شام میں کیمیائی ہتھیاروں کی 100 سے زائد جگہ موجودگی کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
شام میں کیمیائی ہتھیاروں کے 100 سے زائد مقامات باقی ہونے کا انکشاف، سابق صدر بشار الاسد کے دور کی یہ کیمیکل سائٹس شام کی عبوری حکومت کے لیے بڑا چیلنج ثابت ہو سکتی ہے۔
بین الاقوامی معائنہ کاروں کو خدشہ ہے کہ سیرین، کلورین اور مسٹرڈ گیس جیسے مہلک ہتھیار غیر محفوظ ہیں اور اِن کی تعداد ماضی کے اندازوں سے کہیں زیادہ ہے۔
یہ انکشاف کیمیائی ہتھیاروں کی نگرانی کے عالمی ادارے نے کیا ہے، جو اب شام میں داخل ہو کر ان ہتھیاروں کی موجودگی کا جائزہ لینا چاہتا ہے۔
یہ تمام مقامات ممکنہ طور پر کیمیائی ہتھیاروں کی تحقیق، تیاری اور ذخیرہ اندوزی کے مراکز تھے۔
ماہرین کو یہ بھی تشویش ہے کہ اگر یہ ہتھیار غیر محفوظ رہے تو شدت پسند گروپوں کے قبضے میں جا سکتے ہیں، جو خطے کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ بن سکتا ہے۔
شام کی نئی حکومت نے عالمی برادری کو یقین دلایا کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرتے ہوئے بشار الاسد دور کے تمام کیمیائی ہتھیاروں کو مکمل طور پر تباہ کرے گی۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ مقامات شاید غاروں یا ایسی جگہوں میں چھپے ہو سکتے ہیں، جنہیں سیٹلائٹ کے ذریعے تلاش کرنا مشکل ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کیمیائی ہتھیاروں ہتھیاروں کی
پڑھیں:
بھارت یکطرفہ طور پر معاہدہ معطل نہیں کرسکتا، ماہرین
اسلام آباد:ماہرین نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کو معطل کرنے کے بیان کو سیاسی اسٹنٹ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت یکطرفہ طور پر اس معاہدے کو منسوخ یا معطل نہیں کر سکتا۔
بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر الزام سے پاکستان کے اس مؤقف کو تقویت ملتی ہے کہ یہ سارا معاملہ پہلے سے کسی منصوبہ بندی کا حصہ اور سندھ طاس معاہدے کیخلاف فالس فلیگ سرگرمی ہے۔
سندھ طاس معاہدے کی رو سے کوئی بھی ملک یکطرفہ طور پر معاہدے کی حیثیت تبدیل نہیں کر سکتا۔ بھارت کے اس اقدام کے بعد پاکستان بھی شملہ معاہدے سمیت دیگر معاہدے معطل کرنیکا حق رکھتا ہے۔
پاکستان کے سابق کمشنر برائے انڈس واٹر جماعت علی شاہ نے ایکسپریس ٹریبیون کو بتایا کہ بھارت یا پاکستان سندھ طاس معاہدے کو یکطرفہ طور پر معطل یا منسوخ نہیں کر سکتے اور اس کیلئے انہیں باہمی رضامندی سے معاہدے میں تبدیلی کرنا ہوگی۔
سندھ طاس ایک مستقل معاہدہ ہے اس لئے بھارت کو اسے معطل یا منسوخ کرنے کے لیے پاکستان کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ بھارت کا اقدام صرف ایک سیاسی شعبدہ بازی اور اپنے عوام کو گمراہ کرنیکی کوشش ہے۔
پاکستان کو بھی اس پر سیاسی ردعمل دینا چاہئے۔ کیا بھارات ان دریاؤں پر بھی اپنا حق چھوڑ دے گا جو ایک معاہدے کے تحت اسے دیئے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ورلڈ بینک سندھ طاس معاہدے کا ضامن نہیں ہے بلکہ یہ ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو دو ممالک کے درمیان تنازعات کے حل کیلئے کام کرتا ہے یہ پاکستان اور بھارت کے درمیان پانی کے تنازع کے معاملے میں بین الاقوامی ثالثی عدالت کے قیام میں بھی مدد کر س
کتا ہے۔ ماہرین نے کہا سندھ طاس معاہدے کی معطلی بھارت کی طرف سے جارحیت اور انتہا پسندی کا مظہر ہے۔ بھارت کی طرف سے معاہدے کی یکطرفہ معطلی یا منسوخی سے عالمی برادری میں تمام معاہدوں کی ساکھ پر سوالیہ نشان لگ جائیگا۔ سندھ
طاس معاہدہ غیرمعینہ مدت کیلئے ہے اور اس میںیکطرفہ معطلی کی کوئی شق نہیں ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں سندھ طاس معاہدے پر عمل کرنے کے یکساں طور پر پابند ہیں۔
پاکستانی دریاؤں میں پانی کا بہاؤ روکنے سے بھارت نہ صرف بین الاقوامی آبی قوانین کی خلاف ورزی بلکہ ایک خطرناک مثال بھی قائم کرے گا۔ بین الاقوامی قانون عام طور پر یہ حکم دیتا ہے کہ کسی اپ سٹریم ملک (جیسے بھارت) کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی معاہدے کے وجود سے قطع نظر ڈاؤن سٹریم ملک (جیسے پاکستان) کا پانی روک سکے۔
اس اقدام کے بعد چین بھی برہما پتر دریا کا پانی روکنے کیلئے بھارتی کے اقدام کو بطور جواز استعمال کرسکتا ہے۔ ماہرین نے کہا کہ بھارت کی طرف سے یہ اقدام نہ صرف پاکستان بلکہ خود بھارت کیلئے بھی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، کیونکہ چین جیسی اقوام اس صورت حال پر گہری نظر رکھیں گی۔