پاکستان معدنی ذخائر سے مستفید ہوکر قرضوں کے چنگل سے آزاد ہو سکتا ہے، وزیراعظم
اشاعت کی تاریخ: 8th, April 2025 GMT
پاکستان معدنی ذخائر سے مستفید ہوکر قرضوں کے چنگل سے آزاد ہو سکتا ہے، وزیراعظم WhatsAppFacebookTwitter 0 8 April, 2025  سب نیوز 
اسلام آباد:(آئی پی ایس) وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک میں معدنی ذخائر کی مالیت کھربوں ڈالر کے ہیں اور ان معدنی ذخائر سے مستفید ہو کر پاکستان قرضوں کے چنگل سے آزاد ہو سکتا ہے۔
اسلام آباد میں پاکستان منرلز انویسٹمنٹ فورم 2025 سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ فورم معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری میں اضافے کا باعث بنے گا اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں مزید اضافہ ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا سے بلوچستان اور گلگت بلتستان کے پہاڑوں میں معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں جبکہ سندھ اور پنجاب کی سرزمین بھی قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ آزاد کشمیر میں بھی قدرت کے بے پناہ خرانے مدفن ہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ ریکوڈک منصوبے میں پیش رفت حوصلہ افزا ہے، بلوچستان میں کان کنی سے روزگار کے مواقع پیدا اور سماجی و معاشی ترقی ہوگی۔ معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری سب کے لیے سودمند ہے۔
انہوں نے کہا کہ قدرت نے پاکستان کو قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے۔ پاکستان میں دنیا کے سب سے بڑے کوئلے کے ذخائر موجود ہیں اور سندھ حکومت کوئلے کے ذخائر سے استفادہ حاصل کرنے کے لیے بھرپور کام کر رہی ہے۔ درآمدی کوئلے کے بجائے مقامی پر انحصار کرکے قیمتی زرمبادلہ کی بچت کر رہے ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ ہم نے مصنوعات کی ویلیو ایڈیشن کرکے برآمدات کو فروغ دینا ہے اور خام مال کے بجائے تیار شدہ مصنوعات کی برآمد کو یقینی بنایا جائے گا۔
وزیراعظم نے تمام مندوبین کو خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ فورم کے کامیاب انعقاد پر منتظمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان خلیجی ممالک، چین، یورپ، امریکا اور دیگر خطوں سے سرمایہ کاروں کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
.ذریعہ: Daily Sub News
پڑھیں:
ملکی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی ،پاکستان بزنس فورم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-06-20
کراچی(کامرس رپورٹر) پاکستان بزنس فورم نے ایک تفصیلی رپورٹ جاری کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران بار بار روپے کی قدر میں کمی کے باوجود ملک کی معیشت مسلسل زوال کا شکار رہی ہے۔غیر جانب دار اور غیر منافع بخش تنظیم پی بی ایف کے مطابق روپے کی قدر میں کمی نے نہ تو پاکستان کی برآمدی مسابقت کو بہتر بنایا ہے اور نہ ہی پائیدار معاشی ترقی کو فروغ دیا ہے۔1955 سے 1971 تک پاکستان کو معیشت کا سنہری دور قرار دیا جاتا ہے، جب روپے کی قدر ایک امریکی ڈالر کے مقابلے میں 4.75 روپے مستحکم رہی۔ اس عرصے میں صنعتی ترقی، معتدل افراطِ زر اور مضبوط برآمدی ماحول دیکھنے میں آیا۔ تاہم 1971 کے بعد مسلسل گراوٹ کا سلسلہ شروع ہوا۔1975 تک ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 9.99 روپے تک گر گئی اور 2025 میں یہ تقریباً 284 روپے فی ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔ اس بڑی گراوٹ کے باوجود برآمدات میں کوئی نمایاں بہتری نہیں آئی۔رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں روپے کی قدر میں کمی کو بنیادی معاشی مسائل کے حل کے بجائے ایک وقتی حل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے۔ سرکاری اور اوپن مارکیٹ کے ایکسچینج ریٹس میں فرق مصنوعی ڈالر قلت پیدا کرتا ہے، جس سے کرنسی ذخیرہ کرنے والے اور ٹیکس چور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ علاوہ ازیں، تیل اور خوردنی تیل جیسی بڑی درآمدی اشیاء پر انحصار کی وجہ سے کمزور کرنسی کے فوائد زائل ہو جاتے ہیں، نتیجتاً افراطِ زر میں اضافہ ہوتا ہے اور برآمدات متاثر ہوتی ہیں۔پاکستان بزنس فورم کے مطابق، پاکستان کی معیشت کی زیادہ تر پیداواری لاگت ڈالر سے منسلک ہے ، خام مال، مشینری، توانائی اور ٹیکنالوجی کی درآمدات پر انحصار کی وجہ سے روپے کی قدر میں کمی سے پیداواری لاگت بڑھتی ہے نہ کہ مسابقت میں اضافہ ہوتا ہے۔فورم نے خبردار کیا ہے کہ جب تک بنیادی ڈھانچوں کی کمزوریوں کو دور نہیں کیا جاتا، روپے کی گراوٹ، افراطِ زر اور برآمدی زوال کا چکر جاری رہے گا۔ رپورٹ میں پالیسی سازوں پر زور دیا گیا ہے کہ وہ کرنسی کی قدر میں ہیرا پھیری کے بجائے حقیقی اصلاحات، پیداواری صلاحیت میں اضافے، کم پیداواری اخراجات اور کاروباری مؤثریت پر توجہ دیں۔پاکستان بزنس فورم کے مطابق، برآمدی مسابقت صرف روپے کی قدر میں کمی سے حاصل نہیں کی جا سکتی بلکہ اس کے لیے پیداواری بہتری، شرحِ سود میں کمی، پالیسی استحکام، اختراعات اور کارکردگی میں اضافے کی ضرورت ہے۔فورم نے حکومت، صنعت اور مالیاتی اداروں سے اپیل کی ہے کہ وہ خود انحصاری، تکنیکی ترقی اور پائیدار معاشی نمو پر مبنی طویل المدتی حکمتِ عملی تشکیل دیں تاکہ پاکستان معاشی استحکام، سرمایہ کاری اور برآمدی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے۔