امریکی صدر کا چین پر ایک اور تجارتی وار، اضافی محصول میں 104 فیصد اضافہ نافذالعمل
اشاعت کی تاریخ: 9th, April 2025 GMT
امریکی صدر ٹرمپ کا چین پر ایک اور وار اضافی محصولات کے پر 104 فیصد محصول نافذ العمل کا حکم جاری کردیا۔ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیوٹ کا کہنا ہے کہ 9 اپریل کا آغاز ہوتے ہی چین پر اضافی محصولات کے ساتھ مجموعی طور پر 104 فیصد محصولات نافذ العمل ہوجائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی محصولات پر بات چیت کے لیے 70 ممالک نے امریکا سے رابطہ کرلیا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق صدر ٹرمپ تجارتی بات چیت میں غیرملکی امداد اور ان ممالک میں امریکی فوج کی موجودگی پر بات کریں گے، معاہدہ اسی صورت میں ہوگا جس میں امریکی ملازمین کا مفاد ہوگا اور جس سے تجارتی خسارہ کم ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ممالک سے بات چیت ہوتی جائے گی اور جوابی محصولات نافذالعمل ہوتے جائیں گے، ٹرمپ نے اپنی تجارتی ٹیم کو تجارتی معاہدے تیار کرنے کی ہدایت کر دی ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ ایران جوہری معاہدہ کرنے کی طرف جا رہا ہے اور ہفتے کو ایران سے ہونے والے مذاکرات براہ راست ہوں گے۔ واضح رہے کہ چین نے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے مزید 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی پر سخت ردعمل دیا ہے۔ ترجمان چینی وزارت تجارت نے امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے 50 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی دھمکی پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ اگر امریکا اپنی ضد پر قائم رہا تو چین اپنے حقوق اور مفادات کے تحفظ کے لیے پرعزم طریقے سے جوابی اقدامات کرے گا اور آخر تک لڑے گا۔
.ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: امریکی صدر کرنے کی
پڑھیں:
ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ، مجموعی قرض 84 ہزار ارب ہوگیا
اسلام آباد:ایک سال کے دوران حکومتی قرضوں میں 10 ہزار ارب کا اضافہ ہوا ہے جس کے سبب مجموعی قرض 84 ہزار ارب سے زائد ہوگیا۔
حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے فریم ورک کے تحت پاکستان کے ذمہ قرضوں سے متعلق وزارت خزانہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تین سال میں پاکستان کے ذمہ قرضوں کا تناسب 70.8 فیصد سے کم ہو کر 60.8 فیصد پر آنے کا تخمینہ ہے، مالی سال 2026ء سے 2028ء کی درمیانی مدت میں قرض پائیدار رہنے کی توقع ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق جون 2025ء تک پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضہ 84 ہزار ارب روپے سے زیادہ ہوگیا، گزشتہ ایک سال کے دوران قرضے میں 10 ہزار ارب روپے سے زیادہ اضافہ ہوا، سال 2028ء تک فنانسنگ کی ضروریات 18.1 فیصد کی بلند سطح پر رہیں گی، گزشتہ سال مارک اپ ادائیگیوں میں 888 ارب روپے کی بچت ہوئی۔
وزارت خزانہ نے قرضوں سے متعلق خطرات اور چیلنجز کی بھی نشاندہی کردی ہے۔ وزارت خزانہ حکام کے مطابق رپورٹ میں معاشی سست روی کو قرضوں کی پائیداری کیلئے بڑا خطرہ قرار دیا گیا ہے، ایکسچینج ریٹ اور سود کی شرح میں تبدیلی قرض کا بوجھ بڑھا سکتی ہے، بیرونی جھٹکے اور موسمیاتی تبدیلی قرض کے خطرات میں اضافہ کر سکتے ہیں، فلوٹنگ ریٹ قرض کی بڑی مقدار سے شرح سود کا خطرہ بلند رہے گا، پاکستان کے ذمہ مجموعی قرضوں کا 67.7 فیصد ملکی قرض ہے۔
وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ 80 فیصد قرض فلوٹنگ ریٹ پر حاصل کیا گیا، شرح سود کا خطرہ برقرار ہے، مختصر مدت کے قرضوں کی شرح 24 فیصد، ری فنانسنگ کا خطرہ برقرار ہے، بیرونی قرضے مجموعی قرض کا 32.3 فیصد ہیں، زیادہ تررعایتی قرضہ دوطرفہ و کثیرالجہتی ذرائع سے حاصل ہوا، فلوٹنگ بیرونی قرض 41 فیصد ہےاس سے درمیانی سطح کا خطرہ برقرار ہے،کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بڑھنے اور زرمبادلہ ذخائر کم ہونے کا امکان خطرناک ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مالیاتی نظم و ضبط اور معاشی استحکام سے قرض کا دباؤ کم ہوگا، برآمدات اور آئی ٹی سیکٹر کے فروغ سے زرمبادلہ استحکام کا ہدف ہے، قرض اجرا میں شفافیت اور سرمایہ کاروں کے اعتماد میں اضافہ ہوا، پائیدار ترقی، ٹیکنالوجی اورمسابقت سے قرض کے مؤثرانتظام کی سمت پیشرفت ہوئی، آمدن میں کمی یا اخراجات بڑھنے سے پرائمری بیلنس متاثر ہونے کا خدشہ ہے، ہنگامی مالی ذمہ داریوں کے اثرات بھی سامنے آسکتے ہیں، گزشتہ سال معاشی شرح نمو 2.6 فیصد سے بڑھ کر 3.0 فیصد ہوگئی، اگلے تین سال میں شرح نمو بڑھ کر 5.7 فیصد تک جانے کا تخمینہ ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق مہنگائی 23.4 فیصد سے گھٹ کر 4.5 فیصد پر آگئی، سال 2028ء تک مہنگائی کی شرح 6.5 فیصد رہنے کا تخمینہ ہے، پالیسی ریٹ میں جون 2024ء سے 1100 بیسس پوائنٹس کی کمی آئی، زرمبادلہ مارکیٹ میں استحکام اور بیرونی ادائیگیوں کا دباؤ کم ہوا، وفاقی مالی خسارہ 6.8 فیصد ہدف کے مقابلے میں 6.2 فیصد تک محدود رہا، وفاقی پرائمری بیلنس 1.6 فیصد سرپلس میں رہا، درمیانی مدت میں کم از کم 1.0 فیصد سرپلس برقرار رہنے کی توقع ہے آمدن میں اضافہ، اخراجات میں کفایت، سود ادائیگیوں میں کمی سے بہتری آئی ہے۔