاید آپ جانتے ہوں وہاں لال قلعے کے پچھواڑے میں ایک محلہ ہے، وہاں مقیم ایک شخص قاسم جان نے میرے خاندان سے ایک بلی پال رکھی تھی جو ایک دن کھیل کود میں کافی گندی ہو گئی، تو اس بیوقوف نے نہ صرف اسے ٹھنڈے پانی سے دھو دیا بلکہ بعد میں سکھانے کی خاطر نچوڑ بھی دیا، یوں وہ بلی مر گئی جس پر لوگوں نے محلے کا نام ’بلی ماراں‘ جبکہ گلی کا نام ’قاسم جان‘ رکھ دیا جو آج تک مشہور ہیں۔

اس اندوہناک سانحے کے بعد ہمارے بزرگوں نے لال قلعے کے کھونے کھدروں میں وقت گزارا اور پھر تقسیم کے وقت سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اچھے دنوں کی آس لگائے پاکستان آ گئے جبکہ واقفان حال نے مشہور کر دیا کہ ’بلی کے خواب میں چھیچھڑے۔‘

سنا ہے آپ نے صوفی غلام مصطفی تبسم کے دور سخن میں چوہے بھی پالے تھے؟
مسکراتے ہوئے بولیں، شاعر حضرات کو تو سات خون معاف ہیں اور ویسے بھی ان دنوں دنیا کے رنگ نرالے ہی تھے، تبسم صاحب نے تو یہ بھی کہہ دیا تھا کہ ’چاند پہ جا کے کودا شیر، بلی کھا گئی سارے بیر‘ حالانکہ انسان کے علاوہ چاند پر صرف کتا گیا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ بلی شیر کی خالہ ہے تو اب جبکہ ’شیر‘ جلاوطن ہے اس ضمن میں آپ کا مؤقف سامنے نہیں آیا؟
آپ عجیب بات کر رہے ہیں جب شیر خود ہی کچھ ہمت نہیں کر رہا تو خالہ بیچاری کیوں مصیبت مول لے، ویسے بھی ایسے موقع پر ہی کہا جاتا ہے کہ ’بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے‘ اور میں بھی کہاں کی سورما، ایک ہی داؤ تھا درخت والا، اب تو وہ بھی بے سود، بھلا بُوٹ والے کو درخت پر چڑھنے سے کون روکے؟۔

ایک بات کی تشریح کردیں کہ ’نو سو چوہے کھا کے بلی حج کو چلی‘؟
میں کوئی شاعر نہیں کہ تشریح کروں بہرحال آسان لفظوں میں سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں، اس محاورے کو آپ اس تناظر میں دیکھیں جیسے آپ کے سیاستدان بڑھاپے میں حج پر چلے جاتے ہیں، بس یہی ساری بات ہے اور ویسے بھی ایک بلی کے نصیب میں نو سو چوہے کہاں، ہمیں کون سے ترقیاتی فنڈز ملتے ہیں کہ ہم کچھ کھا پی سکیں؟

آپ کے خاندان میں کسی کو اداکاری کا شوق ہے یا کبھی تھا؟
جی ہاں میری ایک خالہ زاد بہن کو اداکاری کا شوق ہوا کچھ عرصہ تک تو وہ ’کیٹ واک‘ کرتی رہی پھر اسے ایک سگریٹ کے اشتہار میں کام ملا تھا، ماحول پسند نہ آنے پر اس نے شوبز سے کنارہ کشی کرلی، بعد ازاں سید نور کچھ عرصہ اپنی فلم ’بلی‘ کے ٹائٹل رول کے لیے میری کزن کو مناتے رہے لیکن میری کزن کے انکار پر انہوں نے فلمسٹار ’نور‘ کو بلی بنالیا۔

آپ کے خاندان کی کوئی مشہور شخصیت جس کا ذکر کرنا آپ ضروری سمجھتی ہوں؟
جی ہاں میری دادی جان بہت شہرت یافتہ بلی تھیں، امتیاز علی تاج نے ان پر ایک کہانی بھی لکھی، یوں میری دادی حضور ’بیگم کی بلی‘ کے نام سے آج بھی زبان زدِ عام و خاص ہیں۔

