(گزشتہ سے پیوستہ)
ہم کسی کوبھی ایرانی عوام سے دھمکی آمیزلہجے میں بات کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ان کامزیدکہناتھا کہ’’ظاہری طورپریہ خط سفارتی عمل شروع کرنے کی بھی ایک کوشش ہے تاہم،سپریم لیڈرآیت اللہ علی خامنہ ای نے واضح کیاہے کہ ’’امریکاکے ساتھ براہ راست مذاکرات دانشمندانہ عمل نہیں ہوگا اورامریکی سابقہ رویہ قابل بھروسہ کبھی نہیں رہا‘‘۔لیکن اس کے باوجود عالمی سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق جلدہی مذاکرات کا ڈرامہ رچانے کے لئے کئی خفیہ ہاتھ سرگرم عمل ہوچکے ہیں۔
ابھی تک ٹرمپ کی طرف سے ایران کوبھیجے گئے خط کے مندرجات مکمل طورپرظاہرنہیں کیے گئے، لیکن تجزیہ کاروں کے مطابق اس میں ایران کے ساتھ معاہدے پرآمادگی یادھمکیوں کے امکانات ہیں تاہم اس خط کے حوالے سے مختلف تشریحات سامنے آ رہی ہیں۔ ہینری کسنجرکے ایک بیان کے مطابق،کسی معاملے کی مکمل تفہیم کے لئے تمام حقائق جانناضروری ہے جو یہاں موجودنہیں ہیں اوریہی اصول ایران اورامریکاکے موجودہ تعلقات پربھی لاگوہوتاہے۔
ایران کے میزائل پروگرام کے میزائل شہرپربھی عالمی سطح پرتوجہ دی جارہی ہے۔ جون 2017ء میں امیر علی حاجی زادہ نے ایران میں تین خفیہ زیرِ زمین میزائل کارخانوں کے وجود کااعلان کیا تھا۔ پاسداران انقلاب کے کمانڈروں کے مطابق یہ میزائل شہر صرف ذخیرہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ یہاں میزائلوں کی تیاری بھی کی جاتی ہے ۔پاسداران انقلاب کے کمانڈرامیرعلی حاجی زادہ نے دعویٰ کیاکہ ایران کے پاس اتنے زیادہ زیرزمین میزائل اڈے اور’’راکٹ سٹی‘‘موجودہیں کہ اگرہرہفتے ایک کی نقاب کشائی کی جائے تویہ سلسلہ دو سال میں بھی ختم نہیں ہوگا۔ان زیرزمین میزائل اڈوں کوایران کی غیرروایتی جنگی حکمت عملی کاحصہ سمجھا جارہا ہے اوریہ اڈے ایران کی دفاعی حکمت عملی کاحصہ ہیں اورممکنہ حملوں سے بچاکے لئے بنائے گئے ہیں۔
ایرانی پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد باقرقالیباف نے خبردارکیاہے کہ’’مذاکرات میں دشمن کے مطالبات کو زبردستی مان لینابھی جنگ کے مترادف ہے‘‘۔انہوں نے خبردارکیاتھاکہ اگر امریکا ایران کے خلاف عسکری دھمکیوں کوعملی جامہ پہناتاہے توخطے میں نہ صرف امریکا کے فوجی اڈے بھی محفوظ نہیں رہیں گے بلکہ ہماراپہلا نشانہ ہوں گے۔ایران کی دفاعی حکمت عملی میں دورمار یلسٹک میزائل شامل ہیں،جوامریکی تنصیبات کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔اس طرح خطے میں امریکی اوراس کے اتحادیوں کے فوجی اڈے بھی محفوظ نہیں ہوں گے۔ ان کامزیدکہناتھاکہ ’’ڈونلڈٹرمپ کے خط میں پابندیاں ہٹانے کابھی ذکرنہیں تھا۔اس حوالے سے انہوں نے ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کے بیان کی مکمل تائید کرتے ہوئے کہا کہ یقیناحکومت پردبائو ڈال کرایران کو مذاکرات کی میزپرنہیں لایاجاسکتااوردھمکیوں کے سائے میں مذاکرات کبھی کامیاب نہیں ہوسکتے۔
ادھردوسری طرف شنگھائی تعاون تنظیم میں ایران کی مستقل رکنیت اوربرکس میں شمولیت کے بعد ایرانی حکومت نے روس اورچین کے ساتھ قریبی تعلقات استوارکئے ہیں اوراس تناظرمیں متعدد سکیورٹی،سیاسی اور اقتصادی معاہدوں پردستخط کیے ہیں۔اس سال فروری میں ایرانی وزیرخارجہ عباس عراقچی نے تہران میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاوروف سے ملاقات کے بعدایک پریس کانفرنس میں اعلان کیاکہ’’ایران اپنے جوہری معاملے پرامریکاکے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گااورجوہری معاملے پرروس اورچین کے ساتھ مل کرآگے بڑھے گا‘‘۔دوسری جانب روس بھی حالیہ دنوں میں امریکاکے ساتھ براہ راست مذاکرات میں مصروف رہاہے۔دونوں ممالک کے نمائندوں نے ریاض میں ملاقات کی تھی اوربات چیت کے دوران ایران پربھی تبادلہ خیال کیاگیاتھا۔
