عمران خان کا کسی اور جہان میں حکومت بنانے کا اعلان!
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
ٹرمپ کے نیوٹرل ہونے کے بعد عمران خان کا کسی اور جہان میں حکومت بنانے کا اعلان سامنے آیا ہے یہ سب کیسے ہوا جانتے ہیں۔
آج کل پاکستان کی سیاست میں جو ڈرامہ چل رہا ہے، وہ کسی بالی ووڈ فلم سے کم نہیں۔ کہانی کا ہیرو عمران خان، جو اڈیالہ جیل سے اپنی رہائی کے خواب دیکھ رہا تھا، اور ولن؟ وہ کون ہے، یہ تو کوئی نہیں جانتا، کیونکہ پاکستان کی سیاست میں ولن کی کرسی پر ہر روز کوئی نہ کوئی نیا چہرہ بیٹھ جاتا ہے۔
لیکن اس کہانی میں ایک دلچسپ موڑ آیا جب پی ٹی آئی نے اپنی ساری امیدیں ڈونلڈ ٹرمپ کے کندھوں پر لاد دیں۔ ادھر عمران خان نے فارن کمیٹی کو تحلیل کرنے کے بعد ایک نئی پالیسی کا اعلان کر دیا۔ اب سے ہم صرف ان عالمی رہنماؤں کے ساتھ چلیں گے جو حقیقی آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔
اس فہرست میں جن عظیم عالمی شخصیات کے نام لیے گئے، ان میں ترک ڈراموں کے سلطان سلیمان، ارطغرل غازی، اور بلیک پینتھر فلم کا بادشاہ ٹی والا شامل تھے۔
خاتونِ اول کی حکمتِ عملی کیا تھی؟
سابق خاتونِ اول نے مشورہ دیا،’خان جی، صبر کریں، ابھی اللہ کی طرف سے کوئی اور مدد آئے گی’۔
بس، یہ سننا تھا کہ خان صاحب نے فوراً آنکھیں بند کیں، مراقبے میں چلے گئے اور کچھ دیر بعد اعلان کر دیا:
نئی تحریک شروع کریں گے، تحریکِ متوازی دنیا، ہمیں یہاں لفٹ نہیں ملی تو کسی اور جہان میں حکومت بنا لیں گے!
قارئین جیسا کہ آپ کو پتا ہوگا کہ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کو پچھلے کچھ مہینوں سے یقین تھا کہ ٹرمپ ان کا ‘ٹرمپ کارڈ’ ہے۔ ان کا خیال تھا کہ جیسے ہی ٹرمپ وائٹ ہاؤس میں اپنا سرخ ٹائی باندھ کر بیٹھے گا، پہلا کام وہ عمران خان کی رہائی کا کرے گا۔
کچھ نے تو یہ بھی کہا کہ ‘ٹرمپ اور عمران کی دوستی تو پکی ہے، بس اب صدارت کا انتظار ہے’۔ لیکن جب ٹرمپ نے صدارت سنبھالی، تو لگتا ہے انہیں پاکستان کا نمبر ہی بھول گیا۔ شاید ان کے فون میں ‘پاکستان’ کی جگہ ‘پاپا جونز’ سیو ہو گیا ہو، اور وہ سوچ رہے ہوں کہ ‘یہ عمران کون سا پیزا ہے جو رہائی مانگ رہا ہے؟
پی ٹی آئی والوں نے اتنی امیدیں لگا رکھی تھیں کہ لگتا تھا وہ واشنگٹن میں عمران خان کے لیے استقبالیہ تیار کر رہے ہیں، لیکن اب وہ خود ہی اپنے ‘امیدیں ٹرمپولین’ سے گر کر زمین پر آ چکے ہیں۔
ہاں سچ پھر بات یاد آئی ہے فارن کمیٹی بنائی ہی اس لیے تھی کہ دنیا بھر میں عمران خان کی رہائی کے لیے لابنگ کی جائے۔ لیکن جب ٹرمپ سے امید پوری نہ ہوئی، تو عمران خان کو غصہ آ گیا۔ کہتے ہیں کہ انہوں نے جیل سے پیغام بھجوایا، “یہ فارن کمیٹی کیا کر رہی ہے؟
بس بیک گراؤنڈ میں ‘ہم دیکھیں گے’ گا رہے ہیں؟ اور پھر ایک ہی جھٹکے میں فارن کمیٹی کو “فارن” کر دیا گیا۔ اب یہ تو واضح نہیں کہ کمیٹی کے ممبران کو واقعی فارن (یعنی باہر) بھیج دیا گیا یا بس ان کا “فارنہ پن” ختم کر دیا گیا، لیکن پی ٹی آئی کے اندر سے آوازیں آنے لگیں کہ “بھائی، ہم نے تو سمجھا تھا کہ ٹرمپ ہمارا بھائی ہے، لیکن لگتا ہے وہ ہمارا کزن بھی نہیں!”
جیل کے اندر عمران خان کا غصہ دیکھنے والوں نے بتایا کہ جب انہیں پتا چلا کہ ٹرمپ نے کوئی ایکشن نہیں لیا، تو انہوں نے چائے کا کپ ہاتھ میں پکڑا اور بولے، یہ کیا مذاق ہے؟ میں یہاں جیل میں بیٹھا ہوں، اور میری پارٹی والے ٹرمپ کے پیچھے لگے ہیں جیسے وہ کوئی جادو کی چھڑی لہرائے گا۔
پھر غصے میں انہوں نے چائے کا کپ نیچے رکھا (ہاں، توڑا نہیں، کیونکہ جیل میں کپ توڑنے کی سزا الگ سے ملتی ہے) اور کہا، اب بس، فارن کمیٹی ختم۔ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو لگتا تھا کہ فارن کمیٹی والے بس زوم میٹنگز میں بیٹھ کر ٹرمپ آئے گا، ٹرمپ آئے گا کا راگ الاپ رہے تھے، لیکن عملی طور پر کچھ نہیں ہو رہا تھا۔
اب جب کمیٹی ختم ہو گئی، تو پی ٹی آئی کے کچھ کارکن کہہ رہے ہیں، “شاید اب ہمیں خود ہی جیل کے باہر دھرنا دینا پڑے، ٹرمپ تو اپنے گالف کورس میں مصروف ہے!
اب ذرا ٹرمپ کے نقطہ نظر سے دیکھیں۔ وہ تو اپنے “امریکہ فرسٹ” کے نعرے پر واپس آیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے پہلے اپنے ملک کی دیواریں بلند کرنی ہیں، میکسیکو سے آنے والوں کو روکنا ہے، اور چین سے لڑائی لڑنی ہے۔
اب اس بیچ میں پاکستان کے عمران خان کی رہائی کا مسئلہ کہاں سے فٹ بیٹھتا ہے؟ شاید ٹرمپ سوچ رہا ہو، یہ عمران کون ہے؟ کیا یہ بھی کوئی میکسیکن ہے جو میری سرحد پار کرنا چاہتا ہے؟ یا پھر اسے لگتا ہو کہ پاکستان؟ وہ تو وہی جگہ ہے جہاں سے اچھا بریانی آتا ہے، لیکن رہائی کا کیا چکر ہے؟ بہرحال، ٹرمپ کی ترجیحات میں عمران خان کا نام شاید اس فہرست میں شامل ہی نہ ہو جسے وہ صبح اٹھ کر چیک کرتا ہے۔
اب جب ٹرمپ سے امیدیں دم توڑ گئیں اور فارن کمیٹی بھی فارن ہو گئی، تو پی ٹی آئی کے پاس کیا آپشن بچا؟ کچھ کہتے ہیں کہ اب وہ مقامی سطح پر جیل بھرو تحریک شروع کریں گے، لیکن پھر یاد آیا کہ جیل تو پہلے ہی بھری ہوئی ہے۔
کچھ کارکنوں نے تجویز دی کہ چلو، اب کسی اور ملک سے امید لگائیں۔ بھارت والے مودی سے بات کریں۔ لیکن پھر فوراً خیال بدلا کہ نہیں، مودی تو خود عمران کا پڑوسی ہے، وہ کیوں مدد کرے گا
آخر میں فیصلہ یہ ہوا کہ اب بس اپنے دیسی طریقوں سے لڑائی لڑی جائے گی۔ یعنی دھرنے، ٹویٹس اور پریس کانفرنسز کا وہی پرانا فارمولا۔ لیکن دل میں ایک بات سب کو کھٹک رہی ہے کہ ٹرمپ نے تو ہمارا دل ہی توڑ دیا۔
تو یہ تھی عمران خان، پی ٹی آئی، اور ٹرمپ کی امیدوں کی کہانی۔ اس سے ایک سبق یہ ملا کہ سیاست میں فارن امداد پر زیادہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، خاص طور پر جب وہ امداد کسی سرخ بالوں والے صدر سے مانگی جائے جو خود اپنے مسائل میں الجھا ہوا ہو۔
اب پی ٹی آئی والوں کو شاید یہ سمجھ آ گیا ہو کہ رہائی کا راستہ واشنگٹن سے نہیں، بلکہ اڈیالہ جیل کے گیٹ سے نکلتا ہے۔ اور ہاں، اگر اگلی بار کوئی کمیٹی بنائیں، تو اس کا نام فارن کمیٹی نہ رکھیں، کیونکہ وہ واقعی فارن ہو جاتی ہے۔
اب بس انتظار ہے کہ اس کہانی کا اگلا موڑ کیا ہوگا؟ لگتا ہے کیا اگلا موڑ یہ ہو سکتا ہے کہ پی ٹی آئی اب حکومت کسی اور یا اگلے جہان میں بنانے کا ارادہ رکھتی ہے کمینٹ میں جواب ضرور دیجیے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: عمران خان کا پی ٹی آئی کے فارن کمیٹی رہائی کا جہان میں ٹرمپ کے کسی اور کہ ٹرمپ تھا کہ کر دیا
پڑھیں:
بھارت کے بے بنیاد الزامات کی مذمت کرتے ہیں، رانا احسان افضل
اسلام آباد:دفاعی تجزیہ کار (ر)میجر جنرل زاہد محمود کا کہنا ہے کہ بہت افسوس ناک سچویشن ہے اور یہ نہ صرف پاکستان کے لیے، ہندوستان کے لیے یہ پورے خطے کے لیے بہت خطرناک سچویشن ہے، یہ کسی بھی لحاظ سے قابل قبول نہیں، ریجن ہمارا جب ڈی سٹیبلائز ہو گا تو پورے ورلڈ کی چیزیں ڈی سٹیبلائز ہوں گی۔
ایکسپریس نیوز کے پروگرام کل تک میں گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ کوئی عام ریجن نہیں ہے یہ ہمیں پتہ ہونا چاہیے، دو نیوکلیئرکنٹریز ہیں انڈیا، پاکستان، پھر چین یہاں پر ہے، روس یہاں پر ہے تو یہ پورے ریجن کو امپیکٹ کرے گا، انڈیا جو ہے اس وقت اس کو اب بلیم میں اس طرح کرنا چاہوں گاکہ اس نے ایک ہاتھی کاروپ اپنایا ہے یہ تو ایک انسیڈنٹ ہوا ہے، جو ان کا بیسیکلی ایک فیلیئر ہے۔
رہنما تحریک انصاف نیاز اللہ نیازی نے کہاکہ ہمارے پولیٹیکل اختلافات تو ہو سکتے ہیں لیکن پاکستان پہ کوئی کمپرومائز نہیں ہے، جہاں تک آپ ٹیررازم کی بات کرتے ہیں تو ہم نے ہمیشہ ہماری گورنمنٹ کے دوران ٹیررازم کا ایک بھی واقعہ نہیں ہوا اور جہاں بھی ہو ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں جہاں بھی دہشت گردی ہو لیکن حکومت وقت کا کام ہوتا ہے فارن پالیسی بنانا اور فارن پالیسی جو گورنمنٹ بیٹھی ہے کی فارن پالیسی کا کیا جواب ہے اس کا جواب راناصاحب دیں گے، ریاست کو بچانا ہم پر بھی اتنا ہی فرض ہے جتنا ان پر ہے ہم اس سے زیادہ آگے جائیں گے۔
رہنما مسلم لیگ (ن) رانا احسان افضل نے کہا کہ سب سے پہلے تو ہم سمجھتے ہیں کہ جہاں پاکستان کے فارن آفس نے افسوس کا اظہار کیا ہے جو معاملات ہوئے انڈیا کے اندر، وہاں انڈیا کی طرف سے جو ری ایکشن آیا ہے وہ بے جااور غیر ضروری ہے، اگر انڈیا کی تاریخ نکال کر دیکھ لیں تو ہمیشہ انڈیا نے ایسے ہی کیا ہے، پلوامہ پہ پاکستان پہ انگلیاں اٹھائی گئیں لیکن کوئی شواہد نہیں دیے گئے تو ہمارا بھی مطالبہ ہے کہ ہم جہاں یہ بے بنیاد الزامات جو انڈیا پاکستان پر لگا رہا ہے اس کی مذمت کرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ اگر انڈیا کے پاس کوئی شواہد ہیں تو وہ سامنے لیکر آئے۔