ایک شاعر نے تو میری پھوپھو کی شان میں قصیدہ بھی کہا ’میں نے بلی پالی ہے، نیلی آنکھوں والی ہے، میرا جی بہلاتی ہے بی مانو کہلاتی ہے، لیکن جب اداکارہ نیلی کا فلموں میں آنا ہوا تو پھوپھو نے سبز لینز لگانا شروع کر دیے تھے مبادا کوئی انہیں ’نیلی‘ نہ کہہ دے۔

اچھایہ بتائیں کہ بھیگی بلی بننا کیسے ممکن ہے؟
یہ کوئی شہرت یا عزت کی بات نہیں، انسانوں میں کمزور، بزدل یا ڈرپوک انسان کو بھیگی بلی کہہ کر ہماری تضحیک کی جاتی ہے، ہوا یوں تھا کہ ایک روز میری امی جان کے اودھم مچانے اور بھاگنے سے شیخ صاحب (جن کے گھر میں وہ رہتی تھیں) کا چھینکا ٹوٹ گیا یہ بات ذہن میں رہے کہ چھینکا اس وقت زمین پر ہی پڑا تھا، لہٰذا اس کنجوس شخص نے ’ماں جی‘ کو گھر سے نکال دیا، اس ظلم و زیادتی پر بادل ساری رات روئے اور یوں وہ بھیگ گئیں، دسمبر کے دن تھے لہٰذا وہ ٹھنڈ سے سکڑی سمٹی بیٹھی تھیں کسی نے انہیں اس حالت میں دیکھا اور یوں اردو ادب کو مزید دو محاورے مل گئے۔

محترمہ ایک محاورہ ہوا نہ ’بھیگی بلی بننا‘ آپ دو کا ذکر کر رہی ہیں؟

محترم آپ کا صابن سلو ہے کیا؟ میں نے اپنی امی جان کا واقعہ سنایا ہے آپ لوگوں نے اس سے بھی محاورہ بنا تو رکھا ہے’بلی کے بھاگوں چھینکا ٹوٹا‘۔

لیکن اس محاورے میں تو ’بھاگوں‘ (ہندی لفظ بھاگ کی جمع) استعمال ہوا ہے جس کے معنی مقدر، نصیب یا خوش قسمتی سمجھے جاتے ہیں؟

محترم ہمارے اتنے بھاگ کہاں؟ امی جان تو بھاگی تھیں، آپ نے اب نیا قصہ چھیڑ لیا، اب نوٹ بک کو دوسرے ہاتھ پر مار کر یہ مت کہہ دینا کہ ’بھاگ لگے رہین‘۔ (ہنستے ہوئے، جسٹ کڈنگ، آگے بڑھیں)

چوہے بلی کے کھیل سے مراد کون سا کھیل ہے اور کھسیانی بلی کھمبا کیوں نوچتی ہے؟

لگتا ہے آپ ’ٹام اینڈ جیری‘ بھی نہیں دیکھتے، اس میں چوہے بلی کے خاصے دلچسپ کھیل دکھائے جا چکے ہیں، آپ کو آسان لفظوں میں سمجھاتی ہوں، یہ کھیل مختلف قواعد وضوابط کے تحت پوری دنیا میں ذوق و شوق سے کھیلا جاتا ہے۔ امریکا دنیا بھر میں جو کچھ غریب ممالک کے ساتھ کر رہا ہے، وہ بھی یہی کھیل ہے۔

کھمبا نوچنے کا الزام ایسے ہی ہے جیسے ہماری ہر حکومت پر آئی ایم ایف کے دباؤ کا الزام ہے یا پھر جیسے ہمارے حکومتی ترجمانوں کی پریس کانفرنسز میں وضاحتیں۔ اب میں کسی نئی یا پرانی سیاسی جماعت کی ترجمان کا نام لیکر انٹرویو کو سیاسی رنگ نہیں دینا چاہتی۔

محترمہ آپ کے بارے میں ایک کہانی یہ بھی مشہور ہے، جس میں دو بلیاں ایک بندر سے انصاف کرانے جاتی ہیں لیکن دونوں ہی روٹی کے ٹکڑے سے محروم رہ جاتی ہیں؟