روس اورایران نے12جنوری2025ء کوایک جامع سٹریٹجک پارٹنرشپ کے معاہدے پردستخط کیے ہیں،اس وقت جب ڈونلڈٹرمپ نے امریکی صدرکے عہدے کاحلف ابھی اٹھایانہیں تھا۔اس دستاویزکے مطابق دونوں ممالک ایک دوسرے کے ساتھ’’فوجی،سیاسی،تجارتی اوراقتصادی تعلقات کومضبوط کریں گے‘‘۔
گزشتہ سال ستمبر2024ء میں جینز سٹولٹن برگ نے عالمی میڈیاکوبتایاتھاکہ روس،ایران، چین اورشمالی کوریاپہلے سے کہیں زیادہ متحداورمربوط ہیں۔اسی طرح کاانتباہ نیٹوکے موجودہ سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے بھی دیا ہے کہ’’شمالی کوریااورایران روس اورچین کے ساتھ مل کرشمالی امریکااوریورپ کوکمزورکرنے کی کوشش کررہے ہیں‘‘۔
برطانیہ کی مسلح افواج کے سربراہ ایڈمرل ٹونی راڈاکن کامانناہے کہ اسرائیل نے ایران کی بیلسٹک میزائل بنانے کی صلاحیت کو ایک سال تک کے لئے ختم کردیاہے لیکن اس دعوے کی حقیقت کاتعین کرنااس لئے مشکل ہے کہ اب تک اس کاکوئی واضح ثبوت سامنے نہیں آسکالیکن ایران کی عسکری تیاریوں کے تناظرمیں اسے نظراندازنہیں کیاجاسکتا۔تاہم،ایران کے عسکری ماہرین کا دعوی ہے کہ ان کی میزائل تیاری کی صلاحیت مکمل طورپرمحفوظ ہے اوروقت آنے پرایران سب کو ششدر کرکے رکھ دے گا۔
ادھردوسری طرف امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی ایران کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کے لئے آیت اللہ علی خامنہ ای کوخط لکھنے کی تصدیق اورایران کے رہبرِاعلی آیت اللہ خامنہ ای کے بیان جس میں انہوں نے گوکہ امریکی صدرکاکوئی ذکرنہیں کیالیکن امریکاپر بھرپورعدم اعتمادکے ساتھ انہوں نے یورپی طاقتوں کوضرورتنقیدکا نشانہ بنایاہے۔آیت اللہ خامنہ ای نے سرکاری عہدیداران کے ساتھ اپنی گفتگومیں مذاکرات پراصرارکرنے والی’’ہٹ دھرم حکومتوں‘‘ پرتنقیدکرتے ہوئے یورپی ممالک کو’’بے شرم اوراندھا‘‘قراردیا کیونکہ انہوں نے جوہری معاہدے پرعلمدرآمد نہ کرنے پرتہران پرتنقید کی تھی۔
تاہم ایران کی جانب سے امریکی پیشکش کوٹھکرانے کے ایک دن بعدایران،روس اورچین کے درمیان نئی فوجی مشقوں کی خبریں سامنے آئی ہیں۔واضح رہے کہ دوروزقبل وائٹ ہاؤس میں ہونے والی ایک پریس کانفرنس میں بنیادی طورپرامریکا کی معاشی صورتحال پرتوجہ مرکوزکی گئی اوراسی دوران صدرٹرمپ نے کہاتھاکہ ’’آپ بہت جلدایران کے بارے میں خبریں سنیں گے‘‘۔
ان بیانات کی گولہ باری کے بعد ایران کی خبررساں ایجنسی تسنیم نے رپورٹ کیاہے کہ فوجی مشقیں پیرکوخلیج عمان میں ’’چابہار بندرگاہ کے قریب جنوب مشرقی ایران میں شروع ہونے جارہی ہیں‘‘۔دوسری طرف چین عنقریب ایران اورروس کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں شروع کرنے جارہاہے۔چینی وزارت دفاع نے ایک سرکاری بیان جاری کرتے ہوئے کہاہے کہ یہ مشقیں ایران کے قریب سمندر میں کی جائیں گی۔ان فوجی مشقوں میں نصف درجن ممالک بطورمبصرشریک ہوں گے جن میں آذربائیجان،جنوبی افریقا،پاکستان ، قطر، عراق یواے ای شامل ہیں۔خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ان مشقوں کامقصدباہمی تعاون کوبڑھاناہے۔حالیہ برسوں میں ان تینوں ممالک کی فوجیں ایسی جنگی مشقیں کرتی رہی ہیں۔یہ فوجی مشق بحرہندکے شمال میں ہوں گی اوراس کامقصدخطے کی سلامتی اور شریک ممالک کے درمیان کثیرجہتی تعاون کوبڑھاناہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: روس اورچین کے ایران کے انہوں نے کے مطابق خامنہ ای ایران کی کے ساتھ ہیں اس کے لئے

