غزہ پر نئے اسرائیلی حملے، صحافی سمیت کم ازکم پچیس افراد ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 اپریل 2025ء) غزہ پٹی میں طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے کیے گئے تازہ حملوں میں ایک صحافی سمیت کم ازکم پچیس فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی افواج نے اتوار کو رات گئے غزہ پٹی میں دو بڑے ہسپتالوں کے باہرنصب کیے گئے خیموں پر حملہ کیا، جس میں ایک مقامی رپورٹر سمیت کم از کم دو افراد ہلاک اور چھ رپورٹروں سمیت نو دیگر افراد زخمی ہوگئے۔
ان ہسپتالوں کے عملے کے پورے رہائشی علاقے میں الگ الگ حملوں میں تیئیس دیگر افراد بھی ہلاک ہوئے۔ اسرائیل نے گزشتہ ماہ حماس کے ساتھ جنگ بندی ختم کرنے کے بعد سے غزہ پر حملوں کی لہر جاری رکھی ہوئی ہے جبکہ اس کی زمینی افواج نے غزہ کی ساحلی پٹی میں نئے فوجی زونز بھی قائم کیے ہیں۔
(جاری ہے)
اسرائیل نے ایک ماہ سے زائد عرصے سے غزہ میں خوراک، ایندھن، ادویات اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے، کیونکہ وہ حماس پر جنوری میں ہونے والے جنگ بندی معاہدے میں تبدیلیاں قبول کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہتا ہے۔
خان یونس میں ناصر ہسپتال کے باہر میڈیا کے ایک خیمے پر دوپہر کے قریب حملے نے اس خیمے کو آگ لگا دی، جس میں ہسپتال کے مطابق فلسطین ٹوڈے نیوز ویب سائٹ کے رپورٹر یوسف الفقاوی کے علاوہ ایک اور شخص ہلاک ہو گیا۔
اس حملے میں چھ دیگر صحافی زخمی بھی ہوئے۔ اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ اس نے حماس کے ایک عسکریت پسند کو نشانہ بنایا تھا۔
اسرائیلی فوج کا مزید کہنا ہے کہ وہ شہریوں کو نقصان پہنچانے سے بچنے کی کوشش کرتی ہے اور فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کو ان ہلاکتوں کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ حماس شہریوں کو انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کرتی ہے، جبکہ حماس اس الزام کی تردید کرتی ہے۔
اسرائیل نے غزہ پٹی کے وسطی شہر دیر البلاح میں الاقصی شہداء ہسپتال کے پاس بھی خیموں کو نشانہ بنایا ، ہسپتال کے مطابق اس حملے میں تین افراد زخمی ہوئے۔
ناصر ہسپتال کا کہنا ہے کہ اسے اتوار کو رات بھر اور پیر کی صبح تک اسرائیلی حملوں میں ہلاک ہونے والے مزید 15 افراد کی لاشیں ملی ہیں، جن میں چھ خواتین اور چار بچے بھی شامل ہیں۔الاقصیٰ شہداء ہسپتال نے کہا ہے کہ دیر البلاح میں عام گھروں پر دو الگ الگ حملوں میں تین خواتین اور تین بچوں سمیت آٹھ افراد ہلاک ہوئے۔
ہسپتالوں میں ہزاروں پناہ گزینغزہ میں اٹھارہ ماہ سے جاری جنگ کے دوران ہزاروں افراد نے ہسپتالوں کے احاطوں میں لگائے گئے خیموں میں پناہ لے رکھی ہے، یہ خیال کرتے ہوئے کہ اس نوعیت کی جگہ پر اسرائیل کی جانب سے انہیں نشانہ بنانے کا امکان کم ہوگا۔
اسرائیل نے کئی مواقع پر ہسپتالوں پر حملے کیے اور حماس پر الزام لگایا کہ وہ انہیں فوجی مقاصد کے لیے استعمال کر رہی تھی جبکہ ان ہسپتالوں کا عملہ ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔غزہ میں جاری جنگ اس وقت شروع ہوئی جب حماس کے زیر قیادت عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر 2023 کو اسرائیل میں داخل ہو کر فوجی اڈوں اور کاشتکار برادریوں پر دہشت گردانہ حملوں میں تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک کر دیا تھا، جن میں سے زیادہ تر عام شہری تھے۔
تب حماس کے جنگجوؤں نے 251 افراد کو یرغمال بھی بنا لیا تھا، جن میں سے اب بھی 59 یرغمالی حماس کے قبضے میں ہیں۔ ان میں سے 24 یرغمالیوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ابھی زندہ ہیں جبکہ باقی میں سے بیشتر کو جنگ بندی یا دیگر معاہدوں کے تحت رہا کر دیا گیا تھا۔
اسرائیل نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ جب تک حماس باقی ماندہ یرغمالیوں کو رہا نہیں کرتی، اپنے ہتھیار نہیں ڈال دیتی اور یہ علاقہ چھوڑ نہیں دیتی، وہ اس عسکری تنظیم پر فوجی دباؤ میں اضافہ جاری رکھے گا۔
وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کا کہنا ہے کہ اس کے بعد وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی غزہ کی زیادہ تر آبادی کو دوسرے ممالک میں آباد کرنے کی تجویز پر عمل درآمد کریں گے، جسے اسرائیلی رہنما نے مستقبل میں فلسطینیوں کی ''رضاکارانہ ہجرت‘‘ سے تعبیر کیا ہے۔فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنا وطن چھوڑنا نہیں چاہتے اور انسانی حقوق کے ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ ٹرمپ کی تجویز پر عمل درآمد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر بے دخلی کے مترادف ہو گا۔
