صوبے مضبوط تو وفاق مضبوط، پانی کے مسئلے کا حل افہام و تفہیم سے چاہتے ہیں،عطاء تارڑ
اشاعت کی تاریخ: 7th, April 2025 GMT
اسلام آباد: وفاقی وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑنے کہاہے کہ صوبے مضبوط ہوں گے تو وفاق مضبوط ہوگا ہماری کوشش ہے کہ پانی کے مسئلے کا حل افہام و تفہیم سے نکلے۔ قومی اسمبلی اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے عطاء تارڑنے کہاکہ اس ایوان میں ایسی سیاسی جماعتیں موجود ہیں جنہوں نے پچھلے کئی سالوں سے جمہوریت کے استحکام، وفاق کی مضبوطی کے لئے کردار بھی ادا کیا اور بے شمار قربانیاں بھی دیں، وزیر اطلاعات ہم جمہوری عمل کا حصہ ہیں، ہماری جماعت جمہوری جماعت ہے، اس ملک میں آئین اور نظام موجود ہے، وزیر اطلاعات نے کہاکہ پانی کی تقسیم کے معاہدے پر تمام صوبوں کے دستخط موجود ہیں، اسی پارلیمان نے ارسا ایکٹ 1992ءمنظور کیا، اس ایکٹ کے تحت پانی کی منصفانہ تقسیم کے حوالے سے نظام وضع کیا گیا، وزیر اطلاعات نے کہاکہ انڈس ریور سسٹم اتھارٹی موجود ہے، ہم سیاسی اور جمہوری لوگ ہیں، اتفاق رائے کے قیام کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں، میں باور کروانا چاہتا ہوں کہ اکائیاں مضبوط ہوں گی تو وفاق مضبوط ہوگاانہوں نے کہاکہ اس ملک کے چاروں صوبے، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر ہمیں اتنے ہی پیارے ہیں جتنا پنجاب پیارا ہے، سندھ اولیاءکرام کی دھرتی ہے، سندھ سے ہمارا لگاؤ ہمارے لئے مقدس حیثیت رکھتا ہے، سندھ سے معزز ارکان یہاں موجود ہیں۔انہوں نے کہاکہ ٹیکنیکل مسئلے کا حل ہمیشہ تکنیک سے نکلتا ہے، ہماری کوشش ہے کہ اس مسئلے کا حل افہام و تفہیم سے نکلے، اپوزیشن لیڈر نے اپنے رویئے سے ثابت کیا ہے کہ وہ ان وردی لیڈر آف دی اپوزیشن ہیں، وزیر اطلاعات نے کہاکہ اپوزیشن لیڈر نے ہاؤس کی توقیر کا بھی خیال نہیں کیا، اپوزیشن عوامی مسائل کے حل کے لئے سنجیدہ نہیں ہے۔
وزیر اطلاعات عطاءاللہ تارڑ نے قومی اسمبلی اجلاس میں اس شعر کے ساتھ اپوزیشن لیڈر کے کردار کو اجاگر کیا
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
میخانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: وزیر اطلاعات مسئلے کا حل نے کہاکہ
پڑھیں:
خیبرپختونخوا میں امن و امان کے مسئلے پر منعقدہ اے پی سی میں طے پانے والے 10 نکات کیا ہیں؟
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے موجودہ سیکیورٹی صورتحال اور قبائلی اضلاع میں امن و امان کے قیام کے حوالے سے آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) کا انعقاد کیا گیا جس میں شریک جماعتوں نے ایک 10 نکاتی مشترکہ اعلامیہ جاری کیا۔
کانفرنس میں پاکستان تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام (س) کے نمائندوں نے شرکت کی، تاہم صوبائی اسمبلی میں موجود اپوزیشن کی بڑی جماعتیں جیسے عوامی نیشنل پارٹی، پاکستان پیپلز پارٹی، جے یو آئی (ف) اور مسلم لیگ (ن) شریک نہیں ہوئیں۔
یہ بھی پڑھیے: اپوزیشن جماعتوں کا خیبرپختونخوا حکومت کی اے پی سی کا بائیکاٹ، علی امین گنڈاپور کا ردعمل