پڑھیں:

ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 17 ستمبر 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ برطانیہ کے اپنے دو روز سرکاری دورے پر گزشتہ دیر رات کو لندن پہنچے، جہاں بدھ کے روز ان کی کنگ چارلس سوم اور وزیر اعظم کیر اسٹارمر سے ملاقات ہونے والی ہے۔

لندن پہنچنے پر امریکی صدر نے کہا کہ آج "ایک بڑا دن" ہونے والا ہے۔ ٹرمپ اور خاتون اول میلانیا ٹرمپ نے ون فیلڈ ہاؤس میں رات گزاری جو کہ 1955 سے برطانیہ میں امریکی سفیر کا گھر ہے۔

یہ پہلا موقع ہے جب کسی امریکی صدر کو دوسری بار برطانیہ کے سرکاری دورے کا اعزاز حاصل ہوا۔ ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت کے دوران بھی برطانیہ کا سرکاری دورہ کیا تھا۔

اسٹارمر کے دفتر نے اس حوالے سے ایک بیان میں کہا کہ "یہ دورہ ظاہر کرے گا کہ "برطانیہ اور امریکہ کے تعلقات دنیا میں سب سے مضبوط ہیں، جو 250 سال کی تاریخ پر محیط ہیں۔

(جاری ہے)

"

سینیئر امریکی حکام نے پیر کے روز بتایا تھا کہ دورہ برطانیہ کے دوران دونوں ملکوں میں توانائی اور ٹیکنالوجی سے متعلق 10 بلین ڈالر سے زیادہ کے معاہدوں کا اعلان کیا جائے گا۔

توقع ہے کہ دونوں ممالک جوہری توانائی کو بڑھانے کے لیے مل کر کام کرنے کے لیے ایک معاہدے پر بھی دستخط کریں گے۔

ٹرمپ کے دوسرے دورہ برطانیہ کے ایجنڈے میں مزید کیا ہے؟

بدھ کے روز امریکی صدر اور ان کی اہلیہ میلانیا کی برطانوی شاہی محفل ونڈسر کیسل میں دعوت کی ایک شاندار تقریب ہے۔

کنگ چارلس، ملکہ کیملا، پرنس ولیم، اور شہزادی کیتھرین ان کے ساتھ گاڑیوں کے ایک جلوس پر بھی جائیں گے۔ ایک سرکاری ضیافت، فوجی طیاروں کے ذریعے فلائی پاسٹ اور توپوں کی سلامی کا بھی منصوبہ بنایا گیا ہے۔

جمعرات کے روز اسٹارمر جنوبی انگلینڈ کے دیہی علاقے میں اپنی چیکرز کنٹری رہائش گاہ پر ٹرمپ کی میزبانی کریں گے۔ توقع ہے کہ دونوں رہنما امریکہ کے لیے برطانوی اسٹیل کی درآمدات پر محصولات کے معاملے پر تبادلہ خیال کریں گے۔

مئی میں، لندن اور واشنگٹن نے ایک تجارتی معاہدہ کیا تھا جس میں امریکہ کو کار اور ایرو اسپیس کی درآمدات پر ٹیرف کم کر دیا گیا تھا، لیکن وہ برطانوی اسٹیل کے لیے شرائط کو حتمی شکل دینے میں ناکام رہے، جو کہ فی الوقت 25 فیصد ٹیرف کے ساتھ مشروط ہے۔

ٹرمپ نے ایئر فورس ون سے ٹیک آف کرنے سے پہلے صحافیوں کو بتایا کہ "میں بھی وہاں تجارت کے لیے جا رہا ہوں۔

وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آیا وہ تجارتی معاہدے کو تھوڑا سا اور بہتر کر سکتے ہیں۔"

انہوں نے مزید کہا کہ "ہم نے ایک معاہدہ کیا ہے، اور یہ بہت اچھا سودا ہے، اور میں ان کی مدد کرنے میں مصروف ہوں۔"

ٹرمپ کے ساتھ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو بھی ہیں، جو نو منتخب برطانوی ہم منصب سے ملاقات کریں گے۔

ٹرمپ کے دورے کے خلاف مظاہروں کا منصوبہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورہ برطانیہ کے خلاف احتجاج کے لیے ونڈسر اور وسطی لندن میں مظاہروں کا منصوبہ بنایا گیا ہے

اسٹاپ ٹرمپ کولیشن کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ "ٹرمپ کے لیے سرخ قالین بچھا کر اسٹارمر ایک خطرناک پیغام بھیج رہے ہیں اور یہ چیز برطانیہ میں نسل پرستی میں اضافے کو دیکھتے ہوئے کمیونٹیز کو مدد فراہم کرنے کے لیے کچھ بھی نہیں کرتی ہے۔

"

ٹرمپ کا دورہ برطانیہ ایک عجیب و غریب موقع پر ہو رہا ہے، جب پچھلے ہفتے ہی امریکہ میں برطانیہ کے سفیر پیٹر مینڈیلسن کو جیفری ایپسٹین کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات کو ظاہر کرنے والی ای میلز کے سبب برطرف کر دیا گیا تھا۔

ایپسٹین کے ساتھ ٹرمپ کی اپنی دوستی بھی کافی قیاس آرائیوں کا موضوع رہی ہے۔

ٹرمپ کی آمد سے پہلے، مظاہرین نے ایک بڑے بینر کا انکشاف کیا، جس میں ایپسٹین کے ساتھ امریکی صدر کی تصویر تھی، جسے بعد میں ونڈسر کیسل کے ٹاور پر آویزاں کیا گیا۔

اس سلسلے میں چار افراد کو گرفتار کیا گیا جس کے بعد مقامی پولیس نے تصاویر کو "غیر مجاز پروجیکشن" بتا کر اسے "عوامی اسٹنٹ" بھی قرار دیا۔

ادارت: جاوید اختر

متعلقہ مضامین

  • بھارت کی مشکلات میں اضافہ، سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدے نے پاکستان کو کتنا مضبوط بنادیا؟
  • صدر ٹرمپ کا ’گولڈن ڈوم‘ منصوبہ حتمی منصوبہ بندی کے مرحلے میں داخل
  • اسرائیل کیساتھ سیکورٹی مذاکرات جلد کسی نتیجے تک پہنچ جائیں گے، ابو محمد الجولانی
  • ٹرمپ اپنے دوسرے سرکاری دورے پر برطانیہ میں
  • شہباز شریف کی ایرانی صدر سے ملاقات
  • پاکستان جوہری طاقت ہے، خودمختاری پر حملہ ہوا تو ہر قیمت پر دفاع کریں گے، چاہے کوئی بھی ملک ہو، اسحاق ڈار
  • کوویڈ کے دوران بابا نے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا تو ہمیں دھمکیاں موصول ہوئیں: تارا محمود
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستان مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے، اسحاق ڈار کا الجزیرہ کو انٹرویو
  • بطور ایٹمی طاقت پاکستا ن مسلم امہ کے ساتھ کھڑا ہے ،کسی کو بھی پاکستان کی خود مختاری چیلنج نہیں کرنے دیں گے،اسحاق ڈار
  • قطر نے اسرائیل کو تنہا کر دیا، ایران نے تباہ کرنے کی کوشش کی: نیتن یاہو