25 مارچ کو آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے پر اتفاق کا اعلان کیا۔ ایگزیکٹیو بورڈ کی منظور کے بعد پاکستان کو اگلی قسط جاری ہو جائے گی۔ کلائمیٹ ریزیلینٹ پروگرام سے ایک ارب 30 کروڑ ڈالر اور بیل آؤٹ پیکج سے ایک ارب ڈالر پاکستان کو مل جائیں گے۔ اس اعلان کے بعد پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ چڑھ گئی۔
ٹرمپ اپنی دوسری مدت صدارت شروع ہونے کے بعد سے مسلسل ٹیرف بڑھا رہا ہے۔ پاکستان پر بھی 29 فیصد ٹیرف عائد کیے گئے ہیں۔ پاکستان نے کوئی ردعمل ظاہر کیے بغیر خاموش سفارتکاری کا آپشن اختیار کیا ہے۔ ان ٹیرف کا اعلان ہونے کے بعد بھی پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ نارمل رہی۔
8 اپریل کو جب ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اگر چین نے جوابی 34 فیصد ٹیرف واپس نہ لیے تو امریکا 9 اپریل سے چینی مصنوعات پر مزید 50 فیصد ٹیرف عائد کرے گا۔ ساری دنیا کی اسٹاک مارکیٹ کے ساتھ پاکستانی مارکیٹ بھی دھڑام سے گر گئی، بعد میں کچھ سنبھل بھی گئی۔ پاکستانی سیٹھ جو 3،4 دن حوصلہ دکھاتے رہے اس پر ان کو داد بنتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ایسٹ ویسٹ اکنامک کاریڈور

پاکستان ٹرمپ کے ٹیرف والے شغل سے بھی زیادہ متاثر ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ حکومتی اتحاد معاشی فرنٹ پر اپنا مشکل وقت گزار چکا ہے۔ ایسا کرتے ہوئے پی ایم ایل این نے بڑی ہمت سے اپنے سیاسی سرمائے کو آگ لگائی ہے۔ عوامی ردعمل کا سامنا کیا ہے۔ معیشت سیدھی کرنے کے لیے درکار تمام اقدامات کیے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے حکومت کو پی پی کی حمایت حاصل رہی ہے۔

پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کے بعد سے حکومت کو ایک پل سکھ کا کوئی سانس نہیں ملا۔ مسلسل سیاسی عدم استحکام کا سامنا رہا ہے۔ آئی ایم ایف اور دوسرے مالیاتی اداروں کے ساتھ معاملات طے کرنے کے تمام مواقع پر پی ٹی آئی نے دھرنا اور احتجاج کیا۔ سوشل میڈیا مسلسل بے قابو چلا آ رہا ہے۔ دہشتگردی اٹھتی بڑھتی لہر الگ چیلنج کے طور پر سامنے آئی۔

شنگھائی کانفرنس تنظیم کا اجلاس بھی ہو گیا۔ اس دوران احتجاج سے بھی نپٹ لیا گیا۔ آج پاکستان میں 3 روزہ منرل انویسٹمنٹ فورم 2025  کا اجلاس جاری ہے ۔ جب معدنی وسائل کی بات ہوتی ہے تو بلوچستان کا ذکر بھی آتا ہے۔ بلوچ یکجہتی کمیٹی کی قیادت اس وقت اندر ہے۔ ان کی رہائی کے لیے بی این پی مینگل کے اختر مینگل کوئٹہ کے قریب لک پاس پر دھرنا دیے بیٹھے ہیں۔

محمود خان اچکزئی نے ایک پریس ٹاک میں قلعہ عبداللہ، قلعہ سیف اللہ کے 200 مربع کلومیٹر علاقے سے کان کنی کے لیے لیز کو چیلنج کرنے کا اعلان کیا ہے۔ محمود خان اچکزئی ہوں یا اختر مینگل، یہ جب وسائل پر اختیار اور تقسیم کی بات کرتے ہیں تو قانون اور آئین کے حوالے دیتے ہیں۔
انہی کے مطابق مطالبات کرتے ہیں، اگر اضافی مطالبات کرتے ہیں تو راستہ دینے کو بھی ہر وقت تیار رہتے ہیں۔ اس ذکر کا مطلب یہ بتانا ہے کہ چیلنج کتنے بڑے درپیش ہیں۔ ابھی ہم یہ واضح کرنے میں بھی ناکام ہیں کہ اختیار اور قانون کس کا کتنا ہے۔ وفاق کا کیا شیئر ہے اور صوبے کا کتنا ہے۔ جبکہ انویسٹر کو ون ونڈو سہولت درکار ہے کہ وہ کام کرے اور منافع کمائے۔

مزید پڑھیے: پاکستان کو ہارڈ اسٹیٹ ضرور بنائیں لیکن بنیادی مسائل بھی حل کریں
یہ سب ہو رہا ہے اس دوران حکومت نے افغان مہاجرین کو بھی نکالنے کا اعلان کر دیا ہے۔ سنہ 2005 میں پاکستان حکومت نے افغان مہاجرین کو رجسٹر کیا تھا۔ ان کو رجسٹریشن کے بعد پی او آر کارڈ دیے گئے تھے یعنی پروف آف رجسٹریشن کارڈ۔ سنہ 2017 میں اے سی سی یعنی افغان سٹیزن کارڈ ان افغان مہاجرین کو دیے گئے تھے جنہوں نے رجسٹریشن کے عمل میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اے سی سی کارڈ ہولڈر کی تعداد 8 لاکھ سے زائد ہے۔ 31 مارچ کی ڈیڈ لائن اے سی سی کارڈ ہولڈر کو دی گئی تھی۔ پی او آر کارڈ ہولڈر کو پہلے ہی 30 جون 2025 تک کی مہلت دی جا چکی ہے۔ اصولی طور پر تمام مہاجرین کو نکالنے کا فیصلہ لیا جا چکا ہے۔
سندھ اور پنجاب سے پولیس نے افغان مہاجرین کو پکڑ کر طورخم پہنچانے کا کام شروع کیا ہوا ہے۔ اب تک طورخم سے 11 ہزار افغان مہاجروں کو بیدخل کیا جا چکا ہے۔ خیبر پختونخوا حکومت میں عید کی لمبی چھٹیوں کی وجہ سے ابھی ایکشن شروع نہیں ہوا یہ 11 اپریل سے شروع ہو گا۔

مزید پڑھیں: پاکستان میں دہشتگردی کی اٹھتی لہر، وقتی ہے اور ختم ہو جائےگی
قومی سلامتی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں جنرل عاصم منیر نے ہارڈ اسٹیٹ بننے کی بات کی تھی۔ سافٹ اسٹیٹ اور ہارڈ اسٹیٹ کی بات سویڈن کے نوبل انعام یافتہ اکانومسٹ اور سوشیالوجسٹ  گنر میردال سویڈن سے منسوب کی جاتی ہے۔ انہوں نے جو کہا وہ مختصر کچھ یوں ہے کہ بدعنوانی، سماجی بدنظمی کے خلاف نرمی برتنا ایک سافٹ ریاست کی نشانی ہوتی ہے۔ ہارڈ ریاست قانون کے نفاذ، سخت حکمرانی، سلامتی اور لا اینڈ آرڈر کے مسائل پر سخت کنٹرول نافذ کرتی ہے۔
ہفتہ 10 دن سے پی ٹی آئی کے اندر تقسیم واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے۔ پارٹی راہنما خود بتا رہے ہیں کہ کیسے وہ مذاکرات کی کوشش کر رہے ہیں اور ان کو دروازے بند ملتے ہیں۔ حکومت اور حوالدار بشیر جس طرح رلتے گھلتے اور لڑھکتے ہوئے حالات کو یہاں تک لائے ہیں کہ عدم استحکام اور دہشتگردی کے خدشات میں بھی پاکستان میں بڑے ایونٹ ہو جاتے ہیں، اس سے حکومت کی مضبوطی کا تاثر تو بنتا ہے۔ پاکستان کے حالات کو نیو نارمل سمجھ کر دنیا بھی روٹین کا بزنس کر رہی ہے۔ اس کے باوجود ہمیں سیاسی استحکام کے لیے ایک وسیع ڈائیلاگ اور دل بڑا کرنے کی ضرورت ہے۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

وسی بابا

وسی بابا نام رکھا وہ سب کہنے کے لیے جن کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔ سیاست، شدت پسندی اور حالات حاضرہ بارے پڑھتے رہنا اور اس پر کبھی کبھی لکھنا ہی کام ہے۔ ملٹی کلچر ہونے کی وجہ سے سوچ کا سرکٹ مختلف ہے۔ کبھی بات ادھوری رہ جاتی ہے اور کبھی لگتا کہ چپ رہنا بہتر تھا۔

اپوزیشن افغان سٹیزن کارڈ ٹرمپ ٹیرف حکومت سافٹ اسٹیٹ گنر میردال سویڈن ہارڈ اسٹیٹ.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اپوزیشن افغان سٹیزن کارڈ ٹرمپ ٹیرف حکومت گنر میردال سویڈن ہارڈ اسٹیٹ افغان مہاجرین کو ہارڈ اسٹیٹ کا اعلان کے ساتھ کے بعد رہا ہے کے لیے کی بات

پڑھیں:

مبلغ کو علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہیے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری

صدر منہاج القرآن نے کہا کہ دعوت کا مقصد صرف تبلیغ نہیں بلکہ دلوں کو نرم کرنا، نفرتوں کو مٹانا اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگ میں معاشرے کو ڈھالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کو دلیل، فہم اور کردار کے ساتھ متاثر کیا جا سکتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ جیسے سوشل میڈیا، ویڈیوز، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ دین کا پیغام وسیع پیمانے پر اور جدید انداز میں عام ہو۔ اسلام ٹائمز۔ تحریکِ منہاج القرآن کی مرکزی نظامتِ دعوت کے اسکالرز کے وفد نے نائب ناظمِ اعلیٰ علامہ رانا محمد ادریس قادری کی قیادت میں صدر منہاج القرآن انٹرنیشنل پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری سے ملاقات کی۔ پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مبلغ کو کردار اور علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہئے۔ جدید ذرائع ابلاغ کو اصلاح معاشرہ کیلئے استعمال کیا جائے۔ استاد، مبلغ یا داعی ہر معاشرہ کے رول ماڈل افراد ہوتے ہیں۔ داعی کی تربیت پر سخت محنت ناگزیر ہے۔موجودہ دور کا داعیِ اسلام صرف علم ہی نہیں بلکہ کردار اور ابلاغ کے میدان میں بھی مضبوط ہونا چاہیے۔ علم کے بغیر دعوت گہرائی کھو دیتی ہے، کردار کے بغیر اثر ختم ہو جاتا ہے، اور ابلاغ کے بغیر پیغام نہیں پہنچتا۔

انہوں نے کہا کہ دعوت کا مقصد صرف تبلیغ نہیں بلکہ دلوں کو نرم کرنا، نفرتوں کو مٹانا اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ کے رنگ میں معاشرے کو ڈھالنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کو دلیل، فہم اور کردار کے ساتھ متاثر کیا جا سکتا ہے۔ جدید ذرائع ابلاغ جیسے سوشل میڈیا، ویڈیوز، اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز کو مثبت انداز میں استعمال کیا جائے تاکہ دین کا پیغام وسیع پیمانے پر اور جدید انداز میں عام ہو۔ انہوں نے کہا کہ علمائے کرام اور اسکالرز کو چاہیے کہ وہ نوجوان نسل کے ذہنی و فکری رجحانات کو سمجھ کر دین کو اُن کی زبان میں پیش کریں۔ ڈاکٹر حسین محی الدین قادری نے مزید کہا کہ تحریکِ منہاج القرآن علم و کردار کے حسین امتزاج کی نمائندہ تحریک ہے جس کا مقصد معاشرے میں علمی بیداری، فکری تطہیر اور عملی تبدیلی لانا ہے۔

انہوں نے نظامتِ دعوت کے اسکالرز کو ہدایت کی کہ وہ اپنے خطابات، دروس، اور تحریروں میں دین کے اخلاقی و روحانی پہلو کو اجاگر کریں تاکہ نئی نسل اسلام کی اصل روح سے روشناس ہو سکے۔ اس موقع پر مرکزی ناظمِ دعوت علامہ جمیل احمد زاہد، قاری ریاست علی چدھڑ اور دیگر اسکالرز بھی ملاقات میں شریک تھے۔ 

متعلقہ مضامین

  • آپریشن سندور کی بدترین ناکامی پر مودی سرکار شرمندہ، اپوزیشن نے بزدلی قرار دیدیا
  • سفیر پاکستان رضوان سعید شیخ کا پاک امریکا معاشی تعلقات مضبوط بنانے پر زور
  • پاکستان سرحد پار دہشتگردی کیخلاف فیصلہ کن اقدامات جاری رکھے گا: وزیر دفاع خواجہ آصف
  • طالبان کی غیر نمائندہ حکومت اندرونی دھڑے بندی کا شکار ہے، خواجہ آصف
  • افغان حکومت بھارتی حمایت یافتہ دہشتگردی کی سرپرست ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • مبلغ کو علم کے میدان میں مضبوط ہونا چاہیے، ڈاکٹر حسین محی الدین قادری
  • امریکہ، بھارت میں 10 سالہ دفاعی معاہدہ: اثرات دیکھ رہے ہیں، انڈین مشقوں پر بھی نظر، پاکستان
  • پاک افغان تعلقات اورمذاکرات کا پتلی تماشہ
  • افغان طالبان حکومت کے ساتھ مذاکرات کے اگلے مرحلے کے مثبت نتائج کے بارے میں پرامید ہیں، دفتر خارجہ
  • پاکستان میں دہشتگردی کی پشت پر طالبان حکومت کے حمایت یافتہ افغان باشندے ملوث ہیں، اقوام متحدہ کی رپورٹ نے تصدیق کردی