جی ہاں یہ سچی کہانی ہے، آپ کا اشارہ غالباً اسی کہانی کی جانب ہے جس کے نتیجے میں ’بندر بانٹ‘ کا لفظ نکلا تھا۔ یہ المیہ ابھی تازہ ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ آج بھی انصاف کا ترازو بندر کے ہاتھ ہے۔

محترمہ ایک محاورہ ہے ’بلی مارنا‘ اس پہ روشنی ڈال دیں تو قارئین کی تشفی ہو جائے گی؟

جناب اردو کا یہ محاورہ ’بِلی مارنا‘ نہیں ہے بلکہ ’بَلی مارنا‘ ہے۔ آپ کا شین قاف ہی نہیں زیر زبر بھی خراب ہے۔ اس محاورے کا معنی ہے کشتی چلانا یا ناؤ کھینا، آسان لفظوں میں چپو چلانا بھی کہہ سکتے ہیں۔

جو بلی آپ مارنا چاہ رہے ہیں وہ فارسی کا مشہور محاورہ ہے ’گُربہ کشتن روزِ اوّل‘ یعنی بلی پہلے دن ہی مار دینی چاہیئے، ہمارے ہاں اس محاورے کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اسے نہ صرف مشرف بہ اردو کیا گیا بلکہ ہر نو بیاہتا مَرد خدا جانے کیوں بلی ہی مارنا چاہتا ہے؟

یقیناً آپ کے علم میں نہیں ہوگا کہ بلی پر میر تقی میر نے ایک طویل نظم لکھی تھی، گوگل کریں ’موہنی بلی‘ نظم مل جائے گی۔ یہی نہیں شاعر مشرق علامہ اقبال نے بھی ہم پر نظم لکھی ہے، جس کا عنوان ہے’۔۔۔۔ کی گود میں بلی دیکھ کر‘ یہ نظم ان کی کتاب بانگ درا میں ہے، اب آپ تحقیق کریں اور پتا چلائیں کہ اقبال نے اتنی خوبصورت نظم کس کی گود میں ہمیں دیکھ کر لکھی تھی۔

مائنڈ نہ کیجئے گا ویسے آجکل کے صحافی تحقیق و تحریر کے بجائے پریس ریلیز اور وٹس ایپ کے سہارے چل رہے ہیں، کرنے کو کیا کچھ نہیں لیکن مثل مشہور ہے کہ کام جوان کی موت ہے، اپنی سستی کا اندازا اس بات سے لگائیں کہ بھارت تک چاند پہ پہنچ گیا اور آپ کی سوئی اس بات پہ اٹکی ہے کہ ’کالی بلی رستہ کاٹ گئی‘۔

محترمہ انٹرویو کے شروع میں آپ نے کہا کہ ہم نے ہر محاورے میں بلی یوں ڈال رکھی ہے کہ محاورہ نہ ہوا کوئی تھیلا ہوگیا، مگر میرے خیال میں جو محاورے اور واقعات آپ سے منسوب تھے وہ میں آپ سے پوچھ چکا ہوں، اس الزام بارے آپ کچھ فرمائیں گی؟

لگتا ہے کہ آپ انٹرویو کی تیاری کرکے نہیں آئے یا پھر آپ کو مطالعے کا شوق نہیں میں اب بھی اپنے مؤقف پر قائم ہوں، کاپی قلم سنبھالیے اور لکھئے!

بلی الانگنا
بلی بھی لڑتی ہے تو پنجہ منہ پر دھر لیتی ہے
بلی جب گرتی ہے تو پنجوں کے بل
بلی خدا واسطے چوہا نہیں مارتی
بلی سے دودھ کی رکھوالی
بلی کا گو نہ لیپنے کا نہ پوتنے کا
بلی کھائے گی نہیں تو پھیلائے گی ضرور
بلی کی میاؤں سے ڈر لگتا ہے
بلی لوٹن
بلی نے شینہ پڑھایا، بلی کو کھانے آیا
بلی تھیلے سے باہر آگئی
اونٹ کے گلے میں بلی

پلیز ذرا ٹھہریئے، اتنے محاورے کافی ہیں، میں لغت میں ان کے مطلب بھی ضرور دیکھوں گا، آپ سے آخری سوال ہے کہ میاؤں میاؤں سے کیا مراد ہے؟

بڑا دلچسپ سوال ہے دراصل یہ لفظ ’می آؤں‘ ہے، می انگریزی کا لفظ ہے جس کے ہجے ایم اور ای ہیں، جس کے معنی ہیں ’میں‘، آؤں اردو میں آنے کی اجازت لینا ہے، یوں ’می آؤں‘ لفظ کے معنی ہوئے میں آؤں؟ اس تکیہ کلام کا مطلب دوسروں کو ہوشیار کرنا ہے کہ میں آ رہی ہوں۔

اپنے چند اشعار کے بعد اجازت چاہوں گی کہ گلی میں کتے بھونکنے لگے ہیں:

جہاں پر کہ دو چار کتے ہوں موجود
تو ایسی جگہ کب ٹھہرتی ہے بلی

می آؤں، می آؤں، می آؤں، می آؤں
اجازت طلب ایسے کرتی ہے بلی

بلا وجہ بلی سے ڈرتے ہیں بچے
دراصل بچوں سے ڈرتی ہے بلی

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

مشکور علی

بلی بلی ماراں بیگم کی بلی علامہ اقبا علامہ اقبال مرزا غالب مشکورعلی می آؤں وی نیوز.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: بلی بلی ماراں بیگم کی بلی علامہ اقبا علامہ اقبال مرزا غالب مشکورعلی وی نیوز اس محاورے لوگوں نے میں بلی لگتا ہے ہے کہ ا سے بھی ہے بلی نہیں ا بلی کے تھا کہ

پڑھیں:

رجب بٹ پاکستان واپس کب آئیں گے؟ یوٹیوبر نے خاموشی توڑ دی

معروف یوٹیوبر رجب بٹ نے پاکستان آنے کے حوالے سے خاموشی توڑ دی ہے۔

ایک حالیہ پوڈ کاسٹ میں ایک سوال کے جواب میں رجب بٹ نے کہا کہ ہر کوئی جانتا ہے کہ میں نے کچھ غلط نہیں کیا، میں مسلمان ہوں، کچھ غلط فہمیاں ہیں جو جلد دور ہوجائیں گی۔

یہ بھی پڑھیں: ’آپ دوسروں کے خاندان بیچ رہے ہیں‘، رجب بٹ کی ایک بار پھر فہد مصطفیٰ پر تنقید

رجب بٹ نے کہا ’میں نے ایسا کچھ غلط نہیں کیا، لیکن اگر میرے الفاظ کے چناؤ سے کسی مسلمان بھائی کی دل آزاری ہوئی تو اس پر میں نے اللہ کے گھر میں بیٹھ کے بھی معذرت کی ہے اور اب بھی معذرت کرتا ہوں۔‘

انہوں نے کہا کہ یہ معذرت اس لیے نہیں مانگ رہا کہ مجھے پاکستان آنے دیا جائے، پاکستان بلانے کے لیے قواعد و ضوابط زندہ ہیں، اگر رولز اینڈ ریگولیشنز کے مطابق لگے کہ میں گنہگار ہوں تو مجھے سزا ملے گی، اگر لگا گا کہ میں بے گناہ ہوں تو مجھے بری الزمہ کردیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیں: ویڈیو میں 295 کا ذکر، معروف یوٹیوبر رجب بٹ نے وضاحت پیش کردی

رجب بٹ نے پنجابی کہاوت’ گل کرنی ہے منہوں کڈ، میں تینوں کڈاں‘ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ لوگ انتظار کرتے رہتے ہیں کہ کوئی بات کرے تو ہم اس کو پنڈ سے نکالیں، میرا بھی یہی حال ہوا ہے، بہت جلد سب ٹھیک ہوجائے گا۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
  • اولاد کی تعلیم و تربیت
  • رجب بٹ پاکستان واپس کب آئیں گے؟ یوٹیوبر نے خاموشی توڑ دی
  • امن اور مکالمہ ہماری ترجیح  ، قومی سلامتی یا وقار پر کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے،امیر مقام
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • کوچۂ سخن
  • رشتہ ایک سرد مہری کا
  • کوہ قاف میں چند روز
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • تین سنہرے اصول