اعلامیے میں کہا گیا کہ خیبر پختونخوا کے کسی بھی حصے میں مزید ملٹری آپریشنز ناقابل قبول ہیں۔ ماضی میں درجنوں آپریشن کیے گئے لیکن ان سے کوئی دیرپا یا مثبت نتائج حاصل نہیں ہو سکے۔ کانفرنس میں ڈرون حملوں پر بھی شدید تشویش کا اظہار کیا گیا اور کہا گیا کہ یہ حملے عام شہریوں کی جانیں لے رہے ہیں، جنہیں کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
کانفرنس میں اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ ریاست کو گڈ اور بیڈ طالبان کی تمیز ختم کرنی چاہیے اور تمام عسکریت پسند عناصر کے خلاف بلا تفریق اور مؤثر کارروائی عمل میں لائی جانی چاہیے۔ امن قائم کرنے کے لیے ہر قبائلی ضلع میں مقامی قبائل سے تعلق رکھنے والے 3، 3 سو افراد کو پولیس فورس میں بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، تاکہ مقامی سطح پر قانون نافذ کرنے والے ادارے مضبوط ہوں۔
خیبر پختنوخوا حکومت کی آل پارٹیز کانفرنس ، کانفرنس میں پیپلزپارٹی ، مسلم لیگ ن ،عوامی نیشنل پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام (ف) سمیت کئی جماعتوں نے شرکت نہیں کی ، مزید بتارہے ہیں لحاظ علی اپنی اس رپورٹ میں pic.twitter.com/o7d90xjWez
— WE News (@WENewsPk) July 24, 2025
اعلامیے میں مطالبہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت سرحد پار سے دراندازی روکنے کے لیے مؤثر اقدامات کرے جبکہ صوبائی حکومت اپنی حدود میں امن و امان بہتر بنانے کی کوشش کرے گی۔ قبائلی اضلاع کے انضمام کے وقت جو وعدے کیے گئے تھے انہیں پورا نہ کرنا مقامی عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہے، لہٰذا ان وعدوں کو فوری طور پر پورا کیا جائے۔
مزید برآں، کانفرنس نے وفاق کی جانب سے قبائلی اضلاع میں ٹیکسز کے نفاذ کو ظالمانہ اقدام قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ یہ فیصلہ واپس لیا جائے۔ اعلامیے میں کہا گیا کہ وفاقی فورسز کو خیبر پختونخوا کے بندوبستی اضلاع میں آپریشن کی اجازت نہیں دی جائے گی، اور آئندہ اگر افغانستان کے ساتھ مذاکرات ہوں تو ان میں خیبر پختونخوا حکومت کے نمائندوں کو بھی شامل کیا جائے۔
یہ بھی پڑھیے: بلوچستان نیشنل پارٹی کی آل پارٹیز کانفرنس، کیا اہم فیصلے کیے گئے؟
کانفرنس کے شرکا نے بارڈر پر تجارت کو فعال بنانے اور مقامی معیشت کو سہارا دینے کے لیے وفاق سے مطالبہ کیا کہ وہ سرحدی تجارت میں آسانیاں پیدا کرے تاکہ خطے کے عوام کو معاشی ریلیف فراہم کیا جا سکے۔
تحریک انصاف کے کئی اراکینِ اسمبلی نے کانفرنس کے موقع پر اس نمائندے کو بتایا کہ امن و امان کی بحالی کے لیے پولیس فورس کو جدید خطوط پر استوار کرنا ناگزیر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ چھ سال کے دوران کسی بھی قبائلی ضلع میں نیا پولیس اسٹیشن قائم نہیں کیا گیا اور موجودہ فورس کو بھی جدید اسلحہ و آلات کی شدید کمی کا سامنا ہے، جو امن کے قیام میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آل پارٹیز کانفرنس امن و امان بدامنی پشاور خیبرپختونخوا سیکیورٹی کل جماعتی اجلاس