نیتن یاہو آج سات اپریل بروز پیر واشنگٹن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ اس سے قبل اتوار کو درجنوں مظاہرین یروشلم میں نیتن یاہو کی سرکاری رہائش گاہ کے باہر جمع ہوئے اور انہوں نے اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کے لیے معاہدے کا مطالبہ کیا۔
بہت سے لوگوں کو خدشہ ہے کہ نیتن یاہو کے لڑائی کو دوبارہ شروع کرنے کے فیصلے نے بقیہ یرغمالیوں کی زندگیوں کو شدید خطرے میں ڈال دیا ہے اور امید ہے کہ ٹرمپ ایک اور معاہدے میں مدد کر سکتے ہیں۔
اسرائیلی نژاد امریکی یرغمالی ایڈن الیگزینڈر کی دادی وردا بین باروچ نے نیتن یاہو کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اب سچائی کا لمحہ آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''آپ امریکہ میں ہیں اور آپ کو وہاں صدر ٹرمپ کے ساتھ بیٹھ کر ایک معاہدہ کرنا ہوگا تاکہ سب (یرغمالیوں) کو واپس گھر لایا جا سکے۔‘‘غزہ پٹی کی وزارت صحت کے مطابق سات اکتوبر 2023ء سے جاری اسرائیلی فوجی کارروائیوں میں اب تک 50,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں سے زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔
اسرائیل کوئی ثبوت فراہم کیے بغیر کہتا ہے کہ اس نے حماس کے 20,000 کے قریب عسکریت پسندوں کو ہلاک کر دیا ہے۔ غزہ پر اسرائیلی حملوں نے غزہ کے علاقے کو مکمل تباہی سے دو چار کرنے کے علاوہ اس کی تقریباً 90 فیصد آبادی کو بے گھر بھی کر دیا ہے۔ش ر⁄ م م، ر ب (اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کا کہنا ہے کہ اس اسرائیل نے ہسپتال کے حملوں میں نیتن یاہو کرنے کے ہلاک ہو حماس کے غزہ پٹی کر دیا
پڑھیں:
نیتن یاہو ہر مسئلے میں جھوٹ بولتا ہے، اسرائیلی صحافی
ایک مشہور اسرائیلی صحافی نے غاصب صیہونی رژیم کے سفاک وزیر اعظم کے حالیہ بیانات کا حوالہ دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ اس شخص کے لا تعداد جھوٹ پر عملدرآمد کرنا ایک تھکا دینے والا مشن ہے جس کیلئے مکمل حکومتی وسائل بھی کافی نہیں! اسلام ٹائمز۔ معروف اسرائیلی صحافی بن کیسپت (בן כספית-Ben Caspit) نے صیہونی اخبار معاریو (Ma'ariv) میں شائع ہونے والے اپنے مقالے میں، گذشتہ ہفتے، کرپشن کے مقدمات کی سماعت کے دوران پولش نژاد غاصب اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے ایک اور جھوٹ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ بنجمن نیتن یاہو کے لاتعداد جھوٹ پر عملدرآمد ایک تھکا دینے والا مشن ہے جس کے لئے حکومتی وسائل بھی کافی نہیں اور حتی طیارہ بردار بحری بیڑے کی ضرورت پڑتی ہے۔ بن کیسپت کا لکھنا تھا کہ یہ آدمی دن میں 24 گھنٹے، کسی بھی وقت، کسی بھی موسم اور کسی بھی زبان میں جھوٹ بولتا ہے جیسا کہ اسی ہفتے ہم نے ربی ہرش کے ساتھ انگریزی زبان میں گفتگو میں اس کے جھوٹ کو بے نقاب کیا تھا۔
بن کیسپت نے لکھا کہ نیتن یاہو نے ججوں سے بھی جھوٹ بولا ہے جب اس نے اعلان کیا تھا کہ 1999 کے انتخابات کے بعد اور ان انتخابات میں اپنی شکست پر وہ سیاسی میدان چھوڑ کر ایک "سابق سیاستدان" بن گیا تھا اور سیاست میں واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ صیہونی صحافی نے مزید لکھا کہ نیتن یاہو نے دعوی کر رکھا ہے کہ با اثر لوگوں کے ساتھ اس کے تعلقات "مکمل طور پر مجاز اور قانونی تھے"۔ اسرائیلی صحافی نے بیان کیا کہ جیسے ہی نیتن یاہو نے اس وقت استعفی دیا، اس نے عملی طور پر سیاست میں واپسی کے لئے اپنی مہم کا آغاز کر دیا تھا اور اس کے کارندوں نے بھی ہمارے لئے اس بات کی تصدیق کی ہے۔
اسرائیلی صحافی نے لکھا کہ نیتن یاہو نے ان تمام صحافیوں اور کالم نگاروں کے ساتھ مفاہمت کی ایک مہم بھی شروع کی تھی کہ جن کے ساتھ وہ اپنے اقتدار کی مدت کے دوران تنازعات میں گھرا رہا تھا۔ بن کیسپت نے لکھا کہ نیتن یاہو نے براہ راست مجھ پر بھی زور دیا تھا کہ وہ سیاست میں واپس آنے کا ارادہ رکھتا ہے اور ہمارے درمیان انجام پانے والی کوئی بھی بات چیت اسی محور کے گرد گھومتی تھی۔ معروف اسرائیلی صحافی نے اپنی تحریر کے آخر میں تاکید کی کہ نیتن یاہو نے بات چیت کے اختتام پر مجھ سے التجا کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ "مجھ پر ایک احسان کرو اور سارہ (نیتن یاہو کی اہلیہ) کو اپنے حال پر چھوڑ دو!" جس کے جواب میں مَیں نے اسے کہا کہ "جب تک وہ (سارہ) حکومتی معاملات میں مداخلت نہ کرے، میں اس کے معاملات میں مداخلت کی کوئی خواہش نہیں رکھتا!"