ملائکہ اروڑہ کے خلاف وارنٹ گرفتاری جاری
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
ممبئی کی ایک عدالت نے بالی ووڈ کی اداکارہ و ڈانسر ملائکہ اروڑا کے خلاف دوبارہ قابلِ ضمانت وارنٹ جاری کردیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق ملائکہ کے خلاف یہ وارنٹ سیف علی خان کے خلاف ایک کیس میں گواہی دینے کے لیے عدالت میں پیش نہ پر جاری کیا گیا ہے۔ یہ کیس 2012 میں ممبئی کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں ایک این آر آئی بزنس مین اقبال شرما پر مبینہ حملے سے متعلق ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ یہ واقعہ 22 فروری 2012 کو اس وقت پیش آیا جب سیف علی خان اپنی اہلیہ کرینہ کپور، ان کی بہن کرشمہ کپور، ملائکہ اروڑا، امرتا اروڑا اور کچھ دیگر دوستوں کے ہمراہ ہوٹل میں ڈنر کیلئے موجود تھے۔
پولیس کے مطابق اقبال شرما نے فناکاروں کی جانب سے کیے گئے شور و غل پر اعتراض کیا تو سیف نے مبینہ طور پر بزنس مین کو دھمکایا اور ان کی ناک پر مکا مارا جس سے انہیں ناک کا فریکچر ہوا۔ اس بزنس مین نے یہ بھی الزام لگایا کہ سیف اور ان کے ساتھیوں نے ان کے سسر رمن پٹیل پر بھی حملہ کیا۔
View this post on InstagramA post shared by India Today (@indiatoday)
یہ معاملہ عدالت تک پہنچنے پر سیف علی خان نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ اقبال شرما نے ان کے ساتھ موجود خواتین کے خلاف توہین آمیز زبان استعمال کی تھی جس پر جھگڑا ہوا تھا۔
اس کیس پر بطور گواہ پیش ہونے کے کیلئے اداکارہ ملائکہ اروڑہ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا گیا تھا تاہم اداکارہ تاحال پیش نہ ہوئیں اس لئے اداکارہ کیخلاف قابلِ ضمانت وارنٹ جاری کیا گیا ہے جو اس سے قبل بھی ایک مرتبہ جاری کیا جاچکا ہے۔
سیف اور ان کے ساتھیوں شکیل لڈک اور بلال امروہی کے خلاف دفعہ 325 کے تحت چارج شیٹ دائر کی گئی ہے۔ عدالت کی کارروائی 29 اپریل تک ملتوی کردی گئی ہے۔
Post Views: 1.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کے خلاف
پڑھیں:
پاکستان میں جعلی اہلکاروں کا بڑھتا نیٹ ورک: جعلی جج کی گرفتاری نے الارم بجا دیا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی (خصوصی رپورٹ / محمد علی فاروق) پاکستان میں جعل سازی کا عفریت خطرناک حد تک پھیل چکا ہے۔ جعلی ڈاکٹروں، پولیس افسران، انسپکٹروں کے بعد اب جعلی جج بھی منظر عام پر آ گیا ہے، جس کی گرفتاری نے پورے نظام کی کمزوریوں کو عیاں کر دیا ہے۔ یہ بڑھتا ہوا رجحان نہ صرف قانون نافذ کرنے والے اداروں بلکہ عدالتی اور انتظامی نظام کے لیے بھی لمحہ فکریہ بن چکا ہے، جہاں عوام کو حکومتی اداروں کے نام پر بے دریغ لوٹا جا رہا ہے۔ پولیس نے خود کو ایڈیشنل سیشن جج اسلام آباد ظاہر کرنے والا ایک جعلساز رنگے ہاتھوں گرفتار کر لیا گیا۔ یہ شخص ایک “فلمی” انداز میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھا۔ اس کے پاس جعلی نیلی بتی، سرکاری نمبر پلیٹ والی گاڑی، آٹومیٹک اسلحہ اور پرائیویٹ گن مین بھی موجود تھا۔ وہ لوگوں پر رعب جماتا اور مختلف طریقوں سے مالی فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ پولیس نے بروقت کارروائی کرتے ہوئے اس کے اس ڈرامے کا خاتمہ کر دیا اور اسے گرفتار کر لیا۔یہ واقعہ اپنی نوعیت کا اکیلا نہیں ہے۔ حالیہ دنوں میں کراچی سے ایسے کئی عناصر کو گرفتار کیا گیا ہے جو جعلی سرکاری اہلکار بن کر عوام کو لوٹ رہے تھے۔ پچھلے دنوں ڈیفنس اور کلفٹن کے علاقوں سے کئی ایسے گروہ پکڑے گئے جو خود کو پولیس اہلکار ظاہر کرکے شہریوں سے لوٹ مار کرتے تھے۔ یہ ملزمان عام طور پر پولیس کی وردی یا ایسے لباس پہنتے تھے جو انہیں پولیس اہلکار ظاہر کرے اور ناکے لگا کر یا گھروں میں گھس کر وارداتیں کرتے تھے۔ بعض واقعات میں ایسے ملزمان بھی پکڑے گئے جو خود کو حساس اداروں کا اہلکار ظاہر کرکے لوگوں کو ڈراتے دھمکاتے اور ان سے مال بٹورتے تھے۔ ان کے پاس اکثر جعلی شناختی کارڈز اور بعض اوقات سرکاری اداروں سے ملتی جلتی گاڑیاں بھی ہوتی تھیں۔ جعلی اہلکاروں کا یہ رجحان صرف پولیس اور عدلیہ تک محدود نہیں، بلکہ صحت، تعلیم اور ٹیکس کے محکموں میں بھی ایسے عناصر موجود ہیں جو خود کو سرکاری اہلکار ظاہر کرکے لوگوں سے فراڈ کرتے ہیں۔ یہ جعلی ڈاکٹر، جعلی انسپکٹر اور جعلی سرکاری افسر بن کر عوام کی صحت، تعلیم اور مالیات سے کھلواڑ کرتے ہیں۔اس طرح کے واقعات ملک کے نظام پر سنگین سوالات کھڑے کرتے ہیں،ایک عام شہری اتنی آسانی سے سرکاری اہلکار کا روپ دھار کر کیسے گھومتا رہا۔اسے جعلی دستاویزات، وردیاں، سرکاری اشیاء اور اسلحہ کہاں سے حاصل ہوا۔کیا یہ کسی منظم گروہ کا حصہ ہے جو بڑے پیمانے پر فراڈ میں ملوث ہے۔قانون نافذ کرنے والے ادارے ایسے عناصر کو روکنے میں کیوں مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔عوام میں بھی شدید تشویش پائی جاتی ہے کہ جب سرکاری اہلکاروں کے روپ میں ایسے فراڈ ممکن ہیں، تو وہ کس پر اعتماد کریں۔ یہ صورتحال نہ صرف عدالتی اور انتظامی نظام کی ساکھ کو متاثر کرتی ہے بلکہ معاشرتی اعتماد کو بھی ٹھیس پہنچاتی ہے۔پولیس اور دیگر متعلقہ اداروں کو اس معاملے کی تہہ تک پہنچ کر ایسے تمام جعل سازوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف سخت ترین کارروائی کرنی چاہیے۔ مزید یہ کہ عوام کو بھی محتاط رہنے کی ضرورت ہے اور کسی بھی سرکاری اہلکار کی شناخت پر شبہ ہونے کی صورت میں فوری طور پر متعلقہ محکمے یا مددگار 15 پر اطلاع دینی چاہیے۔ حکومت کو بھی سرکاری شناخت اور دستاویزات کے تحفظ کے لیے مزید سخت اقدامات اٹھانے چاہئیں تاکہ ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